عید میلاد کی شرعی حیثیت
علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
مروّجہ جشنِ عید ِمیلاد ِالنبی کی قرآن و حدیث میں کوئی اصل نہیں ،اس کی ابتدا چوتھی صدی ہجری میں ہوئی ، سب سے پہلے مصر میں نام نہاد فاطمی شیعوں نے یہ جشن منایا۔
(الخطط للمقریزی : ١/٤٩٠وغیرہ)
نبی کے یوم ِولادت کو یومِ عید قرار دینا عیسائیوں کا وطیرہ ہے ، مروّجہ عید ِمیلادِ النبی،عید ِمیلادِ عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہے اور بدعتِ سیّئہ ہے ، جبکہ کفار کی مشابہت اور ان کی رسومات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
صحابہ کرام کے زمانہ بلکہ تینوں زمانوں میں اس کا وجود نہیں ملتا، بعد کی ایجاد ہے ۔
جناب احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب نقل کرتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔''(جاء الحق : ١/٢٣٦)
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب یوں اعتراف ِحقیقت کرتے ہیں:
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
جناب عبد السمیع رامپوری بریلوی لکھتے ہیں :
''یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوایعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔''(انوارِ ساطعہ : ١٥٩)
اہلِ بدعت علی الاعلان تسلیم کر رہے ہیں کہ صحابہ و تابعین نے یہ جشن نہیں منایا ، ہم بھی یہی کہتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا کہ اس فعل سے منع بھی تو نہیں کیا ، یہ سراسر جہالت اور سنت دشمنی کی دلیل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعمت ِعظمیٰ ہیں ، اس نعمت کی قدرآپ کی اطاعت و اتّباع اور آپ کی سنّتوں سے محبت میں ہے ، نہ کہ دینِ حق میں بدعات و خرافات جاری کرنے میں ۔
بدعتی حضرات خود اس میلاد کے بارے میں یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین اور ائمہ دین کے دور میں اس کا وجود نہ تھا بلکہ چھٹی صدی کے آخر میں شروع ہوا ، پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس کو منانے کے دلائل بھی رکھتے ہیں ۔ کیسی بات ہے کہ وہ دلائل چھ صدیوں تک کسی مسلمان کو سمجھ نہ آئے !!!
آئیے ان دلائل کا علمی جائزہ لیتے ہیں :
شبہ نمبر 1 : اہلِ بدعت بدعات کی آڑ میں قرآن ِ پاک میں معنوی تحریف کے بھی مرتکب ہو تے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(قُلْ بِفَضْلِ الْلّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا) (یونس : ٥٨)
''کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی بنا پر لوگ خوش ہو جائیں ۔''
بدعتی ترجمہ یہ ہے : ''اللہ تعالیٰ کے فضل ا و راس کی رحمت پرخوشی مناؤ۔''حالانکہ ''فَرِحَ'' کا معنی خوش ہونا یا خوشی محسوس کرنا ہوتا ہے ، نہ کہ خوشی منانا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ)(التوبۃ: ٨١) ''(غزوہ تبوک سے) پیچھے رہ جانے والے (منافقین )خوش ہوئے۔'' کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے خوشی منائی تھی ؟
صحیح بخاری (١٩١٥)میں ہے کہ جب سورۃ البقرۃ کی آےت (١٨٧)نازل ہوئی فَفَرِحُوا بِہَا فَرَحًا شَدِیدًا . ''تو اس پر صحابہ کرام بہت خوش ہوئے ۔''
کیا صحابہ کرام نے خوشی منائی اور جلو س نکالا؟
شبہ نمبر 2 :
سیّدنا معاویہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور فرمایا، کیسے بیٹھے ہو ؟صحابہ نے عرض کی:
[جَلَسْنَا نَدْعُوا اللّٰہَ ، وَنَحْمَدُہ، عَلٰی مَا ہَدَانَا لِدِینِہٖ ، وَمَنَّ عَلَیْنَا بِکَ]
'' ہم بیٹھ کر اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس نے ہمیں جو ہدایت دی ہے اور آپ کی صورت میں ہم پر جو احسان کیا ہے ،اس پر اسکی تعریف کر رہے ہیں ۔''
(مسند الامام أحمد : ٤/٩٢، سنن النسائي : ٥٤٢٨، جامع الترمذي : ٣٣٧٩، وسندہ، حسنٌ)
اہلِ بدعت کا اس حدیث سے مروّجہ جشنِ عید ِ میلاد کے جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں،کسی ثقہ امام نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت نہیں کیا، اس حدیث سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا وہ حلقہ اللہ تعالیٰ کے احسانات پر اسکی تعریف بیان کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا، نہ کہ بدعتیوں کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ِولادت کو جشن منا رہا تھا،اس پر سہا گہ یہ کہ اکابرِ اہلِ بدعت کو اعتراف ہے کہ تینوں زمانوں میں میلاد کسی نے نہ منایا، بعد میں ایجاد ہوا،متعدّد علماء نے اس جشن کو بدعت ِمذمومہ قرار دیا ہے ۔
(دیکھیے: المدخل : ٢/٢٢٩،٢٣٤، الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٠۔١٩١)
شبہ نمبر 3 :
احمد یا ر خاں نعیمی لکھتے ہیں :
''عیسیٰ علیہ السلام نے دعاکی تھی:
(رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا)(المائدہ : ١١٤)معلوم ہوا کہ مائدہ آنے کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا ۔''('جاء الحق' : ١/٢٣١)
یہ کس آیت یا حدیث کا معنی و مفہوم ہے؟ آیت ِ کریمہ کا ترجمہ تو یہ ہے :
''اے ہمارے رب ! ہم پر کھانا نازل فرما جو ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لیے باعث ِ خوشی ہو جائے ۔''
مطلب یہ ہے کہ وہ کھانا ہمارے لیے خوشی کا باعث ہو ، نہ کہ وہ دن جس دن کھانا اتارا جائے ، لہٰذا نعیمی صاحب کا یہ کہنا ''معلوم ہو ا کہ مائدہ کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا '' بے دلیل اوربے ثبوت ہے ، جو کہ قرآنِ مجید کی معنوی تحریف کے مترادف ہے ۔
شبہ نمبر 4 :
قَالَ عُرْوَۃُ : وَثُوَیْبَۃُ مَوْلاَۃٌ لِّأَبِي لَہَبٍ کَانَ أَبُو لَہَبٍ أَعْتَقَہَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَہَبٍ أُرِیَہ، بَعْضُ أَہْلِہٖ بِشَرِّ حِیبَۃٍ، قَالَ لَہ، : مَاذَا لَقِیتَ؟ قَالَ أَبُو لَہَبٍ : لَمْ أَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ أَنِّي سُقِیتُ فِي ہَذِہٖ بِعَتَاقَتِي ثُوَیْبَۃَ .
''عروہ بن زبیر تابعی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ، ابو لہب نے اس کو آزاد کر دیا ، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا،جب ابولہب مرا تو اس کے بعد اہل خانہ کو برے حال میں دکھایا گیا ، اس نے اس (ابو لہب )سے پوچھا ، تو نے کیا پایا ہے ؟ ابو لہب بولا کہ تمہارے بعد میں نے کوئی راحت نہیں پائی، ماسوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس ( انگوٹھے اور اگشت ِ شہادت کے درمیان گڑھے )سے پلایا جاتا ہوں۔''
(صحیح البخاري : ٢/٧٦٤، تحت الحدیث : ٥١٠١، نصب الرایۃ للزیلعي : ٣/١٦٨)
1٭ یہ عروہ بن زبیر تابعی کا قول ہے ، جو مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف و ناقابل استدلال ہے ، حیرانی اس بات پر ہے کہ جو لوگ عقائد میں خبرِ واحد کو حجت نہیں مانتے ، وہ تابعی کے اس ''ضعیف '' قول کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔
2٭ ایک کافر کے بعض اہل خانہ کے خواب کاکیا اعتبار ؟
3٭ یہ خواب نصِّ قرآنی کے خلاف ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(تَبَّتْ یَدَا أَبِي لَہَبٍ وَّتَبَّ ٭ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ، وَمَا کَسَبَ)(اللھب : ١، ٢)
''ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا ، اسے اس کے مال اور اعمال نے کچھ فائدہ نہ دیا ۔''
4٭ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس وجہ سے آزاد کیا تھا کہ اس نے ابولہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشخبری سنائی تھی ، اس کے باوجود احمد یا ر خاں نعیمی بریلوی صاحب یوں کذب بیانی سے کام لیتے ہیں :
''بات یہ تھی کہ ابو لہب حضرت عبداللہ کا بھائی تھا ، اس کی لونڈی ثویبہ نے آکر اس کو خبر دی کہ آج تیرے بھائی عبداللہ کے گھر فرزند (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)پیدا ہوئے، اس نے خوشی میں اس لونڈی کو انگلی کے اشارے سے کہا کہ جا تو آزاد ہے ۔''('جاء الحق' : ١/٢٣٥)
نامعلوم بریلوی عوام اتنے بڑے بڑے جھوٹوں پر کیسے ایمان لے آتے ہیں ؟
یومِ وفات : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت با سعادت میں اختلاف ہے ، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:''ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت دس محرم کو ہوئی ہے۔''(غنیۃ الطّالبین : ٢/٣٩٢،طبع بیروت)
ہمیں اس اختلاف سے کوئی سروکار نہیں،دیکھنا صرف یہ ہے کہ جو لوگ بارہ ربیع الاول کو جشنِ میلادِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، ان کے نزدیک آپ کی تاریخِ وفات کونسی ہے ؟
جناب احمد رضا خاںبریلوی لکھتے ہیں: ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ١٢ ربیع الاول دو شنبہ کو ہے اور اسی میں وفات شریف ہے ۔'' (ملفوظات : ٢/٢٢٠)
معلوم ہوا کہ بریلویت کے امام احمد رضا خاں کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کی ولادت اور وفات ١٢ ربیع الاول کو ہوئی ہے ، کچھ عرصہ پہلے یہ لوگ بارہ ربیع الاول کو ''بارہ وفات '' کہہ کر پکارتے تھے اور ختم دلواتے تھے ،بڑی عجیب بات ہے کہ آج یہی لوگ اس دن کو عید ِمیلادِ النبی کا جشن مناتے ہیں ، کتنا تضاد ہے ان کے آج اور کل میں؟؟
بارہ ربیع الاول کو صحابہ کرام کی غم کے مارے کیا حالت تھی ، اس کا کچھ اندازہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے ہو سکتا ہے ، فرماتے ہیں :
[لَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِي قَدِمَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ، أَضَاء َ مِنْہَا کُلُّ شَيْء ٍ، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ، أَظْلَمَ مِنْہَا کُلُّ شَيْء ٍ]
''جس دن نبی ئاکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں (ہجرت فرما کر ) تشریف لائے تھے ، اس کی ہر چیز (خوشی سے )چمک اٹھی تھی اور جس دن آپ نے وفات پائی ، اس کی ہر چیز(فرطِ غم سے ) اندھیری ہو گئی تھی ۔''
(مسند الإمام أحمد : ٣/٢٢١،٢٦٨، جامع الترمذي : ٣٦١٨، سنن ابن ماجہ : ١٦٣١، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی ، امام ابن حبان(٦٦٣٤)نے ''صحیح ''اور امام حاکم (٣/٥٧)نے امام مسلم کی شرط پر'' صحیح ''کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی مو افقت کی ہے ۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ جیسے جری و بہادرانسان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت ِآیات کاسن کر شدتِ غم میں گھٹنوں کے بل گر گئے تھے۔(صحیح بخاری :٤٤٥٤)
مگر افسوس ہے ان خواہشات پر ستوں اور پیٹ کے پجاریوں پر ، جنہیں صحابہ کرا م اور اہلِ بیت کی اس پریشانی کا احساس تک نہیں ہوا، اس دن کو اپنی شکم پروری کا ذریعہ بنا کر گلے میں پھولوںکے ہار ڈالے اچھلتے، کو دتے ، دھمال ڈالتے ، دیگیں پکاتے اور خو شیا ں مناتے نظر آتے ہیں!!!
مروّجہ عید میلاد النبی اور علمائے دین:
مروّجہ عید میلاد النبی کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ قرآن وحدیث میں اگر اس کی کوئی دلیل ہوتی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین کو اس کا علم ہوتا اور وہ ضرور اس پر عمل کرتے ۔ معلوم ہوا کہ یہ بلاشک وشبہ بدعت ہے ، جیسا کہ :
1 تاج الدین عمر بن علی فاکہانی رحمہ اللہ (م ٧٣٤ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّ عَمَلَ الْمَوْلَدِ بِدْعَۃٌ مَّذْمُومَۃٌ . ''میلاد منانامذموم بدعت ہے ۔''
(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٠ [٢٤] )
نیز فرماتے ہیں :
لَا أَعْلَمُ لِہٰذَا الْمَوْلَدِ أَصْلًا فِي کِتَابٍ وَّلاَ سُنَّۃٍ، وَلَا یُنْقَلُ عَمَلُہ، عَنْ أَحَدٍ مِّنْ عُلَمَاءِ الْـأُمَّۃِ الَّذِینَ ہُمُ الْقُدْوَۃُ فِي الدِّینِ الْمُتَمَسِّکُونَ بِآثَارِ الْمُتَقَدِّمِینَ، بَلْ ہُوَ بِدْعَۃٌ أَحْدَثَہَا الْبَطَّالُونَ، وَشَہْوَۃُ نَفْسٍ اعْتَنٰی بِہَا الْـأَکَّالُونَ .
''میں اس میلاد کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں نہیں پاتا۔ نہ ہی اس کا عمل ان علمائے امت سے منقول ہے جو دین میں ہمارے پیشوا ہیں اور متقدمین کے آثار کو لازم پکڑنے والے ہیں ، بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جسے باطل پرست لوگوں نے ایجاد کیا ہے اور ایسی نفسانی خواہش ہے جس کا اہتمام شکم پرور(پیٹ پرست) لوگوں نے کیا ہے ۔ ''(الحاوي للسیوطي : ١/١٩٠۔١٩١)
2 علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م ٧٩٠ھ) نے بھی عید میلاد النبی کو بدعت قرار دیا ہے۔
(الاعتصام للشاطبي : ١/٣٩)
3 شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
فَإِنَّ ہٰذَا لَمْ یَفْعَلْہُ السَّلَفُ مَعَ قِیَامِ الْمُقْتَضٰی لَہ،، وَعَدَمِ الْمَانِعِ مِنْہُ، وَلَوْ کَانَ ہٰذَا خَیْرًا مَّحْضًا أَوْ رَاجِحًا لَّکَانَ السَّلَفُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَحَقَّ بِہٖ مِنَّا، فَإِنَّہُمْ کَانُوا أَشَدَّ مَحَبَّۃً لِّرَسُولِ اللّٰہِ وَتَعْظِیمًا لَّہ، مِنَّا، وَہُمْ عَلَی الْخَیْرِ أَحْرَصَ .
''یہ کام سلف صالحین نے نہیں کیا، باوجود اس بات کے کہ اس کا تقاضا (تعظیم ِ رسول) موجود تھا اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی ۔ اگر یہ کام بالکل خیر والا یا زیادہ خیر والا ہو تا تو اسلاف اس پر عمل کے حوالے سے ہم سے زیادہ حقدار تھے ، کیونکہ وہ رسول اللہeکی محبت اور آپeکی تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور وہ نیکی کے زیادہ طلب گار تھے ۔ ''
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ، ص : ٢٩٥)
4 حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
أَصْلُ عَمَلِ الْمَوْلَدِ بِدْعَۃٌ، لَمْ تُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِّنَ السَّلَفِ الصَّالِحِ مِنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ . ''میلاد کے عمل کی اصل بدعت ہے ۔ یہ عمل تین (مشہود لہا بالخیر)زمانوں کے سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں ۔ ''(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٦)
5 محمد بن محمد بن محمد ابن الحاج (م ٧٣٧ھ) فرماتے ہیں :
فَإِنْ خَلَا مِنْہُ وَعُمِلَ طَعَامًا فَقَطْ، وَنَوٰی بِہِ الْمَوْلَدَ، وَدَعَا إِلَیْہِ الْإِخْوَانَ، وَسَلِمَ مِنْ کُلِّ مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُہ،، فَہُوَ بِدْعَۃٌ بِنَفْسِ نِیَّتِہٖ فَقَطْ، لِأَنَّ ذٰلِکَ زِیَادَۃٌ فِي الدِّینِ، وَلَیْسَ مِنْ عَمَلِ السَّلَفِ الْمَاضِینَ، وَاتِّبَاعُ السَّلَفِ أَوْلٰی، وَلَمْ یُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِّنْہُمْ أَنَّہ، نَوَی الْمَوْلَدَ، وَنَحْنُ تَبَعٌ، فَیَسَعُنَا مَا وَسِعَہُمْ .
''اگر میلاد اس(گانے بجانے)سے خالی ہو اور صرف کھانا بنایا جائے اور نیت میلاد کی ہواور کھانے پر دوست احباب کو مدعو کیا جائے۔یہ کام اگر مذکورہ قباحتوں سے خالی بھی ہوتو یہ صرف اس کی نیت کی وجہ سے بدعت بن جائے گا،کیونکہ یہ دین میں زیادت ہے ۔ سلف صالحین کا اس پر عمل نہیں۔ سلف کی اتباع ہی لائقِ عمل ہے ۔ سلف صالحین میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے میلاد کی نیت سے کوئی کام کیا ہو ۔ ہم سلف صالحین کے پیروکار ہیں ۔ ہمیں وہی عمل کافی ہوجائے گاجو سلف کو کافی ہوا تھا۔''(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٥)
6 حافظ سخاوی رحمہ اللہ (٨٣١۔ ٩٠٢ھ) لکھتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
''یہ کام تینوں زمانوں (صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین )میں سے کسی نے نہیں کیا۔ یہ تو بعد میں ایجاد ہوا۔''('جاء الحق' از نعیمی : ١/٢٣٦)
7 حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔ ٩١١ھ) فرماتے ہیں :
وَأَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ فِعْلَ ذٰلِکَ صَاحِبُ أَرْبَلَ الْمَلِکُ الْمُظَفَّرُ أَبُو سَعِیدٍ کَوْکَبْرِيٌّ ۔۔۔
''سب سے پہلے جس نے اسے ایجاد کیا وہ اربل کا بادشاہ مظفر ابوسعید کوکبری تھا۔''
(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٨٩ [٢٤] )
علمائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بعد کی ایجاد ہے ۔
ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ!!!
اس بدعت ِعید ِمیلاد کے تحت بے شمار بدعات ، خرافات ،ہفوات ،ترہات ،بیسیوں محرّمات اور منکرات نے جنم لے لیا ہے ، جیسا کہ روضہ رسول کی شبیہ بنانا ،شرکیہ نعتیں پڑھنا ، مجلس کے آخر میں قیام ا س عقیدت کے تحت کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں خود حاضر ہوتے ہیں،(العیاذباللہ)، شیرینی تقسیم کرنا ، دیگیں پکانا ، دروازے اور پہاڑیاں بنانا ، عمارتوں پر چراغاں کرنا ،جھنڈیاں لگانا ، ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین شریفیں کی تصویر بنانا ،مخصوص لباس پہننا، تصویریںاتارنا، رقص و وجد کا اہتمام کرنا، شب بیداری کرنا ، اجتماعی نوافل ، اجتماعی روزے ،اجتماعی قرآن خوانی ، عورتوں مردوں کا اختلاط ، نوجوان لڑ کوں کا جلوس میں شرکت کرنا اور عورتوں کا ان کو دیکھنا ، آتش بازی ،مشعل بردار جلوس ،جو کہ عیسائیوں کا وطیرہ ہے ، گانے بجانے، فحاشی وعریانی ، فسق و فجور ، دکھاوا اور ریاکاری ، من گھڑ ت قصے کہانیوں اور جھوٹی روایات کا بیان ،انبیاء ، ملائکہ ،صحابہ کرام کے بارے میں شرکیہ اور کفریہ عقیدے کا اظہار، قوالی ، لہوولعب، مال و دولت اور وقت کا ضیاع وغیرہ، بلکہ اب تو ان پروگراموںمیں بد امنی ، لڑائی جھگڑا ، قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
یہ بدعت ِقبیحہ ، ضلالہ اور سیّئہ ،کم علم ، جاہل اور بدعتی ملاّؤں کی شکم پروری کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، جو اس بدعت کی آڑ میں اپنے مذہبی تعصب ، باطل نظریات کا اظہار کرتے ہیں ، تکفیر و تفسیق ، فتوی بازی ، گالی گلوچ اور بکواسات کا بازار گرم کرتے ہیں، وہ اس بدعت کو کفر اور اسلام کا معیار سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنے والوں کو ابلیس کہتے ہیں ، موحدین کی مساجد کے سامنے نعرہ بازی ، شور وغل ، ہنگامہ آرائی اور اپنے انتقامی جذبات کی تسکین بھی اسی بہانے کرتے ہیں۔
إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ٭
اللہ تعالیٰ ہمیں سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے اور بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
دار الاسلاف
منہج سلف کا علمبردار ادارہ