• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عیسٰى بن مريم عليه السلام الله كے رسول ہیں

شمولیت
اپریل 10، 2021
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
21
اداریه

عیسٰى بن مريم عليه السلام الله كے رسول ہیں۔

عیسائی کافر ہر سال "مسیح رب کی ولادت" کے زعم میں جشن مناتے ہیں اور اپنے اس زعم کی وجہ سے دنیا کو شوروغوغا، بد کاری, بد قماشی اور تماشہ کاری سے بھر دیتے ہیں۔ یہاں ہم یہ سوال کرتے ہیں: کیا رب کو پیدا کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس کو سولی دی جاتی ہے اور قتل کیا جاتا ہے؟ اور کیا بد کاری اور شیطانی رسومات کے ساتھ خود ساختہ معبود کے گیت گائے جاتے ہیں اور جشن منایا جاتا ہے؟ اگر آپ کو تعجب ہو رہا ہے تو اس سے زیادہ تعجب اس شخص پر ہے جو اپنی نسبت تو اسلام کی طرف کرتا ہے اور ان کی شرکیہ عید میں شریک ہوتا ہے اور ان کو مبارکباد دیتا ہے، بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنا اسلام کا طریقہ ہے.

عیسائی اپنے عقیدہ کے بارے میں شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ وہ ایک الٰہ پر ٹھہر نہیں سکے بلکہ انہوں نے تین اِلٰہ بنا لیے، اور یہ اضطراب بالکل ظاہر ہے، ان کے دل اس پر یقین رکھتے ہیں، لیکن ان کی زبانیں اس کا انکار کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ (سورۃ النساء: 171)۔

ترجمہ: اور مت کہو کہ تین ہیں، باز آ جاؤ تمہارے لئے بہتر ہو گا، اللہ تو صرف ایک ہی معبود ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور اضطراب ہے وہ یہ کہ اللہ کے نبی عیسٰی علیہ السلام کی حقیقت کے بارے میں کوئی کہتا ہے کہ "وہ اللہ ہیں" اور کوئی کہتا ہے کہ "وہ اللہ کے بیٹے ہیں"، اللہ ان کو غارت کرے کہاں بہکے جا رہے ہیں.

عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں حقیقت تو وہی ہے جو معبود بر حق -سبحانہ و تعالٰی- نے اپنی شاندار کتاب میں ذکر فرمادی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے: إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ (سورۃ النساء: 171)۔

ترجمہ: مسیح عیسٰی بن مریم محض اللہ کے رسول ہیں۔

پس عیسٰی علیہ السلام سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں کہ جن کو اللہ تعالٰی نے مبعوث فرمایا تھا، اور انہوں نے اکیلیے اللہ کی عبادت کے سوا کسی چیز کی دعوت نہیں دی، بلکہ جب وہ گود میں لیے جانے والے بچے تھے تو انہوں نے تب ہی کہہ دیا تھا: إِنِّى عَبْدُ ٱللَّهِ آتَىٰنِىَ ٱلْكِتَٰبَ وَجَعَلَنِى نَبِيًّا (سورۃ مریم: 30)۔

ترجمہ: بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

اور جب وہ بڑے ہوئے تو انہوں نے فرمایا: إِنَّ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۗ هَٰذَا صِرَٰطٌ مُّسْتَقِيمٌ (سورۃ آلِ عمران: 51)۔

ترجمہ: بیشک اللہ ہی میرا رب اور تمہارا رب ہے پس اسی کی عبادت کرو کہ یہ سیدھا راستہ ہے۔

کیا عیسائی مشرکوں کو یہ نظر نہیں آتا یا انہوں نے عیسٰی علیہ السلام کو اس باتوں سے بلند کرنے کا ارادہ کر لیا ہے کہ جن کو وہ نقائص سمجھتے ہیں؟

آپ علیہ السلام کے ساتھ عبدیت کا وصف آپ کی قدر میں ہرگز تنقیص نہیں، اور نہ ہی آپ -علیہ السلام- نے اس کو ناگوار ہی سمجھا، اللہ تعالٰی کا فرمان ہے: لَّن يَسْتَنكِفَ ٱلْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ ٱلْمُقَرَّبُونَ (سورۃ النساء: 172)۔

ترجمہ: مسیح کو اللہ کا بندہ ہونے میں ہر گز کوئی عار نہیں اور نہ ہی مقرب فرشتوں کو۔

بلکہ وہ اللہ تعالٰی کا بندہ ہونے پر فخر کرتے تھے اور اسی کو انہوں نے بیان کیا اور اپنے بچپن ہی سے اس کی دعوت دینے لگے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا، بلکہ اس ایک اللہ کا بندہ ہونے کا وصف تو ایسا قابلِ شرف ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی محمد ﷺ کو اسی سے متصف کیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: سُبْحَٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ (سورۃ الأسراء: 1)

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو سفر کروایا۔

اور اللہ کا بندہ ہونے کے مقام سے بڑا کوئی مقام نہیں، اسی طرح اس شخص سے زیادہ حقیر اور نیچ کوئی شخص نہیں کہ جو خود کو اللہ سبحانہ و تعالی کی بجائے کسی اور کا بندہ قرار دے دے، اور اسی لیے شرک سب سے بڑا فساد ہے، اور توحید سب سے بڑی مصلحت ہے، پس قلم اٹھا لیے گئے۔ اور صحیفے خشک ہوچکے۔

یقیناً عیسیٰ علیہ السلام نے بھر پور واضح طور پر بیان فرمادیا کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو بلا شبہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، جیسا کہ انہوں نے فرمایا: يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (سورۃ المائدہ: 72)۔

ترجمہ: اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو، جو میرا رب اور تمہارا رب ہے، بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا تو یقیناً اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے، اور ظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔

پھر قیامت کے دن اس ہیبت ناک نظارے میں عیسائیوں کے جھوٹ کا پول پوری طرح کھل جائے گا، جسے تمام مخلوقات دیکھیں گی، چنانچہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے: وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ (سورۃ المائدۃ: 116- 117)۔

ترجمہ: اور جب اللہ فرمائے گا: کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟" وہ جواب دیں گے: کہ تو پاک ہے! میرے لیے بنتا ہی نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات کہی تھی تو یقیناً تو اسے جانتا ہے، تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے۔ یقیناً تو ہی سب پوشیدہ باتوں کو بخوبی جاننے والا ہے۔ میں نے انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے۔

پھر ان کو جہنم کی طرف جانے کا حکم دیا جائے گا بھلے وہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے لیکن تیرے رب سبحانہ و تعالٰی کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی۔

یقیناً عیسائی جس چیز کا جشن مناتے ہیں قریب ہے کہ اس کے باعث آسمان پھٹ جائیں، زمین چیری ہو جائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں، بے شک وہ شرک کا جشن مناتے ہیں اور عیسٰی علیہ السلام کی الوہیت کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں! جبکہ اللہ تعالی نے یہ فرماکر ان کی بات کو جھوٹ قرار دے دیا ہے: لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (سورۃ الإخلاص: 3)۔

ترجمہ: نہ ہی اس نے جنا اور نہ ہی وہ جنا گیا۔

اور اس سب کے بعد بھی، اسلام کی طرف نسبت کرنے والے ڈھیروں بیوقوف لوگ اس دن عیسائیوں کے ساتھ شریک ہونے اور ان کی شرکیہ عیدوں کی مبارکباد دینے کی جرأت کس طرح کر لیتے ہیں؟، اور اس سے بھی زیادہ سنگین جرم تو ان برائی کی طرف دعوت دینے والوں کا ہے کہ جنہوں نے اس کو جائز قرار دے دیا، بلکہ کچھ نے تو اس سے بڑھ کر اس کو مستحب اور واجب بنا دیا، حالانکہ علمائے اسلام اس کی حرمت پر متفق ہیں اور بعض نے ایسا کرنے والے کو کافر قرار دیا ہے. (فتاوی ابن تیمیہ)۔

ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: کفر کے ساتھ مخصوص تہواروں کی مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے، مثلاً ان کی عیدوں اور روزوں کی مبارکباد وغیرہ، کوئی کہے: آپ کو عید مبارک ہو یا آپ کو اس عید کی خوشیاں مبارک ہوں یا اس طرح کے الفاظ، پس ایسا کہنے والا اگر کفر سے سلامت رہ بھی جائے تو حرام کا مرتکب بہر صورت ہے، اور اس کی کیفیت وہی ہے جیسے کوئی صلیب کو سجدہ کرنے کی مبارک دے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی، کسی جان کے قتل اور زنا کا ارتکاب کرنے کی مبارکباد دینے سے زیادہ بڑا گناہ اور زیادہ غضب ناکی کا باعث ہے. (اہل ذمہ کے احکام)

آج عیسائی یقیناً اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جنگ اور عداوت کی انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں، ہمارے اور ان کے درمیان جنگ پورے زوروں پر جاری ہے، اور اس جنگ کی واضح ترین صورت "صلیبی اتحاد" ہے جس کی قیادت عیسائی کر رہے ہیں، پس وہی جدید و قدیم صلیبی جنگوں کی قیادت کرنے والے ہیں۔

یقیناً ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس کا عیسائیوں کے ساتھ معاملہ بالکل ویسا ہی ہو جیسا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کررہے ہیں، جس طرح انہوں نے اپنے حملوں اور گولوں سے مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے، پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ عیسائیوں کی عیدوں کو ماتموں اور سانحوں میں بدل دے، تاکہ ان کو پورا پورا بدلہ دیا جائے، ان کی عیدوں اور دیگر تہواروں کے دوران ان سے ہر ممکن وسیلے کے ساتھ قتال کرے، کیونکہ عیدوں کے دوران ایسا کرنا ان کے لیے زیادہ درد ناک اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ تکلیف کا باعث ہے اور یہ بھی کہ اس دوران ان تک پہنچنا زیادہ آسان ہوتا ہے، ان کے خلاف قتال کے وجوب اور ترغیب کے لیے تو یہی شرک کافی ہے کہ جو یہ عیسی علیہ السلام کی الوہیت کا دعوی کرتے ہیں، چہ جائے کہ اس سے بڑھ کر انہوں نے اسلام اور اہل اسلام سے جنگ برپا کر رکھی ہو؟ (تب تو ان سے قتال کا حکم اور بھی شدید تر ہے)۔

مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تعلق جنگ اور دشمنی کا تعلق ہے، یہاں تک کہ اسلام یا امان ان کے خون کو تحفظ دے دے، بصورت دیگر پے در پے جنگیں ہیں یہاں تک آخری زمانے میں عیسی علیہ السلام نازل ہوجائیں جو شریعت اسلامیہ کے ساتھ حکمرانی و عدل کرنے والے ہونگے، وہ شریعت محمدیہ ﷺ کہ جس کو معطل کرنے پر سب سے بڑا اتحاد صلیبیوں نے ہی کیا ہے جسے دنیا بھر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جی ہاں! عنقریب وہ عیسٰی علیہ السلام اتریں گے اور صلیب کو توڑ ڈالیں گے، جن کے بارے میں یہ لوگ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ ان کو قتل کر دیا گیا ہے اور آپ علیہ السلام کو سولی دے دی گئی ہے، اللہ تعالٰی کا فرمان ہے: وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ (سورۃ النساء: 157)۔

ترجمہ: حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ ہی اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کیلیے یہ مشتبہ کردیا گیا۔

اور عنقریب وہ (یعنی عیسی علیہ السلام) جزیہ کو ختم کر دیں گے اور اس وقت عیسائیوں سے سوائے اسلام اور قتل کے قطعا کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ خنزیر کو بھی قتل کر ڈالیں گے کہ جس سے (عیسائیوں نے) خباثت و رذالت میں مشابہت اختیار کی ہوئی ہے۔

اور یہ سچا وعدہ ہے جس کی قسم ہمارے نبی محمد ﷺ نے اٹھائی ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقینا وہ وقت قریب ہے کہ جب تم میں حاکم منصف ابن مریم علیہ السلام کا نزول ہو، پس وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور خنزیر کو قتل کر دیں گے، اور جزیہ کو ختم کر دیں گے اور مال کے دہانے کھول دیں گے حتی کہ کوئی ایک بھی لینے والا نہ ہو گا (صحیح بخاری)، اور ایک دوسری روایت میں ہے: اور اس زمانے میں اللہ تعالٰی (اہلِ) اسلام کے سوا تمام اقوام کو ہلاک کر دے گا (ابو داؤد)۔

اور یہ رہی دولت اسلامیہ کی دعوت، کہ جس میں وہ نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی اس نے کوئی سمجھوتہ کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ثابت قدم قیادت اور با وفا سپاہیوں نے جو کچھ بھی سہنا پڑا وہ سہا ہے، ہاں یہ توحید کی دعوت ہے جس کے باعث آسمان اور زمین قائم ہیں، اور یہی تمام انبیاء کا راستہ ہے، اور ان کا راستہ "الصراط المستقيم" ہے، آدم علیہ السلام سے لے کر محمد ﷺ تک، اور حتی کہ ہمارے آج کے اس دن تک یہی راستہ اللہ کا راستہ ہے: صِرَاطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ (سورۃ الفاتحۃ: 7)۔

ترجمہ: ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر تونے انعام کیا، نہ کہ ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر غضب کیا گیا اور نہ ہی گمراہ لوگوں کا۔

نہ یہودیت کا، نہ عیسائیت کا، نہ قومیت کا، اور نہ ہی وطنیت کا راستہ، بلکہ ابراہیمی ملت کا بالکل یکسوئی والا راستہ: قُلْ صَدَقَ ٱللَّهُ ۗ فَٱتَّبِعُواْ مِلَّةَ إِبْرَٰهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ (سورۃ آلِ عمران: 95)۔

ترجمہ: کہہ دو! اللہ نے سچ کہا ہے، پس ابراہیم کی ملت کی اتباع کرو جو یکسو تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔

اور یقیناً مسلمانوں پر لازم ہے کہ نزول عیسٰی علیہ السلام سے پہلے ہونے والی عظیم خونریز جنگوں کی تیاری رکھیں اور ان کے لیے چاق و چوبند رہیں اور ایسا اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد و استعداد اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی جستجو کے بغیر ممکن نہیں، وہ نبوی منہج کہ جس کا بوجھ دولت اسلامیہ نے اٹھایا ہے پس اسی کے ذریعے ہی مسلمان فتحیاب ہونگے، اور اللہ تو اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
(منقول)
 
Top