• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت کی پسند بخیل یا فراخ دل خاوند ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عورت کی پسند بخیل یا فراخ دل خاوند ؟

بیوی خوفزدہ تھی۔۔۔ گھبرائی ہوئی تھی۔۔۔ ڈرتے ڈرتے شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری سونے کی وہ انگوٹھی گم ہو گئی ہے جو آپ نے مجھے شادی کی رات تحفہ میں دی تھی۔ شوہر نے بے توجہی سے کہا’’اچھا‘‘ یہ عجیب اتفاق ہے کہ آج ہی میرے کوٹ کی جیب سے ایک ہزار کا نوٹ بھی غائب ہے۔ مگر مجھے ہزار کے نوٹ کا اتنا غم نہیں۔ بیوی نے چونک کر پوچھا، کیوں؟ اس لئے کہ مجھے تمہاری انگوٹھی مل گئی ہے، شوہر نے جواب دیا، بیوی نے خوش ہوتے ہوئے کہا، کیا یہ سچ ہے؟ کہاں سے ملی؟ شوہر نے کہا میرے کوٹ کی جیب میں تھی کہ جس میں سے ہزار کا نوٹ غائب ہوا تھا۔

آخر کار چوری پکڑی گئی، جب بیوی نے کوٹ کی جیب سے پیسے نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو انگلی سے انگوٹھی جیب میں گر گئی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو بتائے بغیر جیب سے پیسے نکالنے کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ یا تو خاوند کنجوس ہے جو بیوی کو خرچہ نہیں دیتا۔ اس لئے ضروریات پورا کرنے کے لئے اسے ایسا کرنا پڑا۔ اگر تو وہ ضروریات کے لئے ایسا کرتی ہے تو اس کے لئے جائز ہے۔

جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہند رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا! کہ ابوسفیان کنجوس آدمی ہیں وہ اتنا خرچ نہیں دیتے کہ جو مجھے اور میرے بچوں کو کفایت کرے، اگر میں ان کی لاعلمی میں لے لوں تو؟ آپﷺ نے فرمایا تو اتنا لے سکتی ہے جتنا تجھے اور تیرے بچوں کے لئے کفایت کرے۔

لیکن اچھے طریقے سے لینا ہے۔ بیوی کیلئے خاوند کے پیسے چوری چھپے لینے کی اجازت تو دی ہے لیکن بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شوہر کی بات کی تابعداری بھی کرے، صرف جائز ضروریات پوری کرنے کیلئے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خاوند گھر کا پورا خرچہ دیتا ہے لیکن فضول خرچ عورت اپنی ضرورت سے زیادہ کپڑوں، جوتوں اور جیولری پر اڑا دیتی ہے؟ اپنا منہ چمکانے کے لئے بیوٹی پارلر جانا ہوتا ہے اور خاوند کی جیب کا صفایا ہو جاتا ہے، اسی طرح گھر میں لڑائی ہوتی ہے۔ اگر تو خاوند غریب ہے اس کی معاشی حالت اچھی نہیں تو پھر بیوی کے ایسا کرنے سے دنگا فساد ہو گا۔ اگر مرد امیر ہے تو اس کے پیسے اس طرح چرا لینے سے کچھ پتہ نہیں چلے گا، لیکن معاملہ زیادہ چھپا بھی نہیں رہ سکتا اور اگر مرد کنجوس نہ ہو تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔

کنجوس آدمی بے حس بھی ہوتا ہے، خود تو وہ اچھا کھا پی رہا ہوتا ہے، پر مگر بیوی بچوں کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتا۔ ایک شادی کے موقع پر مجھے ایک جاننے والی ایک جوان عورت ملی جو پہلے تو صحت مند تھی لیکن اب کمزور و مریل سی ہو چکی تھی۔ وہ بتانے لگی کہ اس کے تین بچے ہیں میرا خاوند جو کماتا ہے وہ صرف اس کے اپنے لئے ہوتا ہے۔ وہ گھر میں دودھ لاتا ہے یا کوئی فروٹ تو وہ صرف اپنے لئے لاتا ہے اور اکیلا بیٹھ کر کھا پی جاتا ہے۔ بچے آس پاس چل پھر رہے ہوتے ہیں، انہیں کچھ نہیں دیتا۔ بچے مجھ سے مانگتے ہیں تو اس وقت میری اس سے لڑائی ہوتی ہے کہ باہر ہی کھا آیا کرو اگر بچوں کو نہیں دینا ہوتا۔ میری اس بات پر وہ مجھے مارتا پیٹتا ہے کہ تیرے بچے ہیں تو ہی پال۔ میں سارا دن مشین پر کپڑے سلائی کرتی ہوں اور بچوں کا پیٹ پالتی ہوں۔ ویسے میرا خاوند نمازیں بھی پڑھتا ہے۔

داڑھی بھی رکھی ہوئی ہے، شلوار بھی ٹخنوں سے اوپر ہوتی ہے، سمجھ نہیں آتی کیسا دیندار ہے جس کے سامنے اپنا پیٹ ہی پیٹ ہے۔ بس اس کی گھر میں خرچ نہ دینے والی عادت سے بہت تنگ ہوں، کیا وہ صرف میرے بچے ہیں؟ اس کی بھی تو اتنی ہی ذمہ داری ہے۔

میں نے کہا کیوں نہیں،یہ تمہاری ذمہ داری نہیں بلکہ تمہارا خرچہ اور گھر کے اخراجات پورے کرنا بھی خاوند کی ذمہ داری ہے اور جو اس ذمہ داری سے بھاگے-

اس کے بارے میں رسول کریمﷺ نے فرمایا!

انسان کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جن کے خرچ کا وہ ذمہ دار ہے ان کی خوراک روک دے (یعنی ان کو خرچہ نہ دے)۔
مسلم
خاوند پر واجب نان و نفقہ یہ ہے کہ جیسا خود کھاتا ہے ایسا اپنی بیوی اور بچوں کو کھلائے، جیسا پہنتا ہے ویسا انہیں بھی پہنائے۔ گھر بنا کر دینے کی ذمہ داری بھی خاوند کی ہے، گھر کی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا خاوند کے ذمہ ہے، کسی نے سوال کیا کہ بیوی کے لئے ویزے کے پیسے کا بندوبست کرنا کیا خاوند کے ذمہ ہے؟ وہ باہر کے ملک اپنے والدین کے پاس جانا چاہتی ہے۔ فتاویٰ محدث کے مفتیان کرام کہتے ہیں کہ اگر نکاح میں کسی خرچ کی شرط لگائی گئی ہے تو وہ اسے ضرور ادا کرنا پڑے گا، البتہ اگر خاوند صاحب حیثیت ہے تو اور کوئی معاہدہ بھی نہیں ہے تو اسے جھگڑے کے بجائے نرمی سے کام لینا چاہئے اور اپنے اہل و عیال پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے۔

اہل و عیال پر خرچ کرنے والے کے بارے میں نبی کریمﷺ نے اجر کی نوید سنائی ہے:

’’اگر کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کے لئے اجروثواب کی نیت سے خرچ کرے گا تو یہ اس کے لئے صدقہ کے اجر و ثواب کا باعث ہو گا۔
(بخاری و مسلم)
رسول کریمﷺ کا فرمان ہے-

جو چیز بھی تو اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے صرف کرے گا اس کا تجھے اجر ملے گا حتیٰ کہ وہ لقمہ وغیرہ جو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالا (اس کا بھی اجر ملے گا)۔
(بخاری، کتاب الایمان)
اور حدیث میں ہے کہ

’’ایک وہ دینار ہے جسے تو نے اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا اور ایک وہ دینار ہے جو تو نے غلام آزاد کرنے میں صرف کیا اور ایک وہ دینار ہے جو تو نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کر دیا، ان میں سے افضل وہ دینار ہے جو تو نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا۔
(مسلم)
کسی نے میسج پر مجھ سے پوچھا کہ عورت کو خرچہ دینا چاہئے کہ نہیں؟ مجھے تو اس کی اس بات پر حیرانی ہوئی کہ پوچھنے والے کو عورت کی اتنی بھی قدر نہیں کہ جس نے تکلیف سے اس کا بچہ پیدا کیا، اب اسے دودھ پلا رہی ہے، اس کے بچوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کر رہی ہے اس کی اور اس کے گھر والوں کی خدمت کر رہی ہے جو کہ اس پر فرض نہیں ہے لیکن اس کی عورت خوشی سے یہ سب کرتی ہے، ایسی عورت اور فرمانبرد بیوی کے لئے تو کہتا ہے کہ اس کو خرچہ دینا چاہئے کہ نہیں؟ اس بات میں سراسر حماقت ہے کہ اگر گھر میں نوکرانی لا کر رکھے کہ وہ گھر کے سارے کام کرے اور ان سارے کاموں کا معاوضہ تو تیری جیب ہی خالی کر دے گا۔ او اللہ کے بندے! بیوی کا نان و نفقہ تو تجھ پر واجب ہے، اس کے علاوہ اسے الگ سے ماہانہ خرچ دینا چاہئے تاکہ وہ اپنی چھوٹی موٹی ضروریات پوری کر لے۔ اپنی مرضی سے بچوں پر خرچ کر سکے۔ اگر اللہ کی راہ میں دے کر ثواب حاصل کرنا چاہتی ہے تو وہ بھی اس کا حق ہے کہ وہ آخرت میں اپنا حصہ ڈالے۔

اگر شوہر اور بیوی باہمی رضامندی سے گھر کا خرچہ چلائیں گے تو گھر کا نظام احسن طریقے سے چلے گا۔

اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ

’’(اللہ کے بندے) جب خرچ کرتے ہیں نہ تو وہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں بلکہ ان کا خرچ اس کے درمیان ہوتا ہے یعنی اعتدال اور میانہ روی سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (الفرقان 67)
بیوی کے خرچ کرنے میں میانہ روی اور اعتدال ہو گا تو گھر کا خرچہ کرنے میں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ خاوند کنجوسی کرے گا تو بیوی کوٹ کی جیب سے چراتے ہوئے پکڑی جائے گی اور اسی طرح بیوی پیسہ ضائع کرنے والی ہوئی تو تب وہ بھی خاوند کے لئے درد سر بن جائے گی۔ خاندان کو تباہی اور قرض جیسی مصیبت میں ڈال دے گی۔ اس سے گھر کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ میاں بیوی میں لڑائی ہو گی، بات علیحدگی تک پہنچ جائے گی۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ بیوی اور بچوں کا نان و نفقہ خاوند کے ذمہ ہے اور بیوی کو خاوند کے مال کا تحفظ کرنا ہے۔ باہمی محبت ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، ایسا نہ ہو تو مسئلے ہی مسئلے ہیں۔

اس ضمن میں عرض کرتی چلوں کہ عورت کھلے دل والے مرد کو پسند کرتی ہے کنجوس کو نہیں۔

امام ابن جوزی رحمہ اللہ کا واقعہ یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، وہ اپنی کتاب ’’الاذکیاء‘‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور ایک جوان آدمی نے بیک وقت ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو عورت نے ان دونوں کو پیغام دے بھیجا کہ تم دونوں نے میرے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے لیکن میں تمہیں دیکھے اور تمہاری دونوں کی بات سنے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتی، اس لئے تم اگر خواہش مند ہو تو فلاں وقت دونوں حاضر ہو جاؤ، چنانچہ دونوں پہنچ گئے اور اس نے دونوں کو ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں سے وہ ان کو دیکھ سکتی تھی اور ان کی گفتگو بھی سن سکتی تھی۔ جب سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دوسرے کو دیکھا تو وہ خوبصورت جوان تھا اس کی یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ناامید ہو گئے اور یہ سوچا کہ یہ عورت اس جوان کو ہی ترجیح دے گی تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو ایک تدبیر سوجھی چنانچہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس جوان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’تو خوبصورت اور قوت گویائی دیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی تیری کوئی خوبی ہے؟‘‘ اس نے کہا، ہاں! پھر اس نے اپنے کچھ محاسن بیان کئے اور خاموش ہو گیا۔

پھر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ’’تم حساب کتاب میں کیسے ہو؟‘‘ تو اس نے کہا ’’میں حساب کتاب میں کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتا، اگر رائی کے دانے سے باریک چیز بھی باقی رہ جائے تو میں وہ وصول کر لیتا ہوں۔‘‘

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’لیکن میرا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ میں پیسوں کی تھیلی گھر کے کونے میں رکھ چھوڑتا ہوں، میرے گھر والے اسے آزادی سے خرچ کرتے رہتے ہیں، مجھے ان پیسوں کے ختم ہونے کا علم اس وقت ہوتا ہے جب کہ میرے گھر والے اور رقم طلب کرتے ہیں یعنی میں اپنے گھر والوں سے حساب کتاب کرتا ہی نہیں۔

عورت نے یہ سن کر دل ہی دل میں کہا ’’اللہ کی قسم! یہ عمر رسیدہ جو مجھ سے حساب کتاب نہ مانگے وہ مجھے اس جوان سے زیادہ پسند ہے جو رائی کے دانے جیسی چھوٹی چیز کا بھی حساب لینے پر تلا ہو۔‘‘ چنانچہ اس عورت نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔

 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
[quote="محمد عامر یونس, post: 173709, member: 3508"
امام ابن جوزی رحمہ اللہ کا واقعہ یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، وہ اپنی کتاب ’’الاذکیاء‘‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور ایک جوان آدمی نے بیک وقت ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو عورت نے ان دونوں کو پیغام دے بھیجا کہ تم دونوں نے میرے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے لیکن میں تمہیں دیکھے اور تمہاری دونوں کی بات سنے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتی، اس لئے تم اگر خواہش مند ہو تو فلاں وقت دونوں حاضر ہو جاؤ، چنانچہ دونوں پہنچ گئے اور اس نے دونوں کو ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں سے وہ ان کو دیکھ سکتی تھی اور ان کی گفتگو بھی سن سکتی تھی۔ جب سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دوسرے کو دیکھا تو وہ خوبصورت جوان تھا اس کی یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ناامید ہو گئے اور یہ سوچا کہ یہ عورت اس جوان کو ہی ترجیح دے گی تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو ایک تدبیر سوجھی چنانچہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس جوان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’تو خوبصورت اور قوت گویائی دیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی تیری کوئی خوبی ہے؟‘‘ اس نے کہا، ہاں! پھر اس نے اپنے کچھ محاسن بیان کئے اور خاموش ہو گیا۔

پھر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ’’تم حساب کتاب میں کیسے ہو؟‘‘ تو اس نے کہا ’’میں حساب کتاب میں کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتا، اگر رائی کے دانے سے باریک چیز بھی باقی رہ جائے تو میں وہ وصول کر لیتا ہوں۔‘‘

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’لیکن میرا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ میں پیسوں کی تھیلی گھر کے کونے میں رکھ چھوڑتا ہوں، میرے گھر والے اسے آزادی سے خرچ کرتے رہتے ہیں، مجھے ان پیسوں کے ختم ہونے کا علم اس وقت ہوتا ہے جب کہ میرے گھر والے اور رقم طلب کرتے ہیں یعنی میں اپنے گھر والوں سے حساب کتاب کرتا ہی نہیں۔

عورت نے یہ سن کر دل ہی دل میں کہا ’’اللہ کی قسم! یہ عمر رسیدہ جو مجھ سے حساب کتاب نہ مانگے وہ مجھے اس جوان سے زیادہ پسند ہے جو رائی کے دانے جیسی چھوٹی چیز کا بھی حساب لینے پر تلا ہو۔‘‘ چنانچہ اس عورت نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔
[/QUOTE]

اس روایت کا اصل مرجع کیا ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اس روایت کا اصل مرجع کیا ہے؟[/quote]


کفایت اللہ بھائی اس روایت کی وضاحت کر دے -

امام ابن جوزی رحمہ اللہ کا واقعہ یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، وہ اپنی کتاب ''الاذکیاء'' میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور ایک جوان آدمی نے بیک وقت ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو عورت نے ان دونوں کو پیغام دے بھیجا کہ تم دونوں نے میرے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے لیکن میں تمہیں دیکھے اور تمہاری دونوں کی بات سنے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتی، اس لئے تم اگر خواہش مند ہو تو فلاں وقت دونوں حاضر ہو جاؤ، چنانچہ دونوں پہنچ گئے اور اس نے دونوں کو ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں سے وہ ان کو دیکھ سکتی تھی اور ان کی گفتگو بھی سن سکتی تھی۔ جب سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دوسرے کو دیکھا تو وہ خوبصورت جوان تھا اس کی یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ناامید ہو گئے اور یہ سوچا کہ یہ عورت اس جوان کو ہی ترجیح دے گی تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو ایک تدبیر سوجھی چنانچہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس جوان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''تو خوبصورت اور قوت گویائی دیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی تیری کوئی خوبی ہے؟'' اس نے کہا، ہاں! پھر اس نے اپنے کچھ محاسن بیان کئے اور خاموش ہو گیا۔
پھر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ''تم حساب کتاب میں کیسے ہو؟'' تو اس نے کہا ''میں حساب کتاب میں کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتا، اگر رائی کے دانے سے باریک چیز بھی باقی رہ جائے تو میں وہ وصول کر لیتا ہوں۔''
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ''لیکن میرا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ میں پیسوں کی تھیلی گھر کے کونے میں رکھ چھوڑتا ہوں، میرے گھر والے اسے آزادی سے خرچ کرتے رہتے ہیں، مجھے ان پیسوں کے ختم ہونے کا علم اس وقت ہوتا ہے جب کہ میرے گھر والے اور رقم طلب کرتے ہیں یعنی میں اپنے گھر والوں سے حساب کتاب کرتا ہی نہیں۔
عورت نے یہ سن کر دل ہی دل میں کہا ''اللہ کی قسم! یہ عمر رسیدہ جو مجھ سے حساب کتاب نہ مانگے وہ مجھے اس جوان سے زیادہ پسند ہے جو رائی کے دانے جیسی چھوٹی چیز کا بھی حساب لینے پر تلا ہو۔'' چنانچہ اس عورت نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس روایت کا اصل مرجع کیا ہے؟

کفایت اللہ بھائی اس روایت کی وضاحت کر دے -

امام ابن جوزی رحمہ اللہ کا واقعہ یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، وہ اپنی کتاب ''الاذکیاء'' میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور ایک جوان آدمی نے بیک وقت ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو عورت نے ان دونوں کو پیغام دے بھیجا کہ تم دونوں نے میرے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے لیکن میں تمہیں دیکھے اور تمہاری دونوں کی بات سنے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتی، اس لئے تم اگر خواہش مند ہو تو فلاں وقت دونوں حاضر ہو جاؤ، چنانچہ دونوں پہنچ گئے اور اس نے دونوں کو ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں سے وہ ان کو دیکھ سکتی تھی اور ان کی گفتگو بھی سن سکتی تھی۔ جب سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دوسرے کو دیکھا تو وہ خوبصورت جوان تھا اس کی یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ناامید ہو گئے اور یہ سوچا کہ یہ عورت اس جوان کو ہی ترجیح دے گی تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو ایک تدبیر سوجھی چنانچہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس جوان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''تو خوبصورت اور قوت گویائی دیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی تیری کوئی خوبی ہے؟'' اس نے کہا، ہاں! پھر اس نے اپنے کچھ محاسن بیان کئے اور خاموش ہو گیا۔
پھر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ''تم حساب کتاب میں کیسے ہو؟'' تو اس نے کہا ''میں حساب کتاب میں کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتا، اگر رائی کے دانے سے باریک چیز بھی باقی رہ جائے تو میں وہ وصول کر لیتا ہوں۔''
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ''لیکن میرا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ میں پیسوں کی تھیلی گھر کے کونے میں رکھ چھوڑتا ہوں، میرے گھر والے اسے آزادی سے خرچ کرتے رہتے ہیں، مجھے ان پیسوں کے ختم ہونے کا علم اس وقت ہوتا ہے جب کہ میرے گھر والے اور رقم طلب کرتے ہیں یعنی میں اپنے گھر والوں سے حساب کتاب کرتا ہی نہیں۔
عورت نے یہ سن کر دل ہی دل میں کہا ''اللہ کی قسم! یہ عمر رسیدہ جو مجھ سے حساب کتاب نہ مانگے وہ مجھے اس جوان سے زیادہ پسند ہے جو رائی کے دانے جیسی چھوٹی چیز کا بھی حساب لینے پر تلا ہو۔'' چنانچہ اس عورت نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔[/quote]
یہ اس کا متن ہے:
حدثنا مسلم ابن صبيح الكوفي قال سمعت أبي يقول خطب المغيرة بن شعبة وفتى من العرب امرأة وكان الفتى طريراً جميلاً فأرسلت إليها المرأة فقالت إنكما قد خطبتماني ولست أجيب أحد منكما دون أن أراه وأسمع كلامه فأحضرا إن شئتما فحضرا فأجلستهما بحيث تراهما وتسمع كلامهما فلما رآه المغيرة نظر إلى جماله وشبابه وهيئته يئس منها وعلم أنها لن تؤثره عليه فأقبل على الفتى فقال له لقد أوتيت جمالاً حسناً وبياناً فهل عندك سوى ذلك قال نعم فعدد محاسنه ثم سكت فقال له المغيرة كيف حسابك قال ما يسقط على منه شيء وإني لاستدرك منه أدق من الخردلة فقال له المغيرة لكنني أضع البدرة في زاوية البيت فينفقها أهلي على ما يريدون فما أعلم نفادها حتى يسألوني غيرها فقالت المرأة والله لهذا الشيخ الذي لا يحاسبني أحب إلي من هذا الذي يحصي علي مثل صغير الخردل فتزوجت المغيرة.
یہی قصہ تاریخ ابن عساکر میں اس طرح بیان ہوا ہے، اس کی سند یہ ہے
:وَأَخْبَرَنِي قَالَ : وَأَخْبَرَنِي أَبُو طَالِبٍ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعِيدٍ الْفَقِيهُ ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْخَزَّازُ ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفِ بْنِ الْمَرْزُبَانِ ، إِجَازَةً ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ حُرَيْثٍ الْكَاتِبُ عَنْهُ ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْتَشِرِ الطَّائِيُّ ، أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ صُبَيْحٍ الْكُوفِيُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ : خَطَبَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ وَفَتًى مِنَ الْعَرَبِ امْرَأَةً ، وَكَانَ الْفَتَى طَرِيرًا جَمِيلا ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِمَا الْمَرْأَةُ : إِنَّكُمَا قَدْ خَطَبْتُمَانِي ، وَلَسْتُ أُجِيبُ أَحَدًا مِنْكُمَا دُونَ أَنْ أَرَاهُ ، وَأَسْمَعَ كَلامَهُ ، فَاحْضُرَا إِنْ شِئْتُمَا ، فَحَضَرَا ، فَأَجْلَسَتْهُمَا حَيْثُ تَرَاهُمَا وَتَسْمَعُ كَلامَهُمَا ، فَلَمَّا رَآهُ الْمُغِيرَةُ ، وَنَظَرَ إِلَى جَمَالِهِ وَشَبَابِهِ وَهَيْئَتِهِ آيَسَ مِنْهَا ، وَعَلِمَ أَنَّهَا لَهُ مُؤْثِرَةٌ عَلَيْهِ ، فَأَقْبَلَ عَلَى الْفَتَى ، فَقَالَ لَهُ : لَقَدْ أُوتِيتَ جَمَالا وَحُسْنًا وَثَبَاتًا ، فَهَلْ عِنْدَكَ سِوَى ذَلِكَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَعَدَّدَ مَحَاسِنَهُ ، ثُمَّ سَكَتَ ، فَقَالَ لَهُ الْمُغِيرَةُ : كَيْفَ حِسَابُكَ ؟ قَالَ : مَا يَسْقُطُ عَلَيَّ مِنْهُ شَيْءٌ ، وَإِنِّي لأَسْتَدْرِكُ أَدَقَّ مِنَ الْخَرْدَلَةِ ، قَالَ الْمُغِيرَةُ : لَكِنِّي أَضَعُ الْبَدْرَةَ فِي زَاوِيَةِ الْبَيْتِ ، فَيُنْفِقُهَا أَهْلِي عَلَى مَا يُرِيدُونَ ، فَمَا أَعْلَمُ بِنَفَادِهَا حَتَّى يَسْأَلُونِي غَيْرَهَا ، فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ : وَاللَّهِ لَهَذَا الشَّيْخُ الَّذِي لا يُحَاسِبُنِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ هَذَا الَّذِي يُحْصِي عَلَيَّ مِثْلَ صَغِيرِ الْخَرْدَلِ ، فَتَزَوَّجَتِ الْمُغِيرَةَ .
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
مذکورہ روایت کی کمزوری یہ ہے کہ امام ابن الجوزی اور مسلم بن صبیح کے درمیان انقطاع ہے اور دوسری اسناد کو ان شاء اللہ کل دیکھا جائے گا
 
Top