وقار عظیم
مبتدی
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 41
- ری ایکشن اسکور
- 28
- پوائنٹ
- 28
عمر بن عبد العزیز کی وصیت بدعتیوں کے نام
37 - سنت کا بیان : (178)
ابن صیاد کا بیان
حدثنا محمد بن کثير قال حدثنا سفيان قال کتب رجل إلی عمر بن عبد العزيز يسأله عن القدر ح و حدثنا الربيع بن سليمان المؤذن قال حدثنا أسد بن موسی قال حدثنا حماد بن دليل قال سمعت سفيان الثوري يحدثنا عن النضر ح و حدثنا هناد بن السري عن قبيصة قال حدثنا أبو رجا عن أبي الصلت وهذا لفظ حديث ابن کثير ومعناهم قال کتب رجل إلی عمر بن عبد العزيز يسأله عن القدر فکتب أما بعد أوصيک بتقوی الله والاقتصاد في أمره واتباع سنة نبيه صلی الله عليه وسلم وترک ما أحدث المحدثون بعد ما جرت به سنته وکفوا مؤنته فعليک بلزوم السنة فإنها لک بإذن الله عصمة ثم اعلم أنه لم يبتدع الناس بدعة إلا قد مضی قبلها ما هو دليل عليها أو عبرة فيها فإن السنة إنما سنها من قد علم ما في خلافها ولم يقل ابن کثير من قد علم من الخطإ والزلل والحمق والتعمق فارض لنفسک ما رضي به القوم لأنفسهم فإنهم علی علم وقفوا وببصر نافذ کفوا وهم علی کشف الأمور کانوا أقوی وبفضل ما کانوا فيه أولی فإن کان الهدی ما أنتم عليه لقد سبقتموهم إليه ولن قلتم إنما حدث بعدهم ما أحدثه إلا من اتبع غير سبيلهم ورغب بنفسه عنهم فإنهم هم السابقون فقد تکلموا فيه بما يکفي ووصفوا منه ما يشفي فما دونهم من مقصر وما فوقهم من محسر وقد قصر قوم دونهم فجفوا وطمح عنهم أقوام فغلوا وإنهم بين ذلک لعلی هدی مستقيم کتبت تسأل عن الإقرار بالقدر فعلی الخبير بإذن الله وقعت ما أعلم ما أحدث الناس من محدثة ولا ابتدعوا من بدعة هي أبين أثرا ولا أثبت أمرا من الإقرار بالقدر لقد کان ذکره في الجاهلية الجهلا يتکلمون به في کلامهم وفي شعرهم يعزون به أنفسهم علی ما فاتهم ثم لم يزده الإسلام بعد إلا شدة ولقد ذکره رسول الله صلی الله عليه وسلم في غير حديث ولا حديثين وقد سمعه منه المسلمون فتکلموا به في حياته وبعد وفاته يقينا وتسليما لربهم وتضعيفا لأنفسهم أن يکون شي لم يحط به علمه ولم يحصه کتابه ولم يمض فيه قدره وإنه مع ذلک لفي محکم کتابه منه اقتبسوه ومنه تعلموه ولن قلتم لم أنزل الله آية کذا لم قال کذا لقد قروا منه ما قرأتم وعلموا من تأويله ما جهلتم وقالوا بعد ذلک کله بکتاب وقدر وکتبت الشقاوة وما يقدر يکن وما شا الله کان وما لم يشأ لم يکن ولا نملک لأنفسنا ضرا ولا نفعا ثم رغبوا بعد ذلک ورهبوا
سنن ابوداؤد:جلد سوم
محمد بن کثیر، سفیان، عمر بن عبدالعزیز (یہ حدیث تین سند سے مروی ہے۔ سفیان ثوری کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے ۔ دوسری سند۔ سفیان ثوری نضر سے روایت کرتے ہیں کہ۔ تیسری سند) ابورجاء نے ابوالصلت سے روایت کیا کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں پوچھنے کے لئے تو انہوں نے لکھا کہ اما بعد۔ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس کے معاملہ میں راہ اعتدال پر چلنے کی۔ اور اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کی وصیت کرتا ہوں اور اہل بدعت و مبتدعین نے جو کچھ دین میں ایجاد کرلیا ہے اسے چھوڑنے کی۔ سنت نبوی کے جاری ساری ہونے کے بعد(کہ ان لوگون نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جاری ہونے کے بعد یہ نت نئی باتیں نکالیں) اور اس کی مشقت سے وہ سبکدوش ہوگئے تھے۔(یعنی ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ دین کے نام پر نت نئی باتیں نکالتے) پس تم پر لازم ہے کہ سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھو کیونکہ وہ تمہارے لئے اللہ کے حکم سے بچاؤ(اور ڈھال) ہے(گمراہی سے) پھر جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں ایجاد کی پچھلے زمانہ میں اس کے بطلان پر دلیل نہ ہو۔ یا اس کے اندر لوگوں کو عبرت نہ ہوئی ہو کیونکہ سنت کا اجراء ایسے شخص اور ہستی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا جسے معلوم تھا کہ اس کی سنت کے خلاف میں کیا کیا خطائیں لغزشیں، حماقتیں اور گہرائیاں ہیں پس تم اپنے نفس کے لئے اس چیز کو پسند کر لو۔جو جماعت صحابہ اور اسلاف امت نے اپنے لئے پسند کیا تھا (سنت نبوی) کیونکہ وہ علم دین سے واقف تھے اور بہت باریک بینی اور غور و فکر سے کام لے کر ممنوعات سے رک گئے تھے اور وہ احکام دین کا مطلب سمجھنے پر ہم سے زیادہ اقوی اور قادر تھے اور ان کے اندر جو فضائل تھے ان کی بناء پر وہ اور زیادہ بہتر تھے اور تم جس طریقہ پر رہو اگر اس میں ہدایت ہوتی تو تم ان پر سبقت کر گئے اور اگر تم یہ کہو کہ جس نے ان کے بعد نئی نئی باتیں ایجاد کیں تو وہ ان کے طریقہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض وبیزاری کا اظہار کیا تو بے شک ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ وہی سبقت لے جانے والے ہیں پس انہوں نے جتنا کافی ہے اتنا بیان کردیا اس بارے میں جتنا شافی ہے وہ کہہ دیا پس ان کے پیچھے بھی کوئی کمی نہیں اور ان کے اوپر بھی کوئی زیادتی نہیں اور بے شک ایک قوم نے کوتاہی کی ان کے نیچے تو انہوں نے جفا اور ظلم کیا اور بعض لوگ ان سے اونچے ہوگئے تو انہوں نے غلو سے کام لیا۔ اور بے شک اسلام امت ان کے دونوں کے درمیان صراط مستقیم پر تھے تم نے تقدیر کے اقرار کے بارے میں سوال لکھا ہے تو اللہ کے حکم سے تم نے ایک عالم اور ایک باخبر آدمی سے پوچھا ہے تو جہاں تک میرے علم میں ہے لوگوں نے جتنی بدعات اور نئی باتیں ایجاد کی ہیں ان میں تقدیر پر اقرار کا بیان خوب واضح ہے اور مضبوط ہے دور جاہلیت میں اس کا تذکرہ تھا حتی کہ جہلاء اس کے بارے میں کلام کرتے تھے اپنی گفتگو میں اور اپنے اشعار میں اور اس کے ذریعہ سے اپنی ضائع اور فوت ہوجانے والی اشیاء پر صبر کرتے تھے پھر اسلام نے اس میں سوائے شدت کے کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اور بے شک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا تذکرہ کیا ہے ایک یا دو حدیثوں میں نہیں اور مسلمانوں نے اس کو سنا آپ سے اور اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور وفات کے بعد گفتگو بھی کرتے رہے اپنے پروردگار پریقین رکھتے ہوئے اور تسلیم کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو کمزور کرتے ہوئے کہ کوئی ایسی چیز ہو جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو اور اس کی کتاب نے اسے شمار نہ کیا ہو اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوئی ہو (ایسی کوئی چیز نہیں) اور ان کے اس ایمان کے باوجود اللہ کی محکم کتاب میں تقدیر کا ذکر موجود ہے اس سے ہی انہوں نے اقتباس لیا اس بارے میں اور اس سے تقدیر کا علم سیکھا اور اگر تم یہ کہو کہ اللہ نے فلاں آیت کیوں نازل کی؟ اور فلاں بات کیوں کہی؟ تو بے شک وہ (اسلاف امت) اس میں وہ آیتیں پڑھ چکے ہیں جو تم پڑھتے ہو اور اس کی تاویل ومطلب بھی جانتے تھے جس سے تم جاہل ہو اور اس سب کے باوجود کتاب اللہ اور تقدیر کے قائل رہے(اس کا اقرارکیا) اور جو کچھ مقدر کردیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا اور جو اللہ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو وہ نہیں چاہے گا نہیں ہوگا اور ہم اپنے آپ کے لئے نہ نفع کے ہیں اور نہ نقصان پر قدرت رکھتے ہیں پھر اسی یقین کے ساتھ اس کے بعد رغبت کرتے رہے اور ڈرتے رہے۔ (اعمال شر سے)
37 - سنت کا بیان : (178)
ابن صیاد کا بیان
حدثنا محمد بن کثير قال حدثنا سفيان قال کتب رجل إلی عمر بن عبد العزيز يسأله عن القدر ح و حدثنا الربيع بن سليمان المؤذن قال حدثنا أسد بن موسی قال حدثنا حماد بن دليل قال سمعت سفيان الثوري يحدثنا عن النضر ح و حدثنا هناد بن السري عن قبيصة قال حدثنا أبو رجا عن أبي الصلت وهذا لفظ حديث ابن کثير ومعناهم قال کتب رجل إلی عمر بن عبد العزيز يسأله عن القدر فکتب أما بعد أوصيک بتقوی الله والاقتصاد في أمره واتباع سنة نبيه صلی الله عليه وسلم وترک ما أحدث المحدثون بعد ما جرت به سنته وکفوا مؤنته فعليک بلزوم السنة فإنها لک بإذن الله عصمة ثم اعلم أنه لم يبتدع الناس بدعة إلا قد مضی قبلها ما هو دليل عليها أو عبرة فيها فإن السنة إنما سنها من قد علم ما في خلافها ولم يقل ابن کثير من قد علم من الخطإ والزلل والحمق والتعمق فارض لنفسک ما رضي به القوم لأنفسهم فإنهم علی علم وقفوا وببصر نافذ کفوا وهم علی کشف الأمور کانوا أقوی وبفضل ما کانوا فيه أولی فإن کان الهدی ما أنتم عليه لقد سبقتموهم إليه ولن قلتم إنما حدث بعدهم ما أحدثه إلا من اتبع غير سبيلهم ورغب بنفسه عنهم فإنهم هم السابقون فقد تکلموا فيه بما يکفي ووصفوا منه ما يشفي فما دونهم من مقصر وما فوقهم من محسر وقد قصر قوم دونهم فجفوا وطمح عنهم أقوام فغلوا وإنهم بين ذلک لعلی هدی مستقيم کتبت تسأل عن الإقرار بالقدر فعلی الخبير بإذن الله وقعت ما أعلم ما أحدث الناس من محدثة ولا ابتدعوا من بدعة هي أبين أثرا ولا أثبت أمرا من الإقرار بالقدر لقد کان ذکره في الجاهلية الجهلا يتکلمون به في کلامهم وفي شعرهم يعزون به أنفسهم علی ما فاتهم ثم لم يزده الإسلام بعد إلا شدة ولقد ذکره رسول الله صلی الله عليه وسلم في غير حديث ولا حديثين وقد سمعه منه المسلمون فتکلموا به في حياته وبعد وفاته يقينا وتسليما لربهم وتضعيفا لأنفسهم أن يکون شي لم يحط به علمه ولم يحصه کتابه ولم يمض فيه قدره وإنه مع ذلک لفي محکم کتابه منه اقتبسوه ومنه تعلموه ولن قلتم لم أنزل الله آية کذا لم قال کذا لقد قروا منه ما قرأتم وعلموا من تأويله ما جهلتم وقالوا بعد ذلک کله بکتاب وقدر وکتبت الشقاوة وما يقدر يکن وما شا الله کان وما لم يشأ لم يکن ولا نملک لأنفسنا ضرا ولا نفعا ثم رغبوا بعد ذلک ورهبوا
سنن ابوداؤد:جلد سوم
محمد بن کثیر، سفیان، عمر بن عبدالعزیز (یہ حدیث تین سند سے مروی ہے۔ سفیان ثوری کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے ۔ دوسری سند۔ سفیان ثوری نضر سے روایت کرتے ہیں کہ۔ تیسری سند) ابورجاء نے ابوالصلت سے روایت کیا کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں پوچھنے کے لئے تو انہوں نے لکھا کہ اما بعد۔ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس کے معاملہ میں راہ اعتدال پر چلنے کی۔ اور اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کی وصیت کرتا ہوں اور اہل بدعت و مبتدعین نے جو کچھ دین میں ایجاد کرلیا ہے اسے چھوڑنے کی۔ سنت نبوی کے جاری ساری ہونے کے بعد(کہ ان لوگون نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جاری ہونے کے بعد یہ نت نئی باتیں نکالیں) اور اس کی مشقت سے وہ سبکدوش ہوگئے تھے۔(یعنی ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ دین کے نام پر نت نئی باتیں نکالتے) پس تم پر لازم ہے کہ سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھو کیونکہ وہ تمہارے لئے اللہ کے حکم سے بچاؤ(اور ڈھال) ہے(گمراہی سے) پھر جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں ایجاد کی پچھلے زمانہ میں اس کے بطلان پر دلیل نہ ہو۔ یا اس کے اندر لوگوں کو عبرت نہ ہوئی ہو کیونکہ سنت کا اجراء ایسے شخص اور ہستی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا جسے معلوم تھا کہ اس کی سنت کے خلاف میں کیا کیا خطائیں لغزشیں، حماقتیں اور گہرائیاں ہیں پس تم اپنے نفس کے لئے اس چیز کو پسند کر لو۔جو جماعت صحابہ اور اسلاف امت نے اپنے لئے پسند کیا تھا (سنت نبوی) کیونکہ وہ علم دین سے واقف تھے اور بہت باریک بینی اور غور و فکر سے کام لے کر ممنوعات سے رک گئے تھے اور وہ احکام دین کا مطلب سمجھنے پر ہم سے زیادہ اقوی اور قادر تھے اور ان کے اندر جو فضائل تھے ان کی بناء پر وہ اور زیادہ بہتر تھے اور تم جس طریقہ پر رہو اگر اس میں ہدایت ہوتی تو تم ان پر سبقت کر گئے اور اگر تم یہ کہو کہ جس نے ان کے بعد نئی نئی باتیں ایجاد کیں تو وہ ان کے طریقہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض وبیزاری کا اظہار کیا تو بے شک ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ وہی سبقت لے جانے والے ہیں پس انہوں نے جتنا کافی ہے اتنا بیان کردیا اس بارے میں جتنا شافی ہے وہ کہہ دیا پس ان کے پیچھے بھی کوئی کمی نہیں اور ان کے اوپر بھی کوئی زیادتی نہیں اور بے شک ایک قوم نے کوتاہی کی ان کے نیچے تو انہوں نے جفا اور ظلم کیا اور بعض لوگ ان سے اونچے ہوگئے تو انہوں نے غلو سے کام لیا۔ اور بے شک اسلام امت ان کے دونوں کے درمیان صراط مستقیم پر تھے تم نے تقدیر کے اقرار کے بارے میں سوال لکھا ہے تو اللہ کے حکم سے تم نے ایک عالم اور ایک باخبر آدمی سے پوچھا ہے تو جہاں تک میرے علم میں ہے لوگوں نے جتنی بدعات اور نئی باتیں ایجاد کی ہیں ان میں تقدیر پر اقرار کا بیان خوب واضح ہے اور مضبوط ہے دور جاہلیت میں اس کا تذکرہ تھا حتی کہ جہلاء اس کے بارے میں کلام کرتے تھے اپنی گفتگو میں اور اپنے اشعار میں اور اس کے ذریعہ سے اپنی ضائع اور فوت ہوجانے والی اشیاء پر صبر کرتے تھے پھر اسلام نے اس میں سوائے شدت کے کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اور بے شک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا تذکرہ کیا ہے ایک یا دو حدیثوں میں نہیں اور مسلمانوں نے اس کو سنا آپ سے اور اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور وفات کے بعد گفتگو بھی کرتے رہے اپنے پروردگار پریقین رکھتے ہوئے اور تسلیم کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو کمزور کرتے ہوئے کہ کوئی ایسی چیز ہو جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو اور اس کی کتاب نے اسے شمار نہ کیا ہو اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوئی ہو (ایسی کوئی چیز نہیں) اور ان کے اس ایمان کے باوجود اللہ کی محکم کتاب میں تقدیر کا ذکر موجود ہے اس سے ہی انہوں نے اقتباس لیا اس بارے میں اور اس سے تقدیر کا علم سیکھا اور اگر تم یہ کہو کہ اللہ نے فلاں آیت کیوں نازل کی؟ اور فلاں بات کیوں کہی؟ تو بے شک وہ (اسلاف امت) اس میں وہ آیتیں پڑھ چکے ہیں جو تم پڑھتے ہو اور اس کی تاویل ومطلب بھی جانتے تھے جس سے تم جاہل ہو اور اس سب کے باوجود کتاب اللہ اور تقدیر کے قائل رہے(اس کا اقرارکیا) اور جو کچھ مقدر کردیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا اور جو اللہ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو وہ نہیں چاہے گا نہیں ہوگا اور ہم اپنے آپ کے لئے نہ نفع کے ہیں اور نہ نقصان پر قدرت رکھتے ہیں پھر اسی یقین کے ساتھ اس کے بعد رغبت کرتے رہے اور ڈرتے رہے۔ (اعمال شر سے)