حضرت عثمان یہ چاہتے تھے کہ لوگ صرف تحریر کردہ قرآنی نسخوں ہی پر قانع نہ ہوجائیں بلکہ براہ راست صحابہ کے منہ سے قرآن سن کر اس کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیں اس لئے جب حضرت عثمان کسی ملک میں کوئ نسخہ بھیجتے تو اس کے ساتھ ایک قاری بھی بھیجتے جو اس لہجے میں قرآن پڑھتا جس میں وہ نسخہ لکھا گیا ہوتا تھا۔چناچہ قرآن کریم کا جو نسخہ مدینے میں رکھا گیا تھا۔اس کے قاری حضرت زید بن ثابت تھے مکی مصحف کے قاری عبداللہ بن شائب ،شامی کے مغیرہ بن شہاب ،کوفی نسخے کے قاری ابوعبدالرحمان سلمی اور بصری قرآن کے قاری عامر بن عبدالقیس تھے۔(مناہل العرفان للزرکشی ۔ج۱،ص۳۹۶۔۳۹۷)
جہاں تک قرآن کریم کے انفرادی نسخوں کےجلانے کا تعلق ہے یہ اقدام آپ نے صحابہ کے مشورے کے مطابق کیا تھا۔حضرت سوید بن غفلہ کا قول ہے: حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے عثمان کے بارے میں بھلائ کے سوا کچھ نہ کہو ۔بخدا آپ نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ بھی کیا ہمارے مشورے کے مطابق اور ہماری موجودگی میں کیا(الاتقان ،ج۱،ص۱۰۳)حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد گرامی ہے:اگر عثمان کی جگہ میں مسند خلافت پر متمکن ہوتا تو مصاحف کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو عثمان نے کیا(البرہان ،ج۱،ص۲۴۰،نیز کتاب المصاحف لابن ابی داؤد ،ص۱۲،مگر مستشرق بلاشیر کا خیال ہے کہ حضرت علی نے یہ نہیں کہا تھا کہ حضرت عثمان قرآن کے انفرادی نسخوں کے جلانے میں حق بجانب ہیں بلکہ حضرت علی نے صرف یہ کہا تھا کہ عہد رسالت میں مختلف چیزوں پر قرآن کریم کی جو سورتیں لکھی گئی تھیں حضرت عثمان نے ان کو تلف کرکے بہت اچھا کام کیا اس لئے حضرت عثمان نے الگ الگ تحریر کردہ ان قرآنی نسخوں کو تلف کرکے امت کو (blachere.9N T R,63) اختلاف وافتراق سے بچا لیا۔ )
بلاشیر کا مقصداس سے واضح ہے ۔بلاشیر یہ چاہتا ہے کہ حضرت علی حضرت عثمان کے بارے میں جو موقف اختیا رکیا تھا اس کو مشکوک بنادیا جائے اس لئے وہ عبارت سے وہ مفہوم مراد لیتا ہے جس کی وہ متحمل نہیں ہے شیعہ کے یہاں ایسی روایت بکثرت ہیں جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ حضرت علی نے حضرت عثمان کے اس فعل پر اظہار خوشخنودی کیا تھا (دیکھئیے فرانسیسی میں ڈاکٹر عبداللہ دراز کی کتاب دربارہ قرآن)ایک محقق شخص اس مرحلہ پر پوچھ سکتا ہے کہ اب عثمانی مصاحف کہاں گئے ؟ظاہر ہے کہ اس سوال کا کوئ شافی جواب نہیں دیا جاسکتا قاہرہ کے دارالکتب میں اس وقت جو قرآنی نسخے موجود ہیں ان میں سے بعض پر زرکشی کا کام کیا گیا ہے بعض کی سورتوں کے آخر میں فصل وامتیاز کے لئے نقش بنائے گئے ہیں یا ہر دس آیات کے بعد ایک خاص نشان لگادیا گیا ہے ظاہر ہے کہ وہ عثمانی مصاحف نہیں ہوسکتے کیونکہ عثمانی مصاحف ایسے نشانات سے خالی تھے مزیدبراں بعض مستشرقین نے بہت سی تاریخی روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بعض علمائے سلف نے یہ مصاحف یا ان میں سے چند سورتیں خاص خاص بلاداسلامیہ میں ملاحظہ کی تھیں۔
مذکورہ صدر مستشرق کے سرخیل پروفیسر کو اتر میر جیساکہ مستشرق برجیشتراسراور پرتزل نے اپنی کتاب ''مطالعہ تاریخ قرآن''میں اس طرف اشارہ کیا ہے مستشرق کا زانوں فانے اپنے پیش رد پروفیسر کو اتر میر کے دراسات پر اعتماد کرکے ان پر نظر ثانی کی ہے اور ان میں بہت کچھ اضافہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں مصاحف عثمانی میں سے ایک نسخہ موجود تھا اور لوگ عام طور سے اس سے واقف تھے مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بذات خود قرآن کا ایک نسخہ یا اس کے کچھ حصے ملاحظہ کئے تھے جن کو عثمانی تصور کیا جاتا تھا۔ یہ نسخے ابن بطوطہ نے اپنے سفر کے دوران غرناطہ،مراکش،بصرہاور بعض دوسرے شہروں میں دیکھے تھے ۔
اس ضمن میں عجیب بات یہ ہے کہ مستشرق کا زانوں فایہ عجیب وغریب اور مفید معلومات ذکر کرنے کے بعد ان کی تاریخی اہمیت کو گھٹانا چاہتا ہے ۔ ہماری حیرت کی حد نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ کازانوفا کے قول کے مطابق حضرت عثمان کے قرآن کو جمع کرنے کا واقعہ ایک فرضی افسانہ ہے.(casanova,op,cit,130,139)
ہد خلافت میں اس لئے گھڑا گیا تاکہ قرآنی رسم الخط کی آرائش وزیبائش کے سلسلہ میں خلیفہ مذکور کی خدمات کو سراہا جائے.(casanova,op,cit,141)
مستشرق زانوفا نے ایک اس سے بھی انوکھی اور طفلانہ گپ ہانکی ہے جس کو دنیا کا کوئ سلیم العقل شخص تسلیم نہیں کرسکتا یہاں تک کہ اس کے ہمنوا مستشرق بھی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔(blachere,9N TR,p.92)
اور وہ یہ کہ حجاج بن یوسف قرآن کا اولین جامع تھا۔(casanova,op,cit,127)
بلاشیر اس نظریہ کی تغلیط وتردید کرتے ہوئے لکھتا ہے :ہم کازانوفا کے اس فاسد نظریہ کو درست تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ تاریخی حقائق اس کی تردید کرتے ہیں۔
(blachere,9N TR,p.68)
یہ بات خاصی مشہور ہے کہ امام ابن کثیر نے جو آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں شمار ہوتے ہیں،حضرت عثمان کا جمع کردہ شامی مصحف دیکھا تھا چناچہ ابن کثیر (اسماعیل بن عمر بن کثیر عمادالدین ابو الفداء بڑے حافظ مورخ اور فقییہ تھے ان کی تصانیف میں سے تفسیر ابن کثیر تاریخ میں البدایہ والنہایہ اور بہت سی قابل قدر کتب شامل ہیں ۷۷۴ھ میں فوت ہوئے (الاعلام ،ج۱،ص،۱۰۹)تفسیر کی بحث میں ان کا مفصل ذکر آئے گا۔)
اپنی کتاب
''فضائل القرآن ''میں رقمطراز ہیں:حضرت عثمان کے جمع کردہ مصاحف میں سے مشہور تر وہ مصحف ہے جو آج کل ملک شام کی جامع دمشق میں رکن کے پاس مقصود کی مشرقی جانب موجود ہے ۔یہ مصحف پہلے طبریہ میں تھا ۵۱۸ھ میں اسے دمشق لایا گیا۔ یہ جلیل القدر کتاب کتاب نہایت دیدہ زیب ودلکش ،کبیر الحجم اور نہایت حسین جلی خط میں مرقوم ہے اس کی جلد بڑی مضبوط ہے میرا خیال ہے کہ یہ اونت کے چمڑے سے باندھی گئ ہے ''۔(فضائل القرآن،ص۴۹،طبع المنار ۱۳۴۸ھ۔)
ہمارے علم کی حد تک ابن جزری مصنف ''النشرفی القراءت العشر''اور ابن فضل اللہ العمری صاحب(شہاب الدین احمد بن یحیی بن فضلاللہ القرشی العدوی العمری عظیم مورخ تھے آپ کی مشہور ترین تصنیف
''مسالک الابصارفی ممالک الامصار''ہے آپ نے ۷۴۹ھ میں وفات پائ ۔
(الاعلام ،ج۱،ص،۸۵)
''مسالک الابصارفی ممالک الامصار''دونوں حضرات نے یہ شامی مصحف ملاحظہ کیا تھا بعض محققین کا میلان اس جانب ہے کہ یہ قرآن کافی عرصے تک لین گراڈ کی ایک لائبریری میں قیصرروم کے زیر حفاظت رہا پھر وہاں سے انگلینڈ لایا گیا۔(جو شخص مصاحف مخطوط کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا ہو وہ شوفان کی کتاب کی دسویں جلد مطالعہ کرے ۔)
بخلاف ازیں بعض علماء کی رائے میں یہ نسخہ جامع دمشق میں رہا اور ۱۳۱۰ھ میں اس کو نذر آتش کردیا گیا۔(خطط الشام ،ج۵،ص۲۷۹۔رفیق محترم پروفیسر ڈاکٹر یوسف العش نے مجھے بتایا تھا قاضی عبدالمحسن اسطوانی کا بیان ہے کہ موصوف نے جلائے جانے سے قبل یہ مصحف شامی بذات خود ملاحظہ کیا تھاوہ حجرہ میں محفوظ تھا اور اس کی حفاظت کے لئے لکڑی کا ایک خانہ بنایا گیا تھا۔)بہر کیف اس میں شبہ کی کوئ مجال نہیں اور ہر مصنف مزاج شخص اس بات کی تائید کرتا ہے۔کہ قرآن کے سوا دنیا کی کسی کتاب کی حفاظت کے لئے وہ اہتمام نہیں کیا گیا جو قرآن کے حصے میں آیا۔نہ قرآن کے سوا دنیا کی کوئ کتاب بطریق تواتر انسانوں تک پہنچتی ۔
مستشرق شفالی نے بجا طور پر کہا ہے کہ :
''قرآن انسانوں کی توقعات سے بھی زیادہ مکمل صورت میں ان کے پاس پہنچا''
(die sammlilag des .goran ,11,93)
لایأ تیہ الباطل من بین یدیہ ومن خلفہ
تنزیل من حکیم حمید ۔
باطل نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے یہ خداوند عالم کا نازل کردہ ہے.