• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں تحقیق درکار ہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر 1 : حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں کہ اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انھیں مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں.
( بخاری، ج 1 ص 120)
اسی منشاء نبوت کی وجہ سے صحابہ و تابعین نے عورتوں کو روک دیا،
تفصیل آنے والے دلائل میں
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں
دلیل نمبر2: حضرت عبد اللہ بن عمر رض کی بیویاں نماز عیدین کے لیے نہیں جاتی تھیں.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234 جدیث نمبر5845)
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر3:عروہ بن زبیر بن عوام رض اپنے گھر کی کسی عورت کو عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے نہیں جانے دیتے تھے
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234 جدیث نمبر5846)
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر4: حضرت قاسم بن ابو بکر صدیق رح عورتوں کے بارے میں شدید پابندی فرماتے تھے، انھیں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز میں نہ جانے دیتے تھے.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص 234 حدیث نمبر5847)
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر5: جلیل القدر تابعی ابراہیم نخعی رح فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نماز کے لیے جانا مکروہ ہے.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4 ص 234 حدیث نمبر 5844)
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر 1 : حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں کہ اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انھیں مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں.
( بخاری، ج 1 ص 120)
اسی منشاء نبوت کی وجہ سے صحابہ و تابعین نے عورتوں کو روک دیا،
تفصیل آنے والے دلائل میں
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں
دلیل نمبر2: حضرت عبد اللہ بن عمر رض کی بیویاں نماز عیدین کے لیے نہیں جاتی تھیں.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234 جدیث نمبر5845)
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر3:عروہ بن زبیر بن عوام رض اپنے گھر کی کسی عورت کو عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے نہیں جانے دیتے تھے
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234 جدیث نمبر5846)
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر4: حضرت قاسم بن ابو بکر صدیق رح عورتوں کے بارے میں شدید پابندی فرماتے تھے، انھیں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز میں نہ جانے دیتے تھے.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص 234 حدیث نمبر5847)
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر5: جلیل القدر تابعی ابراہیم نخعی رح فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نماز کے لیے جانا مکروہ ہے.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4 ص 234 حدیث نمبر 5844)
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
@ابن داود
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دلیل نمبر 1 : حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں کہ اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انھیں مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں.
( بخاری، ج 1 ص 120)
یہ تو تنبیہ بلیغ ہے عورتوں کے لئے وہ امور ترک کرنے کی ، وگرنہ عورتوں کو مسجد نہ جانے کا فتویٰ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں فرمایا!
دلیل نمبر2: حضرت عبد اللہ بن عمر رض کی بیویاں نماز عیدین کے لیے نہیں جاتی تھیں.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234 جدیث نمبر5845)
اس کی سند سے قطع نظر ، اس کا جواب اسحاق سلفی بھائی نے بہت اچھے انداز میں دیا ہے،
دوسرا اثر صحابی جلیل جناب عبد اللہ بن عمر ؓ کا ہے ،
جنہوں نے خواتین کو مسجد سے روکنے پر اپنے بیٹے کو بہت برا بھلا کہا تھا :درج ذیل حدیث دیکھئے ؛
عن الاعمش عن مجاهد قال:‏‏‏‏ قال عبد الله بن عمر قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " ائذنوا للنساء إلى المساجد بالليل فقال ابن له:‏‏‏‏ والله لا ناذن لهن فيتخذنه دغلا والله لا ناذن لهن قال:‏‏‏‏ فسبه وغضب وقال:‏‏‏‏ اقول:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ائذنوا لهن وتقول:‏‏‏‏ لا ناذن لهن ".

مجاہد کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو“، اس پر ان کے ایک لڑکے (بلال) نے کہا: قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنائیں، قسم اللہ کی، ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجاہد کہتے ہیں: اس پر انہوں نے (اپنے بیٹے کو) بہت سخت سست کہا اور غصہ ہوئے، پھر بولے: میں کہتا ہوں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم انہیں اجازت دو“، اور تم کہتے ہو: ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۱۳(۸۹۹)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۰(۴۴۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۴۸ (۵۷۰)، (تحفة الأشراف: ۷۳۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۶، ۴۳، ۴۹، ۹۸، ۱۲۷، ۱۴۳، ۱۴۵) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ایسا صحابی خود نماز کیلئے عورتوں کو جانے سے کیسے روک سکتا ہے ؟
اسلئے ان کا منع کا قول یا سنداً صحیح نہیں ۔۔۔یا۔۔ان کا منع کرنا کسی مخصوص وقتی وجہ سے ہو گا ؛
دلیل نمبر3:عروہ بن زبیر بن عوام رض اپنے گھر کی کسی عورت کو عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے نہیں جانے دیتے تھے
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234 جدیث نمبر5846)
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر4: حضرت قاسم بن ابو بکر صدیق رح عورتوں کے بارے میں شدید پابندی فرماتے تھے، انھیں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز میں نہ جانے دیتے تھے.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص 234 حدیث نمبر5847)
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں:
دلیل نمبر5: جلیل القدر تابعی ابراہیم نخعی رح فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نماز کے لیے جانا مکروہ ہے.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4 ص 234 حدیث نمبر 5844)
اس کاجواب بھی اسحاق سلفی بھائی نے بہت اچھے انداز میں دیا ہے:
امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ’’ المصنف ‘‘ میں پہلے ۔۔’’ عورتوں کا نماز عید کیلئے باہر جانے کی اجازت ‘‘ کا باب باندھا ہے (مَنْ رَخَّصَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْعِيدَيْنِ) ، جس میں انہوں نے ’’ مرفوع ، اور موقوف روایات سے اسے ثابت کیا ہے ،
اور پھر اگلے باب میں صحابہ و تابعین کی تین چار روایتیں منع کی بیان کی ہیں ؛۔ اور منع میں کوئی روایت مرفوع نہیں( یعنی خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد نہیں )
اور اصول کی بات یہ ہے کہ مرفوع کے مقابل موقوف نہیں مانی جاتی :
احناف کے اصول ملاحظہ ہوں :
1۔ علامہ ابن ھمام حنفی فرماتے ہیں: یعنی ہمارے نزدیک صحابی کا قول حجت ہے جب تک سنت سے کوئی چیز اس کی نفی نہ کرے۔(فتح القدیر ص37، ج2، باب صلاۃ الجمعۃ)

2۔ علامہ ظفر احمد تھانوی دیوبندی فرماتے ہیں: یعنی صحابی کا قول ہمارے نزدیک حجت ہے جب مرفوع حدیث کے خلاف نہ ہو(اعلاء السنن ص126،ج1)
مزید فرماتے ہیں: یعنی صحابی کا قول جب مرفوع حدیث کے معارض ہو تو حجت نہیں ہوتا بالخصوص جب وہ مسئلہ صحابہ کرام میں مختلف فیہ ہو۔(اعلاءالسنن،ص438،ج01، باب آداب الاستنجاء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کا پیش کردہ پہلا اثر مشہور تابعی ابراہیم نخعی کا ہے،کہ وہ عورتوں کا نماز عید کیلئے باہر جانا مکروہ سمجھتے تھے ؛
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : يُكْرَهُ خُرُوجُ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ.
ایک تابعی کا قول صحیح مرفوع حدیث کے مقابل تسلیم نہیں کیا جا سکتا ؛اور ہو سکتا ہے انکے مکروہ سمجھنے کی وجہ کوئی خاص حالات ہوں
مزید یہ کہ:
ان آثار میں عورتوں کے عید گاہ جاکر نماز عید ادا کرنے سے روکنے کے کوئی خاص اسباب ،و ظروف ہو سکتے ہیں ؛کسی وقتی وجہ سے منع کیا ہوگا ؛
لیکن جہاں تک ۔۔عورتوں کے عید گاہ جاکر نماز عید کی ادائیگی ۔۔کی شرعی حیثیت کا سوال ہے ،تو صحیح احادیث سے عورتوں کو عید گاہ جاکر نماز عید کی ادائیگی کا حکم ثابت ہے :
فی الحال صحیح بخاری کی دو حدیثیں دیکھئے :

صحیح البخاری ، باب خروج النساء والحيض إلى المصلى:
باب: عورتوں اور حیض والیوں کا عیدگاہ میں جانا
حدیث نمبر: 974
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "أَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ"،‏‏‏‏ وَعَنْ أَيُّوبَ،‏‏‏‏ عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ،‏‏‏‏ وَزَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ:‏‏‏‏ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى.
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور (عیدگاہ جائیں) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح البخاری ، باب موعظة الإمام النساء يوم العيد:
باب: امام کا عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا.
حدیث نمبر: 978
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ "قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ،‏‏‏‏ ثُمَّ خَطَبَ فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَى النِّسَاءَ فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلَالٍ،‏‏‏‏ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِي فِيهِ النِّسَاءُ الصَّدَقَةَ"،‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَطَاءٍ:‏‏‏‏ زَكَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ وَلَكِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ حِينَئِذٍ تُلْقِي فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَتُرَى حَقًّا عَلَى الْإِمَامِ ذَلِكَ وَيُذَكِّرُهُنَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَهُ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اس کے بعد خطبہ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہو گئے تو اترے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں منبر نہیں لے کر جاتے تھے۔ تو اس اترے سے مراد بلند جگہ سے اترے) اور عورتوں کی طرف آئے۔ پھر انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کیا یہ صدقہ فطر دے رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ صدقہ کے طور پر دے رہی تھیں۔ اس وقت عورتیں اپنے چھلے (وغیرہ) برابر ڈال رہی تھیں۔ پھر میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ اب بھی امام پر اس کا حق سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ان پر یہ حق ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔‘‘
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ!
ان اٹکل پچوُّ کے پجاریوں کو کہنا کہ یہ بات روز محشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہیں!
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
صحیح احادیث سے عورتوں کو عید گاہ جاکر نماز عید کی ادائیگی کا حکم ثابت ہے :
فی الحال صحیح بخاری کی دو حدیثیں دیکھئے :

صحیح البخاری ، باب خروج النساء والحيض إلى المصلى:
باب: عورتوں اور حیض والیوں کا عیدگاہ میں جانا
حدیث نمبر: 974
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "أَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ"،‏‏‏‏ وَعَنْ أَيُّوبَ،‏‏‏‏ عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ،‏‏‏‏ وَزَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ:‏‏‏‏ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى.
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور (عیدگاہ جائیں) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح البخاری ، باب موعظة الإمام النساء يوم العيد:
باب: امام کا عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا.
حدیث نمبر: 978
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ "قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ،‏‏‏‏ ثُمَّ خَطَبَ فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَى النِّسَاءَ فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلَالٍ،‏‏‏‏ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِي فِيهِ النِّسَاءُ الصَّدَقَةَ"،‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَطَاءٍ:‏‏‏‏ زَكَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ وَلَكِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ حِينَئِذٍ تُلْقِي فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَتُرَى حَقًّا عَلَى الْإِمَامِ ذَلِكَ وَيُذَكِّرُهُنَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَهُ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اس کے بعد خطبہ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہو گئے تو اترے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں منبر نہیں لے کر جاتے تھے۔ تو اس اترے سے مراد بلند جگہ سے اترے) اور عورتوں کی طرف آئے۔ پھر انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کیا یہ صدقہ فطر دے رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ صدقہ کے طور پر دے رہی تھیں۔ اس وقت عورتیں اپنے چھلے (وغیرہ) برابر ڈال رہی تھیں۔ پھر میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ اب بھی امام پر اس کا حق سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ان پر یہ حق ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔‘‘
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
دیوبند کی حدیث سے نفرت اس کا کیا جواب دیا جائے ان کو
13123 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
احناف کے بقول اسلام عورتوں کو گھروں میں نماز کی فضیلت بتا کر عزت اور تحفظ دیتا ہے ؛
تو۔۔۔ہمارا جواب یہ ہے کہ :
خود نبی اکرم ﷺ نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو مسجد جانے کی اجازت دیا کریں ۔۔۔
تو کیا ۔۔(معاذاللہ ) پیارے نبی ﷺ کا یہ حکم کی انکی عزت اور تحفظ کے خلاف ہے ؟؟
’’لا تمنعوا إماء الله مساجد الله"کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے مت روکو۔‘‘

اور
عروة بن الزبير عن عائشة رضي الله عنها قالت:‏‏‏‏ اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعتمة حتى ناداه عمر نام النساء والصبيان فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فقال:‏‏‏‏"ما ينتظرها احد غيركم من اهل الارض ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة وكانوا يصلون العتمة فيما بين ان يغيب الشفق إلى ثلث الليل الاول".
(صحیح البخاری ، حدیث نمبر: 864؎ )

جناب عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز میں اتنی دیر کی کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حجرے سے) تشریف لائے اور فرمایا کہ دیکھو روئے زمین پر اس نماز کا (اس وقت) تمہارے سوا اور کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے۔ ان دنوں مدینہ کے سوا اور کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اور لوگ عشاء کی نماز شفق ڈوبنے کے بعد سے رات کی پہلی تہائی گزرنے تک پڑھا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جناب رسول اللہ ﷺ کے بعد اس امت میں عورتوں کی عصمت کا سب سے بڑا محافظ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی (العیاذ باللہ ) اسلام کے اس حکم کو نہ سمجھ سکے ؟؟

عن نافع عن ابن عمر قال:‏‏‏‏"كانت امراة لعمر تشهد صلاة الصبح والعشاء في الجماعة في المسجد فقيل لها:‏‏‏‏ لم تخرجين وقد تعلمين ان عمر يكره ذلك ويغار قالت:‏‏‏‏ وما يمنعه ان ينهاني قال:‏‏‏‏ يمنعه قول رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ لا تمنعوا إماء الله مساجد الله".(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 900 )

جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے،فرمایا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی تھیں جو صبح اور عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا کرتی تھیں۔ ان سے کہا گیا کہ باوجود اس علم کے کہ عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو پسند نہیں کرتے، اور وہ غیرت محسوس کرتے ہیں پھر آپ مسجد میں کیوں جاتی ہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ پھر وہ مجھے منع کیوں نہیں کر دیتے۔ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی وجہ سے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے مت روکو۔‘‘


 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
الحمد لله (رب العالمين و الصلاة والسلام على سيد المرسلين )

الأفضل للمرأة أن تخرج لصلاة العيد ، وبهذا أمرها النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

روى البخاري (324) ومسلم (890) عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ . قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .‘‘

(الْعَوَاتِق) جَمْع عَاتِق وَهِيَ مَنْ بَلَغَتْ الْحُلُم أَوْ قَارَبَتْ , أَوْ اِسْتَحَقَّتْ التَّزْوِيج .
(وَذَوَات الْخُدُور) هن الأبكار .

قال الحافظ :
فِيهِ اِسْتِحْبَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى شُهُودِ الْعِيدَيْنِ سَوَاءٌ كُنَّ شَوَابَّ أَمْ لا وَذَوَاتِ هَيْئَاتٍ أَمْ لا اهـ .

وقال الشوكاني :
وَالْحَدِيثُ وَمَا فِي مَعْنَاهُ مِنْ الأَحَادِيثِ قَاضِيَةٌ بِمَشْرُوعِيَّةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَيْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ اهـ .

وسئل الشيخ ابن عثيمين : أيهما أفضل للمرأة الخروج لصلاة العيد أم البقاء في البيت ؟

فأجاب :

" الأفضل خروجها إلى العيد ؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أن تخرج النساء لصلاة العيد ، حتى العواتق وذوات الخدور ـ يعني حتى النساء اللاتي ليس من عادتهن الخروج ـ أمرهن أن يخرجن إلا الحيض فقد أمرهن بالخروج واعتزال المصلى ـ مصلى العيد ـ فالحائض تخرج مع النساء إلى صلاة العيد ، لكن لا تدخل مصلى العيد ؛ لأن مصلى العيد مسجد ، والمسجد لا يجوز للحائض أن تمكث فيه ، فيجوز أن تمر فيه مثلاً ، أو أن تأخذ منه الحاجة، لكن لا تمكث فيه ، وعلى هذا فنقول : إن النساء في صلاة العيد مأمورات بالخروج ومشاركة الرجال في هذه الصلاة ، وفيما يحصل فيها من خير، وذكر ودعاء" اهـ .

"مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين" (16/210) .

وقال أيضا :
" لكن يجب عليهن أن يخرجن تفلات ، غير متبرجات ولا متطيبات ، فيجمعن بين فعل السنة ، واجتناب الفتنة .
وما يحصل من بعض النساء من التبرج والتطيب ، فهو من جهلهن ، وتقصير ولاة أمورهن . وهذا لا يمنع الحكم الشرعي العام ، وهو أمر النساء بالخروج إلى صلاة العيد " اهـ .

الإسلام سؤال وجواب (http://islamqa.info/ar/49011)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
الحمد للہ:

عورت كے ليے نماز عيد كے ليے جانا افضل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى حكم ديا ہے.

بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے وہ كہتى ہيں:
" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں نكلنے كا حكم ديا، نوجوان شادى كے قابل اور حيض والى اور كنوارى عورتيں نكليں، اور حيض والى عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كى دعاء ميں شريك ہوں، ميں نے كہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كى بہن اسے اپنى اوڑھنى دے دے " (صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).

العواتق: عاتق كى جمع ہے، جو بالغ لڑكى يا قريب البلوغ يا شادى كے قابل لڑكى كو كہتے ہيں.
ذوات الخدور: كنوارى لڑكياں.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حدیث شریف ميں عورتوں كا نماز عيد كے ليے نكلنے كا استحباب ہے، چاہے وہ چاہے وہ نوجوان ہوں يا نہ، يا پھر شكل و صورت والى ہوں يا نہ. اھـ

اور شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ حديث اور اس كے معنى ميں جو دوسرى احاديث ہيں ، ان میں عيدين ميں عورتوں كے ليے عيدگاہ كى طرف نكلنے كى مشروعيت كى متقاضى ہيں، بغير كسى فرق كے كہ وہ كنوارى ہو يا شادى شدہ، يا جوان ہو يا بوڑھى، حائضہ ہو يا دوسرى، جبكہ وہ عدت والى نہ ہو اور اس كے نكلنے ميں عورت يا كسى دوسرے كے ليے فتنہ نہ ہو، يا پھر اسے كوئى عذر ہو. اھـ

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا عورت كے ليے نماز عيد كے ليے جانا افضل ہے يا كہ گھر ميں رہنا؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" عورت كا نماز عيد كے ليے جانا افضل اور بہتر ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو نماز عيد كے ليے جانے كا حكم ديا ہے، حتى كہ قريب البلوغ اور كنوارى عورتوں كو بھى ـ يعنى ان عورتوں كو بھى نكلنے كا حكم ديا ہے جو عادتا باہر نہيں نكلتيں ـ چنانچہ حائضہ عورت بھى عورتوں كے ساتھ عيد گاہ جائيگى، ليكن وہ نماز والى جگہ ميں داخل نہيں ہو گى؛ كيونكہ عيد گاہ مسجد ہے، اور مسجد ميں حائضہ عورت كے ليے ٹھرنا جائز نہيں، ليكن وہ وہاں سے گزر سكتى ہے، يا پھر وہاں سے كوئى چيز پكڑ سكتى ہے، ليكن وہاں ٹھرے گى نہيں.

تو اس بنا پر ہم يہ كہيں گے كہ: عورتوں كو نماز عيد كے ليے نكلنے اور مردوں كے ساتھ اس نماز ميں شريك ہونے كا حكم ہے، اس ميں شركت كا حكم ہے جس سے خير اور ذكر اور دعاء حاصل ہوتى ہے. اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 16 / 210 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" ليكن عورتوں كو بے پرد اور بناؤ سنگھار كر كے نكلنے سے اجتناب كرنا چاہيے، اور نہ ہى وہ خوشبو اور عطر استعمال كر كے نكليں، كيونكہ اس طرح وہ سنت پر عمل اور فتنہ سے اجتناب دونوں كو جمع كرسكتى ہيں.
اور آج كل جو كچھ عورتوں سے بے پردگى اور خوشبو كا استعمال ہو رہا ہے وہ ان كى جہالت اور ان كے ذمہ داران اولياء كى كوتاہى كى بنا پر ہے، اور يہ غلط رویہ بھی عمومى شرعى حكم كو نہيں روك سكتا، جو كہ عورتوں كو نماز عيد كے ليے نكلنے كا ہے، (" اھـ

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
افسوس در افسوس کہ عورتوں کو عید گاہ سے روکتے ہیں جہاں صرف رب کی عبادت کی جاتی ہے اور عمدہ وعظ و نصیحت سنی جاتی ہے اسکے بر عکس درگاہوں اور مزاروں وعرسوں میں کھلے عام اجازت جہاں عیاشی کے سوا کچھ نہیں۔ عورتوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے ورنہ ایک دن آئےگا جہاں اللہ کے عذاب سے انہیں کوئی نہیں بچا سکے گا ۔
 
Top