محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
علما کرام کی فضیلت اور عام آدمی (جاہل) پر برتری :
عمر بن الخطاب رضی الله عنہ:
" ان ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے ہیں اور رات میں قیام کرتے ہیں بنسبت اس ایک عالم کے موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-"
[جامع البیان العلم ؤ فضلہ ، جلد ١.صفحہ ٦٥]
امام ابن القیم نے فرمایا:
فرض کرو ایک ایسا شخص ہے جسکے پاس دنیا بھر کی دولت ہو اور وہ بڑا سخی بھی ہو اور وہ ہزاروں لوگوں کی مدد بھی کرتا ہو اور انکے حاجات بھی پورا کرتا ہو- پھر وھ مر جاتا ہے اور اسکی رسائی اب اپنے دولت تک نہیں ہو- پس ایک عالم کی موت بنسبت اس مالدار شخص کے موت کے بہت بڑا سانحہ ہے"-
[مفتاح دار السعدہ: ١/٢٦٥]
امام عبدالله بن مبارک رحم الله سے پوچھا گیا:
"بہترین لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا " علماء"-
ان سے پوچھا گیا کہ حقیقی بادشاہ کون ہیں؟
انھوں نے جواب دیا " سادہ ؤ درویش لوگ"-
ان سے پوچھا گیا "بے کار لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا" وہ لوگ جو دین کو دولت کا ذریعہ بناتے ہیں"-
ان سے پوچھا گیا، " بھیڑ/ہجوم کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا، " خزیمہ بن خازم اور اسکے اصحاب".
اور انسے پوچھا گیا، " کم ضرف شخص کون ہے؟"
انھوں نے جواب دیا، "جو اپنے مہمان کو قیمتوں کے چڑھاؤ کا ذکر کرتا ہے"-
[ابو بکر الدینوری ، المجلاصه ؤ جواہر ال-علم ٢:١٨١ ]
الزہری :
ایک سنت کا درس دینا دو سو سالوں کے نفلی عبادت سے بہتر ہے-
[احمد بن حنبل، اصول السنہ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں]
ابو ہریرہ رضی الله عنہ:
" مجھے یہ بہت محبوب ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے دین کو سمجھنے کے لئے بیٹھوں بجائے اسکے کہ میں پوری رات صبح ہونے تک عبادت کروں-"
[جامع البیان العلم ؤ فضائل جلد ١ صفحہ ٦٠]
امام ترمذ ی نے اپنے کتاب جامع ترمذی میں ایک باب " فقہ کی عبادت پر برتری کے بارے میں" قائم کیا ہے- اس باب میں ایک حدیث کچھ اسطرح ہے:
قیس بن کثیر سے روایت ہے:
" مدینہ سے ایک شخص ابو دردہ کے پاس آیا جب وہ دمشق میں تھے- تو انھوں نے پوچھا:
" وہ میرے بھانجے کیا بات تمھیں یہاں لائی ہے؟"
اسنے جواب دیا:
" ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے جسے آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے."
آپ رضی الله نے کہا :
" تو تم ادھر اپنے کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں آئے ہو؟
اس نے جواب دیا:
"نہیں"-
آپ نے پوچھا:
" کیا تم ادھر تجارت کے لئے آئے ہو؟-
اسنے کہا : " نہیں، میں صرف اس حدیث کی جانکاری کے لئے یہاں آیا ہوں"-
تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا :
بے شک میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ:
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِيفِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِطَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّالْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَارِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّالْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْفِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِحَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِوَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِكَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِالْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَوَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّالأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًاوَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَاوَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ
" اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو الله اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لئے (اسکے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں – عالم کے لئے آسماں ؤ زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے- یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں- عالم کو عابد پر اسطرح فضیلت ہے جیسے چاند کو فضیلت ستاروں پر- علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بےشک انبیاء کی وراثت درہم ؤ دینار نہیں ہوتے بلکہ انکی میراث علم ہے- پس جسنے اسے حاصل کیا اسنے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا-
[جامع ترمذی :٢٦٨٢، اس روایت کی طرح اور بھی روایت ہیں اور انکی متن پر علماء کا اتفاق ہے]
امام العینی رحم الله صحیح بخاری کی شرح عمدة القاري (٢.٣٩)میں لکھتے ہیں- اس حدیث
(علماء انبیاء کے وارث ہیں ) کی دلیل قرآن کی اس آیت میں ہے جہاں الله نے فرمایا:
پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔ [سورہ فاطر :٣٢ ]
علماء کی سب سے پہلی جماعت صحابہ رسول صلی الله علیہ وسلم تھے، اور پھر انکے بعد تابعین پھر انکے بعد طبع تابعین اور یہ سلسلہ اسطرح چلتا گیا"-
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِاللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُقَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً،فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَاوَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا،فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَايَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَفِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْابِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُأَسْفَلَ السَّفِينَةِ،فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْبِي، وَلاَ بُدَّ لِيمِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِأَنْجَوْهُ وَنَجَّوْاأَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُوَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ
" اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے( عام طور پر ایک جاہل یا عامی) اور اس میں مبتلا (یعنی الله کی حددو کی پابندی کرنے والے یا علماء) ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی ( پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں ) قرعہ اندازی کی ۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر ۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا ( تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے ) اب اوپر والے(یعنی علماء) آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ( میرے اوپر آنے جانے سے ) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا ۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے(یعنی عام آدمی) کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی ۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے ۔"
[صحیح البخاری ٢٦٨٦ ]
ابو امامہ باہلی رضی الله عنہفرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم- آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ " .ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ اللَّهَوَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِيجُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِالْخَيْرَ " . قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌغَرِيبٌ . قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍالْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ عَالِمٌعَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ .
عالم کی فضیلت عابد پر اسطرح ہے جسطرح میری تمہارے ادنی ترین آدمی پر - پھر فرمایا کہ یقیناّ الله، فرشتے اور تمام اہل زمین ؤ آسماں یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی، اس شخص کی لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے-
[جامع ترمذی :٢٦٨٥]
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَالنَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ فَإِذَا لَمْيُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوافَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا "
اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
[صحیح بخاری:١٠٠، سنان ابن ماجہ، جلد ١، حدیث ٥٢]
عوف بن مالک السجعی رضی الله عنہ سے روایت ہے :
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دفعہ آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: " لگتا ہے یہ علم کے اٹھائے جانے کا وقت ہے "، پس ان میں سے ایک نے کہا : " یا رسول الله ، علم کسطرح اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس کتاب الله ہے ، ہم اسے پڑھتے ہیں، اسکا مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں"- تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" میں تمھیں مدینہ کے لوگوں میں سب زیادہ علم والا سمجھتا تھا، کیا یہود اور نصاریٰ کی پاس اپنی کتابیں نہیں تھی؟
[إقتضاء العلم العمل،الخطیب البغدادی بمع تحقیق شیخ البانی ، جنہوں نے اسے صحیح کہا، صفحہ ٥٨]
رسول الله صلی الله وسلم نے فرمایا:
" کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کے علم میں سب سے پہلے کیا اٹھایا جائیگا ؟ آپنے فرمایا :' خشوع اور الله کا خوف، یہاں تک کہ آنے والے وقت میں تم کسی میں بھی عاجزی اور الله کا خوف نہیں دیکھو گے-
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" بے شک زمین پر علماء کی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسے آسماں میں ستاروں کی. انکے ذریعے ایک انسان کو زمین ؤ سمندر کے اندھیروں میں روشنی ملتی ہے-
[مسند احمد بن حنبل،جلد ٣، حدیث # ١٢٦٢١. شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الجامع # ١٩٧٣ میں ضعیف کہا ہے]
آدب حاتم رضی الله نے فرمایا:
" تم بہتری میں رہو گے جب تک تم اس چیز کی اجازت نہیں دو گے جس کو تم برا جانتے تھے یا اس چیز کی مذمت نہیں کرو گے جسے تم اچھا جانتے تھے، اور جب تک اہل علم تمہارے بیچ نڈر ہوکر بولے ( حاکم وقت اور لوگوں کے خوف سے)-
[ابنے بطاح، الابانہ الکبریٰ ، مضمون ٢٦]
عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوا مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا
8 نصيحة أهل الحديث للخطيب البغدادي لا يزال الناس بخير ما أخذوا العلم
"لوگ ہمیشہ اچھائی پر رہیں گےجبتک وہ علم لیں اپنے بڑوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء سے- اگر لوگ اپنے نوجوانوں اور برے ؤ خیانت دار لوگوں سے علم لیں گے تو پھر وہ تباہ ہو جاینگے-
[ ابن منده, مسند ابراہیم بن آدم ، صفحہ ٣٤ اور نصیحه الخطیب البغدادی ٨، صحیح الالبانی ]
عمر بن الخطاب رضی الله عنہ:
" ان ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے ہیں اور رات میں قیام کرتے ہیں بنسبت اس ایک عالم کے موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-"
[جامع البیان العلم ؤ فضلہ ، جلد ١.صفحہ ٦٥]
امام ابن القیم نے فرمایا:
فرض کرو ایک ایسا شخص ہے جسکے پاس دنیا بھر کی دولت ہو اور وہ بڑا سخی بھی ہو اور وہ ہزاروں لوگوں کی مدد بھی کرتا ہو اور انکے حاجات بھی پورا کرتا ہو- پھر وھ مر جاتا ہے اور اسکی رسائی اب اپنے دولت تک نہیں ہو- پس ایک عالم کی موت بنسبت اس مالدار شخص کے موت کے بہت بڑا سانحہ ہے"-
[مفتاح دار السعدہ: ١/٢٦٥]
امام عبدالله بن مبارک رحم الله سے پوچھا گیا:
"بہترین لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا " علماء"-
ان سے پوچھا گیا کہ حقیقی بادشاہ کون ہیں؟
انھوں نے جواب دیا " سادہ ؤ درویش لوگ"-
ان سے پوچھا گیا "بے کار لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا" وہ لوگ جو دین کو دولت کا ذریعہ بناتے ہیں"-
ان سے پوچھا گیا، " بھیڑ/ہجوم کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا، " خزیمہ بن خازم اور اسکے اصحاب".
اور انسے پوچھا گیا، " کم ضرف شخص کون ہے؟"
انھوں نے جواب دیا، "جو اپنے مہمان کو قیمتوں کے چڑھاؤ کا ذکر کرتا ہے"-
[ابو بکر الدینوری ، المجلاصه ؤ جواہر ال-علم ٢:١٨١ ]
الزہری :
ایک سنت کا درس دینا دو سو سالوں کے نفلی عبادت سے بہتر ہے-
[احمد بن حنبل، اصول السنہ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں]
ابو ہریرہ رضی الله عنہ:
" مجھے یہ بہت محبوب ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے دین کو سمجھنے کے لئے بیٹھوں بجائے اسکے کہ میں پوری رات صبح ہونے تک عبادت کروں-"
[جامع البیان العلم ؤ فضائل جلد ١ صفحہ ٦٠]
امام ترمذ ی نے اپنے کتاب جامع ترمذی میں ایک باب " فقہ کی عبادت پر برتری کے بارے میں" قائم کیا ہے- اس باب میں ایک حدیث کچھ اسطرح ہے:
قیس بن کثیر سے روایت ہے:
" مدینہ سے ایک شخص ابو دردہ کے پاس آیا جب وہ دمشق میں تھے- تو انھوں نے پوچھا:
" وہ میرے بھانجے کیا بات تمھیں یہاں لائی ہے؟"
اسنے جواب دیا:
" ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے جسے آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے."
آپ رضی الله نے کہا :
" تو تم ادھر اپنے کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں آئے ہو؟
اس نے جواب دیا:
"نہیں"-
آپ نے پوچھا:
" کیا تم ادھر تجارت کے لئے آئے ہو؟-
اسنے کہا : " نہیں، میں صرف اس حدیث کی جانکاری کے لئے یہاں آیا ہوں"-
تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا :
بے شک میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ:
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِيفِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِطَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّالْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَارِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّالْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْفِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِحَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِوَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِكَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِالْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَوَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّالأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًاوَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَاوَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ
" اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو الله اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لئے (اسکے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں – عالم کے لئے آسماں ؤ زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے- یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں- عالم کو عابد پر اسطرح فضیلت ہے جیسے چاند کو فضیلت ستاروں پر- علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بےشک انبیاء کی وراثت درہم ؤ دینار نہیں ہوتے بلکہ انکی میراث علم ہے- پس جسنے اسے حاصل کیا اسنے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا-
[جامع ترمذی :٢٦٨٢، اس روایت کی طرح اور بھی روایت ہیں اور انکی متن پر علماء کا اتفاق ہے]
امام العینی رحم الله صحیح بخاری کی شرح عمدة القاري (٢.٣٩)میں لکھتے ہیں- اس حدیث
(علماء انبیاء کے وارث ہیں ) کی دلیل قرآن کی اس آیت میں ہے جہاں الله نے فرمایا:
پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔ [سورہ فاطر :٣٢ ]
علماء کی سب سے پہلی جماعت صحابہ رسول صلی الله علیہ وسلم تھے، اور پھر انکے بعد تابعین پھر انکے بعد طبع تابعین اور یہ سلسلہ اسطرح چلتا گیا"-
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِاللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُقَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً،فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَاوَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا،فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَايَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَفِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْابِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُأَسْفَلَ السَّفِينَةِ،فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْبِي، وَلاَ بُدَّ لِيمِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِأَنْجَوْهُ وَنَجَّوْاأَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُوَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ
" اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے( عام طور پر ایک جاہل یا عامی) اور اس میں مبتلا (یعنی الله کی حددو کی پابندی کرنے والے یا علماء) ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی ( پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں ) قرعہ اندازی کی ۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر ۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا ( تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے ) اب اوپر والے(یعنی علماء) آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ( میرے اوپر آنے جانے سے ) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا ۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے(یعنی عام آدمی) کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی ۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے ۔"
[صحیح البخاری ٢٦٨٦ ]
ابو امامہ باہلی رضی الله عنہفرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم- آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ " .ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ اللَّهَوَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِيجُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِالْخَيْرَ " . قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌغَرِيبٌ . قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍالْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ عَالِمٌعَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ .
عالم کی فضیلت عابد پر اسطرح ہے جسطرح میری تمہارے ادنی ترین آدمی پر - پھر فرمایا کہ یقیناّ الله، فرشتے اور تمام اہل زمین ؤ آسماں یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی، اس شخص کی لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے-
[جامع ترمذی :٢٦٨٥]
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَالنَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ فَإِذَا لَمْيُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوافَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا "
اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
[صحیح بخاری:١٠٠، سنان ابن ماجہ، جلد ١، حدیث ٥٢]
عوف بن مالک السجعی رضی الله عنہ سے روایت ہے :
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دفعہ آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: " لگتا ہے یہ علم کے اٹھائے جانے کا وقت ہے "، پس ان میں سے ایک نے کہا : " یا رسول الله ، علم کسطرح اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس کتاب الله ہے ، ہم اسے پڑھتے ہیں، اسکا مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں"- تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" میں تمھیں مدینہ کے لوگوں میں سب زیادہ علم والا سمجھتا تھا، کیا یہود اور نصاریٰ کی پاس اپنی کتابیں نہیں تھی؟
[إقتضاء العلم العمل،الخطیب البغدادی بمع تحقیق شیخ البانی ، جنہوں نے اسے صحیح کہا، صفحہ ٥٨]
رسول الله صلی الله وسلم نے فرمایا:
" کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کے علم میں سب سے پہلے کیا اٹھایا جائیگا ؟ آپنے فرمایا :' خشوع اور الله کا خوف، یہاں تک کہ آنے والے وقت میں تم کسی میں بھی عاجزی اور الله کا خوف نہیں دیکھو گے-
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" بے شک زمین پر علماء کی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسے آسماں میں ستاروں کی. انکے ذریعے ایک انسان کو زمین ؤ سمندر کے اندھیروں میں روشنی ملتی ہے-
[مسند احمد بن حنبل،جلد ٣، حدیث # ١٢٦٢١. شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الجامع # ١٩٧٣ میں ضعیف کہا ہے]
آدب حاتم رضی الله نے فرمایا:
" تم بہتری میں رہو گے جب تک تم اس چیز کی اجازت نہیں دو گے جس کو تم برا جانتے تھے یا اس چیز کی مذمت نہیں کرو گے جسے تم اچھا جانتے تھے، اور جب تک اہل علم تمہارے بیچ نڈر ہوکر بولے ( حاکم وقت اور لوگوں کے خوف سے)-
[ابنے بطاح، الابانہ الکبریٰ ، مضمون ٢٦]
عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوا مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا
8 نصيحة أهل الحديث للخطيب البغدادي لا يزال الناس بخير ما أخذوا العلم
"لوگ ہمیشہ اچھائی پر رہیں گےجبتک وہ علم لیں اپنے بڑوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء سے- اگر لوگ اپنے نوجوانوں اور برے ؤ خیانت دار لوگوں سے علم لیں گے تو پھر وہ تباہ ہو جاینگے-
[ ابن منده, مسند ابراہیم بن آدم ، صفحہ ٣٤ اور نصیحه الخطیب البغدادی ٨، صحیح الالبانی ]
Last edited: