الحمد لله (رب العالمين و الصلاة والسلام على سيد المرسلين )
الأفضل للمرأة أن تخرج لصلاة العيد ، وبهذا أمرها النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
روى البخاري (324) ومسلم (890) عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ . قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .‘‘
(الْعَوَاتِق) جَمْع عَاتِق وَهِيَ مَنْ بَلَغَتْ الْحُلُم أَوْ قَارَبَتْ , أَوْ اِسْتَحَقَّتْ التَّزْوِيج .
(وَذَوَات الْخُدُور) هن الأبكار .
قال الحافظ :
فِيهِ اِسْتِحْبَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى شُهُودِ الْعِيدَيْنِ سَوَاءٌ كُنَّ شَوَابَّ أَمْ لا وَذَوَاتِ هَيْئَاتٍ أَمْ لا اهـ .
وقال الشوكاني :
وَالْحَدِيثُ وَمَا فِي مَعْنَاهُ مِنْ الأَحَادِيثِ قَاضِيَةٌ بِمَشْرُوعِيَّةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَيْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ اهـ .
وسئل الشيخ ابن عثيمين : أيهما أفضل للمرأة الخروج لصلاة العيد أم البقاء في البيت ؟
فأجاب :
" الأفضل خروجها إلى العيد ؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أن تخرج النساء لصلاة العيد ، حتى العواتق وذوات الخدور ـ يعني حتى النساء اللاتي ليس من عادتهن الخروج ـ أمرهن أن يخرجن إلا الحيض فقد أمرهن بالخروج واعتزال المصلى ـ مصلى العيد ـ فالحائض تخرج مع النساء إلى صلاة العيد ، لكن لا تدخل مصلى العيد ؛ لأن مصلى العيد مسجد ، والمسجد لا يجوز للحائض أن تمكث فيه ، فيجوز أن تمر فيه مثلاً ، أو أن تأخذ منه الحاجة، لكن لا تمكث فيه ، وعلى هذا فنقول : إن النساء في صلاة العيد مأمورات بالخروج ومشاركة الرجال في هذه الصلاة ، وفيما يحصل فيها من خير، وذكر ودعاء" اهـ .
"مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين" (16/210) .
وقال أيضا :
" لكن يجب عليهن أن يخرجن تفلات ، غير متبرجات ولا متطيبات ، فيجمعن بين فعل السنة ، واجتناب الفتنة .
وما يحصل من بعض النساء من التبرج والتطيب ، فهو من جهلهن ، وتقصير ولاة أمورهن . وهذا لا يمنع الحكم الشرعي العام ، وهو أمر النساء بالخروج إلى صلاة العيد " اهـ .
الإسلام سؤال وجواب (
http://islamqa.info/ar/49011)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
الحمد للہ:
عورت كے ليے نماز عيد كے ليے جانا افضل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى حكم ديا ہے.
بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے وہ كہتى ہيں:
" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے
عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں نكلنے كا حكم ديا، نوجوان شادى كے قابل اور حيض والى اور كنوارى عورتيں نكليں، اور حيض والى عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كى دعاء ميں شريك ہوں، ميں نے كہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كى بہن اسے اپنى اوڑھنى دے دے " (صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).
العواتق: عاتق كى جمع ہے، جو بالغ لڑكى يا قريب البلوغ يا شادى كے قابل لڑكى كو كہتے ہيں.
ذوات الخدور: كنوارى لڑكياں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حدیث شریف ميں عورتوں كا نماز عيد كے ليے نكلنے كا استحباب ہے، چاہے وہ چاہے وہ نوجوان ہوں يا نہ، يا پھر شكل و صورت والى ہوں يا نہ. اھـ
اور شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ حديث اور اس كے معنى ميں جو دوسرى احاديث ہيں ، ان میں عيدين ميں عورتوں كے ليے عيدگاہ كى طرف نكلنے كى مشروعيت كى متقاضى ہيں، بغير كسى فرق كے كہ وہ كنوارى ہو يا شادى شدہ، يا جوان ہو يا بوڑھى، حائضہ ہو يا دوسرى، جبكہ وہ عدت والى نہ ہو اور اس كے نكلنے ميں عورت يا كسى دوسرے كے ليے فتنہ نہ ہو، يا پھر اسے كوئى عذر ہو. اھـ
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا عورت كے ليے نماز عيد كے ليے جانا افضل ہے يا كہ گھر ميں رہنا؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" عورت كا نماز عيد كے ليے جانا افضل اور بہتر ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو نماز عيد كے ليے جانے كا حكم ديا ہے، حتى كہ قريب البلوغ اور كنوارى عورتوں كو بھى ـ يعنى ان عورتوں كو بھى نكلنے كا حكم ديا ہے جو عادتا باہر نہيں نكلتيں ـ چنانچہ حائضہ عورت بھى عورتوں كے ساتھ عيد گاہ جائيگى، ليكن وہ نماز والى جگہ ميں داخل نہيں ہو گى؛ كيونكہ عيد گاہ مسجد ہے، اور مسجد ميں حائضہ عورت كے ليے ٹھرنا جائز نہيں، ليكن وہ وہاں سے گزر سكتى ہے، يا پھر وہاں سے كوئى چيز پكڑ سكتى ہے، ليكن وہاں ٹھرے گى نہيں.
تو اس بنا پر ہم يہ كہيں گے كہ: عورتوں كو نماز عيد كے ليے نكلنے اور مردوں كے ساتھ اس نماز ميں شريك ہونے كا حكم ہے، اس ميں شركت كا حكم ہے جس سے خير اور ذكر اور دعاء حاصل ہوتى ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 16 / 210 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" ليكن عورتوں كو بے پرد اور بناؤ سنگھار كر كے نكلنے سے اجتناب كرنا چاہيے، اور نہ ہى وہ خوشبو اور عطر استعمال كر كے نكليں، كيونكہ اس طرح وہ سنت پر عمل اور فتنہ سے اجتناب دونوں كو جمع كرسكتى ہيں.
اور آج كل جو كچھ عورتوں سے بے پردگى اور خوشبو كا استعمال ہو رہا ہے وہ ان كى جہالت اور ان كے ذمہ داران اولياء كى كوتاہى كى بنا پر ہے، اور يہ غلط رویہ بھی عمومى شرعى حكم كو نہيں روك سكتا، جو كہ عورتوں كو نماز عيد كے ليے نكلنے كا ہے، (" اھـ
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب