• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم و مطالعہ کے شوقین بنیں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
عربی زبان میں ایک مشہور و معروف کتاب ہے، المشوق إلی القراءۃ وطلب العلم، جس کا ہدف مطالعہ اور حصول علم کا ذوق و شوق پیدا کرنا ہے۔ ذیل میں اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
امام ابو ولید الباجی فرماتے ہیں:
جب میں یقینی طور پر جانتا ہوں کہ میری تمام عمر ایک گھڑی کی مانند ہے، تو میں اس کے بارے میں بخیل کیوں نہ بنوں، اور اس کو بھلائی اور نیکی کے کاموں میں صرف کیوں نہ کروں۔( ترتیب المدارک 8/125)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ طباعت ِدوم
الحمد لله ، اللهم صل وسلم على نبينا محمد عبدك ورسولك.
میرا غالب گمان ہے کہ جب قاری اس کتاب کے مطالعہ سے فارغ ہوگا ضرور علامہ مقریزی رحمہ اللہ کے اس قول کی صداقت میں رطب اللسان ہو جائے گا کہ([1]) :
’’میرا دل تو ہر قسم کے بے فائدہ امور سے کنارہ کش ہو چکا ہے، اور(چھوٹےتو درکنار) بڑے لوگوں کی ملاقات سے بھی اکتا گیا ہے۔ اور الحمد للہ علمی فوائد سمیٹنا ہی میری تمام تر مصروفیت کا مرکز بن چکا ہے اور مجھے اس سے کبھی فرصت نہیں ملتی۔ چنانچہ کبھی میرا قلم ایسے علمی نکات لکھ رہا ہوتا ہے جن کے صحیح ہونے پر عقل و شریعت دلالت کرتی ہے، اور کبھی میرا سینہ علم کو جمع کر رہا ہوتا ہے، جس سےمیرے نفس کو پاکیزگی اور پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
الحمد للہ کتاب کی پہلی طباعت کو اچھی مقبولیت ملی، یہ دوسری طباعت ہے ، اس میں اور پہلی میں اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں کہ اُس میں اگر کوئی غلطی وغیرہ تھی تو اِ س میں اس کو درست کر دیا گیا ہے اور صفحہ نمبر 32،76،87 پر کچھ اضافے کئے گئے ہیں، زیادہ اضافہ جات اس لئے نہیں کئے کہ میں نے اپنے اوپر کتاب کو مختصر رکھنے کی پابندی عائد کر رکھی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس طباعت کو بھی ایسے ہی نفع بخش بنائے جیسے اس سے پچھلی کو بنایا۔تمام تعریفات صرف تنہا اللہ کے لئے ۔

علی بن محمد عمران
16/1/1422 ھ
------------------------------------
([1]) دیکھئے ان کی کتاب ’’درر العقود الفریدۃ‘‘ (1/50)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ طباعتِ اول
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله:
یہ کتاب علمی افزائش کے گوشوں میں سے ایک اہم گوشے اور وسعتِ معلومات کے ذرائع میں سے ایک بنیادی ذریعہ کو ہمارے لئے نمایاں کرتی ہے۔
یہ کتاب اہل علم کی زندگی کے ایک ایسے رخِ روشن سے پردہ اٹھاتی ہے، جس میں انہوں نے علم کے ساتھ اپنی محبت و وارفتگی اور اس کے حصول و تلاش میں خود کو فنا کر دینے کی بہترین مثالیں قائم کیں، پختہ ترین دلائل مہیا کئے اور واضح ترین شواہد پیش کئے۔
یہ مثالیں اور دلائل بہت زیادہ ہیں اورکئی اقسام کے ہیں، میں نے ان میں سے صرف ان کا انتخاب کیا ہےجو کتابوں کے ساتھ اہل علم کی وابستگی سے تعلق رکھتی ہیں ، خواہ وہ کتابوں کے مطالعہ و تدریس کی صورت میں ہو، ان کی خریداری یا قلمی نسخے تیار کرنے کی صورت میں ہو، ان سے محبت اور ان کا خیال رکھنے کی صورت میں ہویا عجیب حالات اور دلکش انداز میں سفر و قیام میں انہیں اپنے ساتھ رکھنے کی صورت میں ہو، (ان کی عظمت کو سامنے رکھیں تو ) یہ کوئی تعجب کی بات نہیں!!۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علم سے عشق کرنے والوں کی بات کی جائے تو علم سے ان کی بے انتہا محبت اور عشق کسی بھی عاشق کے اپنے معشوق کے ساتھ عشق سے بڑھ کر ہے، اور ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں کہ دنیا کا حسین ترین چہرہ بھی علم سے ان کی توجہ نہیں ہٹا سکتا([1])۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
’’اگر علم کی کوئی مجسم شکل ہوتی تو وہ سورج اور چاند سے بھی بڑھ کر حسین ہوتی۔([2])‘‘
میں کہتا ہوں: جب یہ صورت حال ہے تو عشّاقِ علم کو ملامت کیونکر کی جا سکتی ہے، اور اس کی خاطر مشقتیں برداشت کرنے والے، اور اس کی خاطر سب کچھ تیاگ دینے والے پر تعجب کیسا؟!!

﴿1﴾
علم اور اہل ِ علم کا مقام ومرتبہ اور شان و شوکت عوام الناس سے بھی مخفی نہیں، اور یہ مقام و مرتبہ علم کی نوعیت، اس کی کثرت اور عالم پر اس کے اثر کے حساب سے بڑھتا جاتا ہے۔
چونکہ علم کی فضیلت اس قدر واضح ہے، اس لئے ہمیں اس کی شان بیان کرنے اور اس کے فوائد ثابت کرنے کے لئے دلائل و براہین کا انبار لگانے کی ضرورت نہیں، یہ سب امور اس موضوع پر مستقل لکھی جانے والی بہت سی کتابوں میں جمع شدہ دستیاب ہیں([3]
میرے اس کتاب کو تصنیف کرنے کے دو اسباب ہیں:
پہلا سبب:
میں نے (اور میرے علاوہ دوسرے لوگوں نے)یہ مشاہدہ کیا ہے کہ (باقی لوگ تو درکنار)بہت سے طلاب علم نے بھی علمی کتابوں کو ان کا صحیح مقام و مرتبہ دینا چھوڑ دیا ہے، اور انہیں چھوڑ کر دوسری چیزوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔

· چنانچہ ان میں سے بعض کا تو یہ خیال ہے کہ وہ علم میں ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جس کے بعد انہیں مزید مطالعہ و کتب بینی کی ضرورت نہیں، اوروہ ان القاب ، ڈگریوں ، عہدوں اور شہرت پر اکتفا کر کے بیٹھ گئے ہیں جو انہیں مل چکےہیں۔
سو جیسے ہی ایسے شخص کو کوئی لقب مل جاتا ہے وہ حصول ِ علم سے کنارہ کش ہو جاتا ہے، حالانکہ اس کا دعویٰ اس کے برعکس تھا، وہ کہا کرتا تھا، مجھے یہ’’ لقب‘‘ حاصل کر لینے دو پھر میں حصول ِ علم میں محنت کروں گا۔جانے اسے کیا ہوا کہ وہ اپنے دعوے سے پھر گیا!!
کاش کہ وہ اسی پر بس کر جاتالیکن وہ تو اپنے صوفے پر تکیے سجا کر ، ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ، اللہ کے بندوں پر دھاڑنے لگا، اور طلب ِعلم کی وادی سے نکل کر طلبِ دنیا میں داخل ہو گیا، الغرض وہ اس’’لقب‘‘ سے خود کو بھی دھوکہ دینے لگا اور دوسروں کو بھی۔
اگر القاب اہلیت واستحقاق کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ہوتے، تب بھی اتنی بڑی مصیبت نہ بنتےاور ہم خاموش رہتے، لیکن صورت حال تو اس کے برعکس ہے، چنانچہ بعض اوقات تو القاب خریدے اور بیچے جاتے ہیں، اور بعض اوقات بالکل بے کار مقالہ جات کی بنیاد پر ،اور بعض اوقات دوسروں کے چوری کئے ہوئے مقالہ جات کی بنیاد پر عنایت کر دئے جاتے ہیں، گویا علمی زوال کا ایک منحوس سلسلہ شروع ہو چکاہے۔ تو کیا اس سب کچھ کے بعد کسی سند یا لقب پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟!([4])
کس قدر سچی بات کی ہے عراقی شاعر محمد رضا الشبیبی نے اپنے ان اشعار میں:

فتنةُ الناسٍ -وُقِيْنا الفِتَنا- ... باطلُ الحَمْدِ ومَكْذوبُ الثَّنا
لم تزلْ -ويحكَ يا عصرُ أَفِقْ-
... عَصْرَ ألقابٍ كِبارٍ وكُنىً
حَكَمَ الناسُ على الناسِ بما
... سمعوا عنهم وغَضُّو الأعْيُنا
فاسْتَحالت -وأَنا مِن بعضِهم- ... أُذني عَيْنًا وعيني أُذُنا
’’اللہ ہمیں فتنوں سے بچائے، لوگ جھوٹی تعریف اور ناحق داد کے فتنے میں مبتلا ہیں۔تیرا ستیاناس ہو اے زمانے ہوش میں آ ، توابھی بھی بڑے بڑے القاب اور کنیتوں کا زمانہ ہے۔ لوگ آنکھیں بند کر کے دوسروں کے متعلق محض سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر فیصلہ کر رہے ہیں ۔چونکہ میں بھی لوگوں میں سے ہی ایک شخص ہوں سو میری آنکھیں میرے کان بن چکی ہیں اور میرے کان میری آنکھیں([5]
· ان میں سے دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو کمپیوٹر کمپنیوں کی ایجاد کردہ ان سی ڈیز کے حصول پر قناعت کئے بیٹھے ہیں جن کی پیداوارمیں کمپنیوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے،اور ان میں تمام فنون سے متعلقہ دسیوں بلکہ سینکڑوں کتابیں موجود ہوتی ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سی ڈیز کتب کی خریداری اور ان کے حصول و مطالعہ سے بے نیاز کر دیتی ہیں! انہیں یہ معلوم نہیں کہ ( یا معلوم تو ہے لیکن ...) انہوں نے مرض کی وجہ سے پھولے ہوئے شخص کو طاقتور سمجھ رکھا ہے اور شعلہ دکھائے بغیر لکڑیوں میں پھونکیں مار رہے ہیں ۔ سو انہوں نے اس بہرے آلے کو ([6])وہ مقام و مرتبہ دے دیا ہے جس کا وہ حق دار نہیں، اور اسے وہ جگہ دے رکھی ہے جس کے وہ لائق نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے قافلے سے آگے نکل جائیں، مسائل کی تحقیق کریں ، اور اہلِ علم پر گرفت کریں، حالانکہ یہ ہرگز ممکن نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک بٹن دبانے سے ہو جائے، تعجب ہے ان پر، اور اس سے بھی بڑھ کر تعجب خیز امر یہ ہے کہ وہ اس آلے کی کارکردگی کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں(خود بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں اور دوسروں کو بھی یہ باور کراتے ہیں) اور یوں انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا، کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ ان کے پاس بہت کچھ ہے، وہ بڑا علم رکھتے ہیں اور لوگوں سے بہتر ہیں!!۔
دوسرا سبب:
یہ کتاب لکھنے کا دوسرا سبب لوگوں کی ہمت بندھانا ،شوق بڑھاناہے، اور طلابِ علم کویہ آگاہی فراہم کرنا ہے کہ ان کے بزرگوں میں سے ائمہ وعلماء نے علم حاصل کرنے ،پڑھنے اور پڑھانے میں کس قدر محنت صرف کی اور صبر کا مظاہرہ کیا۔
بلاشبہ یہ زندہ مثالیں اور ان برگزیدہ علماء کی زندگیوں کے سچے واقعات ہمت بندھانے اور جگانے میں کردار ادا کریں گی، علاوہ ازیں اہل علم کے مطالعہ و کتب بینی کے طریقوں کو جاننے، اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہترین طریقہ و قابل اتباع اسلوب کی معرفت حاصل کرنے کے لئےبھی ان مثالوں کی افادیت مخفی نہیں۔
یہاں مقصد آباء و اجداد کی عظمت کے گیت سنا نا اور محض ان پر خوش ہونا نہیں ، بلکہ یہ تو ہماری شان دار تاریخ کے بند صفحات کو کھولنے کی ایک کاوش ہے، اس امید پر کہ شاید یہ سوئے ہوئے جذبوں کو جگا دے، اور بجھے ہوئے عزائم کو جلا دے۔
کہا جاتا ہے: ’’ قصے اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہیں، ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ثابت قدمی نصیب فرماتا ہے‘‘([7])


﴿3﴾
اہل علم کی سیرت کا مطالعہ کرنے والا شخص جو اہم حقائق اور واضح نتائج اخذ کرتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں اس بے بہا دولت([8]) اور ان عظیم خزانوں کی قدر و قیمت کا ادراک تھا، اسی لئے انہوں نے ان پر بہت زیادہ توجہ دی اور ان کے لئے بے حد محنتیں کیں، جن کے چند نمونے آپ کو اس کتاب میں ملیں گے۔
عصر حاضر کے اہل علم کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ نئی نسل کو اس ورثے کی اہمیت سے روشناس کرائیں جو ہمارے آباء و اجداد نے ہمارے لئے چھوڑا ہے، کیونکہ یہ کئی صدیوں پر محیط ان کی عقلوں کا نچوڑ، اور عرصہ ہائے دراز تک ان کی شب بیداریوں اور جمع شدہ معلومات کا خلاصہ ہے۔
اہل علم کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ورثے کا احیاکریں اور اس ترکے کی حفاظت کریں جس کی قدر وقیمت صرف وہی جانتے ہیں، اور اس کی حفاظت کا حق بھی صرف وہی ادا کر سکتے ہیں۔
اس خزانے کی حفاظت اسے محض خوبصورت الماریوں میں سجا دینے سے ، اسے محض ترتیب سے رکھ دینے سے ، اس کی درجہ بندی کر دینے سے اور اس کی تزئین وآرائش کردینے سے ہوگی ، اور نہ ہی اس کی تحقیق اور اسے نشر کرنے سے ، ہرگز نہیں، فقط یہ کام کافی نہیں ہیں۔بلکہ اس کی حفاظت کا بہترین ذریعہ اور افضل ترین طریقہ ایک علمی تحریک کا قیام اور اس کو پروان چڑھانا ہے، ہمتیں بندھانا اور بڑھانا ہے، اس طرح کہ ہم ہرروزمطالعہ کرنے والوں(مطالعہ کا حق ادا کرنے والوں) کی صفوں میں ایک نئی تعداد کا اضافہ کریں، جو کتابوں کی دنیا میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ جائیں اور ان میں موجود تمام مفید باتوں کی چھانٹی کریں، اس طریقے سے ، بلکہ صرف اسی طریقے سے اس خزانے کی حفاظت میں معاون بننے والے امور(مثلاً اس کو الماریوں میں سجانا، اس کی درجہ بندی کرنا اور اس کو نشر کرنا وغیرہ) کی تکمیل و ترقی ممکن ہے۔صرف اسی صورت میں تشنگانِ علم اور متلاشیانِ معرفت جوق در جوق مکمل شوق اور شعور کے ساتھ ان سب امور کی بھی ترقی کے لئے محنت کریں گے، کیونکہ تب انہیں اس کی شدید ضرورت بھی محسوس ہو گی اور وہ اس کی قدرو قیمت کو بھی بہترین طور پر جانتے ہوں گے۔
جب علماء کتابوں کے حصول اور ان کی نقول تیار کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے، اور ان کے مطالعہ و تدریس میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے( جیسا کہ اس کتاب میں آپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی)، تب نہ صرف کتابیں لکھنے اور ان کی نقول تیار کرنے کی تحریک زوروں پر تھی بلکہ کتاب کی ہر اعتبار سے خدمت عروج پر تھی([9]
الغرض جب ہم مطالعہ کرنے والے لوگ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو اس کے ساتھ ہی کتاب سے متعلقہ تمام مسائل حل ہو جائیں گے، بصورت ِ دیگر اللہ کے لئے مجھے بتائیں کہ ان تمام وسائل کا کیا فائدہ جب کوئی ان سے فائدہ اٹھانے والا، ان کا شوق رکھنے والااور ان کا طلبگار ہی نہ ہو گا!!؟

﴿4﴾
مطالعہ اور حصولِ علم میں پست ہمتی ایک بنیادی وجہ ہے جس کے سبب اس خزانے کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا،اگرچہ جہالت، کتابوں کی اہمیت سے ناواقفیت، اور جنگوں اور فتنوں کی کثرت اس کے علاوہ بھی بہت سے نقصانات کا سبب بنی جنہیں معمولی نہیں کہا جا سکتا۔
امام ابن جوزی ﷫ (ت597ھ)بہت سی کتابوں کے ناپید ہونے میں پست ہمتی کو قابل ملامت ٹھہراتے ہوئےفرماتے ہیں([10]): ’’پچھلے علماء کی ہمتیں بلند تھیں، ان کی تصانیف اس بات کی گواہ ہیں، جو ان کی زندگیوں کا نچوڑ ہیں، لیکن ان کی اکثر تصنیفات ناپید ہو چکی ہیں، کیونکہ طلاب علم کے حوصلے پست ہو گئے، وہ مختصر کتابوں کی تلاش میں رہنے لگے اور انہوں نے پہلے پہل تو بڑی کتابوں کا مطالعہ ترک کیا ، پھر انہوں نےان کتابوں کے صرف انہی حصوں پر اکتفا کرنا شروع کر دیاجو انہیں پڑھائے جاتے ، یوں وہ کتابیں ناپید ہو گئیں اور ان کی نقول تیار نہ کی گئیں([11])۔‘‘
جب ابن جوزی ﷫ کا اپنے زمانے کے متعلق یہ تجزیہ ہے ، جبکہ ان کے سامنے اس دور کے علماء میں سے800 جلدوں پر مشتمل کتاب ’’الفنون‘‘ کے مؤلف ابو الوفا ابن عقیل حنبلی(ت513ھ)، بہت سی کتابوں کے مؤلف اور ایک بہت بڑی لائبریری کے مالک ابن خشّاب نحوی(ت567ھ)، ماہرِعلوم وفنون اور کتابوں کے عاشق علامہ ابو العلاء ہمذانی﷫، اور علم و اہل علم کے مُحسن، صالح وزیر و عالم ابن ہبیرہ ([12])﷫(ت560ھ) موجود تھے، تو ہم ایک ایسے زمانے کے متعلق کیا کہہ سکتے ہیں جس میں کمزور حوصلوں اور پست عزائم کے ساتھ ساتھ ایسے امور کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے جو غفلت میں مبتلا کرنے والے ہیں اور نہ صرف کتاب سے بلکہ مجموعی طور پر علم سے ہی دور کرنےوالے ہیں۔
ہم اگر لہو و لعب میں مبتلا کرنے والے امور کے پیچھے یونہی مدہوش چلتے رہے، اور علم و مطالعہ سے دور کرنے والی چیزوں نے ہمیں اپنی چمک دمک اور مصنوعی روشنی میں مگن رکھا تو اس ورثے کو مزید ضائع کر بیٹھیں گے۔ ہائے ہائے کتنا بڑا نقصان ہے اور کتنا بڑا دھوکہ!! کیا کسی طالب علم کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس ورثے کے معمولی ترین حصے کے ضیاع میں بھی معاون بنے ؟ّ
﴿5﴾
میں نے اس کتاب کو درج ذیل فصول میں تقسیم کیا ہے:
پہلی فصل: علم میں اضافے اور بے انتہا وسعت کی ترغیب
دوسری فصل: علماء کی کتابوں سے گہری محبت اور ان کے حصول و مطالعہ کا شوق
تیسری فصل: بڑی بڑی کتابوں کو چند مجالس میں مکمل پڑھنا
چوتھی فصل: ایک ہی کتاب کو کئی مرتبہ پڑھنا
پانچویں فصل: ایک ہی کتاب کو کئی مرتبہ پڑھانا
چھٹی فصل: کتابوں کے قلمی نسخے تیار کرنے اور اس سلسلے میں مشقتیں اٹھانے کا بیان
ساتویں فصل: چنداہم اور خواب غفلت سے جگانے والی باتیں

اس کتاب میں مذکور نصوص میرے علم کے مطابق کسی ایک کتاب میں اکٹھی دستیاب ہیں اور نہ ہی کسی ایک جگہ مدوّن کی گئی ہیں، میں نے انہیں سیرت و سوانح اور تاریخ و طبقات کی کتابوں میں سے جمع کیا ، اور پھر ہر موضوع سے متعلقہ نصوص و واقعات کو متعلقہ فصل میں ذکر کر دیا ہے۔ میں کتاب کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کر رہا بلکہ یہ بات اللہ کی نعمت کے تذکرے کے طور پر اور لوگوں کی بدگمانی سے بچنے کے لئےکہہ رہا ہوں۔ میرا مقصود اس تمام مواد کا احاطہ کرنا نہیں جو ان فصول کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ایسی کوشش نہ تو مفید ہے اور نہ ہی مطلوب([13]
میں کسی تنبیہ یا تصحیح کو قبول کرنے سے شرماتا ہوں اور نہ ہی تکبر کرتا ہوں([14])، بلکہ کسی کی طرف سےتعریف و توصیف سے بڑھ کر تنقید قبول کرنے کے لئے میرا سینہ وسیع ہے!!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے اس کتاب سے جو امید ہے اسے پورا فرمائیں، اور اسے اپنے حضور حسن ِ قبولیت سے نوازیں، اے اللہ ہمیں نفع بخش علم عطا فرما، اور جو علم تو نے ہمیں عطا کیا ہے اسے ہمارے لئے مفیدبنا اور ہمارے علم میں اضافہ فرما، بلاشبہ تو ہر چیزپر مکمل قدرت رکھنے والا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی ہو اس کے بندے اور رسول محمد ﷺپر ، ان کی آل پر اور ان کے صحابہ کرام ﷢ پر۔

علی بن محمد العمران
تاریخ کتابت: 20/4/1420 ھ
مکہ مکرمہ ،ڈاک صندوق نمبر (2928)

------------------------------------
([1]) "روضة المحبين" (ص/69). نیز دیکھئے نواب صدیق حسن قنوجی کی کتاب’’ابجد العلوم‘‘کی فصل ’’لذۃ العلم‘‘ اور ’’مداواۃ النفوس‘‘ از ابن حزم
([2]) حوالۂ بالا
([3]) دیکھئے امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’مفتاح دار السعادۃ‘‘ کی طویل اور شاندار فصل بعنوان (علم کی شان اور فضیلت، سب لوگوں کے لئے اس کی ضرورت کا بیان، اور یہ کہ دنیا و آخرت میں بندے کی نجات و کمال کا دار و مدار علم پر ہے). (1/219۔555، 2/3۔398)
علم کی فضیلت کے موضوع پر مستقل کتابیں بھی تصنیف کی گئی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
’’فضل العلم والعلماء‘‘ از حمید بن زیاد(310)، ’’فرض طلب العلم‘‘ از امام آجری(360)، ’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ از امام ابن عبد البر(463)، ’’الحث علے حفظ العلم‘‘ از عسکری، ابن عساکر اور ابن جوزی، ’’جواہر العقدین فی فضل الشرفین‘‘ از سمہودی(909)، ’’التنبیہ والإعلام بفضل العلم والأعلام‘‘ از عمیری (1178)، ’’تفضیل شرف العلم علی شرف النسب‘‘ از محمد سعید صقر (1194)، ’’إرشاد الطلاب إلی فضیلۃ العلم والعمل والآداب‘‘ از محمد بن مانع (1385).
([4]) بعض اچھے لوگوں نے بھی حالات کے دباؤ کی وجہ سے ان ’’ جادوئی القابات‘‘ کو ہی سب کچھ قرار دے دیا، چنانچہ انہیں یقین بھی ہے کہ ان القابات کی کوئی حیثیت نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے نام سے پہلے یہ القاب لکھے بنا نہیں رہ سکتے، اللہ کی قسم اگر ان کے نام سے پہلے وہ تمام القابات و تمغے لکھ دیے جائیں جو وہ خواہش رکھتے ہیں، تب بھی یہ انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکیں، لیکن یہ لقب ہے کہ جس کے چھن جانے سے سب کچھ چھن جاتا ہے۔
ان میں سے بعض لوگ ایک دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں، چنانچہ جیسے ہی انہیں کسی ’’لقب‘‘ والی ڈگری ملتی ہے، وہ فوراً اسے خوبصورت انداز میں لکھ کر اپنی لائبریری کے باہر نمایاں جگہ پر لگا دیتے ہیں، اور اپنی زبان ِ جال سے کہہ رہے ہوتے ہیں: کمال ہو گیا! میں تو پختہ اہل علم کے مرتبے پر فائز ہو چکا ہوں!!

وكم من شهاداتٍ يَغُرُّ جمالُها
وقيمَتُها النَّقْش الذي في إطارِها

کتنی ہی ڈگریاں ایسی ہیں جن کی خوبصورتی دھوکے میں ڈال دیتی ہے، حالانکہ ان کی قیمت ان نقش و نگار سے زیادہ نہیں جن میں انہیں رکھا گیا ہوتا ہے۔
([5]) دیکھئے کتاب: ’’تغریب الألقاب العلمیۃ‘‘ (ص/33).
([6]) اس سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ کمپیوٹر کی کوئی قدروقیمت اور فائدہ نہیں، یقیناً اس کے بہت سے فوائد ہیں جنہیں ان کے اصلی مقام پر رکھنا چاہئے، اور وہ اپنے مقام سے تجاوز نہیں کر سکتے، گو یہاں کمپیوٹر کے فوائد اور خوبیاں شمار کرنے کا محل نہیں۔
([7]) ’’أزھار الریاض‘‘ (1/22).
([8]) یقیناً یہ ایک بے بہا دولت ہے، اس کے متعلق مزید جاننے کے لئے دیکھئے: کتانی کی کتاب ’’التراتیب الإداریۃ کی ایک فصل (2/452۔462)، الحجْوی کی کتاب ’’الفکر السامی‘‘ (2/48۔51)، الحلوجی کی کتاب’’لمحات من تاریخ الکتب والمکتبات‘‘ (ص/39۔41)، یحیی الجبوری کی ’’الکتاب فی الحضارۃ الإسلامیۃ‘‘ (ص/169۔244).
([9]) دیکھئے: دی طرّازی کی کتاب ’’خزائن الکتب العربیۃ‘‘ کی فصل ’’بزرگوں کی کتابوں کی حفاظت کے حوالے سے مسلمان بادشاہوں کا کردار‘‘ (3/855۔857)، اسی کتاب کی فصل بعنوان ’’مسلمانوں کا کثرت سے کتابوں کے قلمی نسخے تیار کرنے کا بیان‘‘ (3/898۔899)
([10]) ان سے پہلے امام ابن جریر نے تفسیر و تاریخ کی تدوین کے حوالے سے اپنے مشہور قصے میں یہی بات کہی ہے، اسی طرح امام ابن عبد البر نے ’’جامع بیان العلم‘‘ (1/21) میں علمی زوال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’حالانکہ اللہ کی قسم علم کا ایک بہت بڑا حصہ بے توجہی، لاپرواہی اور دنیا ميں مگن ہو جانے اور اس پر ٹوٹ پڑنے کی وجہ سے ضائع ہو گیاہے‘‘ ایسی ہی بات واحدی (468) نے بھی اپنی کتاب ’’الوجیز‘‘ کے مقدمے میں کہی ہے۔
([11]) دیکھئے: ’’صید الخاطر‘‘ (ص/556۔557)
([12]) اور یہ چاروں حنبلی ہیں رحمہم اللہ تعالی۔
([13]) مفید نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کتاب کا حجم بڑھ جائے گا اور ہمیں کسی اور شوق دلانے والے کی ضرورت پڑ جائے گی جو ہمیں اس کتاب ’’المشوق‘‘ کو پڑھنے کی ترغیب دے۔
اور مطلوب نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس قسم کی کوشش محض خیالی پلاؤ اور بد انتظامی کی قبیل سے ہے، بھلا کوئی تمام کتب تاریخ اور ان سے متعلقہ کتب کا احاطہ کر سکتا ہے!؟۔
([14]) یہاں میں اپنے بھائی الاستاذ خالد الزھرانی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے بعض واقعات اور قصے مہیا کئے۔
 
Last edited:
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top