- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
جزاک اللہ صاحب ذوق!fast_iamil
قطع نظر اس اختلاف کے آپ ﷺ کی پیدائش یا وفات فلاں فلاں ڈیٹ کو ہوئی۔ایک منٹ کےلیے مان لیا جائے ان لوگوں کی بات کو جو 9 ربیع الاول پیدائش کا دن بتلاتے ہیں یا ایک منٹ کےلیے ان لوگوں کی بات کومان لیا جائے جو 12 ربیع الاول آپﷺ کی پیدائش کا دن بتلاتے ہیں۔
دونوں باتیں اپنی جگہ پہ تسلیم کرتے ہوئے سوچا تو اس بات پر جائے کہ آیا پیدائش پر مروجہ عید کی طرح عید منائی جاسکتی ہے یانہیں۔؟ اور شریعت میں اس عید کی کیاحیثیت ہے۔؟ یہ ہے اصل بات اور بحث ومباحثہ والا موضوع۔
باقی اس اختلاف میں پڑ جانا کہ پیدائش 9 کو ہے 12 کونہیں یا 12 کوہے 9 کو نہیں۔دونوں فریقین کی بات کو مان لو یا ایک کی مان لو۔یہ بات کوئی قابل گرفت نہیں۔قابل گرفت راستہ تو یہ ہے جس پر بریلوی حضرات چل رہےہیں۔
اصل سوال یہی ہے کہ کیا دین اسلام میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے علاوہ کوئی تیسری، چوتھی یا پانچویں عید کی گنجائش قرآن، احادیث یا اقوال صحابہ رضی اللہ تعلایٰ عنہ سے ثابت ہے؟
’’سنی‘‘ کی تیسری عید ، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں۔
’’شیعہ‘‘ کی تیسری عید غدیر ہے۔
’’ایرانی شیعہ‘‘ کی چوتھی عید، عید جشن نو روز ہے، جو تمام عیدوں سے افضل ہے۔
ہر فرقہ اپنی اپنی نئی نئی عیدیں ایجاد کرتا چلا جارہا ہے، تاکہ ان فرقوں کے ’’مولویوں‘‘ کی روٹی روزی چلتی رہے۔ پہلے محر الحرام میں اور پھر ربیع الاول میں علی الترتیب ’’شیعہ و سنی عوام الناس‘‘ کی جیبوں سے کروڑوں روپے نکل کر ان فرقوں کے مذہبی ٹھیکیداروں کی جیب میں چلے گئے ۔ میری ذاتی رائے میں، جس سے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں، فرقہ واریت کی آڑ میں نت نئی بدعات کے فروغ کا اصل مقصد بھولے عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوا کرمذہبی ٹھیکیداروں کا جیب بھرنا ہے۔ اسلام میں ’’پیشہ ور مذہبی رہنماؤں‘‘ کا کوئی تصور نہیں کہ ذاکر، عالم، امام، خطیب وغیرہ بن کر ’’مال‘‘ کمائیں۔ اللہ ہم سب کو درست اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گذارنے کی توفیق دے آمین