• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الفواصل … توقیفی یا اجتہادی؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اہل شام میں
کعب الاحبار﷫۔ (محولہ بالا)
ان تمام شہروں کے کل آئمہ جو اُوپر بیان کیے گئے ہیں چوبیس (۲۴) ہیں۔ جن میں سے چار مدینہ کے، نو کوفہ کے، چار مکہ کے، چھ بصرہ کے اور ایک شام کا۔ ان سب آئمہ سے آیات کا شمار نماز میں اور نماز کے باہر ثابت ہے۔ شعبی کی روایت میں ہے کہ فرض نمازوں میں آیات کے گننے میں کوئی حرج نہیں۔ (ایضاً:۴۷)
اسی طرح کی روایات باقی آئمہ سے بھی مروی ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
عبدالرحمن بن عیسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ابوعبدالرحمن سے جو بھی قرآن کریم پڑھتا وہ اس کو قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آیات کے شمار کی بھی تعلیم دیتے۔(ایضاً :۴۸)
امام عاصم﷫ کے متعلق آتا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی قرآن کی تلاوت کرتا تو وہ اپنی انگلیوں پر تلاوت کرنے والے کی آیات کا شمار کرتے۔(ایضاً)
خالد الخداء ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر نماز میں آیات کا شمار کیا کرتے تھے۔(ایضاً :۶۶)
شمار آیات کی تعلیم صحابہ﷢نے نبی کریمﷺسے سیکھ کر اپنے مابعد آنے والوں یعنی تابعین﷭ کو سکھائی اور ان سے آگے پھرشمار آیات کی یہ تعلیم اَئمہ سبعہ اور امام دانی﷫ کے قول کے مطابق آئمہ ستہ تک پہنچی جو مندرجہ ذیل ہیں:
(١) مدنی اوّل (٢) مدنی اخیر (٣) مکی (٤) کوفی (٥) بصری (٦) شامی ۔ (ایضاً:۶۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ شمار و تعیین اس طرح روشن و ظاہر ہیں جس طرح صبح صادق کی روشنی واضح اور ظاہر ہوتی ہے۔ نیز جس طرح صبح کی روشنی سے رات کی اندھیری ختم اور ناپید ہوجاتی ہے اسی طرح یہ روایتیں بھی آیات کے شمار اور ان کی تعیین کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو بالکل رفع کردیتی ہیں۔
مذکورہ بالا تمام آثار و روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علم (علم الفواصل) توقیفی ہے۔ لیکن اگریہ علم توقیفی ہے تو پھر آئمہ شمار میں آیات کے شمار کے بارے میں اختلاف کیوں ہے؟ اس بناء پر اَئمہ کرام کے دو مؤقف سامنے آتے ہیں۔
(١) جو تمام آیاتِ قرآنیہ کے رء وس کی تعیین کو توقیفی قرار دیتے ہیں اور اس میں اجتہاد کا کوئی عمل دخل نہیں سمجھتے۔ جیسا کہ قاری فتح محمد لکھتے ہیں:
’’تمام شمار توقیفی ہیں جو نبی کریمﷺکے بتانے سے معلوم ہوئے ہیں اور اجتہادی نہیں ہیں جن میں قیاس اور رائے کا دخل ہو۔‘‘ (کاشف العسر:۵۷)
(٢) جو اکثر آیات کے رء وس کی تعیین کے توقیفی ہونے کے قائل ہیں۔ لیکن رء وس آیات کے تعیین کے ایک قلیل حصہ کے قیاسی؍اجتہادی ہونے کے قائل ہیں۔ یہی مؤقف امام دانی﷫، ابن عبدالکافی﷫اور علامہ شاطبی﷫نے اختیار کیا ہے اور یہی مؤقف مقالہ نگار کے نزدیک زیادہ راجح ہے۔ ذیل میں قائلین توقیفی اور قیاسی دونوں کے مؤقف بیان کیے جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فواصل کا توقیفی ہونا
توقیفی کسے کہتے ہیں اس سے متعلق علامہ جعبری﷫ لکھتے ہیں:
’’أما التوقیفي فما ثبت أنہ النبي ﷺ وقف علیہ دائماً تحققنا أنہ فاصلۃ، وما وصلہ دائماً تحققنا أنہ لیس بفاصلۃ۔‘‘ (حدیقۃ الزہر في عد آي السور (مخطوطۃ): ۲۲۸)
’’جس کلمہ پر رسول اللہﷺکا دائماً وقف کرنا ثابت ہے ہم اس کے فاصلہ ہونے کا یقین کریں گے اور جہاں آنحضرتﷺنے ہمیشہ وصل کیا ہے اس کی نسبت ہم یہ سمجھیں گے کہ وہ فاصل نہیں ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین توقیفی کے دلائل
اَئمہ کا وہ گروہ جن کا کہنا ہے کہ فواصل کا کلی علم توقیفی ہے اس میں اجتہاد کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہ اس کے مندرجہ ذیل دلائل بیان کرتے ہیں:
(١) قرآن مجید میں ایسے کلمات بھی آئے ہیں جو اپنی ظاہری شکل اور اپنے وزن میں ان کلمات سے ملتے جلتے ہیں جن پر سب نے آیت شمار کی ہے۔ لیکن یہ کلمات اجماعاً متروک ہیں اور ان پر کسی نے بھی آیت شمار نہیں کی۔ پس اگر آیات کے مقرر کرنے میں اجتہاد اور رائے و عقل کا ذرا بھی دخل ہوتا تو یہ کلمات آیات میں سے خارج نہ ہوتے۔ کیونکہ عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ جتنے کلمات بھی آیات کے ہم شکل ہیں ان سب پر آیت شمار کی جاتی حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔ پس ہم شکل ہونے کے باوجود ان پر آیت نہ ہونا صاف بتا رہا ہے کہ آیات کی تعیین عقل و رائے سے نہیں بلکہ نبی کریمﷺکے بتانے سے کی گئی ہے۔ کیونکہ عقل تو یہ بتاتی ہے کہ ہم شکل کلمات کا حکم بھی ایک ہی ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ یا تو سب پرآیت ہو یا کسی پر بھی نہ ہو۔ (ماخوذ از کاشف العسر:۶۴)
قاری رحیم بخش لکھتے ہیں:
’’رؤوس آیات کے توقیفی ہونے کی بہت سی دلیلوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن پاک میں بہت سے کلمات ایسے ہیں جو وزن اور شکل کے اعتبار سے آیتوں کے مشابہ ہیں (اس کو شبہ الفاصلۃ کہتے ہیں) حالانکہ اماموں نے ان کو رؤوس آیات میں شمار نہیں کیا نیز ایسے کلمات بھی کافی آئے ہیں جو آیات کے سروں کے ہم شکل نہیں ہیں( اس کو شبہ الوسط کہتے ہیں) جیسے ’’ألاتعالوا‘‘ لیکن ان کے شمار کرنے پر اجماع ہے اور ان پر سب ہی نے آیت شمار کی ہے۔‘‘ (ہدایات الرحیم: ۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) بعض جگہ ایسے کلمات پر بھی آیت شمار کی گئی ہے جن پر کلام اور جملہ پورا نہیں ہوتا یا ان کلمات کا بعد والے کلمات سے قوی درجہ کا تعلق ہوتا ہے۔ اس صورت میں عقل اور اجتہاد کا تقاضا یہی تھا کہ ان پر آیت شمار نہ کی جاتی کیونکہ ظاہر کی رو سے آیت کلام کے ایک حصہ کا نام ہے اور کسی حصہ کا کامل ہونا اس پر موقوف ہے کہ وہ اپنا مطلب بتانے میں بعد والے کلام سے بالکل بے نیاز ہو اور اس کا محتاج نہ ہو۔ ’’ اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یَنْہٰی ‘‘ (العلق:۹۶؍۹)، ’’فَــأَمَّا مَنْ طَغٰی ‘‘ (النازعات:۷۹؍۳۷) ’’ وَسَیُجَنَّبُہَا الْأَتْقَی ‘‘ (اللیل:۹۳؍۱۷) مذکورہ بالا کلمات ایسے نہیں، کیونکہ جب جملہ پورا نہیں یا بعد والے کلمہ کا پہلے کلمہ سے تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ کلمات بعد والے کلمات سے بے نیاز ہیں۔ پس جملہ کے کامل نہ ہونے یا بعد والے الفاظ سے قوی تعلق ہونے کے باوجود ان کلمات پر آیت شمار کرنا صاف بتلا رہا ہے کہ آیات کی تعیین عقل و رائے سے نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کے بتانے سے مقرر ہوئی ہے۔ (بشیر الیسر:۲۴؛ مرشد الخلان:۱۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری فتح محمد رقم طراز ہیں:
’’ایسے کلمات بھی کافی ہیں جو آیات کے سروں کے ہم شکل نہیں لیکن ان کے شمار کرنے پر اجما ع ہے۔‘‘(کاشف العُسر: ۱۳۹)
(٣) دکتور وھبہ الزحیلي لکھتے ہیں:
’’ولا سبیل لمعرفۃ أول الآیۃ وآخرھا إلا بالتوقیف الشارع فلا مجال فیھا للقیاس والرأی، بدلیل أن العلماء عدوا ’’المص‘‘ آیۃ، ولم یعدوا نظیرھا وھو ’’المر‘‘ آیۃ‘‘ (الموسوعۃ القرآنیۃ المیسرۃ: ۶۲۳۶)
’’آیت کے اوّل و آخر کو شارع کے وقف کے علاوہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں اور نہ ہی اس میں قیاس اور رائے کا کوئی عمل دخل ہے، اس کی دلیل علماء کا ’المص‘ پر آیت شمار کرنا اور ’المر‘ پر آیت کا شمار نہ کرنا ہے۔‘‘
عبدالفتاح قاضی﷫ فرماتے ہیں کہ حروف مقطعات جو قرآن مجید کی انیس سورتوں کے شروع میں آرہے ہیں ان پر صرف کوفی نے آیت شمار کی لیکن ان میں سے تین حروف کو مستثنیٰ کردیا ہے اور ان پر آیت شمار نہیں کی ہے۔
(١) وہ جن کے آخر میں راء ہے ۔ مثلاً ’الر، المر‘
(٢) ’طٰسٓ‘ جو نمل کے شروع میں ہے۔
(٣) مقطعات کے وہ حروف جواکیلے آرہے ہیں۔ مثلاً ’ص،ن، ق‘ وغیرہ۔ سورۃ شوریٰ کے ’ق‘ پر حمصی اور کوفی دونوں کے لیے آیت ہے جبکہ باقی مقطعات کو کوفی نے لیا ہے۔ ان کو حمصی نے نہیں لیا۔ باقی پانچوں امام مدنی اوّل و آخر، مکی، دمشقی اور بصری ان حضرات نے مقطعات کے کسی حرف پر بھی آیت شمار نہیں کی۔ علماء کے ہاں یہ تفریق اور جدائی آیات کے توقیفی ہونے کی دلیل ہے۔ (بشیر الیسر: ۲۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) اگر آیات اور ان کے شمار توقیفی نہ ہوتے بلکہ عقل و رائے سے مقرر کیے جاتے تو کوئی آیت بھی ایسی نہ ہوتی جو صرف ایک کلمہ والی ہو کیونکہ ایک کلمہ سے کوئی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے کیونکہ صرف ایک کلمہ والی آیتیں بڑی سورتوں میں بھی آئی ہیں جیسے دو مقطعات جن پر آیات شمار کی گئی ہے اور چھوٹی سورتوں میں بھی موجود ہے۔ جیسے ’والطور، والفجر، والضحٰی، والعصر‘ یہ بات نبی٪کے بتانے اور آپ٪سے سننے ہی پر منحصر ہے۔(کاشف العسر:۶۹)
نیز یہ کہ پورے قرآن میں کوئی آیت بھی ایسی نہیں جو صرف ایک کلمہ والی ہو نہ بڑی سورتوں میں اور نہ چھوٹی سورتوں میں لیکن صرف ذیل کی تین صورتوں میں ایسی آیات ہیں جو صرف ایک کلمہ والی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) مقطعات میں اور وہ بیس (۲۰) ہیں۔
(٢) ان الفاظ میں جن سے قسم کھاتے ہیں جبکہ وہ دوسری آیتوں کے ہم شکل بھی ہوں۔ ان میں سے چار پر آیت شمار کی ہے۔
(٣) قسموں کے سوا دوسرے الفاظ میں سے اور یہ پانچ ہیں۔
اس طرح ایک کلمہ والی کل آیات انتیس (۲۹) ہیں ان میں اکثر کو کوفی نے شمار کیا ہے اور بعض میں دوسرے امام بھی شریک ہوگئے ہیں۔ (ایضاً:۱۰۱)
(٥) بڑی سورتوں میں چھوٹی آیتیں بھی آئی ہیں۔
(٦) چھوٹی سورتوں میں بڑی آیتیں بھی موجود ہیں۔ (ایضاً:۱۳۹)
(٧) آیات کے آخری سرے نبیﷺاور صحابہ﷢ سے منقول ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ سلف آیات کے آخری کلمات پر دو نقطے لگاتے تھے اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ اس کلمہ کے آخری حرف پر آیت ختم ہوگئی ہے۔ اسی طرح نقطوں کا ترک اس بات کی علامت تھی کہ اس کلمہ کے آخری حرف پر آیت کا سرا نہیں ہے۔ اس کی توضیح کے لیے صحابہ﷢ کا یہ عمل کافی وافی ہے کہ ان حضرات نے انفال و قتال یعنی براء ۃ کے درمیان ’بسم اﷲ‘ نہیں لکھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی سورۃ نازل ہوتی تھی نبی کریمﷺ اس کے شروع میں ’بسم اﷲ‘ لکھنے کا حکم فرما دیتے تھے جبکہ سورۂ براء ۃ کے شروع کے لیے صحابہ﷢ کو نبیﷺ کا کوئی بیان نہیں ملا۔ پس جب ان کو اس بات کا علم نہیں ہوا کہ آپﷺنے اس سورۃ کے اوّل میں ’بسم اﷲ‘ لکھنے کا حکم فرمایا ہے یا نہیں تو اس بارے میں توقف اختیار کرلیا اور ’بسم اﷲ‘ کو ترک کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پس اگر آیات کا ثبوت اجتہاد سے ہوتا تو ان کو براء ۃ کے شروع میں ضرورت پیش نہ آتی اور ’بسم اﷲ‘ کو لکھ دیتے نیز وہ حضرات قرآنوں کے مجرد (نقطوں اور حرکتوں تک سے خالی) رکھنے کا پورا اہتمام فرماتے تھے اس کے باوجود بھی آیتوں کے شمار کے لیے ان کے اخیر میں نقطے لگاتے تھے۔ پس یہ عمل واضح دلیل ہے اس پر کہ آیات توقیفی ہیں اور ان میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نیز آیات کے درمیان کے ان نقطوں میں اماموں کا اختلاف کرنا آیات کے توقیفی ہونے کی یقینی دلیل ہے۔ (ماخوذ از لوامع البدر:۹۰،۹۱)
(٨) امام عاصم﷫نے اپنے شیخ امام زر بن حبیش کے واسطہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ کا فرمان عالی نقل کیا ہے کہ ایک بار ہمارا ایک سورت کی آیات میں اختلاف ہوگیا سو بعض نے کہا کہ تیس (۳۰) آیتیں ہیں اور بعض اس طرح گویا ہوئے کہ نہیں بتیس (۳۲) ہیں۔ سو ہم حضورﷺ کی خدمت بابرکات میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپﷺکے چہرۂ اَنور ’’فداہ أبي و أمي‘‘ کا مبارک رنگ متغیر ہوگیا (یعنی ناراضگی کے آثار پیدا ہوئے) آپﷺنے حضرت علی﷜ سے آہستہ سے کچھ بات فرمائی اس کے بعد حضرت علی﷜نے ہماری طرف متوجہ ہوکر کہا کہ حضورﷺاَمر فرما رہے ہیں کہ قرآن مجید کو اسی طرح پڑھو، جس طرح تمہیں سکھایا گیا ہے (یعنی جو جو عدد آیات کا جس جس کو بتایا گیا ہے وہ اسی اسی طرح عدد پر قائم رہے)۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پس اس روایت سے جہاں آیات کا توقیفی ہونا اور ان کا شمار معلوم ہوا وہاں یہ بھی بخوبی واضح ہوگیا کہ بعض مواقع ایسے ہیں کہ وہاں بعض نے آیت شمار کی ہے اور بعض نے نہیں کی کیونکہ یہ اختلاف اگر صحیح نہ ہوتا اور یہ تعداد آپﷺ کی سکھائی ہوئی نہ ہوتیں تو آپﷺکسی ایک عدد کو ساقط فرما کر اختلاف کو رفع فرما دیتے۔ (ہدایات رحیم: ۲)
 
Top