عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
عورتوں کی عزت وہی کرتا ہے جو عزت دار ہوتا ہے
* از قلم :*
*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ*
* ناشر :*
*البلاغ اسلامک سینٹر*
=================================
*الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین، اما بعد :*
*محترم قارئین!* عورتوں سے متعلق درج ذیل پوسٹ فیس بک اور واٹسیپ پر کثرت سے گردش کر رہی ہے:
* عورتوں کے بارے میں وہ پانچ باتیں جو اکثر مردوں کو یاد ہوتی ہیں:*
*1- ”إن كيدهن عظيم“
عورتوں کی چال بہت خطرناک ہوتی ہے۔*
*2- ”مثنی و ثلاث ورباع“
دو، تین، چار عورتوں سے نکاح کرو۔*
*3- ”النساء ناقصات عقل و دين“
عورتیں عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ہوتی ہیں۔*
*4- ”الرجال قوامون على النساء“
مرد عورتوں پر سربراہ ہیں۔*
*5- ”للذكر مثل حظ الأنثيين“
(وراثت میں) مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔*
* عورتوں کے بارے میں وہ پانچ باتیں جو اکثر مردوں کو یاد نہیں رہتیں :*
*1- ”وعاشروهن بالمعروف“
عورتوں کے ساتھ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارو۔*
*2- ”استوصوا بالنساء خيرا“
عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا خیال رکھنا ۔*
*3- ”رفقا بالقوارير“
(عورتیں شیشے کی طرح ہیں) ان شیشوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔*
*4- ”خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي“
تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہترین ہو اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔*
*5- ”ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم“
عورتوں کی عزت وہی کرے گا جو خود عزت دار ہوگا اور ان کی اہانت اور بے عزتی وہی کرے گا جو خود بے عزت ہوگا۔*
راقم عرض کرتا ہے کہ مذکورہ پوسٹ میں وارد تمام نصوص قابل احتجاج ہیں سوائے آخری حدیث کے، وہ ”موضوع“ ہے۔
*تفصیل پیش خدمت ہے:*
امام ابو القاسم علی بن الحسن، المعروف بابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی :571ھ) فرماتے ہیں:
”أخبرنا أبو القاسم علي بن إبراهيم، اخبرني القاضي أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن بن عبد الله بن أبي العجائز، حدثني أبي ح.
واخبرنا أبو الحسن بن أبي الحديد، أنا جدي أبو عبد الله، أنا مسدد بن عبد الله الحمصي، قالا: نا أبو بكر محمد بن سليمان بن يوسف بن يعقوب الربعي، نا أبو بكر وأبو القاسم محمد وعامر ابنا خريم بن محمد، قالا: نا أبو عبد الغني الحسن بن علي بن عيسى الازدي، نا عبد الرزاق بن همام، أنا إبراهيم بن محمد الاسلمي، عن داود بن الحصين، عن عكرمة بن خالد، عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله ﷺ: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي، وَمَا أَكْرَمَ النِّسَاءَ إِلَّا كَرِيمٌ وَلَا أَهَانَهُنَّ إِلَّا لَئِيمٌ“.
*[ترجمہ]* علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔ عورتوں کی عزت وہی کرتا ہے جو عزت دار اور نیک طبیعت ہوتا ہے اور اُن کی اہانت اور بے عزتی وہی کرتا ہے جو کمینہ ہوتا ہے“۔
*[تخریج]* تاريخ دمشق لابن عساکر بتحقیق عمرو بن غرامة العمروي :13/313، ت:1392 و اللفظ لہ وكتاب الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين لابن عساکر الدمشقی بتحقیق محمد مطیع ،ص:109، ح:39.
*[حکم حدیث]* یہ حدیث غریب اور موضوع ہے لیکن اِس کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”موضوع...وهذا إسناد واه بمرة“
”یہ حدیث موضوع ہے..اور یہ سند سخت ضعیف ہے“۔
پھر اخیر میں یہ بھی فرمایا کہ اِس حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ:2/241، ح:845)
*[سبب]* اِس سند میں دو(2) علتیں ہیں :
*(1) ابراهيم بن مُحَمَّد بن ابي يحيى - واسمه سمعان - الأَسلمي:*
*یہ متروک الحد یث اور کذاب راوی ہیں۔ جمہور ائمہ کرام نے اِن کو ضعیف قرار دیا ہے جیساکہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔*
تفصیل کے لیے دیکھیں، راقم کا رسالہ : *”السعی المشکور فیمن قال فیہ الحافط فی طبقاتہ ضعفہ الجمہور“۔*
(2)حسن بن علی بن عیسی ابو عبد الغنی المعانی
*یہ ضعیف اور کذاب راوی ہے۔ ثقہ راویوں پر حدیثیں گھڑتا تھا۔*
* ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں :*
امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354ھ):
”يَرْوِي عَن مَالِك وَغَيره من الثِّقَات وَيَضَع عَلَيْهِم، لَا تحل كِتَابَة حَدِيثه وَلَا الرِّوَايَة عَنْهُ بِحَال“
”اِس نے امام مالک وغیرہ جیسے ثقہ رواۃ سے روایت کیا ہے اور اُن پر حدیثیں گھڑتا تھا۔ اِس کی حدیث لکھنا اور نہ ہی اِس سے کسی بھی حال میں روایت کرنا جائز نہیں ہے “۔ (المجروحين بتحقیق حمدی السلفی :6/291، ت:222)
امام ابو الحسن علی بن عمر البغدادی الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:385ھ) ان کی ایک دوسری حدیث کی بابت فرماتے ہیں :
”وضعه أبو عبد الغني على عبد الرزاق“
”ابو عبد الغنی نے اِس حدیث کو عبد الرزاق -رحمہ اللہ- پر گھڑا ہے“۔ (لسان المیزان للحافظ بتحقیق ابی غدۃ :3/77، ت:2326)
امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم رحمہ اللہ (المتوفی:405ھ):
”يروي عَن مَالك الإِمَام أَحَادِيث مَوْضُوعَة“
”اِس نے امام مالک رحمہ اللہ سے موضوع احادیث روایت کی ہے“۔ (المدخل إلى الصحيح بتحقیق الدکتور ربيع هادي، ص:128، ت:36)
امام ابونعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانی رحمہ اللہ (المتوفی:430ھ):
”حدث عَن مَالك بِأَحَادِيث مَوْضُوعَة“
”اِس نے امام مالک رحمہ اللہ سے موضوع احادیث بیان کی ہے“۔ (الضعفاء بتحقیق فاروق حمادة ،ص:73، ت:48)
امام ابو الفضل محمد بن طاہر الشیبانی، المعروف بابن قیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی : 507ھ):
”كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ“ ”یہ حدیث گھڑتا تھا“۔ (تذكرة الحفاظ بتحقیق حمدی السلفی ،ص:42، ح:79)
امام ابو القاسم علی بن الحسن، المعروف بابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی :571ھ):
”وكان ضعيفا“ ”یہ ضعیف تھا“۔ (تاريخ دمشق لابن عساکر بتحقیق عمرو بن غرامة العمروي :13/313، ت:1392)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
”كَذَّاب“ ک”یہ کذاب ہے“۔
(المغني في الضعفاء بتحقیق الدكتور نور الدين:1/163، ت:1446)
*رہی بات حدیث کے پہلے ٹکڑے یعنی ”خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي“ کی تو وہ صحیح ہے۔*
دیکھیں : (سنن الترمذی بتحقیق الالبانی :3895ھ و صحیح ابن حبان بتحقیق الارنؤوط :9/484، ح:4177 و الصحیحۃ:1/575، ح:285)
*اور یہ حدیث صرف اِسی ایک طریق سے مروی ہے لہذا ”غریب“ ہے۔*
* اب چند باتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں :*
*[فائدہ نمبر:1]* امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):
”وداود هذا له حديث صالح، فإذا روى عنه ثقة فهو صحيح الرواية، إلا أنه يروي عنه ضعيف فيكون البلاء منهم لا منه، مثل ابن أبي حبيبة هذا، وإبراهيم بن أبي يحيى، كان عند إبراهيم عنه نسخة طويلة“
”اِس داؤد بن حصین رحمہ اللہ کی اچھی حدیثیں ہیں لہذا جب اِن سے ثقہ راوی روایت کرے تو آپ صحیح الروایہ ہیں مگر جب اِن سے ضعیف راوی روایت کرے تو بلاء ضعفاء کی جانب سے ہے نہ کہ داؤد رحمہ اللہ کی جانب سے جیسے ابن ابی حبیبہ اور ابراہیم بن ابی یحیی اور ابراہیم کے پاس داؤد رحمہ اللہ سے ایک طویل نسخہ ہے“۔ (الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق مازن محمد السرساوي :4/440، ت:632)
*اور زیر بحث روایت داؤد بن حصین رحمہ اللہ سے ابراہیم بن ابی یحیی نے ہی بیان کی ہے۔*
اور واضح رہے کہ ”داؤد بن حصین عن عکرمہ“ اِس تعلق سے ایک طویل بحث ہے جسے یہاں ذکر کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ زیر بحث روایت میں دو (2) علتیں ایسی ہیں جو اُسے باطل قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔ ان شاء اللہ اِس پر کبھی اور گفتگو کی جائے گی۔
*[فائدہ نمبر:2]* امام عبد الرحمن بن محمد، ابن عساکر الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی:620ھ) فرماتے ہیں:
”هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ دَاوُدَ بن الْحصين عَن عِكْرِمَة ابْن خَالِد المَخْزُومِي، لانعلم أَنه رَوَاهُ الا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَحْيَى الْأَسْلَمِيُّ، وَلَمْ يُكْتَبْ عَنْهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ“
”یہ حدیث، داؤد بن حصین عن عکرمہ المخزومی کے طریق سے غریب ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اِس حدیث کو صرف ابراہیم بن محمد الاسلمی نے روایت کیا ہےاور اِن سے (یہ حدیث) صرف اِسی طریق سے لکھی گئی ہے“۔ (كتاب الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين لابن عساکر الدمشقی بتحقیق محمد مطیع ،ص:110، ح:39)
* اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں :*
*[تنبیہ نمبر :1]* بعض ائمہ کرام نے یہ بات کہی ہے کہ حسن ابو عبد الغنی نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے۔
اور اُس کی وجہ درج ذیل حدیث ہے:
امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی، المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354ھ) فرماتے ہیں:
”حدثناه عمر بن سعيد بمنبج، قال: حدثنا أبو عبد الغني القسطلي، قال: حدثنا مالك ، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: إذَا كَانَ يَوْمَ عَرَفَة غَفَرَ الله لِلْحَاجِّ، فإذَا كَانَ لَيْلَةَ المُزْدَلِفَةِ غَفَرَ الله عز وجل للتُّجَّارِ، فإذَا كَانَ يَوْمَ مِنَى غَفَرَ الله لِلْحَمَّالِينَ، فإذَا كَانَ يَومَ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ غَفَرَ الله عز وجل للسُّؤَّالِ، فَلَا يَشْهَدُ ذَلِكَ الْمَوْضِعَ أَحَدٌ إلا غُفِرَ لَهُ“ ۔ (المجروحين بتحقیق حمدی السلفی :6/291-292و بتحقیق محمود ابراہیم :1/240، ت:219)
اور اِسی وجہ سے آپ رحمہ اللہ نے کہا :
”يروي عن مالك وغيره“
”اِس نے امام مالک وغیرہ سے روایت کیا ہے“۔
اور انہیں کی اقتداء کرتے ہوئے امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ) نے بھی کہا :
”عن مالك وعبد الرزاق“
”اِس نے امام مالک اور امام عبد الرزاق رحمہما اللہ سے روایت کیا ہے“۔
پھر امام ابن حبان رحمہ اللہ کی بیان کردہ روایت کو پوری سند کے ساتھ نقل کیا۔ دیکھیں: (میزان الاعتدال بتحقیق البجاوی :1/505، ت:1896)
پھر حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی :852ھ) لسان المیزان میں فرماتے ہیں :
”والحديث الذي أورده له ابن حبان قد أخرجه الدارقطني في الغرائب من طريقه أخرجه من وجهين عنه لكن زاد بين الحسن ومالك عبد الرزاق وقال : باطل وضعه أبو عبد الغني على عبد الرزاق وكذا ساقه ابن عساكر في ترجمته، عَنِ ابن السمرقندي، عَنِ ابن النقور، عَن أبي سعد الإسماعيلي، عَنِ ابن عَدِي عن عمر بن سعيد بن سنان شيخ ابن حبان فالظاهر أن عبد الرزاق سقط من النسخة التي نقل منها الذهبي“
”وہ حدیث جس کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ابو عبد الغنی کے طریق سے ”غرائب مالک“ میں دو (2) طریق سے اِس کی تخریج کی ہے لیکن حسن اور امام مالک رحمہ اللہ کے درمیان عبد الرزاق -رحمہ اللہ- کا اضافہ ہے اور کہا کہ یہ حدیث باطل ہے۔ اِس کو ابو عبد الغنی نے عبد الرزاق پر گھڑا ہےاور اِسی طرح امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی ابو عبد الغنی کے ترجمے میں بیان کیا ہے، عن ابن السمرقندی، عن ابن النقور، عن ابی سعد الاسماعیلی، عن ابن عدی، عمر بن سعید ، امام ابن حبان کے شیخ کے طریق سے لہذا ظاہر یہ ہے کہ جس نسخے سے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو نقل کیا ہے اُس سے امام عبد الرزاق کا واسطہ ساقط ہو گیا ہے“۔ (لسان المیزان للحافظ بتحقیق ابی غدۃ:3/77، ت:2326)
*راقم کہتا ہے کہ :*
(1) المجروحین کے نسخے سے عبد الرزاق کا واسطہ ساقط نہیں ہوا ہے۔ اگر واسطہ ساقط ہوتا تو امام ابن حبان رحمہ اللہ یہ نہیں کہتے کہ ”اس نے امام مالک سے روایت کیا ہے“۔
(2) المجروحین لابن حبان کی تحقیق محمود ابراہیم اور حمدی السلفی حفظہما اللہ نے کی ہے اور دونوں کے تحقیق شدہ نسخے میں ”حدثنا مالك“ ہے۔
(3) علامہ البانی رحمہ اللہ ”حدثنا مالك“کی بابت فرماتے ہیں:
”فهو من أكاذيبه عليه“
”یہ امام مالک رحمہ اللہ پر اُس کے جھوٹ میں سے ہے“۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :2/242، ح:845)
*اِس پر مزید یہ کہ :*
امام ابو القاسم علی بن الحسن، المعروف بابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی :571ھ) امام ابو نعیم رحمہ اللہ کے قول کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ولا اعلمه روى عن مالك ولا ادركه فالله اعلم“
”میں نہیں جانتا کہ اِس نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا ہےاور نہ ہی اِس نے امام مالک کو پایا ہے۔ واللہ اعلم“۔ (تاريخ دمشق لابن عساکر بتحقیق عمرو بن غرامة العمروي :13/313، ت:1392)
خلاصہ یہ ہے کہ ابو عبد الغنی نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت نہیں کیا ہے اور نہ ہی اُن کو پایا ہے۔ واللہ اعلم۔
*[تنبیہ نمبر :2]* شیخ حسن خالد حفظہ اللہ زیر بحث حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
”رواه ابن عساكر عن علي وهو صحيح“
”اِس حدیث کو امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور وہ صحیح ہے“۔(مجتمع المدينة قبل الهجرة وبعدها، ص:218)
راقم کہتا ہے کہ یہ حکم بلا شبہ مردود ہے کیونکہ اِس کی سند میں دو کذاب راوی ہیں۔ کما مر تفصیلا.
* خلاصۃ التحقیق :*
عورتوں کی عزت صرف عزت دار کرتا ہے۔۔۔یہ حدیث موضوع ہے۔ واللہ اعلم۔
*وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.*
*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ*
*صدر البلاغ اسلامک سینٹر*
*️ 23 - ذو الحجہ - 1441ھ*
*️ 14 - اگست - 2020ء*