وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و بر کاتہ،
پیش نظر حدیث کا یہ مفہوم قطعا نہیں کہ موحدین اسباب سے انکاری ہیں یا وہ اسباب کو بلکل اختیار نہیں کرتے۔جیسا کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اور انھوں نے اس حدیث سے یہ مفہوم اخذ کیا کہ توحید کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان کوئی ذریعہ یا سبب اختیار ہی نہ کرےاور بیمار ہونے کی صورت میں کوئی دوا بھی استعمال نہ کرے۔یہ مفہوم سراسر غلط ہے کیونکہ رسول اکرم ﷺ کو بھی دم کیا گیا ، اور آپ خود بھی دم کیا کرتے تھے۔آپ ﷺ نے خود بھی علاج معالجہ کیا اور امت کو علاج معالجہ اور دوا استعمال کرنے کی اجازت دی۔نیز آپ نے ایک صحابی کو جسم داغنے کا حکم بھی دیا تھا۔لہذا اس حدیث کا یہ مفہوم قطعا نہیں کہ بغیر حساب جنت میں جانے والے لوگ اسباب اختیار نہیں کرتے یا وہ علاج معالجہ نہیں کرتے۔بلکہ اس حدیث میں ان تین امور (دم کروانے ، داغنے ، اور فا ل نکالنے کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور پر انسان کا دل دم کرنے والے یا داغنے والے کی طرف یا فال نکالنے والے کی طرف متوجہ رہتا ہے ، جس سے اللہ پر توکل میں کمی آ جاتی ہے۔واضح رہے کہ علاج معالجہ کرنا مشروع ہے۔اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، یہ کبھی تو واجب ہوتا ہے ، اور کبھی محض مستحب اور بسا اوقات علاج معالجہ کرنا مباح ہی ہوتا ہے،
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ،
تداووا عباد اللہ ولا تتداووا بحرام
"اللہ کے بندو !علاج معالجہ کیا کرو البتہ حرام اشیاء کو بطور دوا استعمال نہ کرو "
[ غایۃ المرید فی شرح کتاب توحید]