علمِ عروض کا آغاز اور نشاۃ
ڈاکٹر جواد علی
عروض شعر کی میزان ہے۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اس پر جانچ کر با وزن اور وزن سے ساقط شعر میں امتیاز کیا جاتا ہے۔
مؤرخین نے عروض نام رکھنے کی بہت سی وجوہات بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ خلیل بن احمد الفراہیدی کو عروض (بطور علم) ایجاد کرنے کی تحریک مکہ میں ہوئی، اور مکہ بلاد العَروض میں سے ہے۔ چنانچہ اس علم کو عروض کہا گیا۔
۲ ایک توجیہ یہ ہے کہ شعر کو اس پر عرض، یعنی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عروض نام، شعر کے عَروض کے باعث معروف ہوا، جو شعر کے ہر دو مصرعوں کے فواصل (یعنی حصوں ) میں سے پہلے مصرعے کے آخری حصے کو کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے پہلے مصرعے کو عروض بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ دوسرا مصرع اس پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ دوسرے مصرعے کو شطر کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ عروض شعر کے اسالیب و طرق اور اس کے عمود کا نام ہے، جیسے بحرِ طویل۔ [یعنی قصیدے کی ہیئت عمود یا ستون کے مانند ہوتی ہے]۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ فلاں قصیدہ ایک عروض میں ہے۔ جب کہ قوافی ضروب (واحد: ضرب) کہلاتے ہیں۔ ۳ ایک توجیہ یہ بھی کی جاتی ہے کہ (اس علم کو) عروض اس لیے کہا گیا کہ اگر شعر کا نصفِ اول معلوم ہو تو شعر کی تقطیع آسان ہو جاتی ہے۔ ۴ بعض کا خیال ہے کہ عروض، عرض یعنی پیش کیے جانے یا پرکھنے کے باعث کہا جاتا ہے، کہ شعر (مقررہ) اوزان پر پیش کیا جاتا ہے، تو جو ان کے مطابق ہو وہ درست قرار پاتا ہے، جب کہ عدم مطابقت رکھنے والا غلط۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عروض نام اس وجہ سے پڑا کہ دامنِ کوہ میں راستے کو بھی عَروض کہا جاتا ہے۔ مراد یہ کہ عروض وہ راستہ ہے جس پر عرب، شعر کہنے میں چلے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بیت الشِّعر (شعر کے دو مصرعوں ) کو بیت الشَّعر (اونٹ وغیرہ کے بالوں سے بنے موٹے ترپال نما کپڑے سے بنائے گھر، یعنی بادیہ نشینوں کی جائے رہائش خیمہ) سے تشبیہ دی گئی۵، تو (شعر کے علم) عَروض کو، جو اس کا وزن برقرار رکھتا ہے، (خیمے کا وزن برقرار رکھنے والے) عَروض کے مشابہ قرار دیا گیا، جو (خیمے کے درمیان کھڑے) لکڑی کے مستول کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح شعر کے اسباب کو خیمے کی اسباب (رسیوں ) سے، اور اوتاد کو خیمے کے اوتاد (میخوں یا کھونٹیوں ) سے، نیز شعر کے فواصل کو خیمے کے فواصل (اجزاء) سے تشبیہ دی گئی۔ ۶ علم العَروض، شعر اور قافیے کا علم ہے، اور علم الوزن یا وزنِ شعر اس کا مترادف ہے۔ اس کی تعریف میں علمائے عروض کا شدید اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں عروض کے مولد و منشا اور اس کے منصۂ شہود پر آنے کی کیفیت کا کوئی واضح علم نہیں۔ ۷ میرے خیال میں عروض نام رکھے جانے کے سلسلے میں علماء کا یہ شدید اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لفظ اسلام سے پہلے بھی مستعمل رہا، اور خلیل کا رکھا ہوا نام نہیں ، بلکہ جاہلی دور کا ایک قدیم لفظ ہے جس سے مراد شعر کو دیکھنا، پرکھنا اور اس کے مختلف اسالیب و طرق اور اجزاء پر غور کرنا ہے۔ اگر یہ لفظ اسلامی دور میں خلیل کا وضع کیا ہوا ہوتا تو اس کی توجیہ میں اتنا اختلاف نہ ہوتا، اور خلیل عروض کا نام رکھنے کا سبب یوں نظر انداز نہ کرتا۔ نیز یقینی طور پر علماء خلیل سے عروض کی وجہِ تسمیہ ضرور دریافت کرتے۔ اس سلسلے میں واضح رہے کہ علماء کی یہ روش معروف ہے کہ اگر زمانہ ما قبلِ اسلام کی کوئی ایسی بات ان کے سامنے آتی ہے جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے، تو وہ اسباب و علل کے سلسلے میں مختلف و متبائن آراء اور توجیہات بیان کرتے ہیں۔ اگر عروض اسلامی دور میں وضع کیے گئے علوم اور اصطلاحات میں سے ہوتا تو وہ اس کی تعبیر و توجیہ میں اس قدر اختلاف نہ کرتے۔ عروض کی تعریف میں ان کا یہ شدید اختلاف اس کی قدامت کی دلیل ہے۔ یہ کہنے میں ہمارا قیاس اسی بات پر ہے کہ علماء قدیم اصطلاحات اور ناموں کی سلسلے میں اختلافی آراء و توجیہات ہی بیان کرتے ہیں۔