- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے:السلام علیکم
اگر کسی کی ثواب کی نیت نہ ہو بس عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں میلاد منائے تو کیا جائز ہوگا؟
﴿وَلـٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ ﴿٧﴾... سورة الحجرات
''اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھلائی پانے والے ہیں۔''
اس آیت میں ایمان کی محبت میں حب ِالٰہی اور حب ِرسولؐ بھی شامل ہے۔
گویا حب ِرسولؐ انعامِ خداوندی ہے اورحب ِرسولؐ ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
'' تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' (بخاری و مسلم)
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم...٦ ﴾... سورة الاحزاب
''نبی مؤمنوں کے لئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں۔''
عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ''حضرت عمرؓ آنحضرتؐ سے کہنے لگے: آپؐ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مؤمن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپؐ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ ؐنے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱؍۵۹)
سورئہ توبہ ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿قُل إِن كانَ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخوٰنُكُم وَأَزوٰجُكُم وَعَشيرَتُكُم وَأَموٰلٌ اقتَرَفتُموها وَتِجـٰرَةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَسـٰكِنُ تَرضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَجِهادٍ فى سَبيلِهِ فَتَرَبَّصوا حَتّىٰ يَأتِىَ اللَّهُ بِأَمرِهِ...٢٤﴾... سورة التوبة
''(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیںـ؛ اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔''
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے۔
یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو 'طبعی محبت'کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال وکمال یا احسان کی و جہ سے ہو تو 'عقلی محبت' کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو 'روحانی محبت' یا 'ایمان کی محبت' کہلاتی ہے۔
رسول اللہﷺکے ساتھ 'محبت ِطبعی' بھی ہے جیسی اولاد کی محبت باپ سے ہوتی ہے کیونکہ آنحضورﷺاُمت کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ 'روحانی مائیں' جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایاگیا: ﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ بعض شاذ قراء توں میں ھو أبوھم کا لفظ بھی آیا ہے کہ نبی کریمؐ تمہارے والد کی جگہ پر ہیں۔ تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے اسی طرح آپؐ سے محبت ایک مسلمان کے لئے بالکل فطری امر ہے۔
_____________________
2. حب ِ رسولؐ کا حقیقی معیار ... اطاعت ِرسول ؐ
حب ِرسولؐ کا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول ؐ ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :
1. ایک صحابیؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
'' یارسول اللہؐ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں، آپؐ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَفيقًا ٦٩﴾... سورة النساء ''اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔'' (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)
صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرما دیا کہ اگر تم حب ِرسولؐ میں سچے ہو اور آنحضورؐ کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمﷺکی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔
2. حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ
''(ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مانگ لو (جومانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا: ''جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔'' آپ نے فرمایا ''کچھ اس کے علاوہ بھی ؟'' میں نے عرض کیا ''بس یہی مطلوب ہے۔'' تو آپؐ نے فرمایا ''تو پھر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو۔'' (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)۔ (صحیح ابوداود؛۱۱۸۲)
گویا آپؐ نے واضح فرما دیاکہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو۔ یہی حب ِرسولؐ ہے اور معیت ِرسولؐ حاصل کرنے کاذریعہ بھی۔5. فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے:
''لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔'' (مشکوٰۃ للالبانی:۱۶۷)
رواه ابن أبي عاصم في " السنة " ( رقم 15 ) ،
[ والطبراني في " المعجم الكبير " ،
وأبونعيم في " الأربعين " – كما في " جامع العلوم والحكم " ( ص489 ) – ] ،
والخطيب في " تاريخه " ( ج4 / ص469 ) ،
والبيهقي في " المدخل " ( رقم 209 ) ،
[ والحسن بن سفيان في " الأربعين ( ق65 / 1 ) ،
وأبوالقاسم بن عساكر في " طرق الأربعين " ( ق59 / 2 ) – كما في " ظلال الجنة " ( ج1 / ص12 ) – ] ،
وقوَّام السنة الأصبهاني في " الحجة في بيان المحجة " ( ج1 / ص251 ) ،
وابن بطة في " الإبانة " ( رقم 291 ) ،
والهروي في " ذم الكلام "
والحسن بن سفيان النسوي في " الأربعين " ( رقم 9 ) ،
وأبوطاهر السلفي في " الأربعين البلدانية " ( رقم 45 ) ،
وفي " معجم السفر " ( ص375 ) ،
وابن الجوزي في " ذم الهوى " ( ص22 ، 23 ) ،
والبغوي في " شرح السنة " ( ج1 / ص212 ، 213 ) ،
وفي " الشمائل " ( ج2 / ص770 ، 771 ) .
من طرق عن نعيم بن حماد ، عن عبدالوهاب بن عبدالمجيد الثقفي ، عن هشام بن حسان ، عن محمد بن سيرين ، عن عقبة بن أوس ، عن عبدالله بن عمرو بن العاص ، مرفوعاً ، مثله .
وعند بعضهم : عن نعيم بن حماد ، حدثنا عبدالوهاب الثقفي ، حدثنا بعض مشايخنا : هشام ، أو غيره ، عن ابن سيرين ، به .''لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''
یعنی کافر اور مؤمن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسولؐ کی تابعداری کرے گا وہ مؤمن ہوگا اور جو رسول اللہﷺکی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہوگا جیساکہ
﴿ قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله ویغفر لکم ذنوبکم ﴿31﴾ قل أطيعوا الله والرسول، فإن تولوا فإن الله لا يحب الكافرين ﴿32﴾ [ آل عمران ]
"آپ کہہ دیں اگر تم الله تعالی کو محبوب رکھنا چاھتے ھو تو میری اتباع کرو اس وقت الله تعالی تمہیں محبوب رکھے گا اور تمہارےگناھوں کو بخش دے گا۔" کہہ دیجئے! کہ الله تعالی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ موڑ پھیر لیں تو بے شک الله تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ :
محبت رسول ﷺ چونکہ اصل ایمان ہے ، اسلئے اس کے اظہار کے طریقے اور انداز ہماری خواہش و پسند کے مطابق نہیں بلکہ صرف اتباع رسول ﷺ
اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع میں ادا ہوسکتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Last edited: