کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
عورت کو حق طلاق تفویض کرنا، شریعت میں تبدیلی ہے!۔۔۔ قسط اول
پاکستان میں حکومت کے مجوزہ نکاح فارم کی ایک شق میں یہ درج ہوتا ہے کہ خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کیا ہے یا نہیں؟... اکثر لوگ تو اس شق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اثبات یا نفی (ہاں یا نہیں) میں کچھ نہیں لکھتے۔ لیکن بعض لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ نکاح کے موقعے پر تفویض طلاق کے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور وہ اس شرط کو لکھواتے یعنی منواتے ہیں کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب چاہے اپنے خاوند کو طلاق دے سکتی ہے اور اس طرح کے واقعات اب پیش آنے لگے ہیں کہ ایسی عورتیں جن کو حق طلاق تفویض کیا گیا، انھوں نے اپنے خاوندوں کو طلاقیں دے دیں۔
علماے احناف اور دیگر فقہا تو اس تفویض طلاق کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی و جہ وہ فقہی جمود ہے جس میں وہ مبتلا ہیں، اس لیے عدمِ دلیل کے باوجود وہ اس بنا پر اس کے قائل ہیں کہ ان کے فقہانے اس کو تسلیم کیا ہے۔ بنابریں وہ عورت کے طلاق دینے کی و جہ سے میاں بیوی میں جدائی کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔لیکن بعض علماے اہلحدیث بھی اس کے جواز کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔ غالباً انھوں نے مسئلے کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا یا عورتوں کے 'حقوق' کے شور میں اس کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی، اس لیے وہ بھی جواز کے قائل ہو گئے!!
راقم کے پاس بھی یہ استفسار آیا اور اس میں بعض علماے اہلحدیث کی طرف سے اس کے اثبات کا حوالہ بھی دیا گیا۔ اس بنا پر ضرورت محسوس ہوئی کہ مسئلے کی نوعیت کو شرعی دلائل کی روشنی میں واضح اور منقح کیا جائے تاکہ ایک طرف مسلک ِتفویض کے حامل علماے احناف کے دلائل کی بے ثباتی واضح ہو جائے اور جو علما محض بعض شبہات کی و جہ سے اس کے جواز کے قائل ہیں، وہ بھی اپنے موقف پرنظرثانی کرکے صحیح دلائل پر مبنی موقف کو اختیار کر سکیں۔
بہرحال ہمارا موقف یہ ہے کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض نہیں کیا جا سکتا اور اگر کسی نے اس کو یہ حق دے دیا اور عورت نے اسے استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے دی، تو یہ طلاق نہیں ہوگی۔ طلاق کا حق صرف مرد کو حاصل ہے، یہ حق اللہ نے صرف اُسے ہی عطا کیا ہے، اسے پوری اُمت مل کر بھی عورت کی طرف منتقل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
اس کے دلائل حسب ِذیل ہیں:
اسلام میں طلاق کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے، عورت کو نہیں۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں زود رنج، زود مشتعل اور جلد بازی میں جذباتی فیصلہ کرنے والی ہے، نیز عقل اور دوراندیشی میں کمزور ہے۔ عورت کو بھی حق طلاق دیے جانے کی صورت میں، یہ اہم رشتہ جو خاندان کے استحکام و بقا اور اس کی حفاظت و صیانت کے لیے بڑا ضروری ہے، تارِعنکبوت سے زیادہ پائیدار ثابت نہ ہوتا۔ علمائے نفسیات و طبیعیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب 'خواتین کے امتیازی مسائل' مطبوعہ دارالسلام میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
اگر عورت کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو وہ اپنا یہ حق نہایت جلد بازی یا جذبات میں آکر استعمال کر لیا کرتی اور اپنے پیروں پر آپ کلہاڑا مار لیا کرتی۔ اس سے معاشرتی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا، اس کا تصور ہی نہایت روح فرسا ہے۔ اس کا اندازہ آپ مغرب اور یورپ کی اُن معاشرتی رپورٹوں سے لگا سکتے ہیں جو وہاں عورتوں کو حق طلاق مل جانے کے بعد مرتب اور شائع ہوئی ہیں۔ان رپورٹوں کے مطالعے سے اسلامی تعلیمات کی حقانیت اور عورت کی اس کمزوری کا اثبات ہوتا ہے جس کی بنا پر مرد کو تو حق طلاق دیاگیا ہے لیکن عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ عورت کی جس زود رنجی، سریع الغضبی، ناشکرے پن اور جذباتی ہونے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، احادیث سے بھی اس کا اثبات ہوتا ہے۔ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب ایک عورت کی افتادِ طبع اور مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ عمر بھر کے احسان کو مرد کی کسی ایک بات پر فراموش کر دیتی ہے تو اسے اگر حق طلاق مل جاتا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس آسانی کے ساتھ وہ اپناگھر اُجاڑ لیا کرتی؟«وَرَأَیْتُ النَّارَ فَإِذَا أَکْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ یَکْفُرْنَ» قِیْلَ: أَیَکْفُرْنَ بِاللهِ؟ قَالَ: «یَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ وَ یَکْفُرْنَ الْإِحْسَانَ، لَوْأَحْسَنْتَ إِلٰى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَیْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ مِنْكَ خَیْرًا قَطُّ»
''میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی (اس کی و جہ یہ ہے کہ) وہ ناشکری کا ارتکاب کرتی ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) وہ خاوند کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ایک عورت کے ساتھ احسان کرتے رہو، پھر وہ تمہاری طرف سے کوئی ایسی چیز دیکھ لے جو اسے ناگوار ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھے گی کہ میں نے تو تیرے ہاں کبھی بھلائی اور سکھ دیکھا ہی نہیں۔''
عورت کی اس کمزوری، کم عقلی اور زود رنجی ہی کی و جہ سے مرد کو اس کے مقابلے میں صبرو ضبط، تحمل اور قوت برداشت سے کام لیتے ہوئے عورت کے ساتھ نباہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے ، کیونکہ عورت کی یہ کمزوریاں فطری ہیں، کسی مرد کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ قوت کے زور سے اُن کمزوریوں کو دور کرکے عورت کو سیدھا کر دے یاسیدھا رکھ سکے۔نبیﷺ نے فرمایا:
شارح بخاری حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:«اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الـْمَرأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِیْمُهُ کَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَکْتَهُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ»
''عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت مانو، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور سب سے زیادہ کجی اوپر کی پسلی میں ہوتی ہے، پس اگر تم اُسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور یوں ہی چھوڑ دو گے تو کجی باقی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت قبول کرو۔''
بہرحال عورت کی یہی وہ فطری کمزوری ہے جس کی و جہ سے اللہ نے مرد کو تو حق طلاق دیا ہے لیکن عورت کو نہیں دیا۔ عورت کا مفاد ایک مرد سے وابستہ اور اس کی رفیقۂحیات بن کر رہنے ہی میں ہے، نہ کہ گھر اجاڑنے میں۔ اور عورت کے اس مفاد کو عورت کے مقابلے میں مرد ہی صبر و ضبط اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرکے زیادہ ملحوظ رکھتا اور رکھ سکتا ہے۔''مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ عورت کے مزاج میں کجی (ٹیڑھا پن) ہے (جو ضد وغیرہ کی شکل میں بالعموم ظاہر ہوتی رہتی ہے)، پس اس کمزوری میں اسے معذور سمجھو کیونکہ یہ پیدائشی ہے، اسے صبر اور حوصلے سے برداشت کرو اور اُن کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرو۔ اگر تم اُنھیں سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اُن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکو گے جبکہ اُن کا وجود انسان کے سکون کے لیے ضروری ہے اور کشمکشِ حیات میں اُن کا تعاون ناگزیر ہے، اس لیے صبر کے بغیر اُن سے فائدہ اٹھانا اور نباہ ناممکن ہے۔''
بنابریں اسلام کا یہ قانونِ طلاق بھی دراصل عورت کے مفاد ہی میں ہے، گو عورت آج کل پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
نوٹ:
پورا مضمون مع حوالہ جات پڑھنے کےلیے کلک کریں۔۔۔۔۔محدث میگزین