- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
عورت کی نماز کے متعلق احکام
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ''مردوں کی پہلی صف سب سے افضل ہے اور آخری صف بدتر ہے اور عورتوں کی آخری صف سب سے افضل ہے اور پہلی بدتر ہے ۔''[صحیح مسلم:٤٤٠]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ''میں نے اور ایک بچے نے اکٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی اور ایک بڑھیا اکیلی ہی صف میں ہمارے پیچھے کھڑی ہوگئی۔'' [صحیح بخاری:٤٢٧،٣٨٠ وصحیح مسلم :٦٥٨]
فائدہ 1: اگر ایک بچہ ہے تو مردوں کے ساتھ کھڑا ہوسکتاہے ۔
فائدہ2: اگر عورت صف میں اکیلی ہی کھڑی ہو تو اس کی نما ز درست ہے ۔
عورتوں اور مردوں کے احکام ایک جیسے ہیں الا کہ کو خاص نص مل جائے کہ یہ مسئلہ عورتوں کے متعلق ہے وہ ان کے ساتھ خا ص ہو گا جیسے مردوں پر سونا پہننا حرام ہے وغیرہ ۔یاد رہے کہ عورتوں اور مردوں کی نماز کی ہیت اور طریقے میں کوئی فرق نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تسبیح مردوں کے لئے ہے اور تصفیق(ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرے ہاتھ کی پشت مارنا)عورتوں کے لئے ۔(صحیح البخاری:١٢٠٣،صحیح مسلم:٤٢٢)
اب یہ اس فرق کا نما ز کی ہیئت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بالغہ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں ہوتی ۔(سنن ابی داود:٦٤١حدیث صحیح عند المحدثین،اس کو ترمذی نے حسن(سنن الترمذی:٣٧٧) ابن خزیمہ (٧٧٥) ابن حبان(الاحسان:١٧٠٨)ابن الجارود (المنتقی:١٦٦)ابن الملقن(البدر المنیر:ج٤ص١٥٥)نووی(خلاصۃ الاحکام:ج١ص٣٢٥) اور ابن حجر(بلوغ المرام:٢٠٧)نے صحیح اور حاکم اور ذہبی نے علی شرط مسلم کہا ہے (مستدرک حاکم:ج١ص٢٥١)
اس سے معلوم ہوا کہ عورت نماز میں اپنا سر ڈھانپ کر نما زپڑھے گی حالانکہ محرم کے پا س عورت اپنا سر ننگا رکھ سکتی ہے ۔ ۔حافظ ابن تیمیہ نے اس پر اچھی بحث کی ہے (حجاب المراۃص٢٤)
فائدہ: اس حدیث سے مراد کیا ہے اس کی تفصیل کے لئے دیکھئے(البدر المنیر:ج٤ص١٥٥،تہذیب اللغات للنووی:ص١٠٦٥)
اس کا جواز ملتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی طلحہ کی نماز جنازہ پڑھائی آپ ؐ کے پیچھے سیدنا ابوطلحہ کھڑے تھے اور ان کے پیچھے سیدہ ام سلیم کھڑی تھیں ۔(مستدرک حاکم:١٣٥٠وقال الحاکم :ھذا صحیح علی شرط الشیخین وقال الہیثمی:رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ رجال الصحیح،مجمع الزوائد:ج٣ص٣٤)
معلوم ہوا کہ عورت نماز جنازہ میں شریک ہو سکتی ہے ،یاد رہے کہ عورت کا جنازے کے پیچھے جانا منع ہے ۔جو مسئلہ ثابت ہو جائے وہ تمام جگہوں کے لئے ہوتا ہے ۔الا کہ خاص نص مل جائے یاد رہے کہ دین مردوں اور عورتوں سب کے لئے ایک ہے ۔
عورت کا قبروں کی زیارت کرنے جانا درست ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ابن ملیکہ (تابعی)کہتے ہیں کہ ایک دن امی عائشہ رضی اللہ عنھا قبرستان سے آئیں تو میں نے پوچھا :اے ام المومنین آپ کہاں سے آئیں ہیں؟
انھوں نے کہا :اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر سے ۔
میں نے کہا۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں کیا تھا ؟
انھوں نے کہا:جی ہاں آپ نے منع کیا تھا پھر (بعد میں )زیارت کا حکم دے دیا تھا۔(مستدرک حاکم:١٣٩٢،حافظ ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے )
عورت کا قبرستان میں جانے کا جواز تو ہے مگر رسول اللہ ؐ نے کثرت سے قبرستان میں جانے والی عورت پر لعنت کی ہے ۔(سنن الترمذی:١٠٥٦،اس کو ترمذ ی نے حسن صحیح اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے ۔الاحسان:١٣٧٨)
عورتوں اور مردوں کی سب سے بہترین صف
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ''مردوں کی پہلی صف سب سے افضل ہے اور آخری صف بدتر ہے اور عورتوں کی آخری صف سب سے افضل ہے اور پہلی بدتر ہے ۔''[صحیح مسلم:٤٤٠]
عورت اگر باجماعت نماز پڑھے تو سب سے آخری صف میں کھڑی ہوگی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ''میں نے اور ایک بچے نے اکٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی اور ایک بڑھیا اکیلی ہی صف میں ہمارے پیچھے کھڑی ہوگئی۔'' [صحیح بخاری:٤٢٧،٣٨٠ وصحیح مسلم :٦٥٨]
فائدہ 1: اگر ایک بچہ ہے تو مردوں کے ساتھ کھڑا ہوسکتاہے ۔
فائدہ2: اگر عورت صف میں اکیلی ہی کھڑی ہو تو اس کی نما ز درست ہے ۔
عورتوں اور مردوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں :
عورتوں اور مردوں کے احکام ایک جیسے ہیں الا کہ کو خاص نص مل جائے کہ یہ مسئلہ عورتوں کے متعلق ہے وہ ان کے ساتھ خا ص ہو گا جیسے مردوں پر سونا پہننا حرام ہے وغیرہ ۔یاد رہے کہ عورتوں اور مردوں کی نماز کی ہیت اور طریقے میں کوئی فرق نہیں ۔
نماز میں عورتں کے لئے تصفیق ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تسبیح مردوں کے لئے ہے اور تصفیق(ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرے ہاتھ کی پشت مارنا)عورتوں کے لئے ۔(صحیح البخاری:١٢٠٣،صحیح مسلم:٤٢٢)
اب یہ اس فرق کا نما ز کی ہیئت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے ۔
بالغہ عورت سر ڈھانپ کر نما ز پڑھے گی :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بالغہ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں ہوتی ۔(سنن ابی داود:٦٤١حدیث صحیح عند المحدثین،اس کو ترمذی نے حسن(سنن الترمذی:٣٧٧) ابن خزیمہ (٧٧٥) ابن حبان(الاحسان:١٧٠٨)ابن الجارود (المنتقی:١٦٦)ابن الملقن(البدر المنیر:ج٤ص١٥٥)نووی(خلاصۃ الاحکام:ج١ص٣٢٥) اور ابن حجر(بلوغ المرام:٢٠٧)نے صحیح اور حاکم اور ذہبی نے علی شرط مسلم کہا ہے (مستدرک حاکم:ج١ص٢٥١)
اس سے معلوم ہوا کہ عورت نماز میں اپنا سر ڈھانپ کر نما زپڑھے گی حالانکہ محرم کے پا س عورت اپنا سر ننگا رکھ سکتی ہے ۔ ۔حافظ ابن تیمیہ نے اس پر اچھی بحث کی ہے (حجاب المراۃص٢٤)
فائدہ: اس حدیث سے مراد کیا ہے اس کی تفصیل کے لئے دیکھئے(البدر المنیر:ج٤ص١٥٥،تہذیب اللغات للنووی:ص١٠٦٥)
عورت کا نماز جنازہ پڑھنا:
اس کا جواز ملتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی طلحہ کی نماز جنازہ پڑھائی آپ ؐ کے پیچھے سیدنا ابوطلحہ کھڑے تھے اور ان کے پیچھے سیدہ ام سلیم کھڑی تھیں ۔(مستدرک حاکم:١٣٥٠وقال الحاکم :ھذا صحیح علی شرط الشیخین وقال الہیثمی:رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ رجال الصحیح،مجمع الزوائد:ج٣ص٣٤)
معلوم ہوا کہ عورت نماز جنازہ میں شریک ہو سکتی ہے ،یاد رہے کہ عورت کا جنازے کے پیچھے جانا منع ہے ۔جو مسئلہ ثابت ہو جائے وہ تمام جگہوں کے لئے ہوتا ہے ۔الا کہ خاص نص مل جائے یاد رہے کہ دین مردوں اور عورتوں سب کے لئے ایک ہے ۔
عورت کا قبرستان کی زیارت کرنے جانا :
عورت کا قبروں کی زیارت کرنے جانا درست ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ابن ملیکہ (تابعی)کہتے ہیں کہ ایک دن امی عائشہ رضی اللہ عنھا قبرستان سے آئیں تو میں نے پوچھا :اے ام المومنین آپ کہاں سے آئیں ہیں؟
انھوں نے کہا :اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر سے ۔
میں نے کہا۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں کیا تھا ؟
انھوں نے کہا:جی ہاں آپ نے منع کیا تھا پھر (بعد میں )زیارت کا حکم دے دیا تھا۔(مستدرک حاکم:١٣٩٢،حافظ ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے )
عورت کا قبرستان میں جانے کا جواز تو ہے مگر رسول اللہ ؐ نے کثرت سے قبرستان میں جانے والی عورت پر لعنت کی ہے ۔(سنن الترمذی:١٠٥٦،اس کو ترمذ ی نے حسن صحیح اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے ۔الاحسان:١٣٧٨)