• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم كا مصداق،اقسام اور فضائل

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
7 رسول اللہﷺ نے اللہ تعالىٰ كى عطا كردہ نعمتوں ميں سے دو نعمتوں كے علاوہ كسى كو كسى شخص پررشك كرنے كى ترغيب نہيں دى اور وہ قابل رشك دو نعمتيں يہ ہيں:
1 علم حاصل كرنا اور اس كے مطابق اس پر عمل كرنا-
2 تاجر شخص جو اپنے مال كو دين اسلام كى خدمت ميں خرچ كرتا ہے- اور اس كى دليل حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروى يہ حديث ہے كہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمايا:
لا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويُعلِّمها
” دو قسم كے آدمى قابل رشك ہيں، ايك وہ آدمى جسے اللہ نے مال سے نوازا اور وہ اسے حق كى راہ ميں لٹاتا ہے، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالىٰ نے حكمت (دينى علم) سے بہرہ ور فرمايا اور وہ اسى كے ساتھ فيصلے كرتا اور لوگوں كو اس كى تعليم ديتا ہے-“
8 امام بخارى نے اپنى صحيح ميں حضرت ابوموسىٰ اشعرى سے مروى مرفوع حديث ذكر كى ہے كہ اللہ كے نبىﷺ نے ارشاد فرمايا:
”جو ہدايت اور علم اللہ تعالىٰ نے مجهے عطا كركے مبعوث فرمايا ہے، اس كى مثال اس بارش كى ہے جو زمين پر برسے، تو زمين اچهى اور زرخيز ہوتى ہے، وہ پانى كو پى ليتى ہے اور گهاس اور سبزہ خوب اُگاتى ہے اور جو زمين سخت ہوتى ہے وہ پانى كو روك ليتى ہے پهر اللہ تعالىٰ اس سے لوگوں كو فائدہ پہنچاتا ہے- لوگ اس كو پيتے ہيں، اور اپنے مويشيوں كوپلاتے ہيں اور زراعت كو سيراب كرتے ہيں- اور كچھ بارش زمين كے دوسرے حصے كو پہنچى كہ جو بالكل چٹيل ميدان ہے، جو نہ پانى كو روكتا ہے اور نہ ہى سبزہ اُگاتا ہے-فذلك مثل من فقه في دين الله ونَفَعَه ما بَعَثَني الله به فَعَلِمَ وَعَلَّمَ پہلى مثال اس شخص كى ہے جو اللہ كے دين ميں فقيہ ہوجائے اور جو چيز اللہ تعالىٰ نے مجهے دے كر مبعوث فرمايا ہے، وہ اس كا فائدہ پہنچائے،اسے پڑهے اور دوسروں كو پڑهائے اور دوسرى مثال ہے اس شخص كى ہے جس سے اس كى طرف سر تك نہ اُٹهايا اور اللہ تعالى كى اس ہدايت كو جس كے ساتھ ميں بهيجا گيا ہوں، قبول نہ كيا-“
9 بلاشك علم كا حصول جنت كا راستہ ہے اور اس كى دليل حضرت ابوہريرہ سے مروى يہ حديث ہے كہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمايا:
ومن سلك طريقا يطلب فيه علمًا سهل الله له طريقًا إلى الجنة
” جو شخص علم كى جستجو ميں كسى راستے پر چلا تو اللہ تعالىٰ اس كے بدلے، اس كے لئے جنت كى طرف جانے كا راستہ آسان كرديتا ہے-“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
10 اور اسى ضمن ميں حضرت معاويہ كى حديث ميں آيا ہے- كہتے ہيں كہ رسول اللہﷺ كا ارشادِ گرامى ہے:
من يرد الله به خيرًا يفقّهه في الدين
”جس شخص سے اللہ تعالىٰ بهلائى كا ارادہ كرتاہے تو اسے دين ميں سمجھ دے ديتا ہے-“
مطلب يہ كہ اسے اپنے دين كا عالم و فقيہ بنا ديتا ہے اور يہاں دين ميں فقہ سے مراد، صرف وہى ’علم فقہ‘ نہيں جو اہل علم كے ہاں علم فقہ ميں مخصوص شرعى و عملى احكام ہيں بلكہ يہاں اس كا مفہوم وسيع تر ہے جس سے مراد علم توحيد، عقائداور اللہ عزوجل كى شريعت ِطاہرہ سے متعلقہ تمام مسائل و تفصيلات ہيں- علم كے فضائل كے ضمن ميں كتاب و سنت كے دلائل ميں اس حديث كے سوا كوئى اور دليل نہ بهى ہوتى تو شرعى علوم اور ان ميں مہارت حاصل كرنے كى ترغيب كے سلسلے ميں يہى حديث كافى تهى-
11 بلا شك علم ايك ايسى روشنى ہے جس كے ذريعے انسان نورِبصيرت سے بہرہ ور ہوتے ہوئے اس حقيقت سے آشنا ہوتا ہے كہ وہ اپنے ربّ كى كس طرح عبادت كرے، اور اس كے بندوں سے كيسے معاملات طے كرے، تو اس عملى تگ و دو ميں اس كا ہر كام علم و بصيرت كى بنياد پر طے پاتا اور پورا ہوتا ہے-
12 صاحبِ علم ايك ايسا چراغ ہے كہ جس كى روشنى ميں لوگ اپنے دينى و دنيوى كاموں كى انجام دہى كے لئے رہنمائى حاصل كرتے ہيں… اوراس ضمن ميں ہم ميں بہت سے لوگ بنى اسرائيل كے اس شخص كا قصہ جانتے ہوں گے جس نے ننانوے قتل كئے اور بعد ازاں اس نے زمين كے باسيوں ميں سب سے زيادہ علم ركهنے والے كے بارے ميں پوچها تو اسے ايك عبادت گزار شخص كے بارے ميں بتايا گيا- اس قاتل شخص نے صالح اور عابد سے پوچها كہ آيا اس كى توبہ ممكن ہے؟ تو اس عبادت گزار شخص نے اسے بڑا بهارى گناہ گار گردانتے ہوئے كہا كہ تيرى توبہ ممكن نہيں، جس پر اُس شخص نے مايوس ہوكر اور غصے سے بپهرتے ہوئے اس عابد كو بهى قتل كرديا اور اس طرح ١٠٠ قتل كى گنتى پورى كى-
پهر وہ قاتل ايك صاحب ِعلم كے پاس گيا اور اس سے وہى بات پوچهى تو اس عالم شخص نے اسے بتايا كہ اس كى سچى توبہ قبول ہوگى اور دنيا كى كوئى چيز اس كے اور توبہ كے درميان ركاوٹ نہيں بن سكتى- پهر اس نے اس قاتل كو سچى توبہ كے بعد نيكوكار لوگوں كى بستى كى طرف فورى طور پر چلے جانے كو كہا- تو وہ شخص اسى وقت اس علاقے كى طرف چل پڑا جبكہ راستے ہى ميں اُسے موت نے آليا- يہ پورا قصہ مشہور و معروف اور صحيح بخارى ميں مذكور ہے-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
13 اللہ تعالىٰ اہل علم كو دنيا و آخرت دونوں جہانوں ميں سربلند ركهتے ہيں:آخرت ميں اللہ تعالىٰ اُنہيں اپنے دين كى طرف دعوت و ارشاد اور علم كے مطابق عمل كے مطابق بلند درجات سے نوازے گا اور دنيا ميں بهى اللہ جل شانہ اپنے بندوں ميں ان كى اقامت ِدين كے سلسلے ميں محنت و كاوش كا صلہ و ثمرہ ديتے ہوئے اُنہيں امتيازى شان و مقام مرحمت فرمائے گا- اللہ تعالىٰ كا ارشاد ہے:
﴿يَرْفَعِ الله ُالَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ﴾
”تم ميں سے جو لوگ ايمان لائے ہيں اور جو علم سے نوازے گئے ہيں، اللہ تعالىٰ (دونوں جہانوں ميں) ان كے درجے بلند كرے گا-“(المجادلة:١١)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حصولِ علم كا حكم
شرعى علوم كو سيكهنا فرضِ كفايہ ہے اور جب كوئى شخص اس حد تك علم حاصل كرلے كہ وہ علاقے كے لوگوں كے لئے كافى ہو تو پهر دوسرے لوگوں كے لئے علم حاصل كرنا ’مستحب‘ ہے-
البتہ بعض اوقات شرعى علم كا حصول انسان پر فرضِ عين ہوجاتا ہے، خاص طور پر جب كوئى عبادت جسے وہ ادا كرنے كا ارادہ ركهتا ہو، يا كوئى معاملہ جسے وہ نمٹاناچاہتا ہو، اور ان دونوں قسم كے اعمال كا انحصار اسى ايك شخص پر ہو تو ايسے حالات ميں اس پر يہ واجب ہے كہ وہ پہلے اچهى طرح سے جان لے كہ وہ اللہ تعالىٰ كى بندگى كا يہ عمل كيسے بجالائے، اور اس معاملے كو بهى كس طرح صحيح طريقے سے سرانجام دے گااور اسكے سوا علم كى جو بهى صورت ہے وہ فرضِ كفايہ ہے-
لہٰذا ايك طالب ِعلم كو چاہئے كہ وہ دورانِ تعليم و تعلّم ہمہ وقت يہ بات اپنے پيش نظر ركهے كہ وہ ايك فرضِ كفايہ عمل كو ادا كررہا ہے، تاكہ وہ اس مبارك عمل، تحصيل علم كے ساتھ ساتھ ايك فرض كى ادائيگى كا اجروثواب بهى حاصل كرسكے-
اس بات ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ علم حاصل كرنا، افضل ترين اعمال ميں سے ہے بلكہ وہ اللہ تعالىٰ كى راہ ميں جہاد كى قسموں ميں سے ايك قسم ہے اور خاص طور پر ہمارے آج كے اس دور ميں جہاں ايك طرف اسلامى معاشرے ميں بدعات و خرافات كثرت سے پهيلتى اور بڑهتى چلى جارہى ہيں تو دوسرى طرف بغيرعلم كے صادر ہونے والے فتووں سے جہالت كاطوفان اُمڈتا چلا آرہا ہے اور رہى سہى كسر جہالت كے مارے ہوئے لوگوں كے درميان كثرت سے ہونے والى بحث و تكرار اور لڑائى جهگڑے نے پورى كردى ہے-
مذكورہ تينوں قسم كے مسائل كى بنا پرنوجوانانِ ملت ِاسلاميہ پر يہ لازمى ذمہ دارى عائد ہوجاتى ہے كہ وہ شرعى علوم كو حاصل كرنے كازيادہ سے زيادہ اہتمام كريں-
يہاں اہميت و افاديت كے پيش نظر ان تين قسم كے اُمور كو بالترتيب دوبارہ ذكر كرتے ہيں:
1 بدعات و خرافات كا ظہور جن كا شروفساد پهيلتا اور بڑهتا چلا جاتا ہے-
2 بغير علم كے ديئے گئے فتوؤں كى شہرت اور ان پر كثرت سے لوگوں كا عمل پيرا ہونا-
3 جہالت كے مارے ہوئے فريب خوردہ لوگوں كا ايسے شرعى مسائل ميں كثرت سے بحث و تكرار اور جهگڑا و فساد جواہل علم كے ہاں بسااوقات واضح ہوتے ہيں ليكن كوئى علم سے عارى شخص آكر ان ميں اختلاف كرتے ہوئے لوگوں كے درميان جهگڑے و فساد كاطوفان كهڑا كرديتا ہے-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسى بنا پر ہميں آج كے پُرآشوب دور ميں ايسے علماے حق كى اشد ضرورت ہے جو علم ميں وسعت كے ساتھ پختگى بهى ركهتے ہوں، اللہ كے دين كى صحيح سوجھ بوجھ كے حامل ہوں اور اللہ كے بندوں كى رہنمائى ميں حد درجے كى حكمت و مصلحت كو بروئے كار لانے ميں اُنہيں مہارتِ تامہ حاصل ہو- اس لئے كہ بہت سے لوگ اب كسى بهى مسئلے كو حل كرنے ميں سطحى نگاہ سے ديكهتے ہوئے دوسروں كى رہنمائى كرتے ہيں، جبكہ ان كو اللہ تعالىٰ كى مخلوق كى اصلاح و فلاح اور صحيح تربيت كى مطلق پرواہ نہيں ہوتى اور يہى وجہ ہے كہ جب وہ كسى بهى معاملے ميں فتوىٰ ديتے ہيں تو وہ مسلم معاشرے ميں اتنے بڑے شروفساد كا باعث بنتا ہے كہ جس كى انتہا اللہ تعالىٰ كے سوا اور كوئى نہيں جان سكتا- والعياذ بالله من ذلك
اس لئے صحيح اور پختہ شرعى علم جو كتاب وسنت كى بنيادپر لوگوں كو اللہ كى طرف دعوت دے، اس كى تعليم اور تفقہ حاصل كرنا اس دور كى اہم ترين ضرورت ہے- فى زمانہ اسلام ايك مظلوم مذہب بن چكا ہے، اور اس كے احكام وشعائر كو طنز وتضحيك كا نشانہ بنايا جارہا ہے، ان حالات ميں اللہ كے دين كى نصرت كے لئے كهڑے ہوجانا اور نبوت كى وراثت كوتهام لينا دنيا كى سب سے عظيم سعادت ہے- اللہ تعالىٰ اہل علم كو صبر واستقامت اور اپنے علم كے مطابق عمل صالح كرنے كى توفيق مرحمت فرمائے- آمين!
 
Top