• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @خضر حیات صاحب!
ایک محترم بھائی کا سوال:
عورتوں کا شادی کے بعد اپنا نام خاوند کے نام کیساتھ جوڑ لینا،،
کوئی بھائی درج ذیل صفحہ کا مؤقف اور درست مؤقف کیا ھونا چاہیے،، وضاحت فرما دیں.
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=229866
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
جزاک اللہ خیرا شیخ صاحب!
بھائی کی طرف سے جو سوال کیا گیا:
درج ذیل صفحہ کا مؤقف اور درست مؤقف کیا ھونا چاہیے،، وضاحت فرما دیں.
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=229866
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علییکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @خضر حیات صاحب!
ایک محترم بھائی کا سوال:
عورتوں کا شادی کے بعد اپنا نام خاوند کے نام کیساتھ جوڑ لینا،،
کوئی بھائی درج ذیل صفحہ کا مؤقف اور درست مؤقف کیا ھونا چاہیے،، وضاحت فرما دیں.
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=229866
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
جزاک اللہ خیرا شیخ صاحب!
بھائی کی طرف سے جو سوال کیا گیا:
شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا شرعا ممنوع نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ہے کہ شوہر کا نام عورت اپنے نام کے ساتھ لگائے یا کوئی اور اسکا نام لیتے ہوئے شوہر کے نام کو ساتھ ذکر کرے, بالخصوص امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ "زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم " کا لاحقہ انکے ناموں کے ساتھ لگتا ہے کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں ۔

اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب ہے تو بتانے والے بتایا " امرأۃ ابن مسعود " یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کا نام ذکر کیا گیا ۔ اسی کلمہ " امرأۃ ابن مسعود " کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟؟؟

(رفیق طاہر، 31 مئی 2011)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم کنعان بھائی!
ایک اور جگہ (فورم سے باہر) مذکورہ سوال کیا گیا تھا اور میں نے بھی آپ والا جواب بلکے اُس سے زائد جواب دیا تھا جو کہ یہاں پر پیسٹ کررہا ہوں۔

"السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بلال بھائی!
ایک عورت جب شوہر کا نام اپنے نام کے آگے لگاتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس نے اپنا باپ کسی اور کو بنا لیا ہے..
یہ احادیث تو ایسی عورت یا مرد کے لیے ہے جو اپنے اصل باپ کی نسبت چھوڑ کر اس کی طرف کرے جو حقیقت میں اسکا باپ نہ ہو جیسا کہ احادیث میں وضاحت موجود ہے..
یا ایک تیلی اپنی نسبت سید کی طرف کرے..وغیرہ

اور اگر ایک عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام نہیں بھی لگاتی تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں..

بقیہ ایک عالم دین کی زبانی:

شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا شرعا ممنوع نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ہے کہ شوہر کا نام عورت اپنے نام کے ساتھ لگائے یا کوئی اور اسکا نام لیتے ہوئے شوہر کے نام کو ساتھ ذکر کرے , بالخصوص امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ "زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم " کا لاحقہ انکے ناموں کے ساتھ لگتاہے کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں ۔
اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب ہے تو بتانے والے نے بتایا " امرأۃ ابن مسعود " یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کانام ذکر کیا گیا ۔ اسی کلمہ " امرأۃ ابن مسعود " کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟؟؟
"شیخ رفیق طاہر"

مزید:

راقم کے خیال میں عورت جب اپنے شوہر کا نام اپنے ساتھ لگاتی ہے تو اس سے مراد نسبت ابوت نہیں ہوتی لہذا جائز ہے اور اس نسبت کی ممانعت کے جتنے بھی دلائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں نسبت ابوت کے لیے غیر کا نام ساتھ لگانے کی ممانعت ہے ورنہ تو سلف صالحین یا امت مسلمہ کی ١٤ سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ لوگوں کے عرفی نام ان کے شہروں ، علاقوں، قبیلوں، مسالک اور باپ کے علاوہ دادا یا دادی یا پردادا یا پردادی وغیرہ کی طرف بھی نسبت سے معروف ہوئے ہیں اور کسی نے ان کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا ہےکیونکہ وہ نسبت ابوت نہیں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عرفی نام میں باپ کی طرف نسبت کہاں موجود ہے اور نسل مرد کی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی اور میرے علم میں تو اس پر کوئی اعتراض دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اور جہاں تک مغرب کی مشابہت کا معاملہ ہے تو تو یہ ایسی مشابہت ہی ہے جیسی میز اور کرسی کے استعمال میں مشابہت ہے یعنی جب کوئی عمل مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف عام بن جائے تو پھر اگر وہ عمل شریعت کے خلاف نہ ہو تو صرف اس بنیاد پر مرودو نہیں ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں تو آپ اپنے رجحان کے مطابق کسی پر بھی رائے پر عمل کر سکتے ہیں.
"شیخ ابوالحسن علوی"

مزید:
عورت اپنے شوہر کی طرف اپنے نام کی نسبت کر سکتی یا نہیں تو اس بارے شیخ صالح المنجد کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ باپ کے علاوہ کی طرف نسبت سے قرآن نے منع کیا ہے۔ شیخ پر یہ اعتراض ہوا کہ باپ کے علاوہ جس نسبت سے منع کیا گیا ہے وہ تو ابوت یعنی باپ ہونے کی نسبت ہے جبکہ شوہر کی طرف یہ نسبت نہیں کی جاتی لہذا آپ کی دلیل درست نہیں ہے تو شیخ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ چودہویں صدی کا رواج کہ جس میں درمیان میں سے بن یا بنت کا لفظ نکال دیا گیا ہے ورنہ تو کوئی نام ساتھ لگانے سے مراد بن فلاں یا بنت فلاں ہی ہوتا ہے..شیخ کا کلام ختم ہوا

پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام بطور شوہر کے ہی لگاتی ہے تو کوئی حرج نہیں..ان شاء اللہ!
واللہ اعلم!"

تو اس جواب کی بنیاد پر ہی "ایک محترم" بھائی نے سوال کیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ:
کوئی بھائی درج ذیل صفحہ کا مؤقف اور درست مؤقف کیا ھونا چاہیے،، وضاحت فرما دیں.
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=229866
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے محترم شیخ @خضر حیات صاحب اس موقف کے قائل نہیں، اسی لیے خاص اُن سے سوال کیا گیا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @خضر حیات صاحب!
ایک محترم بھائی کا سوال:
عورتوں کا شادی کے بعد اپنا نام خاوند کے نام کیساتھ جوڑ لینا،،
کوئی بھائی درج ذیل صفحہ کا مؤقف اور درست مؤقف کیا ھونا چاہیے،، وضاحت فرما دیں.
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=229866
درج بالا صفحے میں بیان کردہ موقف :
عورت اپنی نسبت باپ کی بجائے شوہر کی طرف نہیں کرسکتی ۔ قرآن مجید یا احادیث مبارکہ میں جہاں ایسا موجود ہے مثلا امرأۃ لوط ، امرأۃ نوح ، امرأۃ ابن مسعود ، یہ عورت کی خاوند کی طرف نسبت بحیثیت شوہر ہے ۔
ہماری نظر میں درست موقف :
عورت کے نام کے ساتھ کوئی دوسرا نام اضافہ کرنے کا مطلب کیا ہے ؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے اس کو دو صورتوں میں تقسیم کر لیں ۔
پہلی صورت :
نام ساتھ لگاتے ہوئے دونوں کے مابین رشتے کی صراحت ہو ، مثلا یوں کہا جائے : عائشہ بنت ابی بکر ، عائشہ زوجہ محمد ۔ تو ایسی صورت میں آپ صحیح رشتے کی وضاحت کے ساتھ نسبت چاہے باپ کی طرف کریں یا خاوند کی طرف ، کوئی حرج نہیں ۔ اور یہ دونوں مثالیں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ بلکہ صرف باپ یا شوہر ہی کیا ، حسب ضرورت کسی اور رشتہ دار کی طرف بھی نسبت کی جاسکتی ہے ۔
دوسری صورت :
عورت کے نام کے ساتھ مرد کا اضافہ کرتے ہوئے رشتے کی صراحت نہ ہو ، مثلا یوں کہا جائے ، عائشہ ابو بکر ، عائشہ محمد ۔
یہ بات ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ رشتہ کی صراحت کے ساتھ دونوں طرف نسبت جائز ہے ، گو یہاں مسئلہ رشتے کی وضاحت حذف کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔اب ایسی صورت حال میں ہم ’’ عرف ‘‘ یعنی ’’ رائج الوقت ‘‘ سے مدد لیتے ہیں ۔
اس صورت میں عرب خاوند کا نام ساتھ لگانے کو درست نہیں سمجھتے ، کیونکہ ان کے ہاں یہ عرف ہے کہ آدمی یا عورت کے نام کے ساتھ بغیر کسی وضاحت کے دوسرا نام باپ کا نام تصور کیا جاتا ہے ، تیسرا نام دادا کا تصور کیا جاتا ہے ۔
مثلا :
فاطمہ محمد عبد اللہ
اس نام سے وہ یہی سمجھیں گے کہ عورت کا نام فاطمہ ، محمد والد کانام ، اور عبد اللہ دادا کا نام ہے ۔ اسی لیے ان کے ہاں کئی سرکاری و غیر سکاری فارموں میں اندراج کے وقت یہ نہیں لکھا ہوتا کہ اپنا نام ، باپ کا نام ، دادا کانام لکھیں ، بلکہ لکھا ہوتا ہے ، اپنا ’’ اسم ثلاثی ‘‘ ( یعنی تین حصوں پر مشتمل نام ) لکھیں ۔
جبکہ ہمارے ہاں بھی پہلے پہل تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ مرد یا عورت کے نام کے ساتھ دوسرا نام اس کے والد کا ہی ہوتا ہے ، لیکن جب ہم ان لوگوں کےعادات وا طوار سے متاثر ہوئے جو عورت کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگاتے ہیں تو ہماری اکثریت میں یہی رائج ہوگیا کہ جوان عورت کےنام کے ساتھ کسی دوسرے کا نام اس کے شوہر کا نام ہی سمجھا جاتا ہے ، بلکہ اگر وہ باپ کا نام بھی لگاتی ہے ، تو وہ لوگ اس کو شوہر ہی سمجھتے ہیں ۔
گویا ہمارے عرف نے یہ تعیین کردی ہے کہ
عائشہ محمد
سے مراد
عائشہ زوجہ محمد
ہے ، لہذا یہ درست ہے ۔ اور باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت پر وعید والی نصوص اس پر منطبق نہیں ہوتیں ، کیونکہ یہ نسبت بطور باپ نہیں بلکہ بطور شوہر ہے اور بطور شوہر نسبت کی مثالیں خود قرآن وسنت اور اقوال صحابہ میں موجود ہیں ۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی عورت اپنے باپ کا نام ساتھ نہیں لگاسکتی ، لگاسکتی ہے ، اگر کوئی نام ساتھ لگانا ہی ہے تو باپ کا نام ساتھ لگالیں ، اوراگر کوئی پوچھے تو وضاحت کردینی چاہیے کہ یہ والد کا نام ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ایک وضاحت :
میری نظر میں اصل مسئلہ یہی ہے ، اس سے ہٹ کر جو باتیں ہیں ، مثلا عورت کو شوہر کا نام ساتھ نہیں لگانا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ طلاق ہوئی تو پھر تبدیل کرنا پڑے گا وغیرہ ، تو ان کا اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، اگر طلاق کے خدشے کو مد نظر رکھ جائے ، پھر تو شادی ہی نہیں کرنی چاہیے ، اور اگر طلاق کے بعد دیگر کام ہوسکتے ہیں تو نام کی تبدیلی ان کی نسبت کوئی بڑامسئلہ نہیں ۔ یہ اپنی اپنی آراء ، ہیں ، نکتہ ہائے نظر ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے نام کے ساتھ آگے کچھ بھی نہ لگایا جائے ، جب کہ جہاں خاوند کی ضرورت ہے ، وہاں خاوند کا نام ہو ، جہاں والد کی ضرورت ہو والد کانام ہے ، جس طرح شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ میں ہوتا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آج ایک جگہ اس موضوع پر بحث و مباحثہ چل رہا تھا ، مزید ایک دو باتیں ذہن میں آئیں :
اول :
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی عورت اپنے باپ کا نام ساتھ نہیں لگاسکتی ، لگاسکتی ہے ، اگر کوئی نام ساتھ لگانا ہی ہے تو باپ کا نام ساتھ لگالیں ، اوراگر کوئی پوچھے تو وضاحت کردینی چاہیے کہ یہ والد کا نام ہے ۔ واللہ اعلم ۔
بغیر کسی وضاحت کے شوہر کا نام ساتھ لگانا یہ مغربی طریقہ کار ہے ، جو ہمارے ہاں رائج ہونے کی وجہ سے گو جائز ہے ، لیکن اس سے پرہیز بہتر ہے ، کیونکہ اصلا یہ طریقہ اہل مغرب کا ہے ، مسلمانوں کا نہیں ۔
دوم :
نام ساتھ لگاتے ہوئے دونوں کے مابین رشتے کی صراحت ہو ، مثلا یوں کہا جائے : عائشہ بنت ابی بکر ، عائشہ زوجہ محمد ۔ تو ایسی صورت میں آپ صحیح رشتے کی وضاحت کے ساتھ نسبت چاہے باپ کی طرف کریں یا خاوند کی طرف ، کوئی حرج نہیں ۔ اور یہ دونوں مثالیں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ بلکہ صرف باپ یا شوہر ہی کیا ، حسب ضرورت کسی اور رشتہ دار کی طرف بھی نسبت کی جاسکتی ہے ۔
قرآن و احادیث سے ہمیں جو دلائل ملتے ہیں وہ رشتہ کی وضاحت کے ساتھ ملتے ہیں ۔ رشتہ کی وضاحت کے بغیر کسی کی کسی طرف نسبت کرنے کی مثالیں قرآن وسنت میں ہماری نظر سے نہیں گزریں ۔
رشتہ کے بغیر نسبت دو طرح معروف ہوئی ہے ۔
عرب ممالک میں اس سے مراد دوسرا نام باپ کا ہوتا ہے ۔
اہل مغرب کے ہاں یہ عرف رائج ہوا ہے کہ دوسرا نام شوہر کا ہوتا ہے ۔
گو ہمارے نزدیک اہل مغرب کا عرف رائج ہوا ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آج ایک جگہ اس موضوع پر بحث و مباحثہ چل رہا تھا ، مزید ایک دو باتیں ذہن میں آئیں :
اول :

بغیر کسی وضاحت کے شوہر کا نام ساتھ لگانا یہ مغربی طریقہ کار ہے ، جو ہمارے ہاں رائج ہونے کی وجہ سے گو جائز ہے ، لیکن اس سے پرہیز بہتر ہے ، کیونکہ اصلا یہ طریقہ اہل مغرب کا ہے ، مسلمانوں کا نہیں ۔
دوم :

قرآن و احادیث سے ہمیں جو دلائل ملتے ہیں وہ رشتہ کی وضاحت کے ساتھ ملتے ہیں ۔ رشتہ کی وضاحت کے بغیر کسی کی کسی طرف نسبت کرنے کی مثالیں قرآن وسنت میں ہماری نظر سے نہیں گزریں ۔
رشتہ کے بغیر نسبت دو طرح معروف ہوئی ہے ۔
عرب ممالک میں اس سے مراد دوسرا نام باپ کا ہوتا ہے ۔
اہل مغرب کے ہاں یہ عرف رائج ہوا ہے کہ دوسرا نام شوہر کا ہوتا ہے ۔
گو ہمارے نزدیک اہل مغرب کا عرف رائج ہوا ۔
بھائی اس بارے میں بھی کچھ بتائیں
اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب ہے تو بتانے والے بتایا " امرأۃ ابن مسعود " یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کا نام ذکر کیا گیا ۔ اسی کلمہ " امرأۃ ابن مسعود " کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟؟؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اس بارے میں دیوبند کا موقف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج کل سوشل میڈیا پر ایک بات کثرت سے پھیلائی جارہی ہے کہ بیوی کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا حرام ہے لیکن یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے جو دلائل دیئےپیش کئے جارہے ہیں ان کا مذکورہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں ممانعت آئی ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے مثال کے طور پر کوئی شخص کسی بچے (اس بچےکے والد کا علم ہو یا نہ ہو) کو لے پالک بناتا ہے یعنی اڈاپٹ کرکے اس کی پرورش کرتا ہے تو پرورش کرنے والے کیلئے جائز نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اس لے پالک بچے کا باپ ظاہر کرے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالی ٰ نے لے پالک کے بارے میں حکم دیا ہے کہ اُس کو اُس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے.. پرورش کرنے والا حقیقی باپ کے درجے میں نہیں ہوتا لہذا اُس کو والد کےطور پر پکارنا اور کاغذات میں لکھنا جائز نہیں ' گناہ ہے اور حدیث شریف میں ایسے شخص کے لئے جنت کو حرام قرار دیاگیا ہے جو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے.. لہذا ہر موقع پر بچہ کی ولدیت میں اصل والد ہی کا نام لکھا جائےگا جیسا کہ خود اللہ تبارک وتعالی نے سورت احزاب میں فرمایا ہے..
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ [الأحزاب : 4 ، 5]
"اللہ تعالی نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا.. یہ تو باتیں ہی باتیں ہیں جو تم اپنے منہ سے کہہ دیتے ہو اور اللہ وہی بات کہتا ہے جو حق ہو اور وہی صحیح راستہ بتلاتا ہے.. تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو.. یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں.."
مزید تفصیلات کیلئے مذکورہ آیات کی تفاسیر ملاحظہ فرمائیں نیز مختلف احادیث میں بھی کسی دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرنے پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں جیسا کہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وآلہ وسلم، قال: «لا ترغبوا عن آبائكم، فمن رغب عن أبيه فهو كفر» صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. ”اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑتا ہے (اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو) یہ کفر ہے..“
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وآلہ وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ: "جس شخص نے اپنے آپ کو (حقیقی والد کے علاوہ) کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے.."
قرآن و حدیث کے مذکورہ اور دیگر دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو حقیقی باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کا بیٹا ظاہر کرنا ناجائز و حرام ہے..
جبکہ کسی لڑکی کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنا والد تبدیل کررہی ہے اور اپنے آپ کو کسی اور کی بیٹی ثابت کررہی ہے بلکہ یہ بات تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی..حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی عورت کیلئے تعارف کے طور پراپنے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں.. صرف تعارف کے لئے والد یا شوہر کا نام لکھا جاتا ہے.. عام طور پر شادی سے پہلے والد کانام لکھتے ہیں اور اس میں اثبات ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہے اور شادی کے بعد شوہر کا نام لکھتے ہیں اور چونکہ تعارف کیلئے شوہر کا نام لکھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے اس لئے یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو.. البتہ اگر کسی عورت کیلئے اپنے شوہر کا نام لکھنے میں نسب مشتبہ ہوتا ہو اور (مثال کے طور پر) لوگ اس کے شوہر کو اس کا والد سمجھنے لگتے ہوں تو اس عورت کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لکھنا درست نہ ہوگا..
بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن نے اپنے نام کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لگایا اس لئے یہ ناجائز ہے تو اس جواب اوپر ہی آچکا ہے کہ عورت کیلئے اپنے نام کے ساتھ بطور تعارف والد یا شوہر میں سے کسی کا نام لگانا ضروری نہیں بلکہ کوئی لگانا چاہے تو جائز ہے.. اگر ہمارا یہ دعوی ہوتا کہ بیوی کیلئےاپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا ضروری ہے تو پھر یہ اعتراض درست تھا کہ جب ازواج مطہرات نے اپنے ناموں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لگایا تو ہمارے لئے کیوں ضروری ہے؟ لیکن چونکہ ہم اسے ضروری نہیں کہہ رہے بلکہ جواز کی بات کررہے ہیں اس لئے مذکورہ اعتراض یا استدلال بھی درست نہیں ہے..
لہذا قرآن و احادیث کی روشنی میں پوری بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عورت کے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں ' صرف تعارف کے لئے والد یا شوہر کا نام لکھا جاتا ہے.. عام طور پر شادی سے پہلے والد کا نام لکھتے ہیں اور اس میں اثبات ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہے اور شادی کے بعد شوہر کا نام لکھتے ہیں اور چونکہ اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے اس لئے یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو..
تحریر : محمد عاصم..
(متخصص فی الافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی،پاکستان)
 
Top