• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم غیب خاصہ ذات باری ہے

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
علم غیب خاصہ ذات باری ہے

غیب کسے کہتے ہیں ؟ ایسا علم جو انسان کے جاننے کے ذرائع سے پوشیدہ ہو۔وہ غیب ہو گا۔ غیب کا اصل مفہوم کیا ہے؟جسے غیب کہتے ہیں اسے جاننا صرف اﷲ کا خاصہ ہے۔ اگر اسے جاننے کیلئے کوئی ذریعہ درمیان میں آ گیا تو وہ غیب نہیں رہے گا۔جیسے کرکٹ کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں کیا پتہ کس نے چھکا مارا؟کس نے چوکا مارا؟ اور کس نے گیند پھینکی؟ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ ایک ذریعہ درمیان میں آ گیاہمیں غیب پہ اطلاع ہو گئی ۔درمیان میں سبب ہے۔اﷲ کا علم اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے کا اسے علم ہے اور درمیان میں کوئی سبب نہیں۔ وہ ذاتی طور پر جانتا ہے اور یہ ہے غیب جو صرف اﷲ جانتا ہے۔غیب مخلوق کے حوالے سے ہے۔لیکن اﷲ کے سامنے ہر چیز حاضر ہے۔اس لئے کہتے ہیں کہ غیب جاننا خاصہ ذات باری ہے۔
دنیا کے مخفی احوال جاننے کے لئے لوگوں نے کچھ تحقیق اور جستجو کی اور چند اندازے بنا لئے ان میں دو طرح سے کام ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو شیطان سے مصاحبت ہو جاتی ہے اور شیطان کچھ نہ کچھ باتیں ان کے دلوں میں ڈالتا رہتا ہے۔قرآن کریم میں آتا ہے (سورۃالانعام 121 ) شیطان اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہیں۔ایک واقعہ کہیں ہوا ایک شیطان نے دوسرے کو بتایا ،اس نے اپنے کسی ساتھی کو بتایا اس نے یہاں بات کر دی کہ فلاں جگہ یہ ہوا ہے۔ لوگوں نے سمجھا یہ بڑا غیب دان ہے۔غیب کی ایک قسم یہ ہے لیکن یہ سارے غیب آسمان کے نیچے نیچے ہیں اور شیطان جس سے بات کرتا ہے اس کا مطلب ہے اس بندے کا کردار بھی شیطانی ہو گا۔اس کا کھانا بھی حلال نہیں ہو گا۔اس کے اعمال بھی کافرانہ ہوں گے۔وہ بدکار اور غلیظ بھی ہو گا۔
دوسری قسم علم جفر،رمل ،دست شناسی اور چہرہ شناسی وغیرہ انسانوں کی ایجاد کرد ہ مشقیں ہیں ۔علم نجوم کیا ہے؟ یہ ایک فن ہے جیسے دست شناسی کہ بعض خاص لکیریں خاص باتوں کی عماض ہوتی ہیں۔اسی طرح ستاروں کی روش بھی بعض باتوں کو ظاہر کرتی ہے۔جیسے نبض کی حرکت حکیم کو مرض کے بارے اندازہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔اگریہاں تک بات رہے تو حرج نہیں ہاں اگر اسی پر بھروسہ کرنے لگے اور اسے موثر بالذات ماننے لگے تو یہ خیال مشرکانہ ہے۔ اﷲ اس سے پناہ میں رکھے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان علوم پر اگر کوئی یقین کر لے تو اس کا اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے۔یہ محض اندازے ہیں جس میں غلط اور صحیح دونوں کے ہونے کا احتمال ہے۔یہ حتمی نہیں ہوتے ان سے زندگی کی راہیں مقرر نہیں کی جا سکتیں ہندو راجاؤں میں ان جوتشیوں اور نجومیوں سے ہدایات لینے کا رواج بہت تھا بعد میں ملکی حکمرانوں میں در آیااور اب شایدہی کوئی ایسا پاکستانی حکمران ہو جس نے جوتشی ورملی نہ رکھے ہوئے ہوں ۔آج کے صدر اوروزیراعظم نے اپنے اپنے محلوں میں جبکہ وزرأ نے اپنے نجومیوں اورجوتشیوں کو اعلیٰ ہوٹلوں میں مقیم رکھاہوا ہے۔ان سے راہنمائی لے کر چلتے ہیں جس کا نتیجہ دیکھا جا سکتا ہے ملکی وسائل تباہ ہو رہے ہیں عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اور ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ہر نبی دنیا میں جس کام کے لئے مبعوث ہوتا ہے۔اس کے لئے جتنے علوم، قوتوں اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا کئے جاتے ہیں۔یہ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ کس نبی کو کتنا غیب بتایا گیا۔یہ مالک جانے اور نبی جانے لیکن جتنے امور غیبیہ پر تمام انبیاء علیہم السلام ،رسل اور اولیاء اﷲ کو مطلع کیا گیا۔ان میں اﷲ کے بعد سب سے زیادہ جاننے والی ہستی محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔حضورﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو ساری انسانیت کے لئے اور تا قیامت سارے زمانوں کے لئے مبعوث کئے گئے۔ان زمانوں کی نسبت،اس انسانی وسعت کی نسبت حضورﷺ کے علوم غیبیہ کی وسعت بھی بے پناہ ہے۔ یہ علم کسی ذریعے سے پہنچتا ہے کشف،الہام،القا،وجدان یا پھر انبیاء کو سب سے مضبوط ذریعہ جو نصیب ہوتا ہے وہ وحی الہٰی کا ہے۔ نبی کا کشف والہام تو کیا نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔لیکن یہ سب علم غیب نہیں کہلائے گا۔اﷲ کی ذات سب سے بڑا غیب ہے۔حضور ﷺ نے کائنات کو اﷲ سے آشنا کر دیا۔فرشتے غیب ہیں ،رسول اﷲ ﷺ نے فرشتوں کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔جنت و دوزخ غائب ہے ہمارے سامنے نہیں ہے۔لیکن حضور ﷺ نے ہر کلمہ گو کو اس کے بارے بتا دیا۔ لہٰذا نبی کا علم اﷲ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔آپ اسے علم غیب نہ کہیں۔اسے اطلاع عن الغیب کہیں۔نبی کو غیب عطا کیا جاتاہے،اﷲ کو کوئی بتاتا نہیں،نبی کو بتا دیا جاتا ہے۔یہ فرق ہے اور یہ بڑی مناسب اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔(جاری)
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
یہ مالک جانے اور نبی جانے لیکن جتنے امور غیبیہ پر تمام انبیاء علیہم السلام ،رسل اور اولیاء اﷲ کو مطلع کیا گیا۔ان میں اﷲ کے بعد سب سے زیادہ جاننے والی ہستی محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔
عقیل صاحب آپ کی پوسٹ کا مطالعہ کرنےکےبعددرج بالاعبارت کےحوالے سے تردد سا ہواہےمہربانی آپ اس کی دلیل مراہم فرمادیں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اﷲ کی ذات سب سے بڑا غیب ہے۔حضور ﷺ نے کائنات کو اﷲ سے آشنا کر دیا۔فرشتے غیب ہیں ،رسول اﷲ ﷺ نے فرشتوں کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔جنت و دوزخ غائب ہے ہمارے سامنے نہیں ہے۔لیکن حضور ﷺ نے ہر کلمہ گو کو اس کے بارے بتا دیا۔ لہٰذا نبی کا علم اﷲ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔آپ اسے علم غیب نہ کہیں۔اسے اطلاع عن الغیب کہیں۔نبی کو غیب عطا کیا جاتاہے،اﷲ کو کوئی بتاتا نہیں،نبی کو بتا دیا جاتا ہے۔یہ فرق ہے اور یہ بڑی مناسب اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔(جاری)

عجیب بات ہے کہ نبی کو اللہ تعالیٰ، اپنی ذات، فرشتوں، جنت و دوزخ کے غیب کی اطلاع دیں تو وہ علم غیب یا اطلاع عن الغیب کہلائے۔ اور نبی کے ذریعے سے یہ خبریں ساری امت تک پہنچ جائیں تو اسے کیوں علم الغیب یا اطلاع عن الغیب نہیں کہا جاتا؟
پہلی بات یہ کہ عالم الغیب کا اطلاق اللہ کے سوا کسی کے لئے بھی درست نہیں۔
اطلاع عن الغیب یا انباء الغیب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا ہے، اس کے بارے میں قرآن میں واضح آ گیا کہ یہ نبی غیب کی خبریں بتانے میں بخیل نہیں۔ (التکویر 24)
لہٰذا یہ کہنا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بہت سارا علم غیب عطا ہوا اور انہوں نے آگے امت کو بہت کم منتقل کیا، دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہے، کیونکہ یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ بخیل ماننا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے انباء الغیب اور اطلاع عن الغیب کے بارے میں بھی وضاحت کر دی کہ فقط اپنے رسولوں کو عطا کرتا ہے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179 پارہ 4
(ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ مطلع کرے تم کو غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ الخ جن 26،27 پارہ 29
(ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)

لہٰذا یہ کہنا کہ اطلاع عن الغیب ، انباء غیب وغیرہ اولیاء اللہ کو بھی دیا جاتا ہے، قرآن کی درج بالا آیات کی تکذیب کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
کیلانی صاحب اور راجہ صاحب سے گذارش ہے کہ ابھی مضمون مکمل ہوگیا ،اور درخواست ہے کہ تھوڑا صبر سے کام لیا کریں
نوٹ:۔اس مضمون کی تیاری میں ماہنامہ المرشد سے مدد لی گئی ہے
۔
اسی طرح حضرت موسی ؑ کی والدہ کواﷲ نے بتا دیا کہ بچے کو دریا میں ڈال دو۔میں اسے تمہیں واپس بھی دوں گااور اسے اپنا رسول بناؤں گا وہ غیب تھا۔اسی طرح عیسٰی ؑ کی والدہ کو حکم دیا کہ بولنا نہیں اور بچے کو لے کر جاؤ یہ خودبات کر لے گا۔انہوں نے عرض کی یااﷲ یہ تو بچہ ہے اﷲ نے فرمایا اسے لے جاؤ یہ بات کر لے گا۔وہ لائیں تو لوگوں نے سوال کیا کہ آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی اور آپ مسجد میں پلی بڑھی تھیں۔ یہ بچہ کہاں سے لیا ؟ انہوں نے کہا میرا تو چپ کا روزہ ہے اس بچے سے بات کر لو۔لوگوں نے کہا (سورۃ مریم آیت 29 ) اس سے ہم کیا بات کریں ؟یہ تو چھوٹا بچہ ہے ایک دن کا پینگھوڑے میں پڑا ہے۔حضرت عیسٰی ؑ نے فرمایا انی عبداﷲ ۔اﷲ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے ۔حضرت مریم ؑ کو تو یہی فرمایا تھا کہ بچے کو لوگوں کے سامنے لے جاؤ یہ خود بتا دے گا یہ بھی تو غیب تھا۔ لیکن اﷲ نے حضرت مریم کو غیب کی اطلاع دے دی۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے سامنے زمینوں اور آسمانوں کی کائنات کو کھول کر رکھ دیالیکن جب انہیں حکم دیا کہ بیٹے کو میرے سامنے ذبح کرو تو آخر تک نہیں بتایا کہ تیرے بیٹے کو بچا لوں گا۔بسم اﷲ اﷲ اکبر چھری چلا دی خون بہہ نکلاجسم تڑپ کرٹھنڈا ہو گیا اور ابھی تک حضرت ابراھیم علیہ السلام سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کر دیا ۔آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کھڑے مسکرا رہے ہیں او ر دنبہ ذبہ ہوا پڑا ہے۔گھبرا گئے ۔میں نے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا تھا۔کیا میری قربانی ضائع گئی؟ فوراً اﷲ کی طرف سے یہ وحی آئی (سورۃ الصٰفٰت آیت 105) میرے حبیب علیہ السلام ! تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔بچے کو بچا لینا اوردنبہ رکھ دینا یہ میرا کام تھا۔ قرآن کریم میں حضرت یوسف ؑ کے واقعے میں ملتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کو مصر میں اپنا کرتہ عطاء کیا اورکہاکہ یہ میرے والد کی آنکھوں پر لگانا ان کی بینائی لوٹ آئے گی اور وہ شخص کرتہ لے کر جب مصر سے نکلا کنعان میں بیٹھے ہوئے حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا (سورۃ یوسف 94 ) آج مجھے یوسف ؑ کی خوشبو آرہی ہے۔ایک سوال کرنے والے نے کہاکہ آپ ؑ نے یوسف ؑ کی خوشبو مصرسے سونگھ لی اورجب یوسف ؑ یہاں کنعان کے کنوئیں میں پڑے رہے
توآپ ؑ کوپتہ نہیں چلاانہوں نے فرمایانبیوں اوررسولوں کاحال برق تپاں کی طرح ہوتاہے کہ جب چمکتی ہے تو ذرہ ذرہ روشن کر دیتی ہے کبھی تو ہماری نظر عرش عُلیٰ پر ہوتی ہے اور کبھی کچھ پتہ نہیں چلتا کہ سامنے والی چیز کیا ہے؟
مشرکین مکہ کو بہت سے اعتراضات تھے جن میں یہ باتیں بھی تھیں کہ آپﷺ اگر اﷲ کے رسول ﷺ ہیں تو پھر یہ عام آدمی کی طرح کیوں رہتے ہیں؟ اﷲ کے خزانے ان کے پاس ہوتے۔ انہیں علوم غیبی پر دسترس ہوتی اور لوگوں کو بتاتے کہ تمہارا کیا سنور رہا ہے اور کیا بگڑ رہا ہے؟ یاپھر یہ فرشتہ صفت ہوتے نہ کھاتے نہ پیتے نہ نیند آتی۔(سورۃ الانعام 50) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے میرے حبیب ﷺ انہیں کہہ دیجیئے میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ اﷲ کے خزانے میرے قبضے میں ہیں۔ میں کوئی غیب کی خبریں دینے کے لئے مبعوث نہیں ہوافرمایادنیا کے امور طے شدہ ہیں خالق جانے اس کی مخلوق جانے اور میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ میں فرشتہ ہوں۔حالانکہ فرشتے آپ ﷺ کے در کے غلام ہیں۔(سورۃ الاعراف 188)آپ ﷺ ان سے فرما دیجئے کہ نفع اور نقصان صرف اﷲ کریم کے دست قدرت میں ہے۔میں خود اپنے نفع یانقصان پر اختیار نہیں رکھتا۔یہ رب جلیل کی پسند ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟اور یہ بھی سن لو کہ میں علم غیب بھی نہیں رکھتا اور اگر غیب کا علم میرے پاس ہوتا یا نفع و نقصان کا اختیار تو مجھے کبھی کوئی دنیاوی دکھ نہ پہنچتا۔غیب سے اسے سمجھ لیتا اور نفع کا پہلو چن لیتا۔مگر میری زندگی تمہارے سامنے ہے کہ دکھ برداشت کرتا ہوں اوردنیا کے نقصان بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔ہاں میرا مقام یہ ہے کہ میں تمہاری نگاہوں کو وہ جلا دے دوں تمہارے علم کو وہ وسعت دے دوں کہ تمہیں برائی کا انجام اور نیکی کا انعام نظر آئے اور فروائے قیامت پر یقین کامل نصیب ہو جائے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ انبیاء کا موضوع ہی غیب سے متعلق ہے کہ فرشتے،برزخ،آخرت اور خود ذات باری جو سب سے بڑا غیب ہے۔ تمام غیوب سے ساری مخلوق کو مطلع فرماتے ہیں اورآپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں علم غیب نہیں رکھتا۔ یہ سب باتیں اﷲ کی طرف سے انبیاء کو بتائی جاتی ہیں اور جتنی بھی کسی کو بتائی گئیں سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کو بتائی گئیں ۔آپﷺکا علم اولین وآخرین کے علوم سے بھی زیادہ ہے۔مگر اس کو غیب پر اطلاع دینا کہاگیا۔یعنی اطلاع عن الغیب اور علم غیب وہ ہے جس کے حصول میں کوئی واسطہ نہ ہو۔یہ صرف اﷲ کریم کو سزاوار ہے۔ شان نبوت یہ ہے کہ نیک وبد بھلائی و برائی کانہ صرف پتہ چل جائے بدی سے بچنا نصیب ہو۔جنت کی بشارت نصیب ہو جائے اور یہی ولی کا کمال ہے کہ عقیدے اور عمل کی اصلاح نصیب ہو جائے ہاں یہ نعمت یقیناً انہی کو نصیب ہو سکے گی جو ایمان لائیں گے کہ نبی سے اخذ فیض کی بنیاد ایمان پرہے۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
عقیل صاحب آپ کی پوسٹ کا مطالعہ کرنےکےبعددرج بالاعبارت کےحوالے سے تردد سا ہواہےمہربانی آپ اس کی دلیل مراہم فرمادیں۔
کیلانی صاحب اس میں تردد والی کون سی بات ہے؟کیا آپ نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے قائل نہیں۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
"راجا, post: 87110, member: 155"]عجیب بات ہے کہ نبی کو اللہ تعالیٰ، اپنی ذات، فرشتوں، جنت و دوزخ کے غیب کی اطلاع دیں تو وہ علم غیب یا اطلاع عن الغیب کہلائے۔ اور نبی کے ذریعے سے یہ خبریں ساری امت تک پہنچ جائیں تو اسے کیوں علم الغیب یا اطلاع عن الغیب نہیں کہا جاتا؟
پہلی بات یہ کہ عالم الغیب کا اطلاق اللہ کے سوا کسی کے لئے بھی درست نہیں۔
اطلاع عن الغیب یا انباء الغیب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا ہے، اس کے بارے میں قرآن میں واضح آ گیا کہ یہ نبی غیب کی خبریں بتانے میں بخیل نہیں۔ (التکویر 24)
نہ جانے آپکو مفتی بننے کا شوق ہے یا کوئی اور مجبوری ہے،یہی بات تو یہاں سمجھائی جا رہی ہےکہ اللہ عالم الغیب ہے اور اللہ کے علاوہ عالم الغیب ہونے کا اطلاق کسی پر نہیں ہوتا۔جیسا کہ سمجھایا گیا ہے
ا
ﷲ کی ذات سب سے بڑا غیب ہے۔حضور ﷺ نے کائنات کو اﷲ سے آشنا کر دیا۔فرشتے غیب ہیں ،رسول اﷲ ﷺ نے فرشتوں کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔جنت و دوزخ غائب ہے ہمارے سامنے نہیں ہے۔لیکن حضور ﷺ نے ہر کلمہ گو کو اس کے بارے بتا دیا۔ لہٰذا نبی کا علم اﷲ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔آپ اسے علم غیب نہ کہیں۔اسے اطلاع عن الغیب کہیں
لہٰذا یہ کہنا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بہت سارا علم غیب عطا ہوا اور انہوں نے آگے امت کو بہت کم منتقل کیا، دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہے، کیونکہ یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ بخیل ماننا ہے۔
یہ کس نے کہا ہے کہ کم یا زیادہ پہنچایا گیا ہے؟۔میرے بھائی سوچ سمجھ کر بات کیجئے ،فتوی بازی سے اجتناب کرے اور اگر کسی جگہ آپ مغالطے کا شکار ہیں تو دلیل سے بات کرے۔


پھر اللہ تعالیٰ نے انباء الغیب اور اطلاع عن الغیب کے بارے میں بھی وضاحت کر دی کہ فقط اپنے رسولوں کو عطا کرتا ہے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179 پارہ 4
(ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ مطلع کرے تم کو غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ الخ جن 26،27 پارہ 29
(ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)

لہٰذا یہ کہنا کہ اطلاع عن الغیب ، انباء غیب وغیرہ اولیاء اللہ کو بھی دیا جاتا ہے، قرآن کی درج بالا آیات کی تکذیب کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔
[/QUOTE]
تو آپ اتنا بتا دے
اسی طرح حضرت موسی ؑ کی والدہ کواﷲ نے بتا دیا کہ بچے کو دریا میں ڈال دو۔میں اسے تمہیں واپس بھی دوں گااور اسے اپنا رسول بناؤں گا وہ غیب تھا۔اسی طرح عیسٰی ؑ کی والدہ کو حکم دیا کہ بولنا نہیں اور بچے کو لے کر جاؤ یہ خودبات کر لے گا۔انہوں نے عرض کی یااﷲ یہ تو بچہ ہے اﷲ نے فرمایا اسے لے جاؤ یہ بات کر لے گا۔وہ لائیں تو لوگوں نے سوال کیا کہ آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی اور آپ مسجد میں پلی بڑھی تھیں۔ یہ بچہ کہاں سے لیا ؟ انہوں نے کہا میرا تو چپ کا روزہ ہے اس بچے سے بات کر لو۔لوگوں نے کہا (سورۃ مریم آیت 29 ) اس سے ہم کیا بات کریں ؟یہ تو چھوٹا بچہ ہے ایک دن کا پینگھوڑے میں پڑا ہے۔حضرت عیسٰی ؑ نے فرمایا انی عبداﷲ ۔اﷲ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے ۔حضرت مریم ؑ کو تو یہی فرمایا تھا کہ بچے کو لوگوں کے سامنے لے جاؤ یہ خود بتا دے گا یہ بھی تو غیب تھا۔
کیا موسی علیہ السلام کی والدہ نبی تھی؟ اور انکو جو کشف یا الہام ہوا ہے کیا یہ اطلاع عن الغیب نہیں ،قرآن و حدیث سے بالکل واضح ہے کہ اخبار عن الغیب اولیا اللہ کو ہوتا ہے۔
اگر موسی علیہ السلام کی والدہ نبی نہیں تھی،تو آپ بتا دے یہ کون سا علم تھا ،اور آپکو اسکو کیا کہے گے۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
کیلانی صاحب اس میں تردد والی کون سی بات ہے؟کیا آپ نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے قائل نہیں۔
جناب ہر سچامسلمان آپﷺ کی فضیلت کا قائل ہےلیکن اس کے ساتھ ساتھ میراایمان ہےکہ آنحضرت ﷺکی فضیلت بھی انہی امور میں ہےجن میں اللہ نے ثابت کی ہے۔وگرنہ تو ہر کوئی اپنےطےشدہ معیارات اورخیالات کےمطابق فضیلت دینی شروع کردےگا ویسے بھی صحیح ترین راستہ بھی یہی ہےکہ آپ کےوہی فضائل بیان کیے جائیں جو قرآن وحدیث میں آئے ہیں۔چناچہ آپ نےجو مسولہ عبارت میں جوآپﷺکی جوفضیلت بیان فرمائی ہےمجھےاس کاعلم نہیں تھا اس لیے دلیل پوچھنےکی جسارت کربیٹھا ہوں جناب!اب آپ پسند فرمائیں تو بیان کردیں۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
جناب ہر سچامسلمان آپﷺ کی فضیلت کا قائل ہےلیکن اس کے ساتھ ساتھ میراایمان ہےکہ آنحضرت ﷺکی فضیلت بھی انہی امور میں ہےجن میں اللہ نے ثابت کی ہے۔وگرنہ تو ہر کوئی اپنےطےشدہ معیارات اورخیالات کےمطابق فضیلت دینی شروع کردےگا ویسے بھی صحیح ترین راستہ بھی یہی ہےکہ آپ کےوہی فضائل بیان کیے جائیں جو قرآن وحدیث میں آئے ہیں۔چناچہ آپ نےجو مسولہ عبارت میں جوآپﷺکی جوفضیلت بیان فرمائی ہےمجھےاس کاعلم نہیں تھا اس لیے دلیل پوچھنےکی جسارت کربیٹھا ہوں جناب!اب آپ پسند فرمائیں تو بیان کردیں۔
کیلانی صاحب آپ نے درست فرمایا ،اگر آپ نبی اکرمﷺ کی کلی فیضیلت کے قائل ہیں ،تو علوم بنی آدم میں علوم میں بھی آپ ﷺ کی فضیلت ماننے میں کیاتردد ہے۔؟
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
عقیل صاحب! اگر آپ کے پاس اپنے پیش کردہ موقف کے دلائل نہ ہوں تو ازراہِ کرم ایسا موقف پیش ہی نہ کیا کریں!
ابومالک صاحب جب نبی اکرمﷺ کی فضیلت ثابت ہے ۔جیسا کہ آپ ﷺکا فرمانا ہے کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور یہ کہ مجھے اولین وا ٓخرین کا علم دیا گیا۔پھر یہاں ماننے میں کیا تردد ہے؟
ہر نبی دنیا میں جس کام کے لئے مبعوث ہوتا ہے۔اس کے لئے جتنے علوم، قوتوں اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا کئے جاتے ہیں۔یہ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ کس نبی کو کتنا غیب بتایا گیا۔یہ مالک جانے اور نبی جانے لیکن جتنے امور غیبیہ پر تمام انبیاء علیہم السلام ،رسل اور اولیاء اﷲ کو مطلع کیا گیا۔ان میں اﷲ کے بعد سب سے زیادہ جاننے والی ہستی محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔حضورﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو ساری انسانیت کے لئے اور تا قیامت سارے زمانوں کے لئے مبعوث کئے گئے۔ان زمانوں کی نسبت،اس انسانی وسعت کی نسبت حضورﷺ کے علوم غیبیہ کی وسعت بھی بے پناہ ہے
ابھی یہ ساری عبارت پڑھ کر بتائیں کے آپ کو کیا اعتراض ہے ،آپ ﷺ کی فضیلت پر اس لنک کا ملاحظہ فرمائیں
http://forum.mohaddis.com/threads/اولیاء-اللہ-میں-سے-افضل-کون.12663/
 
Top