احادیث کے دلائل:
01. صحیح بخاری کے حوالے سے عید میلاد کے جواز کے لئے یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ ”قال عروةوثویبة مولاة لأبي لھب وکان أبولھب اعتقھا فأرضعت النبي ﷺ فلما مات أبولھب أریه بعض أهله بشر حیبة قال له ماذا لقیت؟ قال أبولھب لم ألق بعدکم غیرأني سقیت في ھذہ بعتاقتي ثویبة”۔ (کتاب النکاح: باب وأمھاتکم اللآتي أرضعنکم)
”عروہ راوی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی اور ابولہب نے اسے آزاد کر دیا تھا۔ اس لونڈی نے نبی اکرم ﷺ کو (بچپن میں) دودھ پلایا تھا۔ جب ابولہب فوت ہوا تو اس کے کسی عزیز نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بری حالت میں ہے تو اس سے پوچھا کہ کیسے گزر رہی ہے؟ ابو لہب نے کہا کہ تم سے جدا ہونے کے بعد کبھی آرام نہیں ہوا، البتہ مجھے یہاں (انگوٹھے اور انگشت شہادت کے درمیان گڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) سے پانی پلا دیا جاتا ہے اور یہ بھی اس و جہ سے کہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزادی بخشی تھی۔”
جواب:
01. سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ روایت صحیح بخاری کی مسند روایتوں میں شامل نہیں، بلکہ ان معلقات میں سے ہے جنہیں امام بخاری بغیر سند کے ابواب کے شروع میں بیان کر دیتے ہیں اور یہ روایت بھی عروہ تابعی سے مرسل مروی ہے اور محدثین کے نزدیک مرسل تابعی حجت نہیں۔
02. پھر یہ مرسل روایت اہل سیر کی روایات کے خلا ف ہے، اس لئے کہ اکثر وبیشتر اہل سیر کے مطابق ابولہب نے اپنی لونڈی کو آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے کافی عرصہ بعد آزاد کیا تھا مگر اس روایت سے اس کو ولادت نبوی ﷺ کے موقع پر آزاد کرنے کا اشارہ ہے۔ ابن جوزی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ
” ثویبہ آنحضرت ﷺ کے پاس اس وقت بھی آیا کرتی تھی جب آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرلی تھی اور ان دنوں بھی یہ ابولہب کی لونڈی تھی مگر اس کے بعد ابولہب نے اسے آزاد کر دیا۔” (الوفا باحوال المصطفیٰ: ص۱۰۷؍ ج۱)
حافظ ابن حجر نے بھی یہ بات ذکر کی ہے۔ (فتح الباری:۹؍۱۴۵ اور الاصابہ:۴؍۲۵۰) اسی طرح ابن سعد نے طبقات (۱؍۱۰۸) میں اور ابن عبدالبر نے الاستیعاب (۱؍۱۲) میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
03. مذکورہ روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو آنحضرتﷺ کی ولادت پر آزاد نہیں کیا لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس نے ولادت ہی پر اسے آزاد کیا تھا تو پھر ابولہب کا یہ عمل اس وقت کا ہے کہ جب اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ میرا بھتیجا نبی بنے گا بلکہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش پر اس نے بحیثیت چچا اپنی لونڈی آزاد کرکے مسرت کا اظہار کیا اور بچے کی پیدائش پر ایسا اظہار مسرت بلا استثناءِ مسلم وغیر مسلم ہر شخص فطری طور پر کیا ہی کرتا ہے۔ چنانچہ ابولہب نے بھی اس فطری مسرت کا اظہار کیا مگر جب آپ ﷺ نے رسالت کا اعلان کیا تو یہی ابولہب آپ ﷺ کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور اسی ابولہب کے بارے میں
اللہ تعالیٰ نے سورۃ لہب نازل فرمائی کہ ﴿تَبَّت يَدا أَبى لَهَبٍ وَتَبَّ ١ ما أَغنىٰ عَنهُ مالُهُ وَما كَسَبَ ٢ سَيَصلىٰ نارًا ذاتَ لَهَبٍ ٣﴾… ”ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہو گیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں داخل ہوگا۔”
04. پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ محض ایک خواب ہے اور شریعت نے نبی ورسول کے علاوہ کسی کے خواب کو حجت و برہان قرار نہیں دیا۔
دلیل نمبر: 02
نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۶۳ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر فرمائے۔ اس سے بعض لوگ یہ نکتہ رسی کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی عمر چونکہ ۶۳ سال تھی، اس لئے ہر سال کی خوشی میں آپ ﷺ نے ایک ایک اونٹ ذبح فرمایا۔ اس لئے ہمیں بھی آنحضرت ﷺ کے یومِ ولادت کی ہر سال خوشی منانا چاہئے۔
جواب:
01. پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ اللہ کے رسول ﷺ نے ۶۳ اونٹ اپنے دست مبارک سے قربان کئے مگر یہ کہاں سے نکل آیا کہ انہیں عیدمیلاد کی خوشی میں قربان کیا گیا تھا؟
02. اگر بالفرض یہ عید میلاد کی خوشی میں ذبح کئے گئے تھے تو پھر عید میلاد ربیع الاوّل کی بجائے ذوالحجہ کو منانی چاہئے کیونکہ یہ واقعہ نو ذوالحجہ کا ہے!
03. حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۰۰ اونٹ نحر فرمائے۔ ان میں سے ۶۳ اونٹ تو آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے نحر کئے جبکہ باقی ۳۷ اونٹ حضرت علی نے آپ ﷺ کے حکم سے نحر کئے۔ اس لئے اگر ۶۳ اونٹ آنحضرت ﷺ کی ۶۳ سالہ زندگی کے ایام ولادت کی خوشی میں ذبح کئے گئے تو باقی ۳۷ اونٹ کس کے یوم ولادت کی خوشی میں تھے؟
03. بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سوموار کو روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ اس دن آپ ﷺکی پیدائش ہوئی تھی اور اس دن روزہ رکھنا بطورِ شکرانہ تھا، اس لئے میلاد کی خوشی منانا چاہئے۔ کیونکہ شکرانہ خوشی اور نعمت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔
جواب:
01. جن روایات میں سوموار کے روزے کا ذکر ہے، انہی میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپ ﷺ جمعرات کا بھی روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس لئے اگر بالفرض سوموار کا روزہ ولادت کی خوشی میں تھا تو پھر جمعرات کا روزہ کس خوشی میں تھا؟
02. حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی میلاد کی خوشی کا روزہ نہ تھا بلکہ بعض صحابہ کے استفسار پر آپ ﷺ نے سوموار اور جمعرات کے روزے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ ”ہفتے کے ان دو دنوں میں بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال جب اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں نے روزہ رکھا ہو۔” (فتح الباری :۴؍۲۳۶)
03. اگر بالفرض آنحضرت ﷺ سوموار کا روزہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھتے تھے تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ آپ ﷺ سال بھر میں صرف اپنے یومِ تاریخ کا ایک ہی روزہ رکھتے مگر آپ ﷺ تو ہر ہفتے کی سوموار (اور جمعرات) کو روزہ رکھا کرتے تھے… اس سے بھی معلوم ہوا کہ یہاں بھی میلاد کی کوئی گنجائش نہیں۔
04. اگر حدیث مذکور کی بنا پر خوشی اور میلاد ضروری ہے تو پھر کم از کم میلاد منانے والوں کو اس روز، روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ اس روز روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر میلاد منانے والے تو دعوتیں اڑاتے ہیں۔ بقول شخصے ع حضور روزہ فرماتے ہیں اوریہ عید مناتے ہیں!
04. بعض بھولے بسرے یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یوم اقبال، یوم قائد اعظم اور یوم سالگرہ منانا درست ہے تو پھر یومِ میلاد کیوں بدعت ہے؟
یہ اعتراض تب درست ہو سکتا تھا کہ جب یوم اقبال، یومِ قائد اور سالگرہ وغیرہ منانا دینی اعتبار سے مشروع وجائز ہوتا مگر جب یہ چیزیں بذاتِ خود غیرمشروع ہیں تو انہیں بنیاد بنا کر نئی چیز کیسے مشروع (جائز) ہو جائے گی؟
اسلام میں ایام پرستی کا کوئی تصور نہیں۔ اگر ایام پرستی کا اسلام نے لحاظ رکھا ہوتا تو ہر روز کسی نہ کسی نبی، ولی اور عظیم واقعہ کی یاد میں ایک نہیں، سینکڑوں جشن منانا پڑتے اور اُمت مسلمہ کو سال بھر ایام پرستی ہی سے فرصت نہ مل پاتی۔
علاوہ ازیں یوم اقبال اور یوم قائد وغیرہ منانے والے کیا اسلامی شریعت میں ایسا امتیازی مقام رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اسفعل کو دین وحجت قرا ر دے دیا جائے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اسے بنیاد بنا کر عید میلاد کا جواز کشید کرنا بھی درست نہیں بلکہ یہ تو ‘بناء فاسد علیٰ الفاسد’ ہے!
اسی طرح بچوں کی سالگرہ منانا غیرمسلموں کی نقالی ہے۔ اسلام میں اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ اور ویسے بھی یہ غیرمعقول رسم ہے کہ ایک طرف کل عمر سے ایک سال کم ہو رہا ہے اور دوسری طرف اس پر خوشی منائی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں غیرمسلموں کی تہذیب وتمدن اور خاص شعار پر مبنی کسی چیز میں نقالی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ”من تشبّه بقوم فھو منھم…” (ابوداؤد:4031) ”جس نے کسی (غیر مسلم) قوم کی نقالی کی وہ انہی میں شمار ہوگا۔”
آخر پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کا قول نقل کرتا ہوں، وہ فرماتے ہیں کہ” ” سلف صالحین نے محفل میلاد کا انعقاد نہیں کیا حالانکہ اس وقت اس کا تقاضا تھا اور اس کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی۔ اگر یہ محض خیر وبھلائی ہی کا کام ہوتا یا اس میں خیر کا پہلو راجح ہوتا تو سلف صالحین اسے حاصل کرنے کےلئے ہم سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ ہماری نسبت اللہ کے رسول ﷺ سے بہت زیادہ محبت اور تعظیم وتکریم کرنے والے اور نیکی کے کاموں میں ہم سے زیادہ رغبت کرنے والے تھے۔ آپ ﷺ سے محبت وتکریم کا معیار یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری کی جائے، آپ ﷺ کی سنت کو ظاہری اور باطنی طور پر زندہ کیا جائے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو آگے پھیلایا جائے اور اس مقصد کےلئے دل، ہاتھ اور زبان سے جہاد کیا جائے۔ مہاجرین وانصار جیسے ایمان میں سبقت کرنے والوں اور ان کی اچھے طریقے کے ساتھ پیروی کرنے والوں کا یہی طریقہ تھا۔”۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: ص۲۹۵)
خلاصہ بحث:
01. سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ بارہ ربیع الاول کو جو مبینہ عید میلاد النبی صلی الہ علیہ وسلم منائی جاتی ہے، یہ ایک “مذہبی تہوار”، یا “مذہبی دن” کے طور پر منائی جاتی ہے۔ یہ یوم پاکستان، یوم فضائیہ یا عالمی یوم محنت وغیرہ کی طرح کوئی “غیر مذہبی” دن نہیں ہے۔
02. دوسری بات یاد رکھئے کہ دین اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل ہو گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ تو اس دین میں کوئی اضافہ کیا جا سکتا ہے اور نہ کمی۔
03. تیسری اور آخری بات یہ کہ آج ہم جو عید میلاد النبی صلہ اللہ علیہ وسلم “مذہبی جوش وجذبے” سے مناتے ہیں۔ اسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں منایا۔ نہ منانے کا حکم دیا۔ اسی طرح خلفائے راشدین میں سے کسی نے بھی یہ عید میلاد النبی نہیں منایا۔
اگر آپ ان تین باتوں کو سمجھ لیں گے تو جان جائیں گے کہ دین اسلام میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حقیقت ہے۔ یہ ایک بدعت ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ باقی ساری باتیں ضمنی اور بےبنیاد ہیں۔ دین میں مکالمہ بنیادی باتوں پر اور قرآن وسنت کے حوالہ سے کیا جاتا ہے۔ ادھر اُدھر کی غیرمتعلق باتوں پر نہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں دین پر اسلام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین