السلام علیکم
برائے مہربانی اس حدیث کے بارے میں ارشاد فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے ،
عن جابر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى امرأة، فأتى امرأته زينب، وهي تمعس منيئة لها، فقضى حاجته، ثم خرج إلى أصحابه، فقال: «إن المرأة تقبل في صورة شيطان، وتدبر في صورة شيطان، فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عورت پر نظر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور وہ ایک چمڑے کو دباغت دینے کے لئے مل رہی تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حاجت ان سے پوری کی اور پھر اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف نکلے اور فرمایا: ”عورت جب سامنے آتی ہے تو شیطان کی صورت میں آتی ہے اور جب جاتی ہے تو شیطان کی صورت میں جاتی ہے، پھر جب کوئی کسی عورت کو دیکھے تو اس کو چاہیئے کہ اپنی بیوی کے پاس آئے یعنی صحبت کرے، اس عمل سے اس کے دل کا خیال جاتا رہے گا۔“
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے ،
کیونکہ حجاب کا حکم سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے موقع پر نازل ہوا تھا ،
صحیح بخاری 5166 میں ہے کہ :
عن ابن شهاب، قال: أخبرني أنس بن مالك رضي الله عنه: أنه كان ابن عشر سنين، مقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، فكان أمهاتي يواظبنني على خدمة النبي صلى الله عليه وسلم فخدمته عشر سنين، وتوفي النبي صلى الله عليه وسلم وأنا ابن عشرين سنة، فكنت أعلم الناس بشأن الحجاب حين أنزل، وكان أول ما أنزل في مبتنى رسول الله صلى الله عليه وسلم بزينب بنت جحش: «أصبح النبي صلى الله عليه وسلم بها عروسا، فدعا القوم فأصابوا من الطعام، ثم خرجوا وبقي رهط منهم عند النبي صلى الله عليه وسلم، فأطالوا المكث، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فخرج، وخرجت معه لكي يخرجوا، فمشى النبي صلى الله عليه وسلم ومشيت، حتى جاء عتبة حجرة عائشة، ثم ظن أنهم خرجوا فرجع ورجعت معه، حتى إذا دخل على زينب فإذا هم جلوس لم يقوموا، فرجع النبي صلى الله عليه وسلم ورجعت معه، حتى إذا بلغ عتبة حجرة عائشة وظن أنهم خرجوا، فرجع ورجعت معه، فإذا هم قد خرجوا، فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيني وبينه بالستر، وأنزل الحجاب».
ترجمہ :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ` جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے تو ان کی عمر دس برس کی تھی۔ میری ماں اور گھر کی بڑی خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے مجھ کو تاکید کرتی رہتی تھیں۔ چنانچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس تک خدمت کی اور جب آپ کی وفات ہوئی تو میں بیس برس کا تھا۔ پردہ کے متعلق میں سب سے زیادہ جاننے والوں میں سے ہوں کہ کب نازل ہوا۔ سب سے پہلے یہ حکم اس وقت نازل ہوا تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما سے نکاح کے بعد انہیں اپنے گھر لائے تھے، آپ ان کے دولہا بنے تھے۔ پھر آپ نے لوگوں کو (دعوت ولیمہ پر) بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا اور چلے گئے۔ لیکن کچھ لوگ ان میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں (کھانے کے بعد بھی) دیر تک وہیں بیٹھے (باتیں کرتے رہے) آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے۔ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر گیا تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور میں بھی آپ کے ساتھ رہا۔ جب آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس دروازے پر آئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں۔ اس لیے آپ واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ آیا۔ جب آپ زینب رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ لوگ ابھی بیٹھے ہوئے ہیں اور ابھی تک نہیں گئے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے پھر واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آ گیا جب آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے دروازے پر پہنچے اور آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں تو آپ پھر واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا۔ اب وہ لوگ واقعی جا چکے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اپنے اور میرے بیچ میں پردہ ڈال دیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔
(صحیح بخاری ،کتاب النکاح ،حدیث نمبر 5166 )
اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ : حجاب کا حکم سنۃ 4 ہجری میں نازل ہوا ،
وَالْحِجَابُ كَانَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ سَنَةَ أَرْبَعٍ عِنْدَ جَمَاعَةٍ
(فتح الباری 7/ 430 )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اس حدیث میں جو ہے کہ :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى امرأة، فأتى امرأته زينب "
کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عورت پر نظر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے "
تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عورت بے پردہ تھی ، وہ یقیناً باپردہ ہوگی ،کیونکہ اس حدیث میں اس کی شناخت ،نام نہیں بتایا گیا ،اگر وہ بے حجاب ہوتی تو اتنے اہم واقعہ میں اس کی شناخت ضرور بتائی جاتی جیسا کہ اس واقعہ میں ام المومنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی بتایا گیا ہے ۔
اصل میں اس حدیث میں بیان کیا گیا واقعہ امت کیلئے پیارے مصطفیٰ ﷺ کی عملی تعلیم و تربیت ہے
نبی اکرم ﷺ اپنے عمل سے صحابہ کرام کو بتایا کہ ایسے موقع پر مومن کا طریقہ کیا ہونا چاہیئے ،
ــــــــــــــــــــــــــ