السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم کنعان بھائی!
ایک اور جگہ (فورم سے باہر) مذکورہ سوال کیا گیا تھا اور میں نے بھی آپ والا جواب بلکے اُس سے زائد جواب دیا تھا جو کہ یہاں پر پیسٹ کررہا ہوں۔
"السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بلال بھائی!
ایک عورت جب شوہر کا نام اپنے نام کے آگے لگاتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس نے اپنا باپ کسی اور کو بنا لیا ہے..
یہ احادیث تو ایسی عورت یا مرد کے لیے ہے جو اپنے اصل باپ کی نسبت چھوڑ کر اس کی طرف کرے جو حقیقت میں اسکا باپ نہ ہو جیسا کہ احادیث میں وضاحت موجود ہے..
یا ایک تیلی اپنی نسبت سید کی طرف کرے..وغیرہ
اور اگر ایک عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام نہیں بھی لگاتی تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں..
بقیہ ایک عالم دین کی زبانی:
شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا شرعا ممنوع نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ہے کہ شوہر کا نام عورت اپنے نام کے ساتھ لگائے یا کوئی اور اسکا نام لیتے ہوئے شوہر کے نام کو ساتھ ذکر کرے , بالخصوص امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ "زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم " کا لاحقہ انکے ناموں کے ساتھ لگتاہے کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں ۔
اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب ہے تو بتانے والے نے بتایا " امرأۃ ابن مسعود " یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کانام ذکر کیا گیا ۔ اسی کلمہ " امرأۃ ابن مسعود " کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟؟؟
"شیخ رفیق طاہر"
مزید:
راقم کے خیال میں عورت جب اپنے شوہر کا نام اپنے ساتھ لگاتی ہے تو اس سے مراد نسبت ابوت نہیں ہوتی لہذا جائز ہے اور اس نسبت کی ممانعت کے جتنے بھی دلائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں نسبت ابوت کے لیے غیر کا نام ساتھ لگانے کی ممانعت ہے ورنہ تو سلف صالحین یا امت مسلمہ کی ١٤ سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ لوگوں کے عرفی نام ان کے شہروں ، علاقوں، قبیلوں، مسالک اور باپ کے علاوہ دادا یا دادی یا پردادا یا پردادی وغیرہ کی طرف بھی نسبت سے معروف ہوئے ہیں اور کسی نے ان کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا ہےکیونکہ وہ نسبت ابوت نہیں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عرفی نام میں باپ کی طرف نسبت کہاں موجود ہے اور نسل مرد کی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی اور میرے علم میں تو اس پر کوئی اعتراض دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اور جہاں تک مغرب کی مشابہت کا معاملہ ہے تو تو یہ ایسی مشابہت ہی ہے جیسی میز اور کرسی کے استعمال میں مشابہت ہے یعنی جب کوئی عمل مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف عام بن جائے تو پھر اگر وہ عمل شریعت کے خلاف نہ ہو تو صرف اس بنیاد پر مرودو نہیں ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں تو آپ اپنے رجحان کے مطابق کسی پر بھی رائے پر عمل کر سکتے ہیں.
"شیخ ابوالحسن علوی"
مزید:
عورت اپنے شوہر کی طرف اپنے نام کی نسبت کر سکتی یا نہیں تو اس بارے شیخ صالح المنجد کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ باپ کے علاوہ کی طرف نسبت سے قرآن نے منع کیا ہے۔ شیخ پر یہ اعتراض ہوا کہ باپ کے علاوہ جس نسبت سے منع کیا گیا ہے وہ تو ابوت یعنی باپ ہونے کی نسبت ہے جبکہ شوہر کی طرف یہ نسبت نہیں کی جاتی لہذا آپ کی دلیل درست نہیں ہے تو شیخ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ چودہویں صدی کا رواج کہ جس میں درمیان میں سے بن یا بنت کا لفظ نکال دیا گیا ہے ورنہ تو کوئی نام ساتھ لگانے سے مراد بن فلاں یا بنت فلاں ہی ہوتا ہے..شیخ کا کلام ختم ہوا
پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام بطور شوہر کے ہی لگاتی ہے تو کوئی حرج نہیں..ان شاء اللہ!
واللہ اعلم!"
تو اس جواب کی بنیاد پر ہی "ایک محترم" بھائی نے سوال کیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ:
کوئی بھائی درج ذیل صفحہ کا مؤقف اور درست مؤقف کیا ھونا چاہیے،، وضاحت فرما دیں.
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=229866
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے محترم شیخ
@خضر حیات صاحب اس موقف کے قائل نہیں، اسی لیے خاص اُن سے سوال کیا گیا ہے۔