کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
نفاس سے متعلقہ اَحکام
درج ذیل اُمور میں احکام نفاس ، احکام حیض کی مانند ہیں:
اگر نفاس والی عورت کا خون چالیس دن سے پہلے ہی منقطع ہوگیا اور اس نے غسل کرکے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا شروع کردیا۔ پھر چالیس دن سے پہلے اس کا خون دوبارہ لوٹ آیا تو صحیح رائے کے مطابق اس کو نفاس ہی شمار کیا جائے گا اور وہ نماز روزہ سے رُک جائے گی اور درمیانی حالت طہر کے وقفہ میں رکھے گئے روزے درست اور صحیح ہوں گے ان کی قضاء نہیں کرے گی۔
[انظر مجمو ع فتاویٰ الشیخ محمد بن إبراہیم:۲؍۱۰۲، وفتاویٰ الشیخ عبدالعزیز بن باز:۱؍۴۴، و حاشیۃ ابن القاسم علی شرح الزاد :۱؍۴۰۵،والدماء الطبیعیۃ للنسائ، ص ۵۵،۵۶،والفتاویٰ السعدیۃ، ص۱۳۷]
فائدہ
شیخ عبدالرحمن بن سعدیؒ فرماتے ہیں:
درج ذیل اُمور میں احکام نفاس ، احکام حیض کی مانند ہیں:
٭ حضرت اُم سلمہ رض سے مروی ہے:1۔حائضہ کی مانند نفاس والی عورت سے جماع کرنا حرام ہے، جماع کے علاوہ استمتاع مباح ہے۔
2۔حائضہ کی مانند نفاس والی عورت پر روزہ رکھنا، نماز پڑھنا اور بیت اللہ کا طواف کرنا حرام ہے۔
3۔حائضہ کی مانند نفاس والی عورت پر مصحف کو چھونا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا حرام ہے،لیکن اگر بھول جائے کا اندیشہ ہو تو مصحف کو ہاتھ لگائے بغیر تلاوت کر سکتی ہے۔
4۔حائضہ کی مانند نفاس والی عورت پر چھوڑے گئے فرض روزوں کی قضا کرنا واجب ہے۔
5۔ حائضہ کی مانند نفاس والی عورت پر انتہاء حیض کے وقت غسل کرنا واجب ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ [المنتقیٰ:۱؍۱۸۴] میں فرماتے ہیں:’’کَانَتِ النُّفَسَائُ تَجْلِسُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ أرْبَعِیْنَ یَوْمًا‘‘ [سنن أبوداؤد:۳۱۱]
’’عہد نبویﷺ میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک (نماز روزہ ادا کرنے سے) بیٹھی رہتی تھیں۔‘‘
٭ سیدہ اُم سلمٰہ رض سے مروی ہے:میرے نزدیک اس حدیث کا معنی ہے کہ عورتوں کو چالیس دن تک (نماز، روزہ ادا کرنے سے) بیٹھنے کا حکم دیا جاتا تھا، تاکہ یہ خبر جھوٹی نہ ہو، کیونکہ حیض یا نفاس میں کسی بھی زمانے کی عورتوں کی عادت کا متفق ہونا ناممکن ہے۔انتہیٰ
فائدہ’’کَانَتِ الْمَرْأة مِنْ نِسَائِ النَّبِیِّ تَقْعُدُ فِیْ النِّفَاسِ أرْبَعِیْنَ لَیْلَة لَا یَأمُرُھَا النَّبِیُّ بِقَضَائِ صَلاة النَّفَاسِ‘‘ [أبوداؤد:۳۱۲]
’’ازواج النبیؐ میں سے کوئی عورت حالت نفاس میں چالیس (دن) راتوں تک (نماز روزہ ادا کرنے سے) بیٹھی رہتی تھی اور نبی کریمﷺ اسکو حالت نفاس میںچھوڑی گئی نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیتے تھے۔‘‘
اگر نفاس والی عورت کا خون چالیس دن سے پہلے ہی منقطع ہوگیا اور اس نے غسل کرکے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا شروع کردیا۔ پھر چالیس دن سے پہلے اس کا خون دوبارہ لوٹ آیا تو صحیح رائے کے مطابق اس کو نفاس ہی شمار کیا جائے گا اور وہ نماز روزہ سے رُک جائے گی اور درمیانی حالت طہر کے وقفہ میں رکھے گئے روزے درست اور صحیح ہوں گے ان کی قضاء نہیں کرے گی۔
[انظر مجمو ع فتاویٰ الشیخ محمد بن إبراہیم:۲؍۱۰۲، وفتاویٰ الشیخ عبدالعزیز بن باز:۱؍۴۴، و حاشیۃ ابن القاسم علی شرح الزاد :۱؍۴۰۵،والدماء الطبیعیۃ للنسائ، ص ۵۵،۵۶،والفتاویٰ السعدیۃ، ص۱۳۷]
فائدہ
شیخ عبدالرحمن بن سعدیؒ فرماتے ہیں:
مذکورہ بالا کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ دم نفاس کا سبب ولادت، دم استحاضہ کا سبب بیماری وغیرہ ہے، جبکہ خون حیض ہی اصلی خون ہے۔ واللہ اعلم (انظر کتاب إرشاد أولی الأبصار والألباب ، ص۲۴)