• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عہد عثمان میں تدوین قرآن

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
امام بخاری نے صحیح بخاری میں اپنی سند کے ساتھ ابن شھاب سے روایت کیا ہے کہ انس بن مالک نے انہیں بتایا کہ حذیفہ بن یمان حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے موسوف نے رمینیہ اور آذربیجان کی جنگ میں شرکت کی تھی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لوگ تلاوت قرآن میں بہت اختلاف کرنے لگے تھے ۔ حذیفہ نے حضرت عثمان سے کہا امیرالمؤمنین ! قبل اس کے کہ یہ امت کتاب الٰہی میں یہودیوں اور نصاریٰ کی طرح اکتلاف کرنے لگے اس کو سنبھال لیجئے یہ سن کر حضرت عثمان نے حجرت حفصہ کو کہلا بھیجا کہ آپ کے پاس قرآن کے جو صحیفے پڑے ہیں وہ ہمارے پاس بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کو کتابی صورت میں جمع کریں پھر ہم ان کو واپس کردیں گے ۔محترمہ موصوفہ نے وہ صحیفے ارسال کردئیے۔حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے (۱) زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ،(۲) عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالٰی عنہ،(۳)سعد بن العاصرضی اللہ تعالٰی عنہ،(۴)عبدالرحمان بن حارث بن ہشامرضی اللہ تعالٰی عنہکو مومورکیا کہ وہ صحیفوں سے نقل کرکے قرآن کریم کو کتابی صورت میں جمع کردیں۔

حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے تینوں قریشی صحابہ(حضرت زید بن ثابت کے علاوہ باقی تینوں صحابہ سے کہا کہ جب تمہارے اور زید کے مابین قرآن میں کسی آیت کے بارے میں اختلاف پیداہوتو قرآن کو قریش کی زبان میں لکھیئے۔کیونکہ یہ ان کی زبان میں نازل ہوا تھا جب وہ تعمیل ارشاد کرچے تو آپ نے وہ صحیفے حضرت حفصہ کو واپس کردئیےحضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہنےجمع کردہ قرآن کے نسخے اطراف ملک میں بھجوایئے اس کے علاوہ قرآن کریم کے جو حصے کسی صحیفے یا مصحف میں لکھے گئے تھے اس کے بارے میں آپ نے حکم صادر کیا کہ ان کو نذر آتش کردیا جائے ۔(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب دوم وسوم،نیز الاتقان ۔ج۶،ص۱۰۲،المصاحف لابن ابی داؤد،ص۱۸۔وتفسیر طبری،ج۱،ص۲۰۔۲۱)
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
مندرجہ بالا بیان سے پانچ باتیں ثابت ہوتی ہیں :


(۱)اول یہ کہ مسلمانوں کے یہاں قرأت قرآن کے بارے میں جو اختلاف رونما ہو وہ حضرت عثمان کے قرآن کریم کو کتابی صورت میں جمع کرنے کا اساسی واصولی سبب تھا ۔ اس لئے بلاشیر وغیرہ مستشرقین نے جمع وتدوین قرآن کے بارے میں حضرت عثمان کی نیت پر جو حملے کئے ہیں وہ قطعی طور پر بے بنیاد ہیں مستشرقین کی اس بے بنیاد الزام کی کیا دلیل ہے کہ حضرت عثمان نے ذاتی عرض سے اپنی اور دیگر مہاجرین کی اہمیت جتانے کے لئے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔(دیکھئیےبلاشیر ،ص۵۷)

یہ اتہام فقط مستشرقین کی الزام تراشی اور عبث قیاس آرائ کا آئینہ دار ہے ورنہ کسی صحیح تاریخی وایات سے ان کے دعویٰ کی تائید نہیں ہوتی ۔ کیا کوئ دانشمند آدمی اس امر کو گوارا کرسکتا ہے کہ امام بکاری جیسے محدث کے مقابلہ میں جو ثقاہت وامانت اور حفظ وضبط میں اپنا نظریہ نہ رکھتے تھے مستشرقین کے عقلی ڈھکونسلوں کو تسلیم کیا جائے ؟

(۲)دوسری بات یہ ہے کہ جن کمیٹی کو یہ خدمت تقویض کی گئ تھی وہ چار آدمیوں پر مشتمل تھی ۰عجیب بات یہ کہ محدث ابن ابی داؤد ایک ہی مسئلہ کے بارے میں مختلف روایات نقل کرنے کے شائق رہتے ہیں اگر چہ ان میں تضاد پایا جاتا ہو ۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ مسئلہ بحث میں امام بخاری کی ذکر کردہ چار اشخاص پر مشتمل کمیٹی ہی کا ذکر نہیں کرتے بلکہ اس ضمن میں قائد شدہ دیگر کمیٹیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں مثلاً وہ ایک کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جو دو صحابہ ثابت اور سعد بن عاص پر مشتمل تھی ۔ ایک کمیٹی بارہ صحابہ پر مشتمل تھی۔کتاب المصاحف لابن ابی داؤد ،ص۲۵،۲۴،۲۲،اس تضادپر مستشرقین شالی نے جرح وقدح کی ہے مستشرقین بلاشیر اس پر اظہار حیرت واتعجاب کرتے ہیں کہ ابن ابی داؤد نے ایک کمیٹی کے ضمن میں ابی بن کعب کا ذکر بھی کیا ہے حالانکہ وہ اس سے دوسال قبل وفات پاچکے تھے یہ بلاشیر کی غلطی ہے بلاشیر کے نظریہ کے مطابق کتابت قرآن سے متعلق کمیٹی کی تشکیل ۳۰ھجری کے قریب قریب علم میں آئ تھی بخلاف ازیں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ یہ ۲۵ھجری کا واقعہ ہے وہ کہتے ہیں جو لوگ اسکو ۳۰ ھجری کا واقعہ بتاتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں ہے)

(الاتقان ،ج۱،ص۱۰۲)اور اگر یزید ثابت مدنی انصار کو شمار نہ کیا جائے تو باقی تینوں حضرات مکہ کے رہنے والے قریشی تھے (یہاں پر مستشرقین بلاشیر نے طرح طرح کی قیاس آرائیوں سے کام لیا ہے وہ پہلے تینوں قریشی صحابہ کو حضرت عثمان کی طرح طبقہ امر اء وخواص میں شمارکرتا ہے یہ بات ہمارے فہم سے بالا تر کہ اس نوزائیدہ اسلامی معاشرے میں کونسی امارت پائ جاتی تھی خصوصاً جبکہ اسلامی تعلیمات ابھی تازہ تھیں ۔ پھر کہتا ہے کہ یہ تینوں مکی صحابہ حضرت عثمان کے رشتے دار تھے اس لئے وہ ایک مشترکہ مصلحت کے سلسلے میں متفق ہوگئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے وطن مالوف میں مکہ کے سوا کسی اور جگہ کتابت قرآن کی تکمیل ہو بلاشیر اس منگھڑت قصے کی تکمیل یوں کرتا ہے کہ زید ثابت مدنی ان مکی صحابہ کے ہم خیال بن گئے تھے اور ان کی خوشامد کیا کرتے تھے زید جانتے تھے کہ وہ قریش مکہ کے طبقہ وخواص میں شامل نہیں ہیں اس لئے وہ ان صحابہ کی خوشامدکو قرین مصلحت خیال کیا کرتے تھے ۔مستشرق بلاشیر کے یہ دوردراز عقل وقیاس اور لایعنی خیالات تناقض وقضاد کا مجموعہ ہیں بلاشیر نے اس سے جو نتیجہ نکالا ہے اس کے بطلان کے لئے یہی کافی ہے کہ بلاشیر نے حجضرت زید کو تینوں مکی صحابہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کے سلسلے میں بلاوجہ متہم کیا جن کی عقل ونقلی کوئ دلیل موجود نہیں )

اس میں شبہ نہیں کہ یہ چاروں بزرگ ثقات اور افاضل صحابہ میں شمار ہوتے تھے ۔(مستشرقین نے اعتراض کیا ہے کہ اس کمیٹی کے ارکان حد درجہ متقی اور محتاط تھے بلاشیر لکھتا ہے ''اس میں شک کی کوئ گنجائش نہیں کہ کمیٹی کے ارکان کو اپنی ذمہ داری کا پوارپورا احساس تھا اگرچہ وہ ان دنوں تنقید وتبصرہ کے طرز انداز سے پوری طرح آشنانہ تھے۔

(۳)تیسری بات یہ کہ چار صحابہ کی س کمیٹی نے کتابت قرآن کے سلسلے میں حضرت حفصہرضی اللہ تعالٰی عنہ کے صحیفوں کو اصل واساس قراردیا تھا اور یہ صحیفے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول تھے ۔

(۴)چوتھی بات یہ ہے کہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا تھا تینوں قریشی صحابہ اور زید کے درمیان اختلاف رونما ہونے کی صورت میں اسی زبان کو ترجیح کا مستحق قرار دیا گیا تھا ہمارا خیال ہے کہ زبان قریش میں قرآن کی کتابت اسکو حروف سبعہ کے مطابق تحریر کرنے کے منافی نہیں ہے قرآن کریم کو حروف سبعہ کے مطابق نازل کیا گیا تھا اور لکھتے وقت اس میں نقطہ اعراب نہیں لگائے گئے تھے تمام صحیفوں میں حروف سبعہ کے طریق تلاوت کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔

(۵)پانچویں بات یہ ہے کہ چاروں صحابہ نے جو قرآن کریم جمع کیا تھا حضرت عثمان نے اسکی نقل اطراف ملک میں بھجوادیں جدل ونزاع کے استیصال کے لئے آپ نے مناسب سمجھاکہ لوگوں کے پاس قرآن کریم کے جو ذاتی اور عمومی نسخے تھے ان کو نذر آتش کردیا جائے ۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
یہ امر محتاج بیان نہیں کہ مسلمان کے اختلاف قرأءت سے صرف حذیفہ ہی پریشان نہ تھے بلکہ عام صحابہ ملول اور غم زدہ تھے جب حضرت عثمان کو اس کی اہمیت کا احساس ہوا تو آپ نے اس فتنے کوفروغ پانے سے قبل ہی روک دینا چاہا ابن جریر الطبری نے اپنی تفسیر میں جہاں ابوقلابہ کی روایت کردہ حدیث ذکر کی ہے وہاں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ابوقلابہ فرماتے ہیں:

حضرت عثمان نے خلافت میں ایک معلم ایک طرح پڑھاتا اور دوسرا دوسری طرح جب ان کے شاگرد باہم ملتے تومختلف طریقوں سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے یہاں تک کہ یہ معاملہ معلمین تک پہنچا اور وہ غلط قرأءت کی بنا ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگے جب حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ ان اختلاف سے آگاہ ہوئے تو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

''جب تم میرے پاس ہوتے ہوئے باہم اختلاف کرتے اور قرآن کریم کو غلط طریقے سے پڑھتے ہو تو جو لوگ مجھ سے دور دراز شہروں میں رہتے ہیں ان کا کیا حال ہوگا؟اسے اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم!اکھٹے ہوکر لوگوں کے لئے قرآن کا ایک نسحہ مرتب کردو''(تفسیر ابن جریر الطبری ،ج۱،ص،۲۱،نیزالاتقان،ج۱،ص۱۰۳، بحوالہ کتاب المصاحفلابن اشتہ بطریق ایوب ازقلابہ پوری روایت یوں ہے ''انہوں نے جمع ہوکر قرآن لکھنا شروع کردیاجب کسی آیت میں اختلاف پیدا ہوتا تو کہتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت فلاں شخص کو پڑھائ تھی چناچہ وہ شخص مدینے سے باہر تین میل دور سکونت گزیں ہوتا اس کو بلاکر دریافت کیا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت آپ کو کیسے پڑھائ تھی؟

جب وہ بیان کرتا تو اسے لکھ لیا جاتا اس کے لئے انہوں نے جگہ پہلے ہی خالی رکھی ہوتی تھی(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد،ص۱۲۱۔کتاب المقنع لابی عمروالدانی ص۸پر بھی اسی قسم کا مود ملتا ہے )ان اختلاف میں اضافہ کی ایک وجہ یہ تھی کہ حضرت حفصہ کے صحیفوں کے علاوہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اور لوگوں کے پاس بھی لکھے ہوئے اپنے ذاتی مصاحف موجود تھے جو کافی مشہور بھی ہوچکے تھے اس لئے حضرت عثمان لوگوں کو ایک قرآن پر متفق کرنا چاہتے تھے ۔اس ضمن میں دو مصحف بہت مشہور ہوئے ہیں یعنی(۱)مصحف ابن اُبّی کعب(۲)مصحف عبداللہ بن مسعود۔

(یہ دونوں بزرگ جلیل قدر اور فاضل صحابہ میں شمار ہوتے تھے حضرت اُبّی بن کعب کے علم وفضل کا یہ عالم تھا کہ جب خلافت صدیقی میں قرآن کریم جمع کیا گیا تو حضرت اُبّی لکھواتے جاتے اور دیگر صحابہ لکھتے جاتے لوگ ان پر حد درجہ اعتماد کرتے تھے (کتاب المصاحب لابن ابی داؤد،ص۹)جہاں تک عبداللہ بن مسعود کا تعلق وہ ان چار صحابہ میں شامل تھے جن سے قرآن سیکھنے کا حکم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاتھا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''چارصحابہ سے قرآن سیکھو یعنی عبداللہ بن مسعود،سالم مولی ابی حذیفہ، معاذ بن جبل سے اور اُبّی بن کعب سے(بخاری جلد ص۱۸۶)

حضرت ابو موسیٰ اشعری اور مقداد بن عمروکے مصاحف بھی شہرت میں مذکور بالا دونوں مصاحف کے لگ بھگ تھے ۔

(طبقات ابن سعد جلد ۳قسم اول،ص۱۱۴،۱۱۶)

مذکورہ صدر دونوں مصاحف کے علاوہ قرآن کے کچھ نسخے اور بھی موجود تھے اگرچہ وہ زیادہ مشہور نہ ہوسکے چناچہ ابن الندیم نے''الفہرست''میں ابن ابی داؤد اور ابن اشتہ نے اپنی اپنی ''المصاحف''میں ان نسخہ ہائے قرآنی کا تذکرہ کیا ہے ۔

اگرچہ ہمارا ذہنی رجحان ومیلان اس جانب ہے کہ ایسے مصاحف کی تعداد زیادہ نہ تھی اس لئے کہ ہمارے پاس اس امر کی کوئ قابل اعتماد دلیل موجود نہیں جس سے ان کی تعداد کا پتہ چل سکے۔(ابن ابی داؤد کتاب المصاحف صفحہ ۵۰ پر لکھتے ہیں کہ ''حضرت عمرفاروقرضی اللہ تعالٰی عنہکے پاس بھی قرآن کریم کا ایک ذاتی نسخہ موجود تھا ''۔

مستشرق شفالی نے بڑے مزے لے کر اس قسم کے نسخہ ہائے قرآنی کا ذکر کیا ہے بخلاف ازیں بلاشیر کا زاویہ نگاہ یہ ہےکہ ابن ابی داؤد کی ذکر کردہ روایات یہ حقیقت واضح نہیں ہوتی کہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس قرآن کریم کا کوئ ذاتی نسخہ موجود تھا بلکہ صرف یہ بات معلوم ہوتی کہ آپ بعض الفاظ کو ایک خاص انداز سے پڑھنے کو پسند فرماتے تھے دیکھئے۔

ازبلاشیر۔(ENTRO DUCTION AN CORAN,35)
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مصاحف ہم تک نہیں پہنچے البتہ ان میں تحریر کردہ سورتوں کی ترتیب اور بعض الفاظ کے تلفظ وقرأءت کے بارے میں کچھ معلومات ضرور ہمیں حاصل ہوئے ہیں اس ضمن میں مزید تحقیق وتجس کی ضرورت ہے (بلاشیر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ان مصاحف کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے نصوص صحیح کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے )اس میں شبہ کی کوئ محال نہیں کہ حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان نسخہ ہائے قرآنی کو جلانے کا جو حکم دیا تھا وہ حکمت ومصلحت پر مبنی تھا (جیساکہ قبل ازیں ہم دیکھ چکے ہیں بخاری کی روایت میں ان نسخوں کو جلانے کا ذکرکیا گیا ہے۔ابن ابی داؤد اس ضمن میں مختلف اور متضاد روایات ذکر کرتے ہیں ۔کسی روایت میں جلانے کا حکم ہے ،کسی میں پارہ پارہ کرکے نذر آب کرنے کا ذکرہے۔

(کتاب المصاحف ص۱۳،۱۶،۲۰)مگر ہم بخاری کی صحیح روایت کو ترجیح دیتے ہو ئے جلانے کے واقعہ کو بلاترددذنزبذب درست تسلیم کرتے ہیں اس میں شبہ نہیں کہ یہ نسخے جلائے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ان فتنوں سے بچالیا تھا)اس لئے کہ اس مصاحف کا وجود امت پر مزید شقاق وافتراق کا موجب بن سکتا تھا اور عہد رسالت سے جس قدر دوری ہوتی جاتی اسی قدر یہ مصاحف امت کے لئے زیادہ ضرر رساں ثابت ہوتے ۔

حضرت عثمان کے اس اقدام کو لوگوں نے بڑی وقعت اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا تھا(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد ۔ص۱۲) البتہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالٰی عنہ نے جن کے پاس اپنا ذاتی مصحف تھا اسکو بظاہر ناپسند کیا اور اپنا مصحف جلانے سے انکار کردیا۔(اس ضمن میں عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالٰی عنہ کی جانب چند من گھڑت باتیں منسوب کی گئ ہٰں جو انہوں نے زید بن ثابت سے کہیں ۔ حالانکہ جب عبداللہ مشرف باسلام ہوئے تو اس وقت زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے (ابن ابی داؤد،ص۱۷)جب حضرت عبداللہرضی اللہ تعالٰی عنہ نے ستر سے زائد سورتیں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کرلی تھیں تو اس وقت زید بن ثابت بھی بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے(طبقات ابن سعد،۲،قسم ثانی ، ص،۱۰۵وکتاب المصاحف لابن ابی داؤد ،ص۱۵)ہمارے خیال میں ایسی باتوں کی نسبت حضرت عبداللہ کی جانب درست نہیں بفرض محال اگرعبداللہ بن مسعود نے یہ باتیں کہی بھی تھیں تو اس وقت کہیں ہونگی جب آپ قرآن لکھنے والی کمیٹی سے الگ ہوگئے تھے اور اس کے اثر ان سے ایسی باتیں صادر ہوئیں ۔ مزید براں ابن ابی داؤد کا بیان ہے کہ آپ نے حضرت عثمان کی رائے کی طرف رجوع کرلیا تھا(کتاب المصاحف ص۱۲)اب سوال یہ ہے کہ آخر بلاشیر کے لئے پہلی روایت کو تسلیم کرنا اور دوسری کو ٹھکرادینا کہاں تک قرین عقل وقیاس ہے ؟)پھر الہام ربانی کی ترغیب وتشویق سے وہ حضرت عثمان کی رائے سے متفق ہوئے جو دراصل پوری امت کی رائے تھی (کتاب المصاحف لابن ابی داؤد،ص۱۲)اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کی شیراز ہ بندی ہوگئ اور اسباب جدل ونزاع کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا۔

حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعمیل ارشاد میں ۲۵ ھجری میں ان چاروں صحابہ نے کام شروع کردیا (الاتقان ،ج۱،ص،۱۰۲۔اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مستشرق بلاشیر کا یہ قول کہ ''سعدبن العاص اس کمیٹی میں صرف رسمی طور پر شریک تھے عملاً ان کے ساتھ نہ تھے کیونکہ اس کمیٹی نے کتابت قرآن کا کام ۳۰ ھجری میں شروع کیا تھا اور ان دنوں سعید کوفہ کے والی تھے ''مبنی بروہم ہے ہم قبل ازیں بتا چکے ہیں کہ بلا شیر کا یہ قول غلط ہے اس ضمن میں ہم نے حافظ ابن حجر عسقلانی کے قول کو ترجیح دی ہے )یہ چاروں صحابہ حافظ قرآن تھے اس کے باوصف حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو حکم دیا کہ حضرت حفصہ کے صحیفوں سے قرآن نقل کریں تاکہ ان کا تحریر کردہ قرآن حضرت ابو بکر کے جمع کردہ صحیفوں کے بالکل مطابق ہو ظاہر ہے کہ خلافت صدیقی میں جمع کردہ صحیفے ان نسخہ ہائے قرآنی کے بالکل مطابق تھے جو عہد رسالت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اور آپ کی موجودگی میں تحریر کئے گئے تھے اس طرح قرآن وکریم کے بارے میں شک وشبہ کی کوئ گنجائش باقی نہ رہی۔

بو عبداللہ محاسبی فرماتے ہیں:


''جن صحیفوں سے حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن نقل کروایا تھا تازیست حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس رہے اور ان کے بعد حضرت فاروق اعظم کی تحویل میں آئے۔ پھر آپ نے ام المؤمنین حضرت حفصہرضی اللہ تعالٰی عنہ کو سونپ دئیے ۔خلافت عثمانی میں جب لوگوں کو ایک قرآن پر جمع کرنے کی ضروت محسوس ہوئ تو حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان صحٰفوں کو ایک مصحف میں جمع کروادیا تھا (البرہان ،ج۱،ص۲۳۹)

جب یہ صحیفے حضرت حفصہ کو واپس کردئیے گئے تو تا وفات ان کی تحویل میں رہے مروان بن الحکم متوفیٰ ۲۵ھ نے بڑی کوشش کی کہ یہ صحیفے حضرت حفصہ سے لے کر جلاڈالے مگر موصوف نے ان کو صحیفے دینے سے انکار کردیا۔ جب حضرت حفصہ نے وفات پائ تو مروان نے وہ صحیفے لے کر نذر آتش کر دئیے اور کہا :

''میں نے یہ کام اس لئے کیا کہ ان صحیفوں میں جو کچھ لکھا تھااسے ''مصحف امام''(حضرت عثمان کا جمع کردہ قرآن )میں نقل اور محفوظ کرلیا گیا مجھے ڈر ہے کہ آگے چل کر کوئ شخص ان صحیفوں کے بارے میں شک وشبہ کا اظہار کرنے لگے اس لئے میں نے ان کو جلاکر تلف کردیا''

(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد)

اس امر میں اختلاف ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کریم کے جو نسخے اطراف ملک میں بھجوائے تھے ان کی تعداد کیا تھی امام ابوعمروالدانی(عثمان بن سعید ابوعمروالدانی قراءت کے بہت بڑے امام تھے آپ کی مشہور ترین تصانیف ''التیسیر فی القراءت السبع''المقنع فی رسم القرآن ''اور ''الحکم فی نقط المصاحف ''ہیں آپ نے ۴۴۴ھ میں وفات پائ۔

(انباہ الرواۃ،ج۲،ص۳۴۱،۳۴۲) المقنع میں رقمطراز ہیں :

''اکثر علماء کا خیال ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کریم کے چار نسخے مرتب کروائے تھے ان میں سے تین کوفہ بصرہ اور شام بھجوادئے اور ایک اپنے پاس رکھ لیا بعض علماء کا خیال ہے کہ آپ نے ساتھ نسخے لکھوائے تھے جو کوفہ بصرہ شام مکہ یمن اور بحرین بھجوادئیے اور ایک اپنے پاس رکھ لیا مگر پہلا قول صحیح تر ہے اور ائمہ کا مذہب بھی یہی ہے (البرہان ،ج۱،ص۲۴۰نیز المقنع،ص۱۰)امام سیوطی فرماتے ہیں:

''مشہور یہ ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کریم کے پانچ نسخے لکھوائےتھے(الاتقان ،ج،۱،ص۱۰۴)''

اور اگر ان کے ساتھ حضرت عثمان کے ذاتی نسخہ''المصحف الامام''کو بھی شامل کرلیا جائے تو کل چھ نسخے بن جاتے ہیں اس طرح جس قول میں سات نسخوں کا ذکر کیا گیا ہے اگر ان میں سے آپ کے ذاتی نسخوں کو نکال دیا جائے تو چھ باقی رہ جاتے ہیں اس لئے ہمارا رجحان ومیلا اس جانب ہے کہ صحابہ کی کمیٹی نے قرآن کریم کے سات نسخے مرتب کئے تھے آپ نے چھ نسخے اطراف ملک بھجوادئیے اور ایک نسخہ اپنے پاس رکھ لیا ہمارے خیال کو اس امر سے مزید تقویت ملی ہے کہ بعض افراد نے حضرت عثمان کے مصحف سے اپنے ذاتی استعمال کے لئے کچھ نسخے مرتب کرلئے تھے اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عائشہرضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت حفصہرضی اللہ تعالٰی عنہ اور ام سلمہرضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسمائے گرامی ذکر کئے جاتے ہیں (کتاب المصاحف لابن ابی داؤد ،ص۱۸،۸۳،۸۵،۸۵)یہ کسی طرح قرین قیاس نہیں معلوم دیتا کہ حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے بعض بارسوخ حضرات کو سرکاری طور پر تحریر کردہ کچھ نسخے دے دئیے ہوں اور ب؛اد اسلامیہ میں ان کو بھجوانے اور پھیلانے میں بخل سے کام لیا حالانکہ امت کے شیرزدہکو متحد کرنے اور رفع جدل ونزاع کے لئےاس کی سخت ضرورت تھی خصوصاً جب یہ حقیقت ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ قراءت قرآن کے اختلاف کے زیر اثر ہی حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے کتابت قرآن کا بیڑا اٹھایا تھا۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
بہر کہف عثمانی مصاحف کی صحیح تعداد کچھ بھی ہو یہ سب کے سب پورے قرآن پر مشتمل تھے ان میں ایک سو چودہ سورتیں تھیں نقطہ اور اعراب کا وجودنہ تھا سورتوں کے نام اور فواصل بھی مرقوم نہ تھے اس لئے کہ حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے جمع کردہ نسخے قرآن میں یہ چیزیں موجود نہ تھیں مزید براں عثمانی مصاحف الفاظ قرآنی کے علاوہ شروح وتفاسیر سے خالی تھے بعض صحابہ نے اپنے ذاتی نسخوں میں بعض آیات کی وہ تفسیر بھی رقم کی تھی جو انہوں نے بذات خود آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اس کی مثال یہ آیت ہے کہ آیت قرآنی:'' لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم ''تم پر کوئ گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنے ذاتی نسخے میں"فی مواسم الحج''کے الفاظ بڑھالئے تھے جس کا مطلب یہ کہ اس آیت میں اجازت دی گئ ہے کہ حج کے دنوں میں تجارت کرکے مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اس میں شبہ نہیں کہ یہ اضافہ ایضاح وتفسیر کے لئے کیا گیا ہے کیونکہ قرآم کریم کے جس نسخے پر امت کا جماع منعقدہو اہے اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ ابن الجزری اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

''بعض اوقات تفسیری کلمات کو ایضاح وتبین کے لئے قراءت میں شامل کرلیا جاتا تھا اس لئے کہ صحابہ نے بذات خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید سنا تھا بنابریں ان کو یہ خطرہ لاحق نہ تھا کہ تفسیری کلمات قرآنی الفاظ کے ساتھ مخلوط ہوجائیں بعض صحابہ تفسیر پر مشتمل الفاظ کو اپنے ذاتی نسخہ میں لکھ لیا کرتے تھے (الاتقان،ج۱،ص۱۳۴)مثلا حضرت عائشہ نے ایسا ہی کیا تھا''۔

حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو مصاحف جمع کروائے تھے وہ ان زیادات سے پاک تھے جن کو توضیح وتفسیر تفسیر مجمل یا اثبات مخدوف کے طور پر بڑھایا گیا تھا انفرادی مصاحف میں جو شاذ کلمات تھے ان کو بھی خارج کردیا گیا تھا ۔ مصحف عثمانی میں آیتوں اور سورتوں کی ترتیب وہی تھی جو موجودہ قرآنی نسخوں میں ہے چونکہ عثمانی مصاحف میں نقطے اور اعراب نہیں لگائے گئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ بعض الفاظ کو کئ طریقوں سے پڑھا جاسکتا تھا مثلاً آیت قرآنی:ان جاءکم فاسق بنباٍ فتبینوا ۔اسکو''فتثبتوا(ثابت قدم رہو)بھی پڑھا گیا۔

اسی طرح آیت ''فتلقیٰ ادم من ربہ کلماتٍ ''کو فتلقیٰ ادم من ربہ کلماتُؐ''بھی پڑھا جاسکتا ہے ۔

دونوں طرح پڑھنے کے جواز کی قطعی دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح پڑھنا منقول ہے ۔یا اس لئے کہ بعض صحابہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دونوں طرح پڑھا اور آپ نے اس پر کوئ اعتراض نہ کیا جب کسی آیت کی متواتر قراءت کے سلسلہ میں کوئ دلیل موجود ہوتو اس سے وہ قراءت متعین ہوجاتی ہے اور دوسرے انداز قراءت کا جواز باقی نہیں رہتا اگر کسی قراءت کا اثبات صرف خبر واحد سے ہوتا ہو اور اس ضمن میں کوئ متواتر روایت موجود نہ ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا ایسی قراءت کو شاذ قرار دیا جائے گا۔ (الاتقان ،ج،۱،ص۱۳۳)کیونکہ وہ ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہے ۔مثلاً۔

''انما یخشی اللہ من عبادہ العلمآءُ''قراءت شاذ میں اس کو یوں پڑھا گیا ہے :

انما یخشی اللہ من عبادہ العلمآءَ۔'' یہ امر محتاج بیان نہیں کہ قرآن کی وہ آیت جو کو ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھنا دلیل متواتر سے ثابت نہ تھا اس کو ایک ہی طرح لکھا جاتا تھا جس آیت کی قراءت متعددوجوہ سے بدلیل متواتر ثابت ہوا اور قرآن کے ایک ہی نسخے میں اس کو اسطرح نہ لکھا جاسکتا ہو کہ اس سے قراءت کے جملہ وجوہ کا اظہار ہو سکے تو کاتبین قرآن ایسی آیت کو ایک نسخہ میں ایک طرح اور دوسرے میں دوسری طرح لکھنے پر مجبور تھے مثلاًیہ آیت قرآنی ؛

''ووصی بھا ابراھیم بنیہ ویعقوب''اس کی ایک قراءت حسب ذیل ہے :واوصیٰ بھا ''

یہی وجہ ہے کہ بعض نسخہ ہائے قرآنی میں اس کو ''وصیٰ''اور بعض میں''اوصیٰ''لکھا گیا مگر''اوصیٰ''کی قراءت بے حد قلیل ہے یہاں تک کہ بعض نسخوں میں پہلی قراءت ہی مذکورہے دوسری کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔(امام سیوطی الاتقان،ج۲۔ص۲۸۹۔پر رقمطرازہیں ''جہاں تک مشہور اور مختلف قراءتوں کا تعلق ہے مثلاً :اوۡصیٰ ووصیٰ ،تَجۡری تَحتَھَاومن تَحتِھَا ، سَیَقُولُونَ اللہَ ولِلہ،وَمَاعَمِلَت اَیۡدِیھِم وَمَا عَمِلَتۡلہُ۔
بہر کہف عثمانی مصاحف کی صحیح تعداد کچھ بھی ہو یہ سب کے سب پورے قرآن پر مشتمل تھے ان میں ایک سو چودہ سورتیں تھیں نقطہ اور اعراب کا وجودنہ تھا سورتوں کے نام اور فواصل بھی مرقوم نہ تھے اس لئے کہ حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے جمع کردہ نسخے قرآن میں یہ چیزیں موجود نہ تھیں مزید براں عثمانی مصاحف الفاظ قرآنی کے علاوہ شروح وتفاسیر سے خالی تھے بعض صحابہ نے اپنے ذاتی نسخوں میں بعض آیات کی وہ تفسیر بھی رقم کی تھی جو انہوں نے بذات خود آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اس کی مثال یہ آیت ہے کہ آیت قرآنی:'' لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم ''تم پر کوئ گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنے ذاتی نسخے میں"فی مواسم الحج''کے الفاظ بڑھالئے تھے جس کا مطلب یہ کہ اس آیت میں اجازت دی گئ ہے کہ حج کے دنوں میں تجارت کرکے مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اس میں شبہ نہیں کہ یہ اضافہ ایضاح وتفسیر کے لئے کیا گیا ہے کیونکہ قرآم کریم کے جس نسخے پر امت کا جماع منعقدہو اہے اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ ابن الجزری اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

''بعض اوقات تفسیری کلمات کو ایضاح وتبین کے لئے قراءت میں شامل کرلیا جاتا تھا اس لئے کہ صحابہ نے بذات خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید سنا تھا بنابریں ان کو یہ خطرہ لاحق نہ تھا کہ تفسیری کلمات قرآنی الفاظ کے ساتھ مخلوط ہوجائیں بعض صحابہ تفسیر پر مشتمل الفاظ کو اپنے ذاتی نسخہ میں لکھ لیا کرتے تھے (الاتقان،ج۱،ص۱۳۴)مثلا حضرت عائشہ نے ایسا ہی کیا تھا''۔

حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو مصاحف جمع کروائے تھے وہ ان زیادات سے پاک تھے جن کو توضیح وتفسیر تفسیر مجمل یا اثبات مخدوف کے طور پر بڑھایا گیا تھا انفرادی مصاحف میں جو شاذ کلمات تھے ان کو بھی خارج کردیا گیا تھا ۔ مصحف عثمانی میں آیتوں اور سورتوں کی ترتیب وہی تھی جو موجودہ قرآنی نسخوں میں ہے چونکہ عثمانی مصاحف میں نقطے اور اعراب نہیں لگائے گئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ بعض الفاظ کو کئ طریقوں سے پڑھا جاسکتا تھا مثلاً آیت قرآنی:ان جاءکم فاسق بنباٍ فتبینوا ۔اسکو''فتثبتوا(ثابت قدم رہو)بھی پڑھا گیا۔

اسی طرح آیت ''فتلقیٰ ادم من ربہ کلماتٍ ''کو فتلقیٰ ادم من ربہ کلماتُؐ''بھی پڑھا جاسکتا ہے ۔

دونوں طرح پڑھنے کے جواز کی قطعی دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح پڑھنا منقول ہے ۔یا اس لئے کہ بعض صحابہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دونوں طرح پڑھا اور آپ نے اس پر کوئ اعتراض نہ کیا جب کسی آیت کی متواتر قراءت کے سلسلہ میں کوئ دلیل موجود ہوتو اس سے وہ قراءت متعین ہوجاتی ہے اور دوسرے انداز قراءت کا جواز باقی نہیں رہتا اگر کسی قراءت کا اثبات صرف خبر واحد سے ہوتا ہو اور اس ضمن میں کوئ متواتر روایت موجود نہ ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا ایسی قراءت کو شاذ قرار دیا جائے گا۔ (الاتقان ،ج،۱،ص۱۳۳)کیونکہ وہ ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہے ۔مثلاً۔

''انما یخشی اللہ من عبادہ العلمآءُ''قراءت شاذ میں اس کو یوں پڑھا گیا ہے :

انما یخشی اللہ من عبادہ العلمآءَ۔'' یہ امر محتاج بیان نہیں کہ قرآن کی وہ آیت جو کو ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھنا دلیل متواتر سے ثابت نہ تھا اس کو ایک ہی طرح لکھا جاتا تھا جس آیت کی قراءت متعددوجوہ سے بدلیل متواتر ثابت ہوا اور قرآن کے ایک ہی نسخے میں اس کو اسطرح نہ لکھا جاسکتا ہو کہ اس سے قراءت کے جملہ وجوہ کا اظہار ہو سکے تو کاتبین قرآن ایسی آیت کو ایک نسخہ میں ایک طرح اور دوسرے میں دوسری طرح لکھنے پر مجبور تھے مثلاًیہ آیت قرآنی ؛

''ووصی بھا ابراھیم بنیہ ویعقوب''اس کی ایک قراءت حسب ذیل ہے :واوصیٰ بھا ''

یہی وجہ ہے کہ بعض نسخہ ہائے قرآنی میں اس کو ''وصیٰ''اور بعض میں''اوصیٰ''لکھا گیا مگر''اوصیٰ''کی قراءت بے حد قلیل ہے یہاں تک کہ بعض نسخوں میں پہلی قراءت ہی مذکورہے دوسری کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔(امام سیوطی الاتقان،ج۲۔ص۲۸۹۔پر رقمطرازہیں ''جہاں تک مشہور اور مختلف قراءتوں کا تعلق ہے مثلاً :اوۡصیٰ ووصیٰ ،تَجۡری تَحتَھَاومن تَحتِھَا ، سَیَقُولُونَ اللہَ ولِلہ،وَمَاعَمِلَت اَیۡدِیھِم وَمَا عَمِلَتۡلہُ۔

یہ سب قراءتیں حضرت عثمان کے جمع کردہ قرآن میں موجود تھیں ۔)یہ سب قراءتیں حضرت عثمان کے جمع کردہ قرآن میں موجود تھیں ۔)
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
حضرت عثمان یہ چاہتے تھے کہ لوگ صرف تحریر کردہ قرآنی نسخوں ہی پر قانع نہ ہوجائیں بلکہ براہ راست صحابہ کے منہ سے قرآن سن کر اس کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیں اس لئے جب حضرت عثمان کسی ملک میں کوئ نسخہ بھیجتے تو اس کے ساتھ ایک قاری بھی بھیجتے جو اس لہجے میں قرآن پڑھتا جس میں وہ نسخہ لکھا گیا ہوتا تھا۔چناچہ قرآن کریم کا جو نسخہ مدینے میں رکھا گیا تھا۔اس کے قاری حضرت زید بن ثابت تھے مکی مصحف کے قاری عبداللہ بن شائب ،شامی کے مغیرہ بن شہاب ،کوفی نسخے کے قاری ابوعبدالرحمان سلمی اور بصری قرآن کے قاری عامر بن عبدالقیس تھے۔(مناہل العرفان للزرکشی ۔ج۱،ص۳۹۶۔۳۹۷)

جہاں تک قرآن کریم کے انفرادی نسخوں کےجلانے کا تعلق ہے یہ اقدام آپ نے صحابہ کے مشورے کے مطابق کیا تھا۔حضرت سوید بن غفلہ کا قول ہے: حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے عثمان کے بارے میں بھلائ کے سوا کچھ نہ کہو ۔بخدا آپ نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ بھی کیا ہمارے مشورے کے مطابق اور ہماری موجودگی میں کیا(الاتقان ،ج۱،ص۱۰۳)حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد گرامی ہے:اگر عثمان کی جگہ میں مسند خلافت پر متمکن ہوتا تو مصاحف کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو عثمان نے کیا(البرہان ،ج۱،ص۲۴۰،نیز کتاب المصاحف لابن ابی داؤد ،ص۱۲،مگر مستشرق بلاشیر کا خیال ہے کہ حضرت علی نے یہ نہیں کہا تھا کہ حضرت عثمان قرآن کے انفرادی نسخوں کے جلانے میں حق بجانب ہیں بلکہ حضرت علی نے صرف یہ کہا تھا کہ عہد رسالت میں مختلف چیزوں پر قرآن کریم کی جو سورتیں لکھی گئی تھیں حضرت عثمان نے ان کو تلف کرکے بہت اچھا کام کیا اس لئے حضرت عثمان نے الگ الگ تحریر کردہ ان قرآنی نسخوں کو تلف کرکے امت کو (blachere.9N T R,63) اختلاف وافتراق سے بچا لیا۔ )

بلاشیر کا مقصداس سے واضح ہے ۔بلاشیر یہ چاہتا ہے کہ حضرت علی حضرت عثمان کے بارے میں جو موقف اختیا رکیا تھا اس کو مشکوک بنادیا جائے اس لئے وہ عبارت سے وہ مفہوم مراد لیتا ہے جس کی وہ متحمل نہیں ہے شیعہ کے یہاں ایسی روایت بکثرت ہیں جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ حضرت علی نے حضرت عثمان کے اس فعل پر اظہار خوشخنودی کیا تھا (دیکھئیے فرانسیسی میں ڈاکٹر عبداللہ دراز کی کتاب دربارہ قرآن)ایک محقق شخص اس مرحلہ پر پوچھ سکتا ہے کہ اب عثمانی مصاحف کہاں گئے ؟ظاہر ہے کہ اس سوال کا کوئ شافی جواب نہیں دیا جاسکتا قاہرہ کے دارالکتب میں اس وقت جو قرآنی نسخے موجود ہیں ان میں سے بعض پر زرکشی کا کام کیا گیا ہے بعض کی سورتوں کے آخر میں فصل وامتیاز کے لئے نقش بنائے گئے ہیں یا ہر دس آیات کے بعد ایک خاص نشان لگادیا گیا ہے ظاہر ہے کہ وہ عثمانی مصاحف نہیں ہوسکتے کیونکہ عثمانی مصاحف ایسے نشانات سے خالی تھے مزیدبراں بعض مستشرقین نے بہت سی تاریخی روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بعض علمائے سلف نے یہ مصاحف یا ان میں سے چند سورتیں خاص خاص بلاداسلامیہ میں ملاحظہ کی تھیں۔

مذکورہ صدر مستشرق کے سرخیل پروفیسر کو اتر میر جیساکہ مستشرق برجیشتراسراور پرتزل نے اپنی کتاب ''مطالعہ تاریخ قرآن''میں اس طرف اشارہ کیا ہے مستشرق کا زانوں فانے اپنے پیش رد پروفیسر کو اتر میر کے دراسات پر اعتماد کرکے ان پر نظر ثانی کی ہے اور ان میں بہت کچھ اضافہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں مصاحف عثمانی میں سے ایک نسخہ موجود تھا اور لوگ عام طور سے اس سے واقف تھے مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بذات خود قرآن کا ایک نسخہ یا اس کے کچھ حصے ملاحظہ کئے تھے جن کو عثمانی تصور کیا جاتا تھا۔ یہ نسخے ابن بطوطہ نے اپنے سفر کے دوران غرناطہ،مراکش،بصرہاور بعض دوسرے شہروں میں دیکھے تھے ۔

اس ضمن میں عجیب بات یہ ہے کہ مستشرق کا زانوں فایہ عجیب وغریب اور مفید معلومات ذکر کرنے کے بعد ان کی تاریخی اہمیت کو گھٹانا چاہتا ہے ۔ ہماری حیرت کی حد نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ کازانوفا کے قول کے مطابق حضرت عثمان کے قرآن کو جمع کرنے کا واقعہ ایک فرضی افسانہ ہے.(casanova,op,cit,130,139)

ہد خلافت میں اس لئے گھڑا گیا تاکہ قرآنی رسم الخط کی آرائش وزیبائش کے سلسلہ میں خلیفہ مذکور کی خدمات کو سراہا جائے.(casanova,op,cit,141)

مستشرق زانوفا نے ایک اس سے بھی انوکھی اور طفلانہ گپ ہانکی ہے جس کو دنیا کا کوئ سلیم العقل شخص تسلیم نہیں کرسکتا یہاں تک کہ اس کے ہمنوا مستشرق بھی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔(blachere,9N TR,p.92)

اور وہ یہ کہ حجاج بن یوسف قرآن کا اولین جامع تھا۔(casanova,op,cit,127)

بلاشیر اس نظریہ کی تغلیط وتردید کرتے ہوئے لکھتا ہے :ہم کازانوفا کے اس فاسد نظریہ کو درست تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ تاریخی حقائق اس کی تردید کرتے ہیں۔

(blachere,9N TR,p.68)

یہ بات خاصی مشہور ہے کہ امام ابن کثیر نے جو آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں شمار ہوتے ہیں،حضرت عثمان کا جمع کردہ شامی مصحف دیکھا تھا چناچہ ابن کثیر (اسماعیل بن عمر بن کثیر عمادالدین ابو الفداء بڑے حافظ مورخ اور فقییہ تھے ان کی تصانیف میں سے تفسیر ابن کثیر تاریخ میں البدایہ والنہایہ اور بہت سی قابل قدر کتب شامل ہیں ۷۷۴ھ میں فوت ہوئے (الاعلام ،ج۱،ص،۱۰۹)تفسیر کی بحث میں ان کا مفصل ذکر آئے گا۔)

اپنی کتاب ''فضائل القرآن ''میں رقمطراز ہیں:حضرت عثمان کے جمع کردہ مصاحف میں سے مشہور تر وہ مصحف ہے جو آج کل ملک شام کی جامع دمشق میں رکن کے پاس مقصود کی مشرقی جانب موجود ہے ۔یہ مصحف پہلے طبریہ میں تھا ۵۱۸ھ میں اسے دمشق لایا گیا۔ یہ جلیل القدر کتاب کتاب نہایت دیدہ زیب ودلکش ،کبیر الحجم اور نہایت حسین جلی خط میں مرقوم ہے اس کی جلد بڑی مضبوط ہے میرا خیال ہے کہ یہ اونت کے چمڑے سے باندھی گئ ہے ''۔(فضائل القرآن،ص۴۹،طبع المنار ۱۳۴۸ھ۔)

ہمارے علم کی حد تک ابن جزری مصنف ''النشرفی القراءت العشر''اور ابن فضل اللہ العمری صاحب(شہاب الدین احمد بن یحیی بن فضلاللہ القرشی العدوی العمری عظیم مورخ تھے آپ کی مشہور ترین تصنیف

''مسالک الابصارفی ممالک الامصار''ہے آپ نے ۷۴۹ھ میں وفات پائ ۔

(الاعلام ،ج۱،ص،۸۵)

''مسالک الابصارفی ممالک الامصار''دونوں حضرات نے یہ شامی مصحف ملاحظہ کیا تھا بعض محققین کا میلان اس جانب ہے کہ یہ قرآن کافی عرصے تک لین گراڈ کی ایک لائبریری میں قیصرروم کے زیر حفاظت رہا پھر وہاں سے انگلینڈ لایا گیا۔(جو شخص مصاحف مخطوط کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا ہو وہ شوفان کی کتاب کی دسویں جلد مطالعہ کرے ۔)

بخلاف ازیں بعض علماء کی رائے میں یہ نسخہ جامع دمشق میں رہا اور ۱۳۱۰ھ میں اس کو نذر آتش کردیا گیا۔(خطط الشام ،ج۵،ص۲۷۹۔رفیق محترم پروفیسر ڈاکٹر یوسف العش نے مجھے بتایا تھا قاضی عبدالمحسن اسطوانی کا بیان ہے کہ موصوف نے جلائے جانے سے قبل یہ مصحف شامی بذات خود ملاحظہ کیا تھاوہ حجرہ میں محفوظ تھا اور اس کی حفاظت کے لئے لکڑی کا ایک خانہ بنایا گیا تھا۔)بہر کیف اس میں شبہ کی کوئ مجال نہیں اور ہر مصنف مزاج شخص اس بات کی تائید کرتا ہے۔کہ قرآن کے سوا دنیا کی کسی کتاب کی حفاظت کے لئے وہ اہتمام نہیں کیا گیا جو قرآن کے حصے میں آیا۔نہ قرآن کے سوا دنیا کی کوئ کتاب بطریق تواتر انسانوں تک پہنچتی ۔

مستشرق شفالی نے بجا طور پر کہا ہے کہ :

''قرآن انسانوں کی توقعات سے بھی زیادہ مکمل صورت میں ان کے پاس پہنچا''


(die sammlilag des .goran ,11,93)

لایأ تیہ الباطل من بین یدیہ ومن خلفہ

تنزیل من حکیم حمید ۔

باطل نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے یہ خداوند عالم کا نازل کردہ ہے.
 
Top