- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں جہاں رمضان کے روزوں کی فرضیت اور حکمت بتائی ہے
وہاں ساتھ ہی اپنی کبریائی کا اظہار کرنے کی تلقین بھی فرمائی ہے ، بلکہ رمضان میں روزوں میں دی گئی آسانیوں اور رختصوں کے ساتھ تکمیل رمضان پر اس کا تقاضا تکبیر اور ادائے شکر بتایا گیا ہے ،
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (185)
"تكبروا الله" أي : تعظموه بقلوبكم وألسنتكم ، ويكون ذلك بلفظ التكبير .
ترجمہ :
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ لہذا تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورا مہینہ روزے رکھے۔ ہاں اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرسکتا ہے (کیونکہ) اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا برتاؤ چاہتا ہے سختی کا نہیں چاہتا۔ (بعد میں روزہ رکھ لینے کی رخصت اس لیے ہے) کہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی :: ان رخصتوں اور اللہ کی مہربانیوں کی وجہ سے تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ جس نے ہر قسم کے لوگوں کا لحاظ رکھ کر ایسے احکام فرمائے ہیں۔
اور اس کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرنا چاہیئے ،جس کا آسان تر طریقہ تکبیر پڑھنا ہے
اس لئے عید کے دن بڑے خشوع اور جذبہ تشکر کے ساتھ تکبیرات پڑھنا چاہیئے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام شافعیؒ ( محمد بن ادریس ) (المتوفى: 204هـ)
فرماتے ہیں :
(قَالَ الشَّافِعِيُّ) - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: فِي شَهْرِ رَمَضَانَ {وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ} [البقرة: 185] قَالَ فَسَمِعْت مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْقُرْآنِ أَنْ يَقُولَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ عِدَّةَ صَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَتُكَبِّرُوا اللَّهُ عِنْدَ إكْمَالِهِ عَلَى مَا هَدَاكُمْ، وَإِكْمَالُهُ مَغِيبُ الشَّمْسِ مِنْ آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ شَهْرِ رَمَضَانَ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَمَا أَشْبَهَ مَا قَالَ بِمَا قَالَ، وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ ‘‘ (الاْم ، صلاۃ العیدین )
ترجمہ :۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ : اللہ کریم کا احکام رمضان کے ضمن میں یہ فرمان کہ :
’’ تاکہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو ‘‘
اس کی تفسیر و معنی کے متعلق میں نے اپنے دور کے اہل علم حضرات سے یہ سنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ : تکمیل ماہ صیام ، اور اس کے روزوں کی ھدایت دینے پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے ، اور تکبیرات پڑھی جائیں ، اور ماہ رمضان کی تکمیل چونکہ اس کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ہوتی ہے ‘‘
(اس لئے تکبیر بھی آخری دن کے اس غروب آفتاب کے بعد سے شروع ہوگی )
امام شافعی مزید فرماتے ہیں :
(قال الشافعي) : فإذا رأوا هلال شوال أحببت أن يكبر الناس جماعة، وفرادى في المسجد والأسواق، والطرق، والمنازل، ومسافرين، ومقيمين في كل حال، وأين كانوا، وأن يظهروا التكبير، ولا يزالون يكبرون حتى يغدوا إلى المصلى، وبعد الغدو حتى يخرج الإمام للصلاة ثم يدعوا التكبير‘‘
ترجمہ : جب اہل ایمان ھلال شوال دیکھیں تو مجھے تو یہ پسند ہے کہ وہ سب تکبیرات پڑھیں ، مساجد میں بھی اور گھروں بازاروں میں بھی ، سفر وحضر ہر حال میں یہ تکبیریں پڑھی جائیں ، اور بآواز بلند پڑھیں ،
اور تکبیریں نماز عید کیلئے نکلتے وقت تک اور اس کے بعد بھی جاری رکھیں ،حتی کہ امام نماز پڑھانے کیلئے آجائے اس وقت موقوف کردیں ‘‘
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے ان عید الفطر کی ان تکبیروں پر جلیل القدر سلف صالحین کے اقوال اور عمل ثبوت کے طور پر نقل کیا ہے ، لکھتے ہیں :
قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني صالح بن محمد بن زائدة أنه سمع ابن المسيب وعروة بن الزبير وأبا سلمة وأبا بكر بن عبد الرحمن يكبرون ليلة الفطر في المسجد يجهرون بالتكبير ‘‘
’’سید التابعین سعيد بن مسيب اورجناب عروہ بن زبير اور سیدناابو سلمہ اور ابو بكر بن عبد الرحمن وغيرہ سے روايت كيا ہے: وہ مسجد ميں عيد الفطر كى رات اونچى آواز سے تكبيريں كہا كرتے تھے.الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني صالح بن محمد بن زائدة عن عروة بن الزبير وأبي سلمة بن عبد الرحمن أنهما كانا يجهران بالتكبير حين يغدوان إلى المصلى
جناب عروہ بن زبير اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروى ہے كہ وہ دونوں عيدگاہ جانے تك اونچى آواز سے تكبيريں كہا كرتے تھے.
أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني يزيد بن الهاد أنه سمع نافع بن جبير يجهر بالتكبير حين يغدو إلى المصلى يوم العيد
نافع بن جبير سے روايت ہے كہ وہ جب عيد كے روز عيدگاہ جاتے تو بلند آواز سے تكبيريں كہتے.
(( أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني عبيد الله عن نافع عن ابن عمر أنه كان يغدو إلى المصلى يوم الفطر إذا طلعت الشمس فيكبر حتى يأتي المصلى يوم العيد ثم يكبر بالمصلى حتى إذا جلس الإمام ترك التكبير ))
سیدنا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ: عيد الفطر كے دن وہ سورج طلوع ہونے پر عيدگاہ جاتے اور عيدگاہ پہنچنے تك تكبيريں كہتے اور عيدگاہ ميں بھى امام كے بيٹھنے تك تكبيريں كہتے رہتے تھے، جب امام بيٹھ جاتا تو تكبيريں ترك كر ديتے. اھ
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں جہاں رمضان کے روزوں کی فرضیت اور حکمت بتائی ہے
وہاں ساتھ ہی اپنی کبریائی کا اظہار کرنے کی تلقین بھی فرمائی ہے ، بلکہ رمضان میں روزوں میں دی گئی آسانیوں اور رختصوں کے ساتھ تکمیل رمضان پر اس کا تقاضا تکبیر اور ادائے شکر بتایا گیا ہے ،
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (185)
"تكبروا الله" أي : تعظموه بقلوبكم وألسنتكم ، ويكون ذلك بلفظ التكبير .
ترجمہ :
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ لہذا تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورا مہینہ روزے رکھے۔ ہاں اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرسکتا ہے (کیونکہ) اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا برتاؤ چاہتا ہے سختی کا نہیں چاہتا۔ (بعد میں روزہ رکھ لینے کی رخصت اس لیے ہے) کہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی :: ان رخصتوں اور اللہ کی مہربانیوں کی وجہ سے تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ جس نے ہر قسم کے لوگوں کا لحاظ رکھ کر ایسے احکام فرمائے ہیں۔
اور اس کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرنا چاہیئے ،جس کا آسان تر طریقہ تکبیر پڑھنا ہے
اس لئے عید کے دن بڑے خشوع اور جذبہ تشکر کے ساتھ تکبیرات پڑھنا چاہیئے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام شافعیؒ ( محمد بن ادریس ) (المتوفى: 204هـ)
فرماتے ہیں :
(قَالَ الشَّافِعِيُّ) - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: فِي شَهْرِ رَمَضَانَ {وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ} [البقرة: 185] قَالَ فَسَمِعْت مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْقُرْآنِ أَنْ يَقُولَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ عِدَّةَ صَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَتُكَبِّرُوا اللَّهُ عِنْدَ إكْمَالِهِ عَلَى مَا هَدَاكُمْ، وَإِكْمَالُهُ مَغِيبُ الشَّمْسِ مِنْ آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ شَهْرِ رَمَضَانَ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَمَا أَشْبَهَ مَا قَالَ بِمَا قَالَ، وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ ‘‘ (الاْم ، صلاۃ العیدین )
ترجمہ :۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ : اللہ کریم کا احکام رمضان کے ضمن میں یہ فرمان کہ :
’’ تاکہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو ‘‘
اس کی تفسیر و معنی کے متعلق میں نے اپنے دور کے اہل علم حضرات سے یہ سنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ : تکمیل ماہ صیام ، اور اس کے روزوں کی ھدایت دینے پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے ، اور تکبیرات پڑھی جائیں ، اور ماہ رمضان کی تکمیل چونکہ اس کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ہوتی ہے ‘‘
(اس لئے تکبیر بھی آخری دن کے اس غروب آفتاب کے بعد سے شروع ہوگی )
امام شافعی مزید فرماتے ہیں :
(قال الشافعي) : فإذا رأوا هلال شوال أحببت أن يكبر الناس جماعة، وفرادى في المسجد والأسواق، والطرق، والمنازل، ومسافرين، ومقيمين في كل حال، وأين كانوا، وأن يظهروا التكبير، ولا يزالون يكبرون حتى يغدوا إلى المصلى، وبعد الغدو حتى يخرج الإمام للصلاة ثم يدعوا التكبير‘‘
ترجمہ : جب اہل ایمان ھلال شوال دیکھیں تو مجھے تو یہ پسند ہے کہ وہ سب تکبیرات پڑھیں ، مساجد میں بھی اور گھروں بازاروں میں بھی ، سفر وحضر ہر حال میں یہ تکبیریں پڑھی جائیں ، اور بآواز بلند پڑھیں ،
اور تکبیریں نماز عید کیلئے نکلتے وقت تک اور اس کے بعد بھی جاری رکھیں ،حتی کہ امام نماز پڑھانے کیلئے آجائے اس وقت موقوف کردیں ‘‘
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے ان عید الفطر کی ان تکبیروں پر جلیل القدر سلف صالحین کے اقوال اور عمل ثبوت کے طور پر نقل کیا ہے ، لکھتے ہیں :
قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني صالح بن محمد بن زائدة أنه سمع ابن المسيب وعروة بن الزبير وأبا سلمة وأبا بكر بن عبد الرحمن يكبرون ليلة الفطر في المسجد يجهرون بالتكبير ‘‘
’’سید التابعین سعيد بن مسيب اورجناب عروہ بن زبير اور سیدناابو سلمہ اور ابو بكر بن عبد الرحمن وغيرہ سے روايت كيا ہے: وہ مسجد ميں عيد الفطر كى رات اونچى آواز سے تكبيريں كہا كرتے تھے.الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني صالح بن محمد بن زائدة عن عروة بن الزبير وأبي سلمة بن عبد الرحمن أنهما كانا يجهران بالتكبير حين يغدوان إلى المصلى
جناب عروہ بن زبير اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروى ہے كہ وہ دونوں عيدگاہ جانے تك اونچى آواز سے تكبيريں كہا كرتے تھے.
أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني يزيد بن الهاد أنه سمع نافع بن جبير يجهر بالتكبير حين يغدو إلى المصلى يوم العيد
نافع بن جبير سے روايت ہے كہ وہ جب عيد كے روز عيدگاہ جاتے تو بلند آواز سے تكبيريں كہتے.
(( أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني عبيد الله عن نافع عن ابن عمر أنه كان يغدو إلى المصلى يوم الفطر إذا طلعت الشمس فيكبر حتى يأتي المصلى يوم العيد ثم يكبر بالمصلى حتى إذا جلس الإمام ترك التكبير ))
سیدنا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ: عيد الفطر كے دن وہ سورج طلوع ہونے پر عيدگاہ جاتے اور عيدگاہ پہنچنے تك تكبيريں كہتے اور عيدگاہ ميں بھى امام كے بيٹھنے تك تكبيريں كہتے رہتے تھے، جب امام بيٹھ جاتا تو تكبيريں ترك كر ديتے. اھ