السلام علیکم
مجھے اس دعا کا مکمل حوالہ چاہیے
تقبل الله منا ومنك
جزاک اللہ خیراً
’’ عن جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ : كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اِلْتَقَوْا يَوْمَ الْعِيدِ يَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ : تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك . قال الحافظ : إسناده حسن .
وقَالَ الإمام أَحْمَدُ رحمه الله : وَلا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ الرَّجُل لِلرَّجُلِ يَوْمَ الْعِيدِ : تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك . نقله ابن قدامة في "المغني"
.
جبير بن نفير بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام عيد كے روز جب ايك دوسرے كو ملتے تو ايك دوسرے كو كہتے:
تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك: اللہ تعالى مجھ اور آپ سے قبول فرمائے.
حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے.(فتح الباری ج۲ )
امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس ميں كوئى حرج نہيں كہ ايك شخص دوسرے كو عيد كے روز
تقبل اللہ منا و منكم كے الفاظ كہے. ابن قدامہ رحمہ اللہ نےاسے المغنى ميں نقل كيا ہے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ؛
’’وسئل شيخ الإسلام ابن تيمية في "الفتاوى الكبرى" (2/228) : هَلْ التَّهْنِئَةُ فِي الْعِيدِ وَمَا يَجْرِي عَلَى أَلْسِنَةِ النَّاسِ : " عِيدُك مُبَارَكٌ " وَمَا أَشْبَهَهُ , هَلْ لَهُ أَصْلٌ فِي الشَّرِيعَةِ , أَمْ لا ؟ وَإِذَا كَانَ لَهُ أَصْلٌ فِي الشَّرِيعَةِ , فَمَا الَّذِي يُقَالُ ؟
فأجاب :
"أَمَّا التَّهْنِئَةُ يَوْمَ الْعِيدِ يَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ إذَا لَقِيَهُ بَعْدَ صَلاةِ الْعِيدِ : تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ , وَأَحَالَهُ اللَّهُ عَلَيْك , وَنَحْوُ ذَلِكَ , فَهَذَا قَدْ رُوِيَ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَفْعَلُونَهُ وَرَخَّصَ فِيهِ , الأَئِمَّةُ , كَأَحْمَدَ وَغَيْرِهِ . لَكِنْ قَالَ أَحْمَدُ : أَنَا لا أَبْتَدِئُ أَحَدًا , فَإِنْ ابْتَدَأَنِي أَحَدٌ أَجَبْته , وَذَلِكَ لأَنَّ جَوَابَ التَّحِيَّةِ وَاجِبٌ , وَأَمَّا الابْتِدَاءُ بِالتَّهْنِئَةِ فَلَيْسَ سُنَّةً مَأْمُورًا بِهَا , وَلا هُوَ أَيْضًا مَا نُهِيَ عَنْهُ , فَمَنْ فَعَلَهُ فَلَهُ قُدْوَةٌ , وَمَنْ تَرَكَهُ فَلَهُ قُدْوَةٌ . وَاَللَّهُ أَعْلَمُ" اهـ .
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
" كيا عيد مبارك اور لوگوں كى زبانوں پر جو عيد مبارك كے الفاظ ہيں جائز ہيں؟ كيا شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى دليل ملتى ہے يا نہيں ؟
اور اگر شرعي دليل ہے تو پھر كيا كہا جائے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جب عيد كے روز نماز عيد كے بعد لوگ ايك دوسرے كو مليں تو انہيں ايك دوسرے كو تقبل اللہ منا و منك و احالہ اللہ عليك وغيرہ كے الفاظ كہيں، صحابہ كرام كى ايك جماعت سے ايسا كرنا مروى ہے، اور اس ميں آئمہ كرام مثلا امام احمد وغيرہ نے رخصت دى ہے.
ليكن امام احمد كہتے ہيں: ميں خود ابتدا ميں كسى كو يہ نہيں كہتا ليكن اگر مجھے كوئى كہے تو ميں جواب ميں يہى الفاظ كہتا ہوں، كيونكہ تحيۃ كا جواب واجب ہے، ليكن مباركباد دينے كى ابتدا كرنا سنت مامورہ نہيں ہے، اور نہ ہى اس سے منع كيا گيا ہے، اس ليے جو يہ فعل كرتا ہے اس كے پاس قدوہ ہے، اور جو نہيں كرتا اس كے پاس بھى قدوہ ہے. اھـ
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 228 ).