• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید کے دن کے مختصر احکام

شمولیت
اپریل 23، 2022
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
12
عید کے دن کے مختصر احکام
ترتيب: عبد الله محسن الصاهود
ترجمہ: عبد الرحمن فيض الله
مراجعہ: بدر الزماں عاشق على

سوال/1: اسلام میں کون کون سی عیدیں مشروع ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسلام میں تین عیدیں مشروع ہیں۔
1- عید الفطر: رمضان کا روزہ مکمل کرنے کی خوشی میں۔
2- عید الاضحٰی: عشرہ ذی الحجہ کے اختتام کی مناسبت سے۔
3- یوم الجمعہ: یہ ہفتہ واری عید ہے، ہفتہ ختم ہونے کی مناسبت سے لیکن اس دن نماز جمعہ کے علاوہ کوئی پروگرام منعقد نہیں کیا جائے گا۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 191)

مردوں اور عورتوں کے لئےنماز عید کا حکم
سوال/2: مردوں کے لئے عید کی نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب: *ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید کی نماز مردوں کے لئے فرض عین ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 214)
* ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اکثر اہل علم کے نزدیک عید کی نماز فرض کفایہ (يعنى جسے ایک دو مسلمان ادا کرلیں تو سب مسلمانوں کے ذمے سے فرض ساقط ہوجائےگا، اور اگر ایک آدمی بھی ادا نہ کرے تو سب مسلمان گناہ گار ہوں) ہے۔
ب: بعض اہل علم فرض عین کے قائل ہیں، اور دلائل کی روشنی میں یہی قول راجح ہے ۔ مجموع الفتاویٰ (13/ 7)
* عید الفطر اور عید الاضحٰی کی نماز فرض کفایہ ہے اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ نماز جمعہ کی طرح عیدین کی نماز بھی فرض عین ہے چنانچہ ایک مسلمان کو عید کی نماز بالکل نہیں چھوڑنی چاہئے۔ اللجنۃ الدائمۃ (8/ 284)

سوال/3: عورتوں کے لئے عید کی نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب: *ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خواتین کا عید کی نماز کے لئے جانا سنت ہے بشرطیکہ باپردہ ہو كر جائيں نہ كہ خوشبو وغیرہ لگا کے۔ مجموع الفتاویٰ (13/ 7)
*عیدین کی نماز کے لئے عورتوں کا جانا سنت مؤکدہ ہے بشرطیکہ وہ باپردہ ہو كر جائيں نہ كہ بے پردہ اور بناؤ سنگھار كر كے۔ اللجنۃ الدائمۃ (8/ 287)
*ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے خیال سے عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دینا چاہئے تاکہ خیر کا مشاہدہ کریں نیز نماز اور دعاؤں میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو سکیں بشرطیکہ با پردہ نکلیں خوشبو وغیرہ بالکل نا لگائیں تاکہ سنت بھی ادا ہو جائے اور فتنے سے بھی محفوظ رہیں۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 211)

مسافر کے حق میں نماز عید کا حکم
سوال/4: مسافر کے حق میں عید کی نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مسافر کے حق میں عید کی نماز مشروع نہیں ہے، لیکن اگر ایسی جگہ قیام پذیر ہے جہاں عید کی نماز ہوتی ہے تو اسے بھی شرکت کا حکم دیا جائے گا۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 236)

نماز عید کی قضاء
سوال/5: عید کی نماز چھوٹ جائے تو اسے قضا کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید کی نماز چھوٹ جائے تو اس کی قضاء نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 214)

عید کی مبارکبادی
سوال/6: کیا عید کی مبارکبادی کے لئے اسلاف سے کوئی خاص الفاظ منقول ہیں؟
جواب: *ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض صحابہ كرام سے عيد كى مباركباد دينا ثابت ہے، اور اگر فرض كريں نہ بھى ہو تو اس وقت يہ ايك معمول سا بن چكا ہے كہ رمضان المبارك كى تكميل اور قيام كے بعد عيد كے روز ايك دوسرے كو مباركباد ديتے ہيں۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 208)
*ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی سے عید کے دن "تقبل الله منا ومنك أعمالنا الصالحة "وغيره کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ب: لیکن اس سلسلے میں کوئی نص موجود نہیں۔ مجموع الفتاویٰ (13/ 25)

سوال/7: عید کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور معانقہ کرنے (گلے ملنے) کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان اشياء ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ لوگ اسے بطور عبادت اور اللہ تعالى كا قرب سمجھ كر نہيں كرتے، بلكہ يہ كام بطور عادت و احترام كرتے ہيں، اور جب تک شريعت ميں كسى عادت كى ممانعت نہ آئے اس ميں اصل اباحت ہى ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 209)

نماز عید کے آداب
سوال/8: نماز عید کے کیا آداب ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: تکبیر کہنا۔
ب: عید الفطر کے لئے نکلنے سے پہلے طاق کھجور کھانا۔
ت: اچھے کپڑے پہننا یہ صرف مردوں کے لئے ہے عورتیں عید گاہ جاتے ہوئے خوبصورت کپڑے نہیں پہنیں گی۔
ث: غسل کرنا۔
ج: ایک دوسرے کو مبارکباد دینا۔
ح: عید گاہ آتے جاتے راستہ بدل کے آنا جانا۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 216-223)

سوال/9: عید الفطر اور عید الاضحٰی کی نماز سے قبل آدمی کے لئے کیا سنت ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید الفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے طاق کھجور کھانا۔
عید الاضحٰی میں سنت ہے کہ نماز کے بعد قربانی کے جانور کا گوشت کھايا جائے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 234)

سوال/10: عید گاہ پیدل جانا سنت ہے یا سواری پہ؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید گاہ پیدل جانا سنت ہے ہاں بوقت ضرورت سواری سے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 235)

سوال/11: عید کے دن راستہ بدل کر آنے جانے کی کیا حکمت ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:عید کے دن راستہ بدل کر آنے جانے کی درج ذيل حکمتیں ہیں
الف: نبی کریم ﷺکی اقتدا کیوں کہ ایسا کرنا سنت ہے۔
ب: نماز عید جو اسلامی شعار ہے اس کا ہر جگہ مظاہرہ کرنا۔
ت: علاقے کے فقيروں سے ملاقات ہو جائے اور ان کی مدد کی جا سکے۔
ث: دونوں راستے قیامت کے دن گواہی دیں۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 237)

نماز عید پڑھنے کی جگہ
سوال/12: مسجدوں میں عید کی نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بلا عذر مسجدوں میں عید کی نماز پڑھنا مکروہ ہے، کیونکہ عید کی نماز میدان میں پڑھنا مسنون ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 230)

سوال/13: کیا صحراؤں میں عید کی نماز پڑھنا مشروع ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید کی نماز شہروں اور گاؤں میں پڑھی جائے گی صحراؤں میں عید کی نماز پڑھنا مشروع نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (13/9)

سوال/14: اسپورٹس ا سٹیڈیم میں نماز عید کے انعقاد کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر اسپورٹس ا سٹیڈیم صاف ستھرا اور نجاست سے پاک ہو تو اس جگہ عید کی نماز منعقد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ب: اگر عید کی نماز کے لئے اسٹیڈیم سے اچھی کوئی مستقل جگہ ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ مجموع الفتاویٰ (13/ 11)

ایک ہی شہر میں کئی جگہ نماز عید
سوال/15: ایک ہی شہر میں کئی جگہ نماز عید منعقد کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر ضرورت ہو تو ایک ہی شہر میں کئی جگہ نماز عید منعقد کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ نماز جمعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 224)

نماز عید کا وقت
سوال/16: عید کی نماز کا کیا وقت ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور زوال تک رہتا ہے، مگر سنت ہے کہ عید الاضحٰی کی نماز جلدی پڑھی جائے اور عید الفطر کی نماز تھوڑی تاخیر سے جیسا کہ رسول اللہ ﷺکے متعلق مروی ہے کہ عید الاضحٰی کی نماز سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد پڑھتے تھے اور عید الفطر کی نماز سورج کے دو نیزہ بلند ہونے کے بعد پڑھتے تھے۔ مجموع الفتاویٰ (16-229)

عید میں تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم
سوال/17: عید کی نماز سے پہلے تحیۃ المسجد پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: عیدین کی نماز مسجد میں ادا کی جائے تو ایسی صورت میں تحیۃ المسجد پڑھنا مشروع ہے۔
ب: عید کی نماز عید گاہ میں پڑ ھی جائے تو ایسی صورت میں تحیۃ المسجد پڑھنا مشروع نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (13/ 15-16)

سوال/18: عید کی نماز کے لئے عید گاہ میں آنے والے کے لئے تحیۃ المسجد کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: راجح قول یہ ہے کہ جو بھی شخص عید گاہ میں آئے وہ دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے بغیر نا بیٹھے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 252)

سوال/19: کیا عید گاہ کے وہی احکام ہیں جو مساجد کے ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سنت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عید گاہ بھی مساجد کے حکم میں ہیں ۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 251)

عید کی نماز میں اذان اور اقامت کا حکم
سوال/20: کیا عید کی نماز کے لئے اذان اور اقامت کہی جائے گی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید کی نماز کے لئے اذان اور اقامت مشروع نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 237)

نماز عید کے لئے اعلان کرنے کا حکم
سوال/21: نماز عيد كے ليے ("الصلاۃ جامعۃ" جيسے الفاظ سے) اعلان کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:* ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز عید کے لئے اعلان کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ بدعت ہے۔ مجموع الفتاویٰ (13/ 23)
*"الصلاۃ جامعۃ" یا اس جیسے دوسرے کلمات سے عید کی نماز کا اعلان کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بدعت ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (8/ 316)

نماز عید کا طریقہ
سوال/22: نماز عید کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
1- پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعاء استفتاح پڑھی جائے گی اس کے بعد سات تکبیرات زوائد پھر سورۃ الفاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی اور سورت پڑھی جائے گی مثلا"سورة الأعلى" یا"سورة ق"۔
2- دوسری رکعت میں تکبیر کہہ كركھڑے ہونے کے بعد پانچ تکبیرات زوائد کہی جائیں گی پھر سورۃ الفاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی اور سورت پڑھی جائے گی اگر پہلی رکعت میں "سورة الأعلى" پڑھا ہے تو دوسری رکعت میں "سورة الغاشيۃ" اور اگر پہلی رکعت میں "سورة ق" تو دوسری رکعت میں "سورة القمر" پڑھنا مسنون ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16-223)

سوال/23: نماز عید میں تکبیرات زوائد نا کہی جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر عید کی نماز میں تکبیرات زوائد نا کہی جائیں تو نماز درست ہوگی کیونکہ تکبیرات زوائد سنت ہیں۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 238)

سوال/24: نماز عید میں دعاء استفتاح کب پڑھی جائے گی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز عید میں دعاء استفتاح تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھی جائے گی، لیکن تکبیرات زوائد کے بعد بھی پڑھیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 240)

سوال/25: عیدین کی تکبیرات زوائد میں رفع الیدین کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: عیدین کی تکبیرات میں رفع الیدین کرنا مستحب ہے۔ (فقہ الدرر السنيۃ1743)

سوال/26: عیدین کی نماز میں تکبیرات زوائد کے درمیان کون سی دعا پڑھی جائے گی؟
جواب:* ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس موقعہ پر کوئی خاص دعاء منقول نہیں ہے، بلکہ اس دوران اللہ کی حمد وثناء بیان کی جائے گی اور نبی کریم ﷺپر درود پڑھی جائے گی، اور کچھ بھی نا پڑھیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 241)
*تکبیرات کے دوران تسبیح، تحمید، تکبیر اور نبی کریم ﷺپر درود پڑھنا مشروع ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (8/ 302)

سوال/27: اگر کوئی شخص تکبیرات زوائد بھول جائے اور قرآت شروع کر دے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص تکبیرات زوائد بھول جائے اور قرآت شروع کر دے تو تکبیرات زوائد ساقط ہو جائیں گی، کیونکہ تکبیرات زوائد سنت ہیں اور ان کا وقت نکل چکا ہے، جیسے کہ کوئی دعاء استفتاح بھول جائے اور قرآت شروع کر دے تو دعاء استفتاح ساقط ہو جاتی ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 244)

سوال/28: اگر امام کے پیچھے میری کچھ تکبیرات زوائد چھوٹ جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب آپ امام کے ساتھ نماز میں داخل ہوں تو پہلے تکبیر تحریمہ کہیں پھر باقی بچی تکبیرات میں آپ امام کی متابعت کریں چھوٹى ہوئی تکبیریں آپ سے ساقط مانی جائیں گی۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 245)

سوال/29: اگر کسی شخص کی کچھ تکبیرات عید چھوٹ جائیں تو کیا کرے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: جو تکبیرات چھوٹ گئیں وہ ساقط ہیں انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں، اسی طرح اگر مکمل تکبیرات زوائد یا کچھ تکبیرات بھول جائےاور قرآت شروع کر دے تو انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ تکبیرات زوائد سنت ہیں اور ان کا وقت نکل گیا ہے۔
ب: ہاں اگر کسی کی مکمل رکعت چھوٹ گئی ہے تو امام کے سلام پھرنے کے بعد تکبیرات زوائد کے ساتھ اسے پورا کرنا ہوگا۔ مجموع الفتاویٰ (16-241)

سوال/30: اگر کوئی شخص نماز عید میں امام کو اس حال میں پائے کہ امام پہلی رکعت مکمل کر چکا ہے تو چھوٹی ہوئی رکعت کو کس طرح پڑھنا ہوگا؟
جواب:* ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام کے سلام پھیرنے کے بعد تکبیرات زوائد کے ساتھ اس رکعت کی تكميل کرنی ہوگی۔ مجموع الفتاویٰ (16-256)
*اہل علم کے صحیح قول کے مطابق امام كے ساتھ بعد ميں ملنے والے شخص نے جو نماز امام كے ساتھ ادا كى وہ اس كى ابتدائى نماز ہے، اور جو وہ اكيلا ادا كريگا وہ نماز كا آخر ہے، چنانچہ امام کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اٹھ كر اپنى دوسرى ركعت ادا كرنے كے ليے ابتدا ميں پانچ تكبىريں كہے گا كيونكہ يہ اس كى دوسرى ركعت ہے۔ (اسلام سوال وجواب: 138046)

عید کا خطبہ
سوال/31: نماز عید سے پہلے خطبہ دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز عید سے پہلے خطبہ دینا بدعت ہے، کئی صحابہ سے اس کا رد منقول ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 249)

سوال/32: عید میں ایک خطبہ ہے یا دو؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید کی نماز میں ایک ہی خطبہ سنت ہے لیکن دو خطبہ دے دیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 248)

سوال/33: عید کا خطبہ استغفار سے شروع کیا جائے گا یا تکبیر سے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: استغفار سے خطبہ نہیں شروع کیا جائے گا کیونکہ ایسا کسی سے منقول نہیں ہے۔
ب: تکبیر یا تحمید سے شروع کرنے میں علماء کا اختلاف ہے، بعض علماء کہتے ہیں تکبیر سے شروع کیا جائے گا اور بعض کہتے ہیں تحمید سے شروع کیا جائے گا، بہر کیف اس سلسلے میں وسعت ہے تکبیر، تحمید جس سے بھی شروع کر دیں إن شاء اللہ کافی ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 248)

سوال/34: عید کا خطبہ سننے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید کا خطبہ سننا واجب نہیں ہے چنانچہ جو چاہے خطبہ سنے اور مستفید ہو اور جو چاہے چلا جائے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 249)

سوال/35: عید کے خطبہ کے دوران بات کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بلا شبہ ادب کا تقاضا ہے کہ خاموش رہا جائے، کیونکہ جب کوئی بات کرے گا تو خود کو بھی مشغول رکھے گا، اور دوسروں کو بھی جو اس سے بات کر رہے ہیں، یا اسے سن اور دیکھ رہے ہیں۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 247)

سوال/36: عید کا خطبہ کھڑے ہو کر دینا سنت ہے یا بیٹھ کر؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خطبہ کھڑے ہو کر دینا سنت ہے خواہ عید کا خطبہ ہو یا جمعہ کا۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 247)

سوال/37: کیا عید میں منبر پر خطبہ دینا سنت ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: بعض علماء کے نزدیک منبر پر خطبہ دینا سنت ہے۔
ب: بعض علماء کا کہنا ہے کہ عید کا خطبہ بلا منبر کے دینا زیادہ بہتر ہے، ویسے اس معاملہ میں وسعت ہے منبر پر خطبہ دیا جائے یا بغير منبر کے دونوں درست ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 250)

عیدین کی تکبیر
سوال/38: عید الاضحٰی میں تکبیر مطلق اور تکبیر مقید کسے کہتے ہیں؟
جواب: الف: تکبیر مطلق: ماہ ذی الحجہ کے شروع سے ایام تشریق کے آخری دن تک ہر وقت کہی جانے والی تکبیر۔
ب: تکبیر مقید: یوم عرفہ کی فجر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز تک ہر فرض نماز کے بعد کہی جانے والی تکبیر۔ اللجنۃ الدائمۃ (8/ 312)

سوال/39: عید الفطر کی تکبیر کا وقت کب سے کب تک ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید الفطر کی تکبیر کا وقت چاند نطر آنے سے لیکر عید کی نماز شروع ہونے تک ہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 259)

سوال/40: تکبیرات عید کے الفاظ کيا ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تکبیرات عید کے الفاظ یہ ہیں:
1: اللهُ أكبر اللهُ أكبر، لا إلهَ إلَّا الله، واللهُ أكبر اللهُ أكبر، ولله الحَمْد.
2: الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر الله أكبر ولله الحمد. مجموع الفتاویٰ (16/ 259)

سوال/41: عید کے دنوں میں اجتماعی تکبیر کہنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید کے دنوں میں اجتماعی تکبیر مشروع نہیں ہے بلکہ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص علاحدہ علاحدہ بلند آواز سے تکبیر کہے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 268)

سوال/42: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو عید کے دنوں میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مسجد میں تکبیریں پڑھتا ہے اور لوگ اس کے پیچھے پیچھے تکبیر کہتے ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ غلو کے زمرے میں نا آجائے۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 260)

سوال/43: کیا تکبیرات عید کو نماز کے بعد کے اذکار پر مقدم کیا جائے گا؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تکبیر مقید کے متعلق کوئی صریح حدیث نہیں وارد ہے، لیکن علماء کے آثار اور اجتہاد سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد کے اذکار پر تکبیرات عید کو مقدم کیا جائے گا۔ مجموع الفتاویٰ (16/ 261)

سوال/44: اگر عيد جمعہ كے دن آ جائے تو جمعہ کی نماز کا كيا حكم ہے؟
جواب: اگر عيد جمعہ كے دن آ جائے تو:
1- نماز عيد ادا كرنے والے شخص كے ليے نماز جمعہ ميں حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔
2- جمعہ ميں حاضر نہ ہونے کی صورت میں ظہر كى نماز ادا كرنی ہو گى۔
3- امام كے ليے حاضر ہونے والے مسلمانوں كے کو نماز جمعہ پڑھانا واجب ہے، وہ اس روز نماز جمعہ كى ادائيگى نہيں چھوڑ سكتا۔ (اللجنۃ الدائمۃ فتویٰ نمبر: 47243)

سوال/45: عید کے دن غسل کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: عید کے دن غسل کرنا مستحب ہے۔(اسلام سوال وجواب فتویٰ نمبر: 48988)

سوال/46: عید کے دن غسل کرنے کا وقت کیا ہے؟
جواب: افضل تو يہ ہے كہ نماز فجر كے بعد غسل كيا جائے، ليكن اگر وقت كى تنگى اور مشقت كى بنا پر نماز فجر سے قبل ہى غسل كر ليا جائے تو كافى ہے۔( اسلام سوال وجواب فتویٰ نمبر: 48988)

( جمعيۃ الدعوة والإرشاد وتوعيۃ الجاليات بمحافظۃ الوجہ)

المراجع:

مجموع فتاوى العلامۃ ابن باز
مجموع فتاوى اللجنۃ الدائمۃ
مجموع فتاوى العلامۃ ابن عثيمين
 
Top