• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی ﷺمنانے والوں کے 12/ مشہورومعروف باتوں کا جواب

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
بسم اللہ الرحمن الرحیم

عید میلاد النبی ﷺمنانے والوں کے

12/ مشہورومعروف باتوں کا جواب




ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی


الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،اما بعد:

برادران اسلام!

جیسا کہ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا ہے اور میلادمنانے والے لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاکر طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں اور قرآن وحدیث کے نام پر جھوٹ بول کر لوگوں کو یہ باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ میلاد منانا یہ سب سے بڑی نیکی اور محبت رسولﷺ کی علامت ہے اور جولوگ میلاد نہیں مناتے ہیں تو ایسے لوگ گستاخ رسول ہیں تو آئیے آج کے خطبۂ جمعہ کے اندر ہم آپ کو انہیں باتوں اور دلیلوں کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں جو اکثروبیشتر سماج ومعاشرے میں سننے میں آتی ہیں،تو آئیے سب سے پہلے ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ کیا ماہ ربیع الاول کی کچھ فضیلت ثابت ہے؟ماہ ربیع الاول کے بارے میں کچھ باتیں جاننی بہت ضروری ہے کیونکہ ماہ ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی محبت رسول کے نام پر سڑکوں اور گلیوں کو سجائی جاتی ہے،مسجدوں اور گھروں پر قمقمے اور جھنڈے نصب کئے جاتے ہیں اور بازاروں میں یہ گہما گہمی ہونے لگتی ہے کہ سب سے بڑی عید آنے والی ہے ،جب کہ یہ نہ تو عید ہے اور نہ ہی یہ اسلام کا حصہ ہے بلکہ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ دین اسلام کا کوئی ایک نیک عمل بھی نہ تو ربیع الاول کے مہینے میں ثابت ہے اور نہ ہی 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کے بارے میں کچھ ثابت ہے اب دیکھئے کہ :

1۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر آپ ﷺ رمضان کے مہینے میں رسول بنائے گئے!

2۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر قرآن کریم کے نزول کا آغازرمضان کے مہینے میں ہوا! (البقرۃ:185)

3۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر قرآن مجید میں صرف رمضان مہینے کا نام مذکور ہوا!(البقرۃ:185)

4۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر روزے رمضان کے مہینے میں رکھنے کا حکم ہوا!(البقرۃ:185)

5۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر آپﷺ نے رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے والوں کو حج کے برابرثواب ملنےکی بشارت دی یا پھر اپنے ساتھ حج کرنے کے جیسا قراردیا!(مسلم:1256)

6۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرساری فضیلتیں رمضان کے مہینے کو ملی۔

7۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگریہ حرمت والے مہینوں میں سے بھی نہیں ہے!(بخاری:2958)

8۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرحج وقربانی جیسے عظیم عبادت کے لئے ذی الحجہ کا مہینہ مقررہوا!

9۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر آپ نے اپنی زندگی میں ایک بھی عمرہ اس مہینے میں ادا نہ کیا!(بخاری:1654،مسلم:1253)

10۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرآپ نے محرم کے مہینے کو اللہ کا مہینہ قراردیا!(مسلم:1163)

11۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرآپ نے خود نفلی روزہ رکھنے کے لئے محرم کے مہینے کو افضل مہینہ قراردیا!(مسلم:1163)

12۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرہجری سال کا آغازمقدس ہستیوں نے محرم کے مہینے سے کیا۔

13۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرخود آپ ﷺ اس مہینے کو چھوڑ کر شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔(بخاری:1969،مسلم:1156)

14۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر نامۂ اعمال شعبان کے مہینے میں اٹھائے جاتے ہیں۔(صحیح النسائی للألبانیؒ:2221)

15۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر رب ذوالجلا ل والاکرام نے مسلمانوں کے عید ین کے لئے شوال اور ذی الحجہ کے مہینے کو منتخب کیا۔

16۔ آپﷺ کی ولادت پیر کے دن ہوئی مگر اللہ نے فضیلت جمعہ کے دن کو عطا کیا۔

17۔آپ ﷺ کی ولادت پیر کے دن ہوئی مگر فضیلت عرفہ کے دن کو ملی۔

18۔آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگر قربانی 10 ذی الحجہ کو مشروع کی گئی۔

19۔ آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگر نفلی روزے رکھنے کا جو اجروثواب بیان ہوا وہ 9 ذی الحجہ ہے یا پھر 9 اور10 محرم ہے۔(مسلم:1162)

20۔ آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگر آپ ﷺ خود ہرمہینے کم سے کم قمری تاریخ کے حساب سے 13/14/15 یعنی ایام بیض کے روزے رکھتے تھے۔(نسائی:2347،الصحیحۃ للألبانیؒ:580)

21۔ آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگر تمام فضیلتیں رمضان کے آخری عشرے اور عشرۂ ذی الحجہ کو ملی۔(القدر:3،ترمذی:757)

22۔ آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگررب العالمین نے مسلمانوں کو جو دو عیدیں عطا کی وہ بھی ان تاریخ میں سے نہیں ہے!

الغرض دین اسلام کی کسی بھی قسم کی کوئی بھی عبادت اس مہینے میں مقرر نہیں ہے کیا عقل وخرد رکھنے والوں کے لئے بس اتنی سی بات کافی نہیں ہے کہ میلاد منانااسلام میں ناجائز ہی نہیں ہے بلکہ اس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے،

’’ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّاُولِى النُّـهٰى ‘‘ یقینا اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔(طہ:54) ساری تفصیلات کو سننے اور پڑھنے کے بعد یہ میلاد منانے والے لوگ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جارہے ہیں ؟ سنت کی راہ پر یا پھر بدعت کی راہ پر!

1۔میلاد منانا محبت رسول کی علامت ہے ؟​

برادران اسلام!

میلاد منانے والے حضرات یہ بڑے ہی زوروشورسے کہتے ہیں کہ میلاد منانا یہ محبت رسولﷺ کی علامت ہےاور جو میلاد نہیں مناتا وہ منافق ہےاور ایسے لوگ گستاخ رسول ہیں۔نعوذ باللہ۔،توآئیے دیکھتے ہیں کہ اس بات میں کتنا دم ہے اور اس بات کی کیاحقیقت ہے؟تو دیکھئے میرے دوستواگرمیلاد منانا یہ محبت رسولﷺ ہوتا تو اس نشانی اور علامت کو سب سے پہلے وہ لوگ انجام دیتے جن سے زیادہ اس کائنات میں کوئی بھی انسان آپﷺ سے محبت نہیں کرسکتا ہے!اگر میلاد نہیں منانا گستاخیٔ رسول ہیں تو پھر آپ اس بات کا کیانام دیں گے کہ:

خلیفۂ اول سیدنا ابوبکرؓ نے دوسال دو مہینے حکومت کی مگر کبھی بھی انہوں نے میلاد نہیں منایا اور نہ ہی جلوس نکالا۔

خلیفۂ ثانی سیدناعمر بن خطابؓ نے دس سال چھ مہینے حکومت کی مگر انہوں نے کبھی میلاد نہیں منایا اور نہ ہی جلوس نکالا۔

خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان غنیؓ نے گیارہ سال اورگیارہ مہینےحکومت کی مگر انہوں نے کبھی بھی میلاد نہیں منایا اور نہ ہی جلوس نکالا۔

خلیفۂ رابع سیدنا علی المرتضیؓ نے تقریبا چار سال اورآٹھ مہینےحکومت کی مگر انہوں نے بھی کبھی بھی میلاد نہیں منایا اور نہ ہی جلوس نکالا۔

کاتب وحی سیدنا امیرمعاویہؓ نےکم وبیش بیس سال حکومت کی مگر انہوں نے بھی کبھی بھی نہ تو میلاد منایا اور نہ ہی جلوس نکالا۔

یہ تو چند نام ہیں ورنہ کسی بھی صحابی اور تابعی یا پھر تبع تابعی سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے زندگی میں کبھی بھی اس طرح کی کوئی حرکت کی ہو بلکہ خیرالقرون کے ادوار میں بھی اس کا کہیں ثبوت نہیں ملتا ہےکہ کسی نے بھی میلاد منائی ہو ،درحقیقت اس کی ایجاد تو چٹھی صدی ہجری میں کی گئی ہے اور اس کا موجد اول ابوسعید مظفر الدین اربل کا بادشاہ تھاجس کی وفات:630ھ میں ہوئی اور اس کے جائز ہونے کا فتوی سب سے پہلے ابن دحیہ کلبی نے دیا تھا جس کی وفات سن 633 ھ میں ہوئی تھی جس سے خوش ہوکر کے بادشاہ نےاس کو ایک ہزاراشرفیاں دی تھی۔

برادران اسلام! ذرا سوچئے کہ یہ جملہ ’’ میلاد نہ منانے والے گستاخ رسول ہیں‘‘ کتنا خطرناک ہے کہ اس جملے کی زد میں تمام کے تمام صحابۂ کرام آجاتے ہیں کیونکہ یہ کام کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے!جب یہ کام کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں تو پھر یہ چیز نہ تو محبت رسول کی علامت ہے اور نہ ہی یہ چیز دین کا حصہ ہے کیونکہ جو کام صحابہ نے نہ کیا وہ دین کا حصہ کبھی نہیں ہوسکتاہے گرچہ لوگ اسے دین سمجھے یا پھر بہت بڑی نیکی سمجھے کیونکہ اس دین کو بلافاصلہ (ڈائریکٹ) لینے اور امت کو دینے والے وہی توہیں،صحابہ ہی دین حق کے خشتِ اول ہیں کیونکہ قرآن ان کے سامنے میں نازل ہوا،اورقرآن کی تفسیرنبی کریم ﷺ نے انہیں ہی سکھائی،دین کی کوئی ایسی بات نہ تھی جو انہیں نبی کریمﷺ نے نہ بتلائی ہوااور وہ سب تادم حیات اسی دین پر استقامت کے ساتھ خود بھی گامزن رہے اور امت کو بھی اسی کی تلقین کی کہ دین وہی ہے جوقرآن وسنت سے ثابت ہو اس کے ماسوا سب فضول وواہیات اورزیغ وضلال ہے،دین اسلام کے شجرکو انہوں نے اپنے خون سے آبیاری کی،دین اسلام کے سربلندی کے لئے وہ ہمیشہ اپنے تن من دھن سے لگے رہے ،حالی نے ان کے اسی صفت کی کیاہی خوب ترجمانی کی ہے:

بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے

یہ سب پودا ان ہی کی لگائی ہوئی ہے​

انہیں سب خوبیوں کی وجہ سےقرآن ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ یہ صحابہ ہی معیار ہدایت اور معیار حق ہیں جیسا کہ رب العزت کا فرمان ہے ’’ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ‘‘اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں۔(البقرۃ:137)اسی طرح سے رب ذوالجلال والاکرام نے تاقیامت آنے والی تمام نسلوں کو اور بالخصوص مسلمانوں کو ان کے نقش قدم کی پیروی کرنے کا صرف حکم ہی نہیں دیا بلکہ ان کی پگڈنڈی اورڈگر سے بھٹکنے پر بھیانک انجام سے بھی باخبر کردیا جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ‘‘ جوشخص راہ ہدایت واضح ہوجانے کے باوجود بھی رسولﷺ کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں (صحابہ)کی راہ کو چھوڑکر کسی اورراہ کو اختیارکرے تو ہم اسے اسی طرف متوجہ کردیں گے جدھروہ خود متوجہ ہوا ہوگا اور دوزخ میں ڈال دیں گے جو بہت ہی بری جگہ ہے۔(النساء:115)آپﷺ نے بھی اپنی امت کو اسی بات کی تعلیم دی کہ زمانہ جیسے جیسے گذرتا جائے گا ویسے ویسے لوگ اختلاف میں پڑکر زیغ وضلال کے راستوں پر چلنا شروع کردیں گے مگر تم کسی بھی حال میں صحابہ کے راستے کو نہ چھوڑنا ورنہ ہلاک وبرباد ہوجاؤگےجیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے:’’ فَسَيَرَى اِخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ‘‘ عنقریب تم میری امت میں بہت زیادہ اختلاف دیکھوگے ایسی صورت میں تم میری سنت اورمیرے ان خلفاء کی سنت کو لازم پکڑنا جو ہدایت یافتہ اور نیک وصالح ہوں گے،تم اسے مضبوطی سے تھام لینا اور ہاتھ سے نکلنے نہ دینا،اوردین میں ہرطرح کے بدعات کو ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر بدعت گمراہیت کے طرف لے جاتی ہے اور بالآخر گمراہی کا انجام جہنم ہی ہے۔(ابوداؤد:6407 صححہ الألبانی)

محترم قارئین!

صحابہ نے بھی امت مسلمہ کو اسی بات کی تلقین کی کہ تم وہی کرنا جو صحابہ نے کیا اور جو انہوں نے نہ کیا اس کے قریب بھی نہ جاناجیساکہ حذیفہ بن یمانؓ نے کہا کہ:’’ كُلُّ عِبَادَةٍ لَمْ يَتَعَبَّدْهَا أَصْحَاُب رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَلَا تَعْبُدُوْهَا ‘‘یعنی ہر وہ عبادت جو صحابۂ کرام نے نہ کیا تم بھی اسے عبادت سمجھ کر نہ کیا کرو،اسی طرح سے ابن مسعودؓ نے کہا کہ:’’ اِتَّبِعُوْا وَلَا تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ كُفِيْتُمْ عَلَيْكُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِيْقِ ‘‘ یعنی تم قرآن وسنت کی پیروی کیا کرو اور دین میں نئے نئے کاموں کو ایجاد نہ کیا کروکیونکہ تمہیں اس سے بچالیاگیا ہے اور تم اسی چیز کو لازم پکڑوجو پہلے سے موجودتھا۔(حجۃ النبیﷺ:ص100)

اب ذرا سوچئے اور فیصلہ خود کیجئے کہ جب ان چاروں خلفاءنےنہ کیا اور نہ ہی کسی صحابیٔ رسول نے اس کام کو انجام دیا تو پھر یہ دین کا حصہ کیسے ہوسکتا ہے؟اور یہ محبت کی علامت کیسے ہوسکتی ہے!یہ میلاد منانا نہ تو اچھا کام ہے اور نہ ہی نیکی کا م ہےگرچہ ساری دنیا اسے اچھا سمجھے اور نیکی کا کام سمجھے!جیسا کہ اس بات کی وضاحت صحابیٔ رسول ابن عمرؓ نے خود بیان کردی ہے کہ ’’ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَإِنْ رَآهَا النَّاسُ حَسَنَةً ‘‘ ہر بدعت گمراہی ہے گرچہ لوگ اسے اچھا ہی سمجھے۔(موسوعۃ الألبانی فی العقیدہ:2/99)اسی لئے اے مسلمانو!صحابہ کے نقش قدم کی پیروی کرو،انہیں کے راہ پرچلوکیونکہ انہیں کی راہ سیدھے جنت کو جاتی ہے اورجس پر چلنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔

2۔ابولہب نے میلاد منایاتھاجس کی وجہ سے اس کے عذاب میں تخفیف کردی گئی​

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!

میلاد منانے والے حضرات بخاری کے نام پرلوگوں کو دھوکا دیتے ہوئے جشن میلاد النبیﷺ کو ثابت کرنے کے لیے اہل بدعت ایک مرسل ومنقطع روایت جو کہ خواب پر مشتمل ہے اس کا سہارا لیتے ہیں کہ ابولہب نے ثویبیہ کو آپﷺ کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کردیا تھا،جس کی وجہ سے ابولہب کے عذاب میں تخفیف بھی ہوگئی تھی تو جب ایک کافر کی یہ شان ہوئی تو ایک مسلمان کی جو میلاد منائے گا اس کی کیا شان ہوگی، تو آئیے اس بات کی حقیقت کو بھی سمجھتے ہیں!

1۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت مرسل اور منقطع ہے جو لائق حجت نہیں اور عروہ ؒ نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہ خواب کس نے دیکھا تھااور امام بخاریؒ نے اس کی سند ہی نہیں بیان کی ہے۔

2۔ دوسری بات یہ کہ بالفرض اگر یہ مان لیتے ہیں کہ یہ خواب سیدناعباسؓ نے دیکھا تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو بات آج کل کے لوگوں کو سمجھ میں آئی ہے وہی بات حضرت عباسؓ کو کیوں نہ سمجھ میں آئی؟اگر اس واقعے سے میلاد منانا ثابت ہوتا تو سب سے پہلے سیدنا عباسؓ مناتےمگر ایسی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے یا پھر کسی صحابی نے ایسا کیا ہو؟

3۔تیسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ یہ خواب حضرت عباسؓ کے قبول اسلام سے پہلے کا ہے اوراس خواب کا کوئی اعتبار نہیں کیوں کہ یہ مرسل ومنقطع روایت ہے۔

4۔ چوتھی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر اس واقعے کو صحیح مان لیا جائے تو اس واقعے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جو آپﷺ کی پیدائش پرخوشی منائے گا وہ واصل جہنم ہوگا،کیونکہ ابولہب میلاد مناکرکے بھی جہنم میں داخل ہوا۔

5۔ پانچویں بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ آپﷺ کے قول وفعل کو تسلیم نہ کرکے صرف میلاد منانا ابولہب کا طریقہ ہے کیونکہ ابولہب نے ایمان کو قبول نہ کرکے صرف میلاد منایا تھا!اور آپﷺ کے قول وفعل کو اپنا تے ہوئے میلاد نہ منانا یہ صحابہ کے نقش قدم کی پیروی واتباع ہے!اب جس کی جو مرضی اس کو اختیار کرے!

6۔ چھٹی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ کسی کے خواب سے شریعت کا کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتاہے اور اگر اہل بدعت خواب کو حجت مانتے ہیں تو پھر برائے مہربانی دوخواب کوبھی سچ مان کر اسی کے مطابق فیصلہ کریں ان دوخوابوں کو بھی حجت مان لیں:

1۔ سب سے پہلا خواب جو میں آپ کو سنانے جارہاہوں یہ تاریخ بغداد جلد13/ صفحہ نمبر403 کے اندر مذکور ہے کہ امام محمد بن حمادؒ کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کو خواب میں دیکھا تو میں نے آپﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کے کلام کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟کیا میں ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کے کلام کو دیکھوں اور پڑھوں اور اس پر عمل کروں؟ تو آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا کہ نہیں ،نہیں نہیں،پھر میں نے کہا کہ کیا میں آپ ﷺاور آپ کے اصحاب کی حدیث دیکھ کر اس پر عمل کروں تو آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا ہاں،ہاں ،ہاں،پھر میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ آپ مجھے کوئی دعا سکھادیں تاکہ میں اس کے ذریعے دعاکرتارہوں توآپﷺ نے مجھے دعا بھی سکھائی لیکن جب میں بیدارہوا تو وہ دعا بھول گیا۔(تاریخ بغداد:48،جلد13/403،مُحَمَّد بن حماد، يقول: رأيت النبي، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام، فقلت: يا رسول الله، ما تقول في النظر في كلام أبي حنيفة وأصحابه، أنظر فيها وأعمل عليه؟ قال: لا، لا، لا، ثلاث مرات، قلت: فما تقول في النظر في حديثك وحديث أصحابك؟ أنظر فيها وأعمل عليها؟ قال: نعم، نعم، نعم، ثلاث مرات، ثم قلت: يا رسول الله، علمني دعاء أدعو به، فعلمني دعاء، وقاله لي ثلاث مرات، فلما استيقظت نسيته۔)اگرابولہب کے خواب سے میلاد منایاجاسکتاہے تو اس خواب سے یہ بھی مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تقلید نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ان کی بات ماننے سے آپﷺ نے محمد بن حماد کو خواب میں روکاہے۔

2۔آئیےمیں آپ سب کو ایک اور خواب سناتا ہوں علامہ محمد بن محمد شہاب حنفی صاحب فتاوی بزازیہ نے اپنی کتاب مناقب الامام الاعظم جلد 1/33 پرامام ابوحنیفہؒ کا یہ خواب نقل کیا ہے کہ انہوں نے خواب میں یہ دیکھا کہ امام ابوحنیفہؒ نے نبی کریمﷺ کی قبرکوکھودا اور آپﷺ کی ہڈیوں کو سینے تک اکٹھا کرلیا۔(جشن عیدمیلادالنبیﷺ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں:134)

ذرا غور سے سنئے کہ اگر کسی کا خواب حجت ہے تو پھر اس خواب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ آپﷺ اپنی قبرمبارک میں صحیح سالم نہیں ہیں کیونکہ امام ابوحنیفہؒ نے خواب میں آپﷺ کی ہڈیوں کو جمع کیا تھا!تو اب سوال پیداہوتا ہے کہ کیا میلاد منانے والے حضرات یہ عقیدہ مانیں گے کہ آپﷺاپنی قبرمیں صحیح سالم نہیں ہیں؟؟؟

7۔ ساتویں بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اس واقعے میں کتنی سچائی ہے اس کا اعلان قرآن نے ببانگ دہل برسوں پہلے کردیا ہے کہ جو بھی اہل کفار ومشرکین ہیں ان کی نیکیوں کا فائدہ آخرت میں کچھ نہیں ملے گاجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا ‘‘اور انہوں نے جو بھی اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا۔(الفرقان:23)اب آپ ہی ہمیں بتائیں کہ ہم قرآن کی مانیں یا پھر آج کل کے لوگوں کی۔

8۔آٹھویں اور سب سے آخری بات اس سلسلے میں یہ ہے اس واقعے کا جھوٹا ہونا یہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے،اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے؟ تو دیکھئے اس واقعے کے اندر یہ بات مذکور ہے کہ ولادت نبوی کی پیدائش کی خوشی میں ثویبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سےابولہب کو جہنم میں تھوڑا ساپانی پلادیا جاتاہے ،جب کہ قرآن یہ اعلان کررہا ہے کہ جہنم میں کافروں کو ایک لحظہ کے لئے نہ تو ٹھنڈا پانی ملے گا اور نہ ہی راحت وسکونجيسا كه فرمان باري تعالي هے’’ لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا ، إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا ‘‘ جہنمی جہنم کے اندر نہ تو کسی طرح کی ٹھنڈک کا مزہ پائیں گے اور نہ ہی انہیں کچھ پینے کوملے گا،سوائے گرم پانی اور بہتی پیپ کے (سوا کچھ جہنمیوں کو نہیں ملےگا)(النبا:24-23 ) اور جب جهنميوں کو یہ خون وپیپ ملے گا تو کیا ہوگا نہ تو اس سے بھوک مٹے گی اور نہ ہی پیاس جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ ‘‘جو نہ موٹا کرے گا اور نہ ہی بھوک مٹائے گا۔(الغاشیہ:6) اب ذرا سوچئے کہ اللہ نے یہ کہا کہ جہنمی کو ایک لحظے کے لئے راحت نہیں ملے گی اور نہ ہی ٹھنڈا پانی ملے گا اور اس واقعے کے اندر یہ لکھا ہے کہ ابوجہل کو ٹھنڈا پانی ملتا ہے،جب کہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے اور جو بات قرآن کے خلاف ہو اس کے جھوٹ ہونے میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں ہے،بڑی حیرت کی بات ہے کہ جسے قرآن نےگستاخ رسول و ملعون اور جہنمی قراردیتے ہوئے یہ کہا کہ ’’ سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ ‘‘وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا۔(تبت:3)اسے میلادی بھائی اپنے مسلک کی تائید میں جہنم میں بھی آرام وسکون پہنچانا چاہتے ہیں!!

3۔ میلاد منانے میں برائی کیا ہے؟ ہم تو نبیﷺ کا ذکرخیر کرتے ہیں؟​

میلاد منانے والے حضرات اکثروبیشتر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ میلادمنانے میں غلط کیا ہے؟برائی کیا ہے؟ ہم تو مناقب وفضائل رسول ﷺبیان کرتے ہیں؟درود کی محفلیں سجاتے ہیں؟تو کیا یہ سب کرنا غلط اور گناہ ہے؟تو اس کا جواب سنئے دراصل اس طرح کے جملوں سے عوام کو دھوکا دیا جاتاہے اورلوگوں کے دینی جذبوں سے فائدہ اٹھاکر انہیں بیوقوف بنایاجاتاہے،سن لیجئے اور اچھی طرح سے یادرکھ لیجئے کہ ہروہ کام جو نبیﷺ کے بتائے ہوئے قول وفعل سے ثابت نہ ہووہ مردود ہے گرچہ وہ کتنا ہی ا چھا کیوں نہ ہو!جونبی اور صحابہ سے ثابت نہیں اس کا کرنا گناہ ہے گرچہ ساری دنیا اس کی تعریف کرے اور اسے اچھا کہے!جولوگ یہ کہتے ہیں کہ کرنے میں کیا حرج ہے؟کیا گناہ ہے؟ ایسے لوگوں کو میں سب سے پہلے ایک حدیث سنانا چاہتا ہوں جس کے اندر اسی بات کا ذکر ہے کہ کچھ صحابۂ کرام نے بہت ہی زیادہ نیکی کرنے کا ارادہ کیا اور نماز وروزے کو اختیارکرنے کی بات کہی تھی مگر حبیب کائنات ﷺ نے انہیں کیاکہاتھا ذرا سنئے،سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ تین صحابۂ کرامؓ(سیدنا علیؓ،سیدناعبداللہ بن عمروبن عاصؓ اور سیدنا عثمان بن مظعونؓ)امہات المومنین والمومنات میں سے کسی کے پاس گئے اور ان سے آپﷺ کی عبادتوں اورریاضتوں کے بارے میں پوچھا تو جب انہیں آپﷺ کی عبادتوں وریاضتوں کے بارے میں بتائی گئی تو انہوں نے اسے کم سمجھا اورحیران وپریشان ہوکرکہا کہ ہم کہا ں اور آپﷺ کہاں ’’ وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ‘‘ ہماراآپﷺ سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی وپچھلی لغزشوں کو معاف کردیاگیاہے(جب آپﷺ اتنی زیادہ عبادت وبندگی کرتے ہیں تو ہمیں کتنی کرنی چاہئے)یہ کہہ کر ان میں سے ایک نے کہا کہ ’’ أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا ‘‘ اب سے میں تو رات بھر نماز پڑھتارہوں گا اور کبھی نہیں سوؤں گا اور دوسرے نے کہا کہ ’’ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ ‘‘ اب سے میں بھی ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہیں کروں گا ،اب تیسرے صحابی نے کہا کہ ’’ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ‘‘ میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیارکرتاہوں اور کبھی نکاح وغیرہ کے جھمیلے میں نہیں پڑوں گا،اور کسی نے یہ بھی کہاتھا کہ ’’ لَا آكُلُ اللَّحْمَ ‘‘ اب سے میں گوشت وغیرہ بھی نہیں کھاؤں گا،ذراغور سے سنتے جانا میرے دوستو کہ ان صحابۂ کرام نے کتنا اچھا اورنیکی کا ارادہ کیا مگر ذرا یہ بھی یاد رکھ کرجانا کہ جب آپﷺ کو اس بات کی جانکاری دی گئی کہ انہوں نے ایسا اور ایسا کہا ہے توآپ ﷺ نے کیاکہاتھا!جب آپﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپﷺ نے انہیں بلایا اور پوچھا کہ کیا تمہیں لوگوں نے ایسا اورایسا کہا ہےاورپھرآپﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کوکیا ہوگیا ہے کہ وہ اس طرح کی باتیں کہتے اور سوچتے ہیں،اے لوگوسن لو ’’ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ‘‘ خبردار! اللہ کی قسم ! میں تم سب سے کہیں زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہوں،میں تم سب سے کہیں زیادہ متقی وپرہیزگارہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطاربھی کرتاہوں ،نمازیں بھی پڑھتاہوں اور راتوں میں سوتابھی ہوں اور میں نے نکاح بھی کررکھے ہیں اسی لئے یہ بات یادرکھ لو!’’ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ‘‘ جو میرے طریقے سے ہٹا وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔(بخاری:5063 ،مسلم:1401)دیکھا اورسنا آپ نے کتنا اچھا اورنیکی کا ارادہ انہوں نے کیا تھا مگر آپﷺ نے انہیں کتنا سخت ڈرایا اوردھمکایاکہ اگرمیرے راستے سے ہٹوگے توپھر کہیں کے نہیں رہوگے،پتہ یہ چلاکہ کوئی کام کتنااچھا اور نیک ہی کیوں نہ ہو اگر اس پر مدینے والے کا فرمان نہیں تو وہ مردوداور باعث عذاب ہے۔

جولوگ یہ کہتے ہیں کہ میلاد منانا تو بہت اچھا کام ہے ،نیکی کا کام ہے تو ایسے لوگوں کومیں ایک اور حدیث سنادینا چاہتاہوں تاکہ حق واضح ہوجائے ،سنن دارمی حدیث نمبر 210 کی یہ روایت ہے اور اس حدیث کو علامہ البانیؒ نے صحیح کہا ہے حضرت عمرو بن سلمہ ہمدانیؒ کہتے ہیں ہم اکثروبیشتر فجر کی نماز سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے دروازے پر بیٹھ جایاکرتے اور پھر ان کے ساتھ ہی مسجد کی طرف نکلا کرتے تھے،ایک دن ایسا ہوا کہ سیدنا ابوموسی اشعریؓ آئے اور وہ بھی ابن مسعودؓ کے انتظارمیں بیٹھ گئے جیسے ہی ابن مسعودؓ اپنے گھر سے نکلے تو ان سے ابوموسی اشعریؓ نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن ’’ إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ إِلَّا خَيْرًا ‘‘ میں نے مسجد میں ابھی ابھی ایک کام دیکھا ہے جومجھے برامعلوم ہورہاہے اور اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اچھا اور بہترہی دیکھا ہے،حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کہ ویسا آپ نے کیا دیکھا ہے؟تو ابوموسی اشعریؓ نے کہا کہ میں نے یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں جو حلقوں کی شکل میں مسجد میں بیٹھے نماز کا انتظار کررہے ہیں، اور ہرحلقے میں ایک آدمی ہے جس کے ہاتھ میں کنکریاں ہیں اور وہ لوگوں کو کہتاہے کہ 100 سوبار اللہ اکبر پڑھو تو لوگ 100سو باراللہ اکبر پڑھتے ہیں،پھر وہ کہتاہے کہ 100سوبار لاالہ الااللہ پڑھو تو وہ لوگ 100 سوبار لاالہ الا اللہ پڑھتے ہیں ،پھر وہ کہتا ہے کہ 100سوبار سبحان اللہ پڑھو تو وہ لوگ 100 سوبارسبحان اللہ پڑھتے ہیں ،یہ سن کر ابن مسعودؓ نے ابوموسی اشعریؓ سے پوچھا کہ آپ نے انہیں کچھ کہا نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کے رائے کا انتظارکرتے ہوئے انہیں کچھ نہیں کہا ،تو ابن مسعودؓ نے کہا کہ آپ انہیں اس بات کو حکم دیتے کہ وہ(اس طرح سے نیکیوں کوشمار نہ کرکے) اپنے گناہوں کا شمارکریں اور آپ انہیں اس بات کی ضمانت دیتے کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی،بہرحال جب سب کے سب مسجد میں پہنچے تو انہوں نے بھی لوگوں کو ویسا ہی کرتے ہوئے پایاتو ابن مسعودؓ نے پوچھا کہ ’’ مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ ‘‘ یہ تم لوگ کیا کررہے ہو؟ توانہوں نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن! ہم ان کنکریوں کے ساتھ اللہ اکبر ،لاالہ الا اللہ اور سبحان اللہ کو شمار کررہے ہیں،یہ سن کرابن مسعودؓ نے ان سے کہا کہ ایساکرنے کے بجائے تم سب اپنی برائیوں کو شمارکرو اور میں تمہیں اس بات کی گارنٹی دیتاہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی،پھر ان سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایاکہ ’’ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ ‘‘افسوس ہے تم پر اے امت محمدیہ!تم کتنی جلدی ہلاکت وبربادی کے طرف چل دئے،ابھی تو تمہارے درمیان بکثرت آپﷺ کے اصحاب موجود ہیں اور ابھی تو آپﷺ کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی ابھی آپﷺ کابرتن ٹوٹاہے ،’’ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ ‘‘قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا توتم ایسے بدعت والے طریقے پر ہو جس میں محمدﷺ کے طریقے سے زیادہ ہدایت ہے یا پھرتم نے گمراہی کا دروازہ کھولا ہے،ایسا سننے کےبعد ان لوگوں نے جواب دیا کہ’’ وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ ‘‘ اے ابوعبدالرحمن ہم نے تو بس خیروبھلائی کا ہی ارادہ کیا تھا،ایسا سننے کے بعد جو ابن مسعودؓ جواب دیا وہ ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے انہوں نے کہا کہ ’’ وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ ‘‘ بہت سارے لوگ نیکی کا ارادہ تو کرتے اوررکھتے ہیں مگر انہیں نیکی حاصل نہیں ہوتی ہے۔۔۔(سنن دارمی:210،الصحیحۃ:2005)دیکھا اورسنا آپ نے کہ ایک نیکی کا کام ہورہاتھا مگر وہ نیکی کاکام رسولﷺ کے طریقے وسنت کے موافق نہیں تھا جس کی وجہ سے ہی ابن مسعودؓ نے انہیں کھراکھوٹاسنایا اور کہا کہ یہ نیکی نہیں بلکہ گمراہی ہے،ذراغورکیجئے کہ جب اس طرح سے کرنا نیکی نہیں ہے توپھر جو چیزچھٹی صدی ہجری میں ایجاد کی گئی وہ نیکی اور اچھا کام کیسے ہوسکتاہے۔

4۔سوائے ابلیس کے سبھی تو جہاں میں خوشیاں منارہے ہیں:​

جولوگ میلاد مناتے ہیں وہ لوگ ان دنوں میں یہ کہتے تھکتے نہیں ہیں کہ سوائے ابلیس کے سبھی تو جہاں میں خوشیاں منارہے ہیں تو آئیے اس بات کی حقیقت کو بھی تھوڑا سمجھتے ہیں کہ خوشی کون مناتا ہے؟دیکھئے میرے دوستو!ہم اور آپ دیکھتے ہیں کہ آج 12/ربیع الاول کے دن مسلمانوں کی اکثریت محبت رسول اور عشق رسول کے نام پرہروہ کام کرتی ہے جو ان کو پسند آتا ہے، جو ان کے نفس کو اچھا لگتا ہے، محبت رسول کے نام پر ناچ کیا جاتا ہے، محبت رسول کے نام پرمیوزک کا استعمال کیا جاتا ہے،محبت رسول کے نام پر گلی کوچوں میں بینڈ باجوں کے ساتھ نوجوان یارسول اللہ کہہ کر ناچتے اور ٹھمکے لگاتے ہیں اور خواتین اپنے اپنے بالکونیوں سے یہ تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتی ہیں اور نوجوان جب ایسا منظر دیکھتے ہیں تو وہ کچھ اور ہی گل کھلاتے نظرآتے ہیں، محبت رسول کے نام پر مرد وخواتین کا بیباکانہ اختلاط ہوتاہے،سیرت رسول اور محبت رسول کے نام پراس طرح کی حرکتوں کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے شیطان کی پیشانی بھی احساس ندامت سے عرق آلود ہوجاتی ہوگی،نمازیں ہوتی رہتی ہیں میلاد کا جلوس ڈھول اور باجے کے ساتھ یہ نام نہاد عاشق رسول مساجد کے سامنے سےناچتے گاتے گزرتے رہتے ہیں نہ نماز کی فکر اور نہ ہی اللہ کے گھر کا ادب واحترام اور نہ ہی دلوں میں اللہ کا ڈر وخوف، کیا اس طرح کے لوگ عاشق رسول ہوسکتے ہیں؟ جی نہیں! کبھی نہیں!ہرگز نہیں!شاید مسلمانوں کی انہیں حرکتوں کودیکھ کرعلامہ اقبال نے یہ کہا تھاکہ:

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں

امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں​

اے مسلمانو!اگر اللہ نے ذرہ برابر بھی عقل وشعور سے نوازا ہے تو انصاف کے ساتھ ذرا سوچو کہ کیا ایک بےنمازی،ناچنے گانے والا،ڈاڑھی مونڈھا عاشق رسول ہوسکتاہے؟شیطان نے مسلمانوں کو کہاں پرلا کرکھڑا کردیا کہ جس دن سیدالمرسلین اس دنیا سے رخصت ہوگئے اسی دن خوشی منارہے ہیں کیونکہ آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش میں تو بےحد اختلاف ہے کسی نے ایک،کسی نے دو، کسی نے 8/ کسی نے /9 ،کسی نے 10/،کسی نے 11/،کسی نے 12/،کسی نے 17/،کسی نے 18/،کسی نے 22/ربیع الاول کہا ہےبلکہ کسی نے تو10/محرم بھی کہا ہےاور کسی نے تو رمضان کا مہینہ بھی قراردیا ہے اب بھلابتلاؤ ان میں سے کس کی بات صحیح؟مگر تاریخ وفات میں تو کسی کا بھی اختلاف نہیں سب نے بیک زبان کہا کہ 12/ربیع الاول ہی یوم وفات ہے،اب بھلا بتلاؤ کہ یہ جشن کس خوشی میں ہے؟یہ رنگ برنگے قمقمے کس خوشی میں؟یہ نئے نئے کپڑے کس خوشی میں؟یہ میلاد کی محفلیں کس خوشی میں؟یہ ڈھول تاشے اور ناچ کس خوشی میں،آپﷺ کی پیدائش کی خوشی میں یا پھر آپﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے خوشی میں؟

اے 12/ربیع الاول کیسا دیا تو نے فراق

تاجدار دوجہاں دنیا سے جارہے ہیں

غمگین ہیں کون ومکاں فلک بھی اشکبار ہے

مگر ابلیس کے حواری بڑی دھوم سے خوشیاں منارہے ہیں​

آج 12/ربیع الاول کومسلمانوں کا یہ حال اورخوشی کی یہ کیفیت اور یہ عمل،اللہ کی پناہ!! اور اسی تاریخ کوان مدینہ والوں کا کیا حال بنا تھا ذرا وہ بھی سن لیں!

12/ربیع الاول کی تاریخ ہے نبیﷺ کے مرض میں اضافہ ہوتا جارہاہے،باربار غشی طاری ہورہی ہے،سامنے پانی رکھا ہوا ہے بار بار ہاتھ ڈالتے ہیں اپنے چہرۂ انور کو پوچھتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ‘‘ موت کے لئے سختیاں ہیں(بخاری:4449)

12/ربیع الاول کے دن آپ جس شدید کرب سے دوچار تھے اس کیفیت کو دیکھ کر بیٹی بھی بے چین ہوگئیں اور کہنے لگیں ’’ وَا كَرْبَ أَبَاهُ ‘‘ ہائے ابا جان کی تکلیف ومصیبت (بخاری:4462)

12 /ربیع الاول کے دن تو اس زہر نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا جو آپ کو خیبر کے موقع سے کھلایا گیا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ آپ کی شہ رگ کٹی جارہی، (بخاری:4428)

12/ربیع الاول کا دن ہے سیدنا عمرہوش وحواس کھوبیٹھتے ہیں(بخاری:4454)

12/ربیع الاول کا دن ایک ایسا دن ہے،یہ ایک ایسی تاریخ ہے جس کے بارے میں خادم رسولﷺ نے کہا کہ جس دن آپﷺ مدینہ تشریف لائے اس دن مدینہ کی ہرچیز ہمارے لئے روشن ہوگئی تھی اور جس دن آپ کا انتقال ہوا اس دن ایسامحسوس ہورہاتھا کہ مدینہ کی ہرچیز پر اندھیراچھاگیا ہے،(ابن ماجہ:1631 واسنادہ صحیح)

12/ربیع الاول کے دن ہمارے نبیﷺ نے اتنی مصیبتیں اٹھائیں،تکلیفیں جھیلیں اورصحابۂ کرام کے اوپر غم والم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے،ان کے محبوب ان سے جدا ہوگئے جس کی وجہ سےان کے اوسان خطاہوگئے،اورآج کے دن مسلمانوں کو خوشی کی سوجھی،پورے سال میں صرف آج ہی 12/ربیع الاول کے دن مسلمانوں کا عشق رسول نظر آتا ہے،اپنے رسول کے ساتھ گستاخانہ حرکتیں کی جارہی ہیں اس کی انہیں فکر نہیں بس فکر ہے تومیلاد کی کہ ہر سال دھوم سے مناؤ،ناچو گاؤ جھومو،کھاؤ پیو،موج ومستی کروبس!یہی تو عشق رسول ہے،یہی تو دین ہے،نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات۔

5۔کیا اتنے سارے لوگ غلط ہیں؟​

برادران اسلام!

میلادکوثابت کرنے کے لئے ایک اوربات کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہہ کرلوگوں کو بیوقوف بنایاجاتاہے کہ اگر یہ میلاد منانا غلط ہے تو پھر پوری دنیا کے مسلمان کیسے منارہے ہیں؟کیااتنے سارے لوگ غلط ہوسکتے ہیں؟اگرمیلاد مناناغلط ہوتا تو اس طرح سے پوری دنیا میں یہ چیز نہیں منائی جاتی تھی ؟جولوگ میلاد منانے کے قائل ہیں وہ کثیرتعداد میں ہیں اور جو نہیں مناتے ہیں وہ تو بہت تھوڑے ہیں؟غرض کہ اکثریت واقلیت کی بات کہہ کر لوگوں کو یہ باورکرایاجاتاہے کہ یہ میلاد منانا سنت ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ میلادمنانا اکثریت واقلیت سے ثابت نہیں کیا جاسکتاہے اس کے لئے تو دلیل کی ضرورت ہے ،حق وباطل کا معیار لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں بلکہ دلائل وبراہین ہیں ،ویسےاگرہم اکثریت ہی کو معیار تسلیم کرلیں تو پھرقرآن ہمیں یہ تلقین کرتاہے کہ اے لوگوں اکثریت کی بات اور اکثریت کے طوروطریقے کوکبھی نہ ماننا اوراکثریت کے راستے پر کبھی نہ چلناکیونکہ اکثریت ہمیشہ گمراہ لوگوں کی ہوتی ہے،اگرآپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہو تو پھرسورہ الانعام كي آیت نمبر116 کی تلاوت کیجئے،فرمان باری تعالی ہے ’’ وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ‘‘اوردنیا میں زیادہ ترلوگ ایسے ہیں کہ اگرآپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں ،وہ تو محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں،(الانعام:116)ایک دوسری جگہ اللہ نے فرمایا کہ ’’ وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ‘‘اوربے شک اکثرلوگ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑکر بغیرعلم کے گمراہ ہوتے ہیں ۔ (الانعام:119)یقینا قرآن نے جیسا کہا ہے آج ہم اپنی آنکھوں سے ویسا ہی دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے پاس دلائل وبراہین تو نہیں ہوتے مگر اٹکل پچو ،قیاسی باتیں اورجھوٹے قصے کہانیاں ضرورہوتے ہیں،لوگوں کو جواچھا لگتا ہے وہی دین سمجھ کرکرنے لگ جاتے ہیں،ہمارے رب کا فرمان کتنا سچ ہے کہ ’’ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ‘‘اوران میں سے اکثرلوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔(یونس:36)میرے دوستو!قرآن مجید کے اندر جگہ جگہ پر رب العزت نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہردورمیں اکثرلوگ کفروشرک اور گمراہیت کے راستے پر ہوتے ہیں ،کہیں پر اللہ نے کہا کہ ’’ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ ‘‘ اوران میں اکثر لوگ مسلمان نہ تھے۔(الشعراء:190)کہیں پر اللہ نے کہا کہ اکثر لوگ بے عقل ہوتے ہیں ’’ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ‘‘ بلکہ ان میں اکثر بے عقل ہیں۔(العنکبوت:63)کہیں پر اللہ نے کہا کہ ’’ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ‘‘اورلیکن اکثرلوگ جانتےنہیں ہیں۔(الروم:30)کہیں پر اللہ نے کہا کہ ’’ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ‘‘اکثرلوگ ایسےہوتے ہیں جو سنتے نہیں ہے۔(حم السجدۃ:4)کہیں پر اللہ نے کہا کہ ’’ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ ‘‘اورلیکن کثرلوگ ناشکری کرتے ہیں۔(النمل:73)کہیں پر اللہ نے کہا کہ ’’ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ‘‘اوراکثرلوگ ایمان رکھنے کے باوجود بھی مشرک ہوتے ہیں۔(یوسف:106)کہیں پر اللہ نے کہا کہ ’’ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ ‘ ‘اورلیکن زیادہ ترلوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔(الانعام:111)دیکھا اورسنا آپ نے کہ اکثریت ہمیشہ اورہردورمیں گمراہ لوگوں اورکم عقل ونادانوں ،مشرکوں وکافروں اورجاہل بے علموں جیسےلوگوں کی ہوتی ہےاورحق کواپنانے والے اورنیک لوگ ہرزمانے میں اقلیت ہی میں رہتے ہیں جیسا کہ رب العالمین نے فرمایا ’’ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ‘‘کہ میرے بندوں میں سے شکرگزاربندے کم ہی ہوتے ہیں۔(سبا:13)پتہ یہ چلاکہ بدعات وخرافات اورشرک وکفر کو ہمیشہ اکثرلوگ اپناتے ہیں اوراس کے مقابل سنت وتوحید کوہمیشہ بہت ہی کم لوگ اپناتے ہیں،لہذا میلادمنانے کے لئے یہ دلیل دینا کہ اس کو ساری دنیامیں منایاجاتاہے محض عبث وبیکار اورکج فہمی کی علامت ونشانی ہے۔

6۔ہمارے بڑے کرتے آئے ہیں اسی لئے ہم بھی کررہے ہیں!​

برادران اسلام!

سماج ومعاشرے کے اندر اکثروبیشتر ہربدعات وخرافات کو جائزقراردینے اوراسے اجروثواب کاکام بتانے کے لئے ایک دلیل بہت ہی زورشورسے دیتے ہیں کہ یہ کام ہمارے بڑے کرتے آئےہیں اسی لئے ہم بھی کررہے ہیں اوراس کو ہم کبھی بھی نہیں چھوڑسکتے ہیں ،اگریہ کام غلط ہے توپھرہمارے بڑوں نے کیسے کیا؟کیاتم ہمارے بڑوں سے زیادہ جانتے ہوکیا؟فلاں فلاں بزرگ نے کیاتھا؟کیاتم ان سے زیادہ جانتے ہو؟جب انہوں نے کیاتوہم کیوں نہ کریں؟الغرض اس طرح کی اوٹ پٹانگ کی باتیں پھیلاکرعوام کوبدعات وخرافات کے دلدل میں پھنساکررکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنا الو سیدھا کرتے رہیں اوراس طرح سےان کےبدعات وخرافات کی دوکانیں چلتی رہیں !میرے دوستو!آپ کو یہ جان کربڑی حیرانی ہوگی کہ ہرزمانے میں لوگ اپنے کفریہ وشرکیہ عقائد ونظریات اوربدعات وخرافات کو ثابت کرنے کے لئے یہی دلیلیں دیتے ہیں کہ ہمارے بڑوں نے کیا ہے ہم بھی کررہے ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ ‘‘ اورجب ان سے کہاجاتاہے کہ اللہ تعالی نے جواحکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اوررسول کی طرف رجوع کروتوکہتے ہیں کہ ہم کووہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کوپایاہے،کیااگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اورنہ ہدایت رکھتے ہوں۔(المائدۃ:104)اسی طرح سے ایک دوسری جگہ رب نے کچھ یوں بیان فرمایاکہ’’ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ ‘‘اوران سے جب کبھی کہاجاتاہے کہ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کروتوجواب دیتے ہیں کہ ہم تواس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کوپایاہے،گوان کے باپ دادے بے عقل اورگمراہ ہی کیوں نہ ہو۔(البقرۃ:170)

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو!

کیاآپ جانتے ہیں کہ آج جولوگ سنت کے مقابلے میں اپنے باپ دادوں کے طوروطریقے کو پیش کرتے ہیں یہی لوگ کل قیامت کےدن کیاکہیں گے؟اگرنہیں جانتے ہیں توپھر سنئے رب نے کیاہی پیارانقشہ کھینچاہے ،فرمان باری تعالی ہے’’ يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولا ، وَقالُوا رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا وَكُبَراءَنا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلا ، رَبَّنا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً ‘‘ اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت وافسوس سے)کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالی اوررسول کی اطاعت (دنیا میں )کرتے ،اورکہیں گے اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سر داروں اوراپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے بھٹکادیا،اے ہمارے پروردگار!توانہیں دگناعذاب دے اوران پربہت بڑی لعنت نازل فرما۔(الاحزاب:66-68)دیکھااورسنا آپ نے کہ آج جولوگ اپنے بڑوں کو دلیل بناتے ہیں کل وہی لوگ ان کودگناعذاب دینے کی درخواست کریں گےاوردنیامیں اطاعت رسولﷺ نہ کرنے پر افسوس کریں گےمگرتب افسوس کرناکسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

7۔منع کہاں ہے؟​

میرے دوستو!بدعات وخرافات کو گلے لگاکرسنت سے دوری اختیارکرنے والے لوگ اپنی بدعت کو ثابت کرنے کے لئے ایک اوربات کا سہارالیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اگریہ چیز غلط ہے اوربدعت ہے تو بتاؤ منع کہا ہے؟کس کتاب میں یہ لکھاہوا ہے کہ ایساکرنا بدعت ہے؟ذرابتاؤ کہ کس صحابی نے یاپھر کس محدث نے یہ کہا ہے کہ میلاد منانا بدعت ہے؟بدعتی حضرات اس طرح کے جملوں سے عوام کوبیوقوف بناکراپناالوسیدھاکرتے ہیں جب کہ یہ کہنا یہ منع کہاں ہے یہ تو سراسرحماقت وجہالت اوربیوقوفی کی دلیل ہےکیونکہ دلیل ثبوت کی دی جاتی ہے ،جوچیز ثابت ہی نہیں ہے اس کی دلیل ہی نہیں دی جاتی ہے،آئیے اس بات کو ایک مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں کہ کوئی انسان مغرب کی نماز تین رکعتیں پڑھنے کے بجائے چارپڑھنے لگے اورلوگوں سے کہتاپھرے کی منع کہاں ہےذرا بتاؤ؟ اسی طرح سے کوئی انسان جب نماز پڑھنے لگے تو ہررکعت میں دو رکوع کرنے لگے اورتین سجدے کرنے لگے اورپھر لوگوں سے کہے کہ ایساکرنا منع کہاں ہے ذرابتاؤ؟اسی طرح سے اب کوئی انسان جب آذان دے تو آخر میں لاالہ الا اللہ پرختم کرنے کے بجائےمحمدرسول اللہ کا اضافہ کردے اورکہے کہ منع کہاں ہے ذرابتاؤ؟ تو اب آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ ساری دنیا ایسے انسان کو کیاکہے گی؟یہی کہ یہ انسان پاگل ہوگیاہے اورپاگلوں جیسی باتیں کررہاہے،پتہ یہ چلاکہ یہ کہنا منع کہاں ہے یہ سراسرحماقت وجہالت کی نشانی ہے،اب اگرکوئی انسان بضد ہے کہ نہیں منع کی دلیل ہی بتاؤ تولیجئے ہم آپ کودلیل بھی بتادیتے ہیں ،پڑھئے قرآن مجید آپ کو اس میں یہ آیت ملے گی’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ‘‘کہ اے ایمان والو!اللہ اوراس کے رسول سے آگے نہ بڑھواوراللہ سے ڈرتے رہاکرو،یقینا اللہ تعالی سننے والا ،جاننے والاہے۔(الحجرات:1)میرے دوستو!ذراسوچو کہ اللہ اوراس کے رسولﷺ سے آگے بڑھنا کیا ہے ؟یہی تو ہے کہ دین میں من مانی کی جائے،دین میں بدعات ایجاد کی جائےاوردین میں کتاب وسنت کو چھوڑکراپنی رائے وقیاس پر عمل کیاجائے،یہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت نہیں توپھر اورکیا ہے کہ لوگ رسول کے نام پر میلاد مناتے ہیں جب کہ اس کام کو نہ تو اللہ نے کہا کرنے کے لئے اورنہ ہی اللہ کے رسولﷺ نے خوداپنامیلادمنایا اور نہ ہی منانے کاحکم دیا اور نہ ہی کسی صحابی نے آپﷺ کاکبھی میلاد منایا! یقیناایسے لوگ اللہ اوراس کے رسول کےدین کے دشمن ہیں جو اللہ اوراس کے رسول سے آگے بڑھنے کی جسارت کرتے ہیں۔

برادران اسلام!

میراجی یہ چاہتاہے کہ منع کہاں ہے اس بات پراورایک دلیل دے دو تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے کہ ہروہ چیز جو نبی اورصحابہ سے ثابت نہیں وہ مردود ہےاورجب مردود ہے تو پھر اس کے نیکی اوراچھاہونے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتاہےاوراس کے لئے کوئی دلیل کی ضرورت نہیں ہے،کیاآپ نے سنا نہیں کہ حبیب کائناتﷺ نے اپنے دین پہ مہرلگاتے ہوئے فرمادیا ہے کہ ’’ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ‘‘ جوکوئی ایساعمل کرے جس پرمیراحکم نہیں تو وہ مردود ہے۔ (مسلم:1718) اوردوسری روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ ’’ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘جوشخص ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کرے جو اس دین میں نہیں ہے تو وہ مردود ہےیعنی ناقابل قبول ہےاسی لئے ہرمسلمان کو چاہئے کہ وہ اس عمل کو ہرگزہرگز قبول نہ کرے بلکہ اس کی تردید کرتے ہوئے لوگوں کو اس سے منع کرے۔(بخاری:2697،ماجہ:14) پتہ یہ چلا کہ ہروہ چیز اورہروہ کام جو نبیﷺ نے نہ کیا اورنہ کہا تووہ مردود ہے اب اگرکوئی انسان اسے سنت اورمستحب عمل کہہ رہاہے تو وہ اس پر دلیل دے اورجب تک رسولﷺ کے قول وفعل سے دلیل نہ دے گا تب تک وہ عمل اوروہ چیز مردود ہی رہے گی۔

8۔اگرمیلاد منانا بدعت ہے تو پھرمائک سے آذان دینا ،مسجد میں فین اوراے سی لگانابھی بدعت ہے،قرآن میں زبرزیر لگانااورتمہارا پیداہونا بھی بدعت ہے کیونکہ نہ تویہ ساری چیزیں نبیﷺ کے زمانے میں تھی اورنہ ہی تم تھے؟​

برادران اسلام!

میلاد جوکہ ایک بدعت ہے اوراس کے بدعت ہونے میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں اب اس میلاد کو سنت ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے لوگوں کو یہ کہہ کربیوقوف بنایاجاتاہے کہ اگرمیلاد منانا بدعت ہے تو پھرمائک سے آذان دینا ،مسجد میں فین اوراے سی لگانابھی بدعت ہے،قرآن میں زبرزیر لگانااورتمہارا پیداہونا بھی بدعت ہے کیونکہ نہ تویہ ساری چیزیں نبیﷺ کے زمانے میں تھی اورنہ ہی تم تھے؟

افسوس صد افسوس لوگ سنت کے مقابلے میں بدعت کو ثابت ورائج کرنے کے لئے کیسی کیسی احمقانہ باتیں کرتے ہیں،انہیں یہ بات بھی معلوم نہیں ہے کہ اس دین اسلام کو مکمل کیاجاچکا ہےاب اس میں کسی کمی وبیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ أَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ‘‘آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپناانعام بھرپورکردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔(المائدہ:3)جب دین کو مکمل کردیا گیا ہے توپھر جوچیز دین میں نہیں وہ دین کا حصہ کبھی بھی بن نہیں سکتی ہےگرچہ وہ چیز کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو!

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اوربہنو! آپ یہ بات اچھی طرح سے جان لیں کہ میلاد النبیﷺ کو دین کا حصہ سمجھتے ہوئےباعث اجروثواب سمجھ کرکیا جاتاہے اور یہی بدعت ہے کیونکہ آپﷺ نے ’’ فِیْ أَمْرِنا ‘‘ کہہ کر دین کی قید لگادی ہے کہ بدعت صرف وہی جو میرے دین میں ایجاد کی جائے جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ ’’ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘جوشخص ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کرے جو اس دین میں نہیں ہے تو وہ مردود ہےیعنی ناقابل قبول ہے۔(بخاری:2697،ماجہ:14) اورجہاں تک رہی بات مسجد میں جو اے سی اور فین لگائی جاتی ہے اور جو مائک سے آذان دی جاتی ہےاوراسی طرح سے جوبھی دنیاوی ضروریات کی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں یہ دین کا حصہ نہیں ہےاور نہ ہی کوئی انسان ان ساری چیزوں کو اجروثواب سمجھ کراستعمال کرتاہےاور نہ ہی یہ ساری چیزیں ممنوع ہے۔

دوسری بات اس سلسلے میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ دین مکمل کیا جاچکاہے جس میں کسی بھی طرح کی کمی وبیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے جب کہ یہ دنیا نامکمل ہے اور اس کی تکمیل نہیں کی گئی ہےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ‘‘عنقريب هم انهیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اورخود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے،کیا آپ کے رب کا ہرچیز سے واقف وآگاہ ہونا کافی نہیں۔(حم السجدہ:53)پتہ یہ چلا کہ جب دنیا کہ تکمیل ہی نہیں ہوئی ہے تو اس کی ضروریات کی چیزیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہےاورنہ ہی یہ گناہ کا کام ہے اور اس بات کی تعلیم تو خود جناب محمدعربی ﷺ نے دی ہے کہ تم دنیاوی ضرورتوں کو اپنے وقت وحالات کے حساب سے استعمال کرسکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ سیدنا انسؓ اور طلحہ بن عبیداللہؓ اور اماں عائشہؓ سے مروی احادیث کے اندر اس بات کا ذکر ہے کہ صحابۂ کرام اپنے کھجوروں کے اندر گابھا کی پیوندکاری کیاکرتے تھے یعنی کہ نرکھجورکے درخت کا شگوفہ لے کر مادہ کھجوروں کے درختوں میں لگایا کرتے تھے جس سے کثیرمقدار میں اوراچھے اچھے کھجورپیداہواکرتے تھے مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب آپﷺنے ایسا کرتے دیکھاتو آپ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے کہا کہ ’’ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ ‘‘ اگرتم لوگ ایسا نہ کرتے تو بہت اچھا ہوتا،یہ سن کر صحابۂ کرامؓ نے ایسا کرنا چھوڑدیا اور مادہ کھجوروں میں نرکھجوروں کے شگوفے کی پیوندکاری نہیں کی جس کا اثر اورنتیجہ یہ ہوا کہ اس بار بہت ہی خراب اورردی قسم کے کھجوروں کے پھل آئے ،جب اس بات کی جانکاری صحابۂ کرامؓ نے آپﷺ کو دی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ إِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ فَشَأْنَكُمْ بِهِ وَإِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دِينِكُمْ فَإِلَيَّ ‘‘ اگر تمہاری دنیا کا کوئی معاملہ ہو تو اسے خود (اپنے تجربات اور رائے کی روشنی میں )انجام دے لیا کرو اوراگر تمہارے دین کا کوئی معاملہ ہوتو میری طرف رجوع کیاکرو ،اور مسلم شریف کے جو الفاظ ہیں اس کے اندر ہے کہ ’’ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ ‘‘ تم اپنی دنیاوی معاملات کو زیادہ جاننے والے ہو۔(مسلم:2363،ابن ماجہ:2470،2471،احمد:24920)دیکھا اور سنا آپ نے کہ دنیاوی معاملات وامور میں آپﷺ نے خود یہ کہا کہ تم اپنے اپنے حساب سے ان سب چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ مگر دین کے معاملات وامور کے بارے میں آپ نے یہ قید اورشرط لگادی کہ صرف میرا ہی حکم چلے گا،اتنے واضح فرمان کےہونے کے باوجود بھی اگر کوئی انسان اس معاملے میں اس طرح کی باتیں کہتا ہے تو پھر ایسے انسان کے عقل پر سوائے ماتم کے اور کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔

9۔قرآن میں زبرزیر پیش وغیرہ لگانا بھی بدعت ہے​

اسی طرح سے میلاد کو ثابت کرنے کے لئے یہ بات بھی کہہ کرلوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں کہ قرآن میں زبراورزیر و پیش وغیرہ نہیں تھا تو یہ بھی بدعت ہے!افسوس صد افسوس لوگ اپنی بدعت کو ثابت کرنے کے لئے کیسی کیسی بیوقوفانہ اوراحمقانہ باتیں کرتے ہیں یاد رکھ لیجئے کہ یہ کہنا ہی سراسر غلط ہےکیونکہ قرآن کے کلمات وحروف اور حرکات وسکنات تو پہلے سے موجود ہیں اور جس طرح سے آج پڑھی جاتی ہےہے ٹھیک اسی طرح سے پہلے بھی نبی اور صحابہ کے ادوار میں پڑھی جاتی تھی اور جب قرآن کی تلاوت کی جاتی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے اس کو زبرزیراورپیش وغیرہ کے ساتھ ہی پڑھی اور تلاوت کی جاتی تھی یہ الگ بات ہے کہ وہ تحریری شکل میں نہیں تھی،توتحریری شکل کا بعدمیں وجود میں آنا یہ تو بدعت نہیں ہے،آئیے اس بات کو ایک مثال کے ذریعےسے سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کا ہرطالب علم یہ جانتا ہے کہ دوران تعلیم جو احادیث اور دیگر عربی فنون کی کتابیں طلبہ کو پڑھائی جاتی ہیں اس میں آج بھی زبراورزیر وپیش وغیرہ نہیں ہوتاہے مگرپھر بھی طلبہ واساتذہ اس کو پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ، اب اگر اس میں زبروزیروپیش وغیرہ لگادیا جائے اور کوئی کہے کہ یہ بدعت ہے تو پھر ایسے انسان کو اپنے دماغ کا علاج کراناچاہیے ، ویل ہے ایسے کج فہم لوگوں پر جو جان بوجھ کراپنی بدعت کی دوکان کوچلانے کے لئے اس طرح کی اوٹ پٹانگ کی باتوں سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔

10۔میلاد نہ منانے والے لوگ گستاخ رسول ہیں؟​

میلاد منانے والے لوگ محبت رسولﷺ کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اورایک شوسہ چھوڑتے ہیں اور یہ کہہ کر لوگوں کو ڈرا دیتے ہیں کہ جو میلاد نہیں مناتا وہ گستاخ رسول ہے!وہ ابلیس ہے وغیرہ وغیرہ۔

سب سے پہلے تو آپ یہ بات جان لیں کہ یہ میلاد النبی ﷺچھٹی صدی ہجری میں میں ایجاد کی گئی جیسا کہ امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے اِرْبِل شہرمیں جس نے میلاد کی بدعت ایجاد کی وہ اربل کا بادشاہ الملک المظفر ابوسعید کوکبری ہے۔(الباعث علی انکار البدعۃ والحوادیث،ص:21بحوالہ جشن عیدمیلادالنبیﷺقرآن وحدیث سے ثابت نہیں:ص:164)اور یہ بادشاہ کیسا تھا ذرا علامہ یاقت الحمویؒ کی زبانی سنئے کہ یہ ظالم بادشاہ تھااوراپنی رعایا پر بہت ہی زیادہ ظلم وستم کرنے والااورلوگوں کے اموال کو غصب کرنے والاتھا۔(معجم البلدان:1/138)ہرسال محفل میلاد پر یہ ظالم بادشاہ کم وبیش تین لاکھ دینارخرچ کرتا تھا،گانابجانا اور رقص وغیرہ کرنا اس بادشاہ کی خاص عادت تھی۔(البدایہ والنہایہ:12/124،بحوالہ جشن عیدمیلادالنبیﷺ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں،ص:166)

دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ میلادمنانا یہ جب ثابت ہی نہیں تو پھر گستاخی کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔

تیسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگرمیلاد نہ منانا گستاخیٔ رسول ہے تو پھر تمام صحابۂ کرام بالخصوص خلفائے راشدین۔۔۔نعوذباللہ۔۔۔ کیا یہ سب کے سب گستاخ رسول تھے کیونکہ انہوں نے تو زندگی میں ایک بار بھی نہ توکبھی میلاد منایا اور نہ ہی جلوس نکالا۔

چوتھی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ میلاد نہ منانا اگر گستاخیٔ رسول ہے تو پھر امام ابوحنیفہؒ بھی گستاخ ٹھہرے کیونکہ انہوں نے بھی کبھی میلاد نہ منایا اور نہ ہی کسی جلوس میں شریک ہوئے!

پانچویں وآخری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ میلاد نہ منانا اگر گستاخیٔ رسول ہےتو پھر تمام محدثین بھی گستاخ ٹھہرے کیونکہ انہوں نے کبھی کوئی میلاد نہ منایا اور نہ ہی کسی جلوس میں شریک ہوئے۔



11۔میلاد منانے میں حرج کیا ہے؟​

میلاد منانے والے لوگ لوگوں کو اور ایک بات کہہ کر بیوقوف بناتے ہیں کہ میلاد منانے میں حرج کیا ہے؟ہم کونسا غلط کام کررہے ہیں؟ہم تو اپنے نبیﷺ کے اخلاق وکردار اور سیرت وفضائل ہی کو تو بیان کررہے ہیں تو اس میں حرج کی کیا بات ہے؟

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نبیﷺ کے فضائل اور آپﷺکی سیرت کو بیان کرنے میں حرج نہیں ہے ،مگر حرج اس بات پر ہے کہ کیاہمارے نبیﷺ کاحق یہی ہے کہ لوگ پورے سال میں اپنے نبیﷺ کی سیرت وکردار،فضائل کو کبھی نہ بیان کریں اور صرف ربیع الاول کے مہینے کے دس یا بارہ دن ہی بیان کیا جائے؟کتنے بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو اپنے نبیﷺ کو سال میں کبھی یاد نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی محفلیں سجاتے ہیں مگر جیسے ہی ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوجاتاہے آپﷺ کی سیرت کو بیان کرنے کے لئے محفلیں لگاناشروع کردیتے ہیں!غرض کہ لوگوں نے آپﷺ کی سیرت کو بیان کرنے کے لئے صرف ماہ ربیع الاول کو خاص کرلیا ہے۔

دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے آپﷺ کی سیرتوں کو بیان کرنے میں حرج نہیں ہے حرج تو اس بات پر ہے کہ لوگوں نے وہ طریقہ اختیار کرلیا ہے جو نہ تو آپﷺ نے کیا اور نہ ہی کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی صحابہ نے کیا ہے،جو لوگ بھی بات بات میں ہربدعت کو ثابت کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ حرج کیا ہے تو ایسے لوگوں کے لئے میں ایک حدیث سنادیتاہوں تاکہ حق وباطل واضح ہوجائےکہ جو نبیﷺ نے نہیں سکھایا ہے اس کے کرنے اور کہنے میں حرج ہے،آئیے حدیث سنتے ہیں حضرت نافعؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’ أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ ‘‘ عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا کہ ’’ أَلحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ‘‘ تو ابن عمرؓ نے کہا کہ ’’ وَأَنَا أَقُولُ أَلحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ‘‘ میں بھی یہ جملہ الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ کہتاہوں اور کہہ سکتاہوں مگر ’’ وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘اس طرح سے ہمیں آپﷺ سے تعلیم نہیں دی ہے بلکہ اس موقع پر ’’ أَلحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ ‘‘ ہرحال میں اللہ کا شکر ہے کہنے کی تعلیم دی ہے۔(ترمذی:2738،وقال الالبانیؒ:اسنادہ حسن)دیکھا اور سنا آپ نےکہ جس چیز کی تعلیم آپﷺ نے نہیں دی ہے اس کے کرنے میں ضروربالضرورحرج ہے تبھی تو حضرت ابن عمرؓ نے اس انسان کو روکا اور منع کیا،اس مسئلے کی اتنی وضاحت ہوجانے کے باوجود بھی اگر کسی کو سمجھ میں نہ آئےتو وہ اپنے عقل کا ماتم کرے۔

12۔میلاد کا ثبوت فلاں فلاں احادیث کی کتابوں میں ہے!​

میلاد منانے والے لوگ بڑی ہوشیاری اورچالاکی سے لوگوں کو یہ کہہ کردھوکا دیتے ہیں کہ میلاد منانے کا ثبوت فلاں فلاں حدیث کی کتابوں میں ہے!جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی جتنی بھی مشہورمعروف حدیث کی کتابیں ہیں کسی بھی حدیث کی کتاب میں عید میلاد کے نام سے نہ تو کوئی باب ہے اور نہ ہی کوئی حدیث ،اور نہ ہی کسی بھی حدیث کی کتاب میں عیدمیلاد النبیﷺ کے فضائل کا بیان موجود ہے،یاد رکھ لیجئے عیدمیلاد کے نام سے ایک بھی حدیث نہ تو بخاری شریف میں ہےاور نہ ہی مسلم شریف میں ہے، نہ ہی ترمذی شریف میں ہے اور نہ ہی ابوداؤد شریف میں ہے،نہ ہی ابن ماجہ میں ہے اور نہ ہی نسائی شریف میں موجود ہے،نہ ہی مؤطا امام مالکؒ میں ہے اور نہ ہی مسند احمد میں موجود ہے،نہ ہی حاکم میں اور نہ ہی بیہقی شریف میں موجود ہے اور نہ ہی مشکاۃ شریف میں کوئی حدیث میلادکے بارے میں موجود ہے،اورتو اور ہے احادیث کی کتابوں کوچھوڑئیے فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کسی بھی کتاب میں عیدمیلاد النبیﷺ کے فضائل کا بیان موجود نہیں ہے ،نہ ہی قدوری میں ہے اور نہ ہی فتاوی عالمگیری میں ہے ،اور نہ ہی کنزالدقائق میں اور نہ ہی فتاوی شامی کے اندر اس بارے میں کچھ مذکور ہے،پھر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر یہ میلاد منانے والے لوگ کہاں سے باتیں بتلاتے ہیں تو بس یہ جان لیں کہ یہ لوگ بس لوگوں کو یہ کہہ کر بیوقوف بناتے ہیں کہ تمام احادیث کی کتابوں میں میلاد کو ثبوت ہے،بلکہ کتنے ظالم تو ایسے ہیں جو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ قرآن میں بھی میلاد منانے کا ثبوت ہے اور ایک ظالم نے تو یہاں تک کہہ دیاتھا کہ اللہ بھی میلاد مناتا ہے ۔نعوذباللہ۔دراصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ لوگوں کے سامنے کچھ تاریخی کتابیں پڑھ کر اور اس کا حوالہ دے کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں، من گھڑت روایات اور تاریخی روایات جس کی نہ تو کوئی سند ہوتی ہے اور نہ ہی وہ صحیح ہوتی ہے ایسے واقعات سناکر لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث کی کتابوں سے ہے،اس سلسلے میں سب سے آخر میں ہم آپ کو یہ بتادیں کہ یہ لوگ سب سے زیادہ ایک کتاب ’’ التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں،میلاد کو ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلے یہی کتاب لکھی گئی تھی جس سے خوش ہوکر اربل کے بادشاہ نے صاحب کتاب کو ایک ہزاردینار تحفے میں دیا تھا۔(البدایہ والنہایہ:13/124،بحوالہ جشن عیدمیلادالنبیﷺ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں،ص:166) اور اس کتاب کے لکھنے والے کا نام عمر بن الحسن ابوالخطاب بن دحیہ الاندلسی ہے،جوکوئی نیک انسان نہیں بلکہ جھوٹ بولنے والا اور محدثین کی شان میں گستاخی کرنے والاانسان ہے ،حافظ ابن حجرؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ ائمہ محدثین اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کیاکرتا تھا،خبیث اللسان،احمق اور بہت زیادہ متکبر اور دینی امورکے معاملے میں بہت ہی زیادہ تساہل وتغافل سے کام لیتا تھا۔(لسان المیزان:4/296)اب آپ ہی سوچ لیجئے کہ ایسے انسان کی کتاب کیسی ہوسکتی ہے اور اس نے اپنی کتاب میں کیسی کیسی خیانت کی ہوگی اور کتناجھوٹ بولا ہوگا!

میلادمنانے والوں سے ایک سوال: میلاد منانا نیکی کا کام ہے یاپھر گناہ کا کام؟​

برادران اسلام!

اب آئیے آخر میں ہم آپ کو ایک قیمتی بات بتاکر اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ جولوگ میلاد مناتے ہیں آپ ان سے ایک سوال کریں کہ میلاد منانا نیکی کا کام ہے یاپھر گناہ کا کام؟اگروہ جواب دیں کہ گناہ کا کام ہے توپھر مسئلہ ہی ختم ہے ،مگرکوئی ایسا نہیں کہے گا،ہرکوئی یہی جواب دے گا کہ میلاد منانا نیکی کا کام ہے!اگرکوئی آپ کو یہ جواب دے کہ میلادمنانا نیکی کا کام ہے توپھر آپ اس سے ذرا یہ بھی پوچھ لیں کہ یہ اگرنیکی کاکام ہے تو آپﷺ کو معلوم تھی یا نہیں؟اگروہ جواب دیں کہ نہیں بتائی ہے تو پھر مسئلہ ہی ختم ہے ،مگر وہ لوگ ایسا ہرگز ہرگز نہیں کہیں گے ،وہ یہی کہیں گے کہ ہاں ضرورمعلوم تھی توپھرآپ اس سے یہ پوچھیں کہ اگرمعلوم تھی تو بتایاکیوں نہیں؟کیاصحابہ نے یہ عمل کیاتھا؟دلیل کس جگہ پر ہے؟اوراگرانہوں نےیہ عمل نہیں کیا ہے تو پھر تم کیوں کرتے ہو،کیا تم نے قرآن کا یہ فرمان نہیں سنا اور نہیں پڑھا کہ ’’ وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ‘‘ اور جوشخص ہدایت کی راہ واضح ہوجانے کے باوجودبھی آپﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرے گا اور تمام مومنوں کی راہ کوچھوڑ کر کسی اورراہ پرچلےگاتو ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا، اور ایسے شخص کوہم دوزخ میں ڈال دیں گے،اور جہنم بہت بری جگہ ہے۔(النساء:115)کائنات کے رب کی قسم یہ نیکی ہوہی نہیں سکتی ہے!اگریہ نیکی ہوتی تو آپﷺ اس بارے میں ضرورکچھ نہ کچھ بتاتے کیونکہ آپﷺ نے یہ خود بیان فرمایاتھا’’ مَا تَرَكْتُ شَيْئًا مِمَّا أَمَرَكُمُ اللَّهُ بِهِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ وَمَا تَرَكْتُ شَيْئًا مِمَّا نَهَاكُمْ عَنْهُ إِلَّا قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ ‘‘ اے لوگوں ایک بات یاد رکھنا کہ اللہ نے تمہیں جن کاموں کا حکم دیا ہے ان سب کاموں کو میں نے کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اللہ تعالی نے تمہیں جن کاموں سے منع کیا ہے ان سب کاموں سے میں نے بھی تمہیں منع کردیا ہے۔(الصحیحۃ:1804)

میرے دوستو! یہ بات اچھی طرح سے یادرکھ لو کہ اللہ نے دین اسلام کو مکمل کردیا ہے، جوکل نبی اور صحابہ اور تابعین کے دورمیں دین کا حصہ نہیں تھا وہ آج بھی دین کاحصہ نہیں بن سکتاہے گرچہ وہ کتنا ہی نیک اور اچھا کام کیوں نہ ہو،اب اگرآج کوئی انسان یہ کہتا ہے کہ یہ فلاں کام دین کاحصہ ہے ،یہ میلاد منانااجروثواب کا کام ہےتوایسا سوچنے اورایسا کہنے والاانسان گویا کہ آپﷺ کے اوپریہ الزام لگارہاہے کہ۔۔ نعوذباللہ۔۔ آپﷺ نے دین کی یہ باتیں ہم سے چھپالی تھی،اسی لئے امام مالکؒ فرمایاکرتے تھے کہ ’’ مَنِ ابْتَدَعَ فِي الْإِسْلَامِ بِدْعَةً يَرَاهَا حَسَنَةً زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَانَ الرِّسَالَةَ ‘‘ کہ جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی (بعض روایتوں میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’ مِنْ أَحْدَثَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ سَلَفُهَا ‘‘یا پھر دین میں کوئی ایسا کام کیا جس کو اسلاف کرام نے نہیں کیا تھا )اورپھر یہ سمجھنے لگاکہ یہ تو اچھا کام ہے تو گویا کہ اس نے یہ دعوی کردیا کہ محمدﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں خیانت کی تھی،کیونکہ اللہ نے یہ خود فرمادیا ہے کہ ’’ أَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ‘‘آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پرپوری کردی ہے اور اسلام کو بحیثیت دین تمہارے لئے پسند کرلیا ہے۔(المائدہ:3)تواے لوگوں سن لو!’’ فَمَا لَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ دِينًا فَلَا يَكُونُ الْيَوْمَ دِينًا ‘‘ جو عمل اس وقت دین نہیں تھا وہ عمل آج بھی دین نہیں ہوسکتاہے۔(کتاب الاعتصام للشاطبی:1/494)دیکھا اورسنا آپ نے کہ امام دارالہجرۃ مالک ؒ کتنا درست فیصلہ فرمایا دیا ہے کہ جو نبی کے دورمیں دین کا حصہ نہیں تھا وہ آج بھی ،کل بھی اورقیامت تک دین کا حصہ کبھی نہیں بن سکتاہے گرچہ سارے زمانے لوگ اس کو نیکی سمجھنے لگے۔

خلاصہ ٔبحث یہ کہ میلاد النبیﷺ کے جائز ہونے اورنیکی ہونے کے بارے میں اہل زمانہ لاکھ اوٹ پٹانگ کی دلیلیں پیش کریں،قرآنی کلمات کی من مانی تشریح کریں یاپھر تاریخ کا حوالہ دیں مگر جوچیز نبی اورصحابہ سے ثابت نہیں تو وہ چیز نہ تو دین کا حصہ بن سکتی ہے اور نہ ہی اجروثواب کا کام ہوسکتاہےبلکہ اس طرح کی ہرچیز بدعت اورمردود ہوگی۔

اب آخر میں رب العزت سے یہی دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہمیں مرتے دم تک نبی اورصحابہ کرراستے پر قائم ودائم رکھ اور ہرطرح کے بدعات وخرافات سے توہم سب کی حفاظت فرما۔آمین ثم آمین یارب العالمین۔







کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی


 

اٹیچمنٹس

Top