• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عیسائیت کے اعتراضات کے دنادان شکن جوابات

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عیسائیت کے اعتراضات کے دنادان شکن جوابات


اعتراضات کے جوابات ملاحظہ کرنے سے قبل بطور مقدمہ کے کچھ باتیں سمجھ لیں پس ہم عیسائیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ مذکورہ سوالات (جو ان لوگوں نے قرآن کے حوالہ سے کئے ہیں) کے ضمن میں جو تمام فضائل مسیح علیہ السلام کا ذکر موجود ہے وہ کہاں سے ثابت ہے؟ عیسائی یہی کہیں گے کہ قرآن کریم سے ثابت ہے لہذا یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ ان سب فضیلتوں کی نسبت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہے اور انہی کے واسطے سے مسیح علیہ السلام ابن مریم کے یہ کمالات معلوم ہوئے ۔ پس یہ بات کالشمس علی نصف النہار ہوگئی کہ مسیح ابن مریم کے فضائل کا سبب تاجدار کونین احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسن نہ قرار پائے بلکہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسن ٹھہرے اور ظاہر ہے کہ محسن اس سے افضل ہے جس پر احسان کیا جارہا ہے۔ پس گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسیح علیہ السلام پر افضلیت رکھتے ہیں۔ اسی طریقہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے کمالات و کرامات جو عیاں ہوئے ہیں وہ دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور عظمت کی وجہ سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ باری تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے کمالات و کرامات کا اظہار فرمایا اور یہ بات بھی محقق ہے کہ کسی کے کمالات و کرامات کا اظہار خود اس ظاہر کرنے والے کے کمال کی دلیل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ السلام ابن مریم پر ہزاروں کئے جانے والے اشکالات کے جوابات دے دئے چوں کے مخالفین کبھی تو مریمؓ پر غلط تہمت لگاتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کیسے اور کس طرح وجود میں آئے اسی طرح کے سوالات کئے جاتے تھے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآن کریم کے ذریعہ ان تمام شبہات اور اشکالات کے مسکت جوابات دے دئے۔
بہر حال قرآن کریم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی احسانات ہیں مگر افسوس صد افسوس ان مخالفین پر ہے کہ ان تمام احسانات کو بھلا دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا درجہ دیکر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکامات کو ٹھکرا دیا۔
difaeislam.wordpress.com
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اعتراض نمبر ۱۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ کو قرآن شریف نے صدیقہ کہا ہے اور ان کی شان میں وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ بیان کر کے بتا دیا کہ ان کو تمام جہاں کی عورتوں پر فضیلت دی ہے اس کے بر خلاف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں آیا؟
جواب:
بیشک قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر کیا اور ان کو صدیقہ کہا ہے اور آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ کا ذکر قرآن میں نہین۔ لیکن اس سے مسیح علیہ السلام کی حضور ﷺ پر افضلیت لازم نہیں آتی حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ کے ذکر کی وجہ تو یہ ہے کہ یہود ان پر بہتان لگاتے تھے اس بناء پر ان کی عفت و پاکدامنی کا ذکر کیا گیا۔ اس کے برخلاف حضور ﷺ کی والدہ کے بارے میں کسی دشمن نے بھی ایک حرف بدگمانی کا نہیں لگایا تھا اسی وجہ سے ان کے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا خاص اہتمام سے ذکر کیا برخلاف دوسرے انبیاء علیہم السلام کے ان کی ولادت کا مسئلہ کسی اعتراض یا شبہ کا محل نہ تھا اس لئے قرآن نے اس سے کوئی تعرض نہیں کیا۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اعتراض نمبر ۲:-
حضرت مسیح علیہ السلام کو گود میں کتاب دی گئی جیسا کہ قرآن کریم ناظق ہے إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال بعد خداوند قدوس نے کتاب دی۔

جواب:
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت اور کتاب و انجیل ماں کی گود میں نہیں دی گئی البتہ گفتگو بے شک ماں کی گود میں انہوں نے کی جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ماں ہی کی گود میں کتاب و نبوت دونوں چیزیں شیرخوارگی کی حالت میں دے دی گئیں تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وجہ سے فضیلت لازم نہیں آتی، عقلی اعتبار سے اس سے بڑھ کر کمال تو یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو چالیس برس کی طویل مدت تک اسی طرح دیکھتی رہی کہ نہ وہ ایک حرف لکھ سکتا ہے اور نہ پڑھ سکتا ہے اور پھر ناگہاں اسی کی زباں سے علوم و ہدایت اور معارف و حقائق کے سمندر جاری ہوجائیں اور وہ کلام جو دنیا کو اپنے مقابلے کا اعلان (چیلنج) کرے اور تمام دنیا اس کے مقابلے سے عاجز رہے۔ عرب کے فصیح و بلیغ اس جیسی ایک بھی سطر پیش نہ کرسکے یقیناً یہ کلام ماں کی گود میں کلام کرنے سے بڑھ کر ہے پھر یہ بات بھی ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام کی طرح ماں کی گود میں دو اور بچوں نے بھی کلام کیا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ماں کی گود میں سوائے تین بچوں کے اور کوئی نہیں بولا۔ ایک حضرت عیسی علیہ السلام، دوسرا وہ بچہ جو جریج کے زمانے میں تھا اور تیسرا ایک اور بچہ واقعہ کی تفصیل کے لئے صحیح مسلم کی مراجعت کی جائے۔ جریج عابد و زاہد شخص تھا وہ اپنی ماں کی غلط بد دعاء کی وجہ سے ایک فتنہ میں مبتلا ہوا کہ ایک بدکار عورت اس کے گرجا کے قریب پناہ لینے والے چرواہے سے زنا کر کے حاملہ ہوئی اور ولادت پر یہ کہہ دیا کہ یہ جریج سے پیدا ہوا پس اس نومولود بچے نے لوگوں کے سامنے گوایہ دی کہ میرا باپ تو چرواہا ہے ، دوسرا ایک اور بچہ جو ماں کی گود میں دودھ پی رہا تھا اس کی ماں نے ایک شہسوار کو گزرتے دیکھ کر تمنا کی کہ اے اللہ تعالیٰ تو میرے بیٹے کو ایسا ہی بنادے، تو اس بچے نے کہا کہ اے پروردگار تو مجھے ایسا نہ بنا۔(صحیح مسلم ج۲،ص۳۱۳)
پس معلوم ہوگیا کہ ماں کی گود میں بات کرنا صرف عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت نہیں یہ چیزیں تو اکثر بچوں کے لئے بھی قدرت خداوندی نے ظاہر کی ہیں۔
بہرحال دوسری تردید یہ ہے کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ عرب کے اندر ایک یہودی گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جو کہ صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں نماز اور دیگر عبادات کا پابند ہوگیا اور کچھ یہ دنوں کے بعد بلا جھجھک عربی میں تقریریں کرتا ہے اور اسلام پر کئے جانے والے اشکالات کے جوابات دیتا ہے۔ اب بھلا بتائیں کہ کیا یہ لڑکا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فوقیت لے جائے گا؟ ہرگز نہیں پس اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سے فوقیت نہیں لے جاسکتے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عتراض نمبر ۳: قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں مردوں کے زندہ کرنے کا تذکرہ ہے؟
جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ مادر زاد نابیناؤں کو تندرست اور مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس وجہ سے دیا گیا کہ اس زمانے میں طب کو بہت عروج تھا اور خداوند عالم کی یہ سنت رہی ہے کہ جس زمانے میں جو چیز سب سے زائد معیار ترقی اور عروج پر ہوتی اسی نوع کا انبیاء کو معجزہ دیا جاتا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ کمال طاقت بشریہ سے بالا و برتر ہے اور اس کا ظہور صرف قدرت خداوندی کی طرف سے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادوگری فن شباب پر تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ معجزے دئے گئے جن کے سامنے بڑے بڑے جادوگر عاجز رہے اور اس کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اطاعت کی گردنیں جھکادیں۔ اس چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے سمجھ لیجئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فصاحت و بلاغت کا زور تھا۔ تو اس مناسبت سے آپ کو قرآن کا معجزہ دیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے عرب کے مایئہ ناز شعراء کو عاجز کردیا نیز اگر کوئی ایک معجزہ کسی پیغمبر کو دیا گیا اور کسی دوسرے کو نہیں دیا گیا تو یہ بات اس دوسرے پیغمبر کی تنقیص کی دلیل نہیں۔
بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اس قدر عظیم المرتبت و کامل ہیں کہ ان کے معجزات کی نظیر و مثیل دنیا پیش نہ کرسکی جیسے قرآن کریم وغیرہ میں اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک درخت کو آواز دی تو اکھڑ کر آپ کے سامنے آتا ہے اور تین مرتبہ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ کی گواھی دیتا ہے جب کہ ایک شخص نے آپ سے پر زُور لفظوں میں یہ مطالبہ کیا کہ آپ کی رسالت کی گواہی کون دے سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ درخت اور اس کو بلایا اور اس نے گواھی دی۔
اسی طرح معجزہ معراج کہ ایک رات میں مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے ساتویں آسمانوں پر تشریف لے جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ تمام واقعات جو قرآن سے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں کسی طرح بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں کیوں کہ یہ باتیں ایسے طور پر واقع ہو رہی ہیں کہ ان کی نوع میں عقلاً اس کی ذرہ بھر بھی صلاحیت نہ تھی۔ مردوں کو زندہ کرنے کے واقعات میں کوئی سن کر یہ کہہ بھی سکتا ہے کہ جس مردہ کو دفن کیا تھا مرا ہی نہ تھا بلکہ اس کو سکتہ کی بیماری تھی۔(لیکن یہ بات واضح رہے کہ اس سے احقر عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کا منکر نہیں بلاکہ اس سے ثابت یہ کرنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ اور ان سے بہتر اور افضل ہے) وہ دور ہوگئی لیکن سنگریزوں کی تسبیح۔ پتھروں کا سلام، انگلیوں سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا اور درخت کے اپنی جگہ سے اکھڑ کر روبرو حاضر ہونے کے بعد گواہی دینے کی عقلاً کیا تاویل ممکن ہے۔
دوسری بات یہ کہ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام بعثت دنیا میں ہوئی یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ معجزہ دیا گیا، مگر آقائے نامدار تاجدار بطحیٰ احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تمام کے تمام معجزات ایک ہی ذات کے اندر موجود تھے، چنانچہ کسی فارسی شاعر نی کیا ہی خوب کہا ہے۔
حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دراند تو تنہاداری


http://difaeislam.blogspot.in/
 
Top