اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل صحابہ کو کاتب وحی مقرر فرمایا تھا:
حضرت بوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ ، عمرفاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ، عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ، علیرضی اللہ تعالٰی عنہ، معاویہرضی اللہ تعالٰی عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ،ابی بن کعبرضی اللہ تعالٰی عنہ، خالد بن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ،ثابت بن قیسرضی اللہ تعالٰی عنہ،۔
قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا آپ صحابہ کو مامور فرماتے کہ اسے تحریر کرلیں یہاں تک کہ کتابت کے پہلو بہ پہلو قرآن کریم کو سینوں میں بھی محفوظ کرلیا گیا۔(مشہور مستشرق بلاشیر نے کاتبین وحی صحابہ کی تعداد چالیس بتائ ہے دیگر مستشرقین مثلاً شفالی بہل اور کازانوفاکا زاویہ نگاہ بھی یہی ہے مؤخر الذکر نے اس ضمن میں طبقا ابن سعد، طبری ، نووی اور سیرت حلبی پر اعتماد کیا ہے ۔)
محدث حاکم نےمستدرک میں زید بن ثابت سے بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق روایت کیا ہے کہ زید بن ثابت نے کہا ہم عہد رسالت میں ''رقاع''(ٹکڑوں)سے قرآن جمع کیا کرتے تھے ۔
(الاتقان،ج۱ص،۹۹نیز البرہان ،ج۱ص۲۳۷)
مذکورہ صدر حدیث میں ''رقاع ''کا جو لفظ وارد ہوا ہے یہ رقعہ (ٹکڑے) کی جمع ہے اس کا اطلاق چمڑے ،کپڑے اور کاغذ کے ٹکڑے پر کیا جاتا ہے اس حدیث سے واضح ہوتا کہ کاتبین وحی عہد رسالت میں کتاب کے لئے کس قسم کا سامان استعمال کرتے تھے چناچہ نازل شدہ قرآن کریم کو پتھر کی باریک اور چوڑی سلوں، کھجور کی ٹہنیوں اونٹ یا بکری کے شانہ کی ہڈیوں ، اونٹ کے کجاوہ کی لکڑیوں اور چمڑے کے ٹکڑوں پر تحریر کیا جاتا تھا۔
(الاتقان،ج۱،ص،۱۰۱)
ترتیب سوروآیات:
حضرت زید کی روایت میں مختلف اشیاء کے ٹکڑوں سے قرآن جمع کرنے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹکڑوں سے نقل کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق قرآنی آیات وسورکو مرتکب کیا جاتا تھا۔ اس میں شبہ کی کوئ مجال نہیںکہ ہر سورت کی آیات کی ترتیب اور ان سے پہلے بسم اللہ کی تحریر ایک توقیفی امر ہے جو آنحضور کے حکم سے کیا گیاہے اس میں اختلاف کی کوئ گنجائش نہیں یہی وجہ ہےکہ اس ترتیب کا عکس جائز نہیں۔
(دیکھئے البرھان للزرکشی ،ج۱،ص۲۵۶۔امام سیوطی نے ترتیب آیات کی توقیفی ہونے کے بارے میں زرکشی کے نقل کردہ اجماع کی جانب اشارہ کیا ہے اس کے بعد اس ضمن میں موسوف نے ابو جعفر بن زیر کی ''کتاب المناسبات''سے نقل کیا ہے کہ'' قرآنی سورتوں میں آیات کی ترتیب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قائم کی گئ مسلمانوں کے یہاں اس میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا ہے(الاتقان ،ج۱،ص،۴)باقی رہا زرکشی کا یہ قول کہ ''اس ترتیب کا عکس جائز نہیں''تو اس کامطلب یہ کہ آیات کی اس توقیفی ترتیب پر عمل ضروری ہے اور اس میں تقدیم وتاخیر نہیں کی جاسکتی ۔اس امر کی وضاحت زرکشی کے اس قول سے بھی ہوتی فرماتے ہیں:بعض علماء نے ''ورتل القرآن ترتیلا''کی تفسیریوں کی ہے ''قرآن کو اسی ترتیب کے مطابق بلاتقدیم وتاخیر پڑھئے جو شخص اس کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ موردالزام ہے. اس کی دلیل میں صحیح بخاری کی وہ حدیث پیش کی جاتی ہے جو عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ میں حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہسے کہا کہ ''آیت قرآنی''والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا''(سورہ البقرہ آیت۲۲۴)کو دوسری آیت سے منسوخ کردیا گیاپھر آپ نے اس کو قرآن کریم کے نسخے میں باقی کیوں رہنے دیا ہے؟ حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:بھتیجے!میں قرآن میں کوئ تبدیلی نہیں کرسکتا۔(صحیح بخاری ،ج۶،ص،۲۹،نیزالاتقان،ج۱،ص۱۰۵)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کو معلوم تھا کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے مگر تاہم اس آیت کو اس کی جگہ سے تبدیل نہ کرسکے۔کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ حضرت جبریل سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ترتیب قرآن سے آگاہ کرچے ہیں ۔ اس لئے اب کوئ شخص اس میں تبدیلی کا مجاز نہیں ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بھی خداوندی ترتیب سے آگاہ کردیا تھا۔امام احمد بن حنبل نے اسناد حسن کے ساتھ عثمان بن ابی العاص سے روایت کی ہے کہ میں ایک روز بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھا تھا آپ نے نگاہ اٹھائ اور پھر نیچے کرکے فرمایا :میرے پاس جبریل آئے تھے انہوں نے کہا کہ آیت کریمہ''ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان ایتاء ذی القربی ''کو فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھئے ۔