عورتوں کا قبروں کی زیارت کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قبر کی زیارت کے لیے مردوں اور عورتوں کے لیے کیا حکم ہے۔ کئی مولوی حضرات کہتے ہیں کہ پہلے نبی کریمﷺنے منع فرمایا تھا اور بعد میں رخصت دے دی۔ اور اس کی ہم نے تحقیق کی تو دونوں طرح کی احادیث موجود تھیں۔ مشکوٰۃ شریف میں اور ایک سنن ابوداود کی حدیث پڑھی جس پر لکھا ہوا تھا کہ (لعنت ہو ان عورتوں پر جو قبروں کی زیارت کرتی ہیں اور چراغاں کرنے والے پر اور مجاور بننے والے پر) تو اس سے ذہن الجھ گیا اب آپ مہربانی کر کے ذرا وضاحت سے تحریر سمجھا دیں۔ نوازش ہو گی؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات درست ہے کہ رسول اللہﷺنے پہلے پہل زیارت قبور سے منع فرما دیا تھا بعد میں آپﷺ نے اجازت دے دی۔(ترمذی۔الجلدالاول۔ابواب الجنائز۔باب ماجاء فی الرخصۃ فی زیارۃ القبور)
اور اس اجازت میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں مگر شرط یہ ہے کہ محض زیارت قبور کی خاطر
شدر حال نہ ہو (یعنی دوسرے علاقہ میں سفر کرکے نہ جانا ہو ) اور عورت بکثرت زیارت نہ کرے کیونکہ حدیث میں ہے :
«لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلٰی ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ»بخارى-كتاب فضل الصلاة فى مسجد مكة,المدية باب فضل الصلاة فى مسجدمكة والمدينة الخ ’’نہ سامان سفر باندھا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف‘‘ اور ترمذی شریف میں ہے«
لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ زَوَّارَاتِ الْقُبُوْرَ»تحفه3/156 ’’رسول اللہﷺ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی جو بکثرت زیارت قبور کریں‘‘
مزید تفصیل کے لیے شیخ البانی حفظہ اللہ کی کتاب احکام الجنائز کا مطالعہ فرمائیں ۔ خصوصاً صفحہ ۱۷۸ تا ۱۸۷۔
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
جنازے کے مسائل ج1ص 266
محدث فتویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توعورتوں کا زیارت قبور کی نیت سے قبرستان جانا جائز امرہے، بہ شرطے کہ شرعی آداب و حدود کو ملحوظ رکھا جائے، یعنی ستر و حجاب سے متعلق احکام کی پابندی کی جائے اور نالہ و شیون سے گریز کیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے اول اول مرد و زن ہر دو کو قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا، لیکن بعدازاں یہ ممانعت ختم کردی اور فرمایا :
’کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور ألا فزوروہا فانہا ترق القلب، وتدمع العین وتذکر الآخرۃ… الحدیث‘ (مستدرک الحاکم:376/1)
’’میں نے تمہیں زیارت قبور سے روکا تھا، لیکن اب تم ان کی زیارت کیا کرو کہ اس سے رقت قلب پیدا ہوتی ہے، آنکھیں پرنم ہوتی ہیں اور آخرت کی یاد آتی ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ جس طرح ممانعت مردوں اور عورتوں کے لیے یک ساں تھی، اسی طرح اب زیارت قبور کا حکم بھی دونوں ہی کے لیے ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے زیارت قبور کے جو مقاصد اور حکمتیں بیان فرمائی ہیں، خواتین کو بھی ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ مردوں کو، لہٰذا اگر وہ ان کے پیش نظر قبرستان جانا چاہیں، تو ان شرائط کو ملحوظ رکھ کر جاسکتی ہیں ،
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی موقف ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ
ایک مرتبہ سیدہ اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبر سے واپس آرہی تھیں کہ عبداللہ بن ابی ملیکہ نے استفسار کیا کہ کیا رسول خدا ﷺنے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا؟ ام المومنین نے جواب دیا: ہاں یہ درست ہے، لیکن بعدازاں آپ ﷺ نے اس کی رخصت مرحمت فرما دی تھی۔ (مستدرک الحاکم:376/1)
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ قبروں کے پاس کیا کہنا چاہیے، تو آں حضرت ﷺ نے یہ کلمات سکھلائے:
السَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ، وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ. (مسلم:974)
’’اے ان گھروں والے مومنو اور مسلمانو! تم پر سلامتی ہو۔ ہم میں سے آگے جانے والوں اور پیچھے رہنے والوں پر خدا سلامتی فرمائے اور خدا نے چاہا تو ہم بھی جلد ہی تمھیں ملنے والے ہیں۔‘‘
اس سے استدلال یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ نہیں فرمایاکہ عورتوں کے لیے تو زیارت قبور ہی ممنوع ہے پھر دعا کا سوال کیسا؟ بل کہ آپ ﷺ نے انھیں باقاعدہ دعا بتلائی جس سے عورتوں کے لیے زیارتِ قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک خاتون کے پاس سے گزرے جو قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی، تو آں حضور ﷺ نے فرمایا:
’اتقی اللہ واصبری‘ ، یعنی ’خدا سے ڈرو اور صبر سے کام لو۔‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سے عورتوں کے لیے زیارت قبور کا اثبات ہوتا ہے، کیوں کہ رسول اللہﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی اور آں حضرت ﷺ کی تقریر یعنی کسی کام کو دیکھ کر خاموش رہنا اور منع نہ فرمانا بھی حجت ہے۔
بعض علما کے نزدیک عورتوں کا قبرستان جانا حرام اور ناجائز ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
’لعن رسول اللہ زائرات القبور‘
یعنی ’رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘
اس ضمن میں محدث زماں علامہ ناصر البانی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ اس حدیث میں ’زائرات‘ کے بجاے
’زوّارات‘ کا لفظ درست ہے (جو مبالغہ کا صیغہ ہے )۔ اس صور ت میں حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ آں حضرت ﷺ نے اُن عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت کے ساتھ قبروں کی زیارت کرتی ہیں۔چنانچہ خواتین کو بہت زیادہ قبرستان میں نہیں جانا چاہیے، البتہ کبھی کبھار قبروں کی زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو:احکام الجنائز وبدعہا للالبانی،ص:229-237
حوالہ