• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::::

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



و الصلاۃ و السلام علی رسولہ مُحمد الصّادق المصدوق ، الذی شھد لہ ُ رب العالمین انہ ُ لا ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الا وحی یوحی، فَلا یرفض قولہ الا مَن تبع الھویٰ ، و لا یرغب عن سُنتہ اِلّا قد یکون مِمَن خرج مَن الملۃ ، و لا حول و لا قوۃ الا باللہ ، نَعوذ بہ مِن کل ضلالۃ و مِن کل مَن ضَلَّ و أضلَّ ،
اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو اس کے رسول محمد پر جو اللہ کی طرف سے تصدیق یافتہ سچے ہیں ، جن کے بارے میں رب العالمین نے گواہی دی ہے کہ (((( بے شک وہ اپنی مرضی کے مطابق بات نہیں کرتے ، بلکہ ان کی بات تو اللہ کی طرف سے وحی ہے ))))) پس اُن کا قول صرف وہی رد کرتا ہے جو نفسانی خواہشات کا پیروکار ہوتا ہے ، اور(عین ممکن ہے کہ ) ان کی سُنّت مبارکہ رُو گردانی کرنے والا ملت سے خارج ہونے والوں میں سے ہو جائے ، اور تمام تر قوت اور قدرت اللہ کے لیے ہی ہے ، ہم اللہ ہی کی پناہ طلب کرتے ہیں ہر ایک گمراہی سے اور ہر ایسے شخص سے جو خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے ۔
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::::



السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
:::::: تمہید :::::::



قوانین و ضوابط کے ذکر کے بعد ، اب ان شاء اللہ ، میں اپنے اس تھریڈ کے عنوان :::::: عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::: کے بارے میں کچھ ضروری باتیں پیش کرتا ہوں ، کہ ان کو جانے اور مانے بغیر کسی طور حق تک پہنچنا ممکن نہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی اولاد کی ہدایت کے لیے اور اسے اللہ کی پہچان کروانے کے لیے اسی میں سے اپنے نبی اور رسول علیہم الصلاۃ و السلام چنے ، اور ان نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام کی طرف اپنے آسمانی رسول جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اپنے پیغامات ، احکامات ، ماضی حال اور مستقبل کے غیب کی خبریں ارسال فرمائیں ، جنہیں وحی کہا جاتا ہے ، اور کبھی اللہ کی طرف سے جبرئیل علیہ السلام کو ذریعہ بنائےبغیر بھی وحی جاری رہی ،
پس صحیح عقیدے والے ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام نے اپنی اپنی طرف نازل ہونے والی شریعت میں جو بھی احکام بتائے ، خواہ عقائد سے متعلق ہوں یا عِبادات سے ، یا معاملات و عادات سے، سب اللہ کی طرف سے وحی ہیں ،
اور اسی طرح غیب کی خبروں میں سے جو کچھ بتایا وہ بھی بالیقین اللہ کی طرف سے وحی ہیں ،
اور اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قران کریم کو سابقہ تمام کتابوں کی کسوٹی بنایا ، اپنے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سابقہ تمام نبیوں سے بڑھ کر افضل و اعلیٰ مُقام اور درجہ عطاء فرمایا اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دی جانے والی شریعت کو سابقہ تمام شریعتوں کا ناسخ بنایا ،
اور اسی طرح اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات ، اپنی مخلوق کی ابتداء تخلیق اور انتہاء ، قیامت تک اور قیامت میں اور قیامت کے بعد ہونے والے واقعات میں سے جتنا چاہا اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو بتایا اور اُس میں سے جتنا چاہا آگے بتانے کی اجازت عطاء فرمائی،
اوراللہ کے رسول صلی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاپنے رب کے احکام کے عین مطابق اپنی اُمت کو بتایا ،
اللہ تعالیٰ نے اپنی اختیار کردہ سنت کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور رسول بنایا اور ان کو سابقہ تمام نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام سے ممتاز رکھا ، اس امتیاز میں سے ایک یہ بھی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف اللہ کے احکامات اور پیغامات کو اللہ کی کتاب قران کریم میں سے ہی وحی نہیں کیا جاتا تھا ، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کی جاتی تھی ،
اور اس کی سب سے بڑی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذمہ داریوں میں اللہ تعالی نے یہ بھی مقرر فرمایا تھا کہ (((((بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ::: اور (اے محمد)ہم نے آپ کی طرف ذکر (قران) نازل کیا تا کہ آپ لوگوں کے لیے واضح فرمائیں کہ اُن کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تا کہ وہ غور کریں ))))) سورت النحل / آیت44،
اور مزید تاکید فرمائی کہ (((((وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ::: اور(اے محمد ) ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب صرف اس لیے اتاری ہے کہ یہ لوگ جِس(چیز ) میں (بھی) اِختلاف کرتے ہیں آپ اِن لوگوں پر(اِس کتاب کے مطابق)وہ (چیز)واضح فرما دیجیے ، اور (ہم نے یہ کتاب)ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت (بنا کر نازل کی ہے) ))))) سورت النحل/آیت64،
::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان دو فرامین میں ہمیں بڑی وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب قران حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام مبارک کی وضاحت اور بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذمہ داری تھی ،
لہذا اللہ کی کتاب قران کریم میں سے ہر ایک بات کو سمجھنے کے لیے، اللہ کے اسی کلام کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ یعنی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور عمل مبارک کو دیکھا ہی جائے گا ، اور جو کچھ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک کے قول اور فعل کے طور پر صحیح ثابت شدہ ہو اسے ماننا ہی پڑے گا،
کہ ان صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحی مبارک ہیں ، نہ کہ کسی کے نفس کی آواز (((((مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىOوَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ::: تُم لوگ کے ساتھی (محمد ) نہ تو بھٹکے ہیں اور نہ ہی بہکے ہیں O اور نہ ہی یہ اپنی خواہش سے بات کرتے ہیںO ان کی بات تو یقیناً (اللہ کی طرف سے) کی گئی وحی ہے )))))سُورت النجم /آیت 2تا4،
پس اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین میں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی مراد جاننے کے لیے ، اور اللہ کی طرف سے دی گئی تمام خبروں کو جاننے کے لیے اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کو جانے مانے بغیر حق تک پہنچنا نا ممکن ہے ،
صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کو ترک کر کے قران کریم ، سنت مبارکہ ، عقائد و عبادات ، اور شریعت کا کوئی بھی حکم اور مسئلہ درست پر نہیں سمجھا جا سکتا ،صحیح ثابت شدہ سنّت اللہ کی طرف سے قران فہمی ، اور شریعت کے تمام تر مسائل و احکام میں سے درست او ر نا درست کی پرکھ کی کسوٹی ہے ، اور حجت ہے ،
لغوی قواعد ، منطقی قیاس آرائیاں ، عقلی چہ میگوئیاں ، فلسفیانہ غوطہ بازیاں ، تخیلات کی پروازیں ، سب کی سب قطعا کوئی حجت ، کوئی دلیل نہیں ہیں ، جبکہ تک کہ انہیں اللہ کے کلام سے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ سے سند قبولیت حاصل نہ ہو، ورنہ تو گمراہی ہی گمراہی ہے
یہ تمہید اسلامی قواعد کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک سے ظاہر ہونے والے اقوال و افعال کی شرعی حیثیت اور أہمیت کی وضاحت کے لیے ، اور اللہ کی طرف سے مقرر کردی قران فہمی کی حدود کی وضاحت کے لیے تھی ۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, ,,
سب قارئین کرام سے خصوصی گذارش ہے کہ میرے مضامین اور مراسلات میں عربی اور اُردُو عبارات کو ٹھیک طور پر اعراب کے ساتھ دیکھنے کے لیے درج ذیل فونٹس نصب کر لیجیے ، فورمز میں ان فونٹس کی تبدیلی کرنے میں بھی کافی وقت لگ جاتا ہے ، آپ صاحبان اگر درج ذیل فونٹس اپنی اپنی مشینز پر انسٹال کرلیں تو یہ آپ صاحبان کی طرف سے میرے وقت کی بچت کے لیے ایک مدد ہو گی ، جزاک اللہ خیرا، و السلام علیکم۔


Al qalam quran
Al Qalam Quran.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download

al_Mushaf
Al_Mushaf.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download

Trad Arabic Bold Unicode
Trad Arabic Bold.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download

alvi nastaleeq
Alvi Nastaleeq.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download

و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
میری بات کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے ، براہ مہربانی کوٕئی سوال کوٕئی اعتراض ارسال کرنے سے پہلے میری بات کی تکمیل تک انتظار کیا جإئے ، پیشگی شکریہ ۔


 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
تمہید کے بعد ، اِن شاء اللہ ہمارے اہل سنت و الجماعت کے چاروں بڑے اور دیگر مذاھب و مسالک کے متفقہ عقیدے :::::: عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::: کے بارے میں بالترتیب ،
اللہ کی کتاب کریم ،
اور اللہ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ قولی سُنّت مبارکہ یعنی حدیث شریف ،
اور حسب ء ضرورت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے صحیح ثابت شدہ آثار ،
اور حسب ء ضرورت اُمت کے عظیم القدر اور عالی مرتبہ اماموں رحمہم اللہ کے اقوال پیش کروں گا ،
اور اِن شاء اللہ ، اسی ترتیب کے مطابق ہر ایک حصے میں ، ہمارے دلائل کے بارے میں کیے گئے اعتراضات کے ذکر کے بعد ان کے جوابات بھی پیش کروں گا ،
عین ممکن ہے کہ بات کافی لمبی ہو جائے ، اور شاید بہت سے قارئین کے لیے کافی خشک ہو ، لیکن میری سب ہی قارئین کرام سے گذارش ہے کہ خواہ تھوڑا تھوڑا کر کے ہی سہی ، میری تمام تر گذارشات کا بہت اطمینان اور غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کیجیے گا ، اسے فورمز کا تھریڈ سمجھ کر نہیں ، بلکہ اسلامی عقیدے کے اہم موضوع کی تردید کی تحقیق پر مبنی ایک تحقیقی کتاب ، ایک ریسرچ رپورٹ سمجھ کراس کا مطالعہ کیجیے ،
اورمطالعہ سے پہلے اللہ تبار ک و تعالیٰ سے یہ دُعاضرور کیجیے گا اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے کے اس بنیادی مسئلے میں جو حق ہے وہ ہم سب پر ، ان معلومات کے ہر قاری و سامع پر بالکل واضح کر دے ، اور اسے ماننے کی توفیق دے دے ، ، اور جو باطل ہے وہ بھی ہمیں باطل کی حیثیت میں دکھا دے اور اس کی پہچان کروا کر اس سے بچائے رکھے ، آمین ، ثم آمین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
میری بات ابھی مکمل نہیں ہوٕئی ۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::::: تیسرا حصہ ::: کتاب اللہ سے دلائل ، پہلا حصہ :::::::

::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::::: تیسرا حصہ ::: کتاب اللہ سے دلائل ، پہلا حصہ :::::::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
عربی عبارات کو درست طور پر دیکھنے اور پڑھنے کے لیے درج ذیل فونٹس انسٹال کر لیجیے
Al qalam quran
Al Qalam Quran.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download

al_Mushaf

Al_Mushaf.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ سے پیوستہ ،
::::::: کتاب اللہ قران کریم سے دلائل :::::::


((((( [FONT=Al_Mushaf]وَ مَكَرُوا وَ مَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ[/FONT]O[FONT=Al_Mushaf]إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ [/FONT]::: اور ان لوگوں (بنی اِسرائیل والوں)نے دھوکہ دہی کی اور اللہ نے (اپنی )چال چلی اور اللہ سب سے خیر والی چال چلنے والا ہے O جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں تمہیں مکمل طور پر(پورے کا پورارُوح و جسم سمیت) اپنی طرف بُلند کر لوں گا اور تمہیں کفر کرنے والوں سے نجات دلاوا دوں گا ، اور تمہاری تابع فرمانی کرنے والوں کو کفر کرنے والے پر قیامت کے دن تک فوقیت دوں گا ، پھر تُم سب کو میری ہی طرف پلٹنا ہے ، تو پھر میں تُم لوگوں کے درمیان جو اختلاف ہیں ان کے بارے میں فیصلہ کروں گا))))) سورت آل عمران /آیت 54 اور55،
:::::: ان دو آیات مبارکہ کی تفسیر :::::


ان دو آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف دھوکہ دہی والے منصوبے بنا کر انہیں قتل کرنے کی چال چلنے والوں کا ذکر فرمایا ، اور پھر یہ خبر دی کہ اللہ اپنی چال چلتا ہے جو یقینا ً خیر والی ہوتی ہے اور اللہ سب چالیں چلنے والوں سے بڑھ کر بہترین لیکن خیر والی چال چلتا ہے ،
دوسری آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اس چال کا ذکر فرمایا کہ وہ چال یہ تھی کہ ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے جسم و روح سمیت اپنی طرف بلند کر لے گا ، اور قتل کا منصوبہ بنانے والے یہی سمجھتے رہیں گے کہ عیسیٰ وہیں ہیں ، اور اس طرح اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو ان بد کاروں کے کفر اور دھوکہ دہیوں اور دُشمنی سے نجات دے گا ،
اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے تابع فرمانوں کو ، انکار کرنے والوں پر فوقیت دے دے گا ، ایسی فوقیت جو قیامت تک برقرار رہے گی ،
::::::: اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کی طرف اٹھائے جانے کے وقت جو لوگ ان علیہ السلام کی تابع فرمانی کرنے والے تھے وہ کافروں پر کوئی مادی یا معاشرتی فوقیت حاصل نہ کر سکے تھے ، لہذا یہ یقینی ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تابع فرمانی کرنے والے ، ایسے لوگ جنہیں اللہ نے کفر کرنے والوں پر قیامت تک فوقیت دینے کا وعدہ فرمایا ہے ، ابھی آنے والے ہیں ،
اور یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے تابع فرمان صرف اسی صورت میں مانے جا سکتے ہیں جب وہ عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور احکامات کی پیروی کریں گے ، اِیمان والے ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ انہیں کافروں پر ایمانی فوقیت بھی عطاء فرمائے گا ، اور مادی اور معاشرتی فوقیت بھی ،
اگر کوئی یہ خیال کرے کہ یہاں ایمانی فوقیت کا ذکر ہے ، نہ کہ مادی ، یا معاشرتی فوقیت کا ، تو ،
اسے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی زمین پر موجودگی تک ، اللہ کی توفیق سے عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت قبول کر کے اُن پر اِیمان لاچکے تھے ، اور عیسیٰ علیہ السلام کی تابع فرمانی کرتے تھے ، وہ لوگ کافروں پر اِیمانی فوقیت کے حامل تو ہو ہی چکے تھے ، لہذا اللہ عزّ و جلّ نے یہاں ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے بلکہ یقیناً ان کا ذکر فرمایا ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کی طرف اُٹھائے جانے تک اُن پر اِیمان نہیں لائے ، اور نہ ہی ان کے تابع فرمان ہوئے ، اور اُن علیہ السلام کے نزول کے بعداُن کی تابع فرمانی اختیار کریں گے ،
اور اگر کوئی یہ سوچے کہ یہ خوش خبری تو عیسائیوں کے لیے ہو گئی ، کیونکہ وہ بھی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں ، اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ،
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ، جی نہیں ، کیونکہ عیسیٰ ٰ علیہ السلام کے اللہ کی طرف اٹھائے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات مفقود ہونا شروع ہو گئیں اور اسلام کے ظہور سے پہلے تک تقریبا ساری ہی تبدیل کر دی جا چکی تھیں ،
پس عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کی طرف اُٹھائے جانے کے بعد نہ تو کسی عیسائی کا اُن پر اِیمان درست رہا کہ وہ انہیں معاذ اللہ ، اللہ کا بیٹا ماننے لگے اور اب تک مانتے ہیں ،
اور نہ ہی عیسیٰ علیہ السلام کی وہ تعلیمات باقی رہیں جو اللہ کی طرف سے لوگوں تک پہنچائی گئی تھیں ، پس عیسائی نام کے عیسائی ہی ہو رہے اور ہیں ، نہ تو وہ عیسیٰ علیہ السلام پر اِیمان والے ہیں ، اور نہ ہی ان کے تابع فرمان ،
لہذا اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اس بیان مبارک میں ، عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرنے والوں کے لیے تا قیامت مستقل فوقیت کے بارے میں دی گئی خبر کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پھر سے تشریف لائیں اور انسانوں کو تعلیم و احکام مرحمت فرمائیں ، تو جو کوئی ان کی بات مانے گا ، ان کی تابع فرمانی کرے گا اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق انہیں ہر ایک منکر پر قیامت تک کے لیے فوقیت دے گا ،
اس خبر میں ایک اور بات یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جو عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کریں گے ان کا سلسلہ بلا انقطاع قیامت تک چکے گا ، اور انہیں کافروں پر مستقل فوقیت رہے گی ،
((( جی خیال رہے کہ یہ ایک الگ کیفیت ہے کہ قیامت کے بالکل قریبی لمحات میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو موت دے دے گا ، کیونکہ قیامت صرف شریر ترین لوگوں پر قائم کی جائے گی )))
پھر ، بشمول عیسیٰ علیہ السلام جب جب جس جس کی موت کا مقرر وقت آتا رہے گا وہ مرتا جائے گا ، اور سب کے سب قیامت والے دن اپنے اللہ کی طرف پلٹیں گے ، اور جن جن باتوں اور معاملات میں اختلاف کرتے تھے اللہ ان کا فیصلہ کرے گا۔
اسی فوقیت میں سے یہ بھی ہو گا کہ عیسیٰ علیہ السلام کسی اہل کتاب کے لیے ، اسلام کے علاوہ کسی بھی اور دِین یا مذھب کے ماننے والے کے لیے اُس کے دِین پر قائم رہنے کی گنجائش برقرار نہ رکھیں گے ، لہذا جزیہ قبول نہ کریں گے ،
کافر کے لیے دو ہی صورتیں باقی رکھیں گے ،(1) یا اسلام قبول کرے گا، یا (2) مسلمانوں کے ہاتھوں میدان جِہاد میں قتل ہو گا (تفسیر ابن کثیر ، دیگر کتب التفسیر)،
:::::: یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد کوئی نئی تعلیمات یا احکامات لے کر نہیں آئیں گے ، بلکہ ہمارے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب اور اللہ کی شریعت کے مطابق ہی سب کچھ کروائیں گے ،
جزیہ موقوف کرنا بمعنی اسے قبول نہ کرنا ہے اور ایسا کرنا شریعتء محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و السلام کے خلاف نہیں ہوگا ، اور نہ ہی کوئی نئی بات ہو گی ، بلکہ شریعت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و السلام کے عین مطابق ہو گا ، کیونکہ شریعت بنانے والےاللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صاحبء شریعت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے خود ہی اس کی خبرکروائی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جزیہ قبول نہ کیا کریں گے ، لہذا یہ خبر ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی فرمان اور اسلامی شریعت کے کسی حکم یا قانون کے خلاف نہیں ،
بلکہ اس خبر میں پیشگی منظوری ظاہر کی گئی ہے ، و للہ الحمد ،
::: وضاحت ::: مذکورہ بالا تفسیر کسی کے خود ساختہ خیالات پر منحصر نہیں ، بلکہ قران کریم کی دیگر آیات ، صحیح ثابت شدہ احادیث ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین اور امت کے اماموں کے اقوال کے مطابق بیان کی گئی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ان شاء اللہ اگلء حصے میں مزید قرانی دلائل پیش کروں گا ، اور اس کے بعد اعتراضات اور ان کے دلائل اور ان کے لیے جوابات ، باذن اللہ ، و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
میری بات ابھی جاری ہے ۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::::: عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ سلامت ، پورے کے پورے ، رُوح اور جِسم کے ساتھ ہی اللہ کی طرف بلند کیے جانے اور پھر سے واپس نازل ہونے کے مزید قرانی دلائل درج ذیل ہیں :::::::
پہلے ذکر کردہ سورت آل عمران کی آیات 54 اور55، میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہودیوں کی مکروہ چال کو ناکام کرنے کا ذکر کیا ، اور اس کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ اس چال کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح ناکام بنایا ، اور یہودیوں کو اس خوش فہمی میں مبتلا رہنے دیا کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا ، پھر جب اللہ کی مشیئت میں ہوا ، اور اس کی بے عیب حکمت کے مطابق مقرر وقت آیا تو اللہ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل کی گئی آخری کتاب قران حکیم میں ساری بات بیان فرما دی ،
آیے اس کا مطالعہ کرتے ہیں :::
((((( وَ قَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ::: اور ان کا یہ کہنا کہ ہم (یعنی یہودیوں )نے مریم کے بیٹے ، اللہ کے رسول ،مسیح کو قتل کر دیا ، (بالکل غکط ہے کیونکہ) انہوں نے نہ تو مسیح کو قتل کیا ، اور نہ ہی اسے صلیب پر چڑھایا ، اور(وہ جو کچھ تھا)لیکن ان کے لیے(عیسیٰ کی) تشبیہ دے دی گئی تھی ، اور جو لوگ اس معاملے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اس معاملے کے بارے میں شک ہی کرتے ہیں انہیں اس معاملے کا کوئی علم نہیں(ہے کہ عیسیٰ کو قتل کر دیا گیا )سوائے اس کے کہ وہ لوگ اپنے خیالوں کی پیروی کرتے ہیں ، اور ان یہودیوں نے یقیناً عیسیٰ کو قتل نہیں کیا))))) سُورت النساء /آیت157 ،
اچھا تو اے ہمارے اللہ ، آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کی تشبیہ وہاں ظاہر فرمائی ، جسے یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر قتل کیا ، صلیب پر چڑھایا ، لیکن اے اللہ عیسیٰ علیہ السلام کا کیا معاملہ ہوا ؟؟؟
((((( بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ::: بلکہ اللہ نے عیسیٰ کو اپنی طرف بلند کر لیا ، اور یقیناً اللہ تعالیٰ بہت زبردست اور حکمت والا ہے ))))) سُورت النساء /آیت158 ،
حق ارشاد فرمایا ، اے اللہ یقیناً تُو بہت زبردست اور حکمت والا ہے ، تیری بے عیب حکمت میں جس طرح مقررہوا تُو نے اُسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف بلند فرما لیا ،
اے اللہ جل جلاک ، تیرے یہ سب فرامین ہمارے لیے تو اس معاملے میں یقین کے اعلی ترین مقام پر پہنچانے والے ہیں کہ تُو نے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سلامت ،پورے کا پورا ، رُوح اور جِسم کے ساتھ اپنی طرف بلند فرما لیا ، اور پھر انہیں نازل فرمائے گا ،
لیکن اللہ پاک ، تیرے ان ہی مقدس و پاکیزہ فرامین کو پڑھنے والوں میں سے ہی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام مر چکے ہیں ، تُو نے انہیں زندہ سلامت جِسم و رُوح کے ساتھ اپنی طرف بلند نہیں کیا ، اور نہ ہی وہ دوبارہ نازل ہونے والے ہیں ، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تُو نے اپنی کتاب قران کریم میں ایسی کوئی بات نہیں فرمائی جو عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے اور پھر سے دُنیا میں نازل ہونے کا ثبوت ہو
؟؟؟
اور اے ہمارے رب ، ہم تو اس بات کو مانتے ہیں کہ تُو نے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سلامت ، پورے کا پورا ، جِسم و رُوح سمیت اپنی طرف بلند کر لیا ہے ، لیکن ہمیں تیرے اِس کام میں تیری حِکمت سمجھنے کی آرز ُو بھی ہے ، اللہ پاک ایسا کرنے میں تیری کیا حِکمت ہے
؟؟؟
جبکہ اے اللہ پاک تیرے دوسرے نبیوں اور رسولوں علیہم السلام پر بھی تو بڑی مصیبتیں ٹوٹتی رہی ہیں ، تُو نے ان میں سے کسی کو اِس طرح اپنی طرف بلند نہیں فرمایا ، اس میں تیری کیا حکمت ہے ؟؟؟

(((((وَ إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ::: اور بے شک اھل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر اِیمان نہ لائے ، اور قیامت والے دن عیسیٰ ان سب پر گواہ ہوں گے))))) سُورت النساء /آیت159 ،
اس آیت مبارکہ میں بڑی صراحت سے یہ بیان ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب ، یعنی یہودی اور عیسائی اور جو بھی کسی آسمانی کتاب کو ماننے والے اس وقت ہوں گے ، سب ہی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے ،

ہم میں سے کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا کہ تمام کے تمام اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا رسول مان کر ان پر ایمان لے آئے ہوں ، نہ ہی عیسیٰ علیہ السلام کے دُنیا میں موجود ہونے کے وقت ایسا ہوا اور نہ ہی بعد میں ،
پس یہ زندہ ، تا حال مستقل وجود رکھنے والی اور ناقابل فراموش حسی حقیقت اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع نہیں ہوئی ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں زندہ سلامت پورے کا پورا اپنی طرف بلند فرما رکھا ہے ، اور اپنی اِن مذکورہ بالا فرامین میں دی گئی خبروں کو سچ کر دکھانے کے لیے انہیں دوبارہ زمین پر نازل فرمائے گا ،

قارئین کرام ، توجہ فرمایے کہ اگر اس ثبوت کو نہ مانا جائے ، آیت کریمہ کے اس معنیٰ کو نہ مانا جائے ، کچھ یوں تاویل کی جاتی رہے کہ اس آیت میں اللہ کی طرف بلند کیے جانے کا ذِکر ہے ، عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ رہنے کا تو نہیں ، انہیں موت دے کر ہی ، مار کر ہی اللہ کی طرف بلند کیا گیا تھا ، اور یہود و نصاریٰ کی حمایت میں یہ ہی کہا جاتا رہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مر چکے ہیں تو بلا شک ایسا کہنا اللہ تعالیٰ کے ان تمام مذکورہ بالا فرامین کا انکار ہو جاتا ہے ،
اس انکار پر مصر رہنے والوں کو اللہ ہی ہدایت دینے پر قادر ہے ،

((((( وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ::: اور ہماری ذمہ داری واضح طور پر بات بیان کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں )))))
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::: پانچواں حصہ ::::: کتاب اللہ سے دلائل ، تیسرا (آخری حصہ) :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ((((( إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ O وَ يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ ::: اور جب فرشتوں نے (مریم سے )کہا ، اے مریم بے شک اللہ تجھے اُس کے پاس سے(اُس کی ) ایک بات(" کُن "کے ذریعے ملنے والے بچے ) کی خوش خبری دیتا ہے اُس کا نام ہو گا مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا ، جو دُنیا اور آخرت میں بڑی عِزت و رُتبے والا ہو گا ، اور(اللہ کے ہاں)قریبی لوگوں میں سے ہوگا O اور(بالکل شیر خواری دودھ پینے کی عُمر میں تیری )گود میں(سے) اور ادھیڑ عُمری میں لوگوں کے ساتھ باتیں کرے گا ، اور نیکوکار وں میں سے ہو گا)))))سورت آل عمران /آیت 45 اور46،
(((((
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ،،،،،::: اور جب (قیامت والے دِن ) اللہ کہے گا ، اے مریم کے بیٹے عیسیٰ تُم پر اور تُمہاری والدہ پر میری نعمتیں یاد کرو جب میں نے جبرئیل(علیہ السلام)کے ذریعے تُماری مدد کی ،(اور پھر اس مدد کی وجہ سے) تُم نے(شیر خواری یعنی دُودھ پینے کی عُمر میں اپنی ماں کی ) گود میں سے ، اور (پھر)ادھیڑ عُمری میں لوگوں سے باتیں کیں)))))سُورت المائدہ/آیت 110،
ان دونوں آیات میں کسی اشکال کے بغیر واضح ترین الفاظ میں یہ خبر دی گئی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام شیر خواری یعنی دُودھ پینے کی عمر میں ، اپنی والدہ کی گود میں سے بھی لوگوں سے باتیں کریں گے ، جو کہ ہو چکا ،
اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلا م ادھیڑ عمری میں بھی لوگوں سے باتیں کریں گے ، جو یقیناً ابھی تک نہیں ہوا ، اور اُسی وقت ہو سکتا ہے جب عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں سے دُنیا میں نازل ہوں گے ،

اس بات کابھی کسی کے پاس کوئی شرعی اور علمی طور پرمقبول ثبوت نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ادھیڑ عُمری کے بعد فوت ہو چکے ہیں ،
:::::::جو لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے مر چکنے کی بات کرتے ہیں ، خواہ کافروں میں سے ہوں یا کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں میں سے ، یا مسلمانوں جیسے نظر آنے والوں میں سے ، ان سب کے لیےایک سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی صحیح ،قابل قبول علمی ثبوت کے ساتھ یہ بتائیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی اُس وقت کیا عُمر تھی جب اِن لوگوں کے گمان کے مطابق اُن علیہ السلام کی موت واقع ہوئی ؟؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہم سب کو ہر معاملے میں ہدایت دے ، ضد ، تعصب اور خود پرستی سے نجات دے ، اور ان میں سے نہ بننے دے جن کی اس نے یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ (((((
وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ:::اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ(کی ناراضگی اور عذاب)سے بچو تو اُس کی عزتء نفس اسے گناہ کے ساتھ تھام لیتی ہے پس اس کے لیے جہنم ہی کافی ہے اور کیا ہی برا ٹھکانہ ہے))))) سُورت البقرہ /آیت206 ،
بلکہ حق جاننے ماننے اپنانے او ر اسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق دے ، اور ان میں سے بنائے جن کا شعار اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ (((((
وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ ::: اور ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم اللہ پر اِیمان نہ لائیں اور اُس پر اِیمان نہ لائیں جو کچھ ہمارے پاس حق میں سے آگیا ہے اور ہم یہ لالچ رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ (جنّت )میں داخل فرما دے)))))سُورت المائدہ/آیت84،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::::::: یہاں تک کی معلومات کی روشنی میں یہ نکتہ بھی بہت اچھی طرح سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حدود سے خارج ہو کرمحض قیاس آرائیوں کی بنیاد پر ، خود ساختہ مزعوم قران فہمی کی آڑ میں ، اپنی سوچوں اور فلسفوں کے مطابق اللہ کے کلام کی تاویلات کے بھروسے پر ، عیسیٰ علیہ السلام کے مر چکنے ،پورے کے پورے ، زندہ سلامت ، رُوح وجسم سمیت اللہ کی طرف بلند نہ کیے جانے ، اور دُنیا میں نازل نہ ہونے کے دعوے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان سب مذکورہ بالا فرامین مبارکہ کا انکار ، اور یہود و نصاریٰ کے دعوے کی تصدیق بن جاتے ہیں ،
ولا حول و لا قوۃ الا باللہ ، و نعوذ بہ من کل ضلالۃ ::: اور اللہ ہی تمام تر قوت و قدرت رکھنے والا ہے ، اور ہم اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ہر گمراہی سے ،
اللہ کرے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے ، اور زندہ سلامت پورے کے پورے ، رُوح اور جسم سمیت اللہ کی طرف اٹھائے جانے کی نفی کرنے والوں کو یہ سب آیات کریمہ سمجھ میں آجائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد اِن شاء اللہ اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کروں گا اور پھر اِن شاء اللہ ان کے اعتراضات پیش کر کے اُن اعتراضات کے جوابات ۔ و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::: چَھٹا حصہ :::::
::::::: نہ ماننے والوں کے اعتراضات کے بارے میں کچھ وضاحت :::::::
اِن آیات شریفہ کے بیان کے بعداور احادیث مبارکہ کا ذکر کرنے سے پہلے ، اب اِن شاء اللہ ، اِن آیات کے مفہوم کو کچھ اور طرح سے سمجھنے کی بنیاد پر عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا انکار کرنے والوں کی طرف سے کیے گئے اعتراضات پیش کر کے ان کے جوابات پیش کرتا ہوں ،
لیکن اس سے پہلے ان کے اعتراضات کے بارے میں کچھ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ، تا کہ اِن شاء اللہ قارئین کرام پر یہ واضح ہو جائے کہ اب تک جو کچھ ان کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس سے انکار ، یا اس کی کوئی تاویل کرنا قطعا ً درست نہیں ،

اس مُقام سے آگے چلنے سے پہلے تمام محترم قارئین سے خصوصی گذارش ہے کہ جس قدر توجہ سے آپ مطالعہ کرتے چلے آئے ہیں اس سے کہیں زیادہ توجہ اور دِل و دِماغ کی حاضری کے ساتھ آگے چلیے گا ، اور اللہ سے دُعا کرتے چلیے گا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اس زیر مطالعے مسئلے میں بھی ہم سب پر حق واضح فرما دے ، اور ہر باطل کو پہچان کر اس سے دور رہنے کی ہمت دے دے اور اس سے محفوظ فرما دے،
میری طرف سے نقل کیے گئے قرانی دلائل میں سے سب سے پہلے ذکر کی گئی دو آیات میں سے دوسری آیت یعنی سورت آل عمران کی آیت رقم 55 میں فرمائے گئے ""' متوفیک """ کے معانی کو بنیاد بنا کر اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ اس میں ""' متوفیک """ کا مطلب """ میں تمہیں موت دوں گا """ ہے ،
انہیں یہ غلط فہمی اس لیے ہوئی کہ وہ """ متوفیک """ کا صرف ایک لغوی معنی لیے بیٹھے ہیں ، اور یہ نہیں دیکھتے کہ اسی آیت کریمہ کا سیاق و سباق ، اس موضوع سے متعلق دوسری آیات مبارکہ کے مفہوم ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے صحیح ثابت شدہ احادیث میں وارد خبروں ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی اکثریت ، تابعین تبع تابعین رحمہم اللہ کی اکثریت اور سوادء اعٖظم ، یعنی اہل سنت و الجماعت کے تمام مذاھب ومسالک کے اماموں رحمہم اللہ کے اقوال میں """ متوفیک """ کا کیا مفہوم بیان ہوا ہے ،
قران کریم کی مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں اس """ متوفیک """ کا معنی اور مفہوم صاف عیاں ہے ،
پس قران کریم میں سے تو اعتراض کرنے والے اس """ متوفیک """ کو """ میں تمہیں موت دوں گا """ کے مفہوم میں ثابت نہیں کر سکتے ،
لیکن عربی ز ُبان میں اس کے معانی اور مفاہیم کے ذریعے اعتراض کرتے ہیں ، اور پھر اسی لغوی معنی کی تائید کے لیے کچھ آیات بھی پیش کرتے ہیں ،
جی یہ درست ہے کہ """ متوفیک """ کا لغوی اعتبار سے وہ معنی بھی بنتا ہے جو یہ معترضین کہتے ہیں ، لیکن ،،، آیات اللہ کو صرف لغت کے مطابق نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ سیاق و سباق اور اللہ کے کلام ، اللہ کی وحی کے مطابق کلام فرمانے والے اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین ، ان کے شاگردوں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور پھر ان کے شاگردوں تابعین رحمہم اللہ ، اور ان کے بعد ان کی پیروی کرنے والے امت کے دیگر عُلماء اور ائمہ کرام رحمہم اللہ جمعیاً کی بیان کردہ تفسیر و شرح کے مطابق ہی درست قران فہمی ہو سکتی ہے ،

((( قران فہمی کے درست طریقے کو سمجھنے کے لیے درج ذیل مضامین کا مطالعہ اِن شاء اللہ مفید ہو گا )))
ایک اور غلط فہمی انہیں اس آیت مبارکہ میں """ متوفیک """ اور """ رافعک """ کی قولی ترتیب کی وجہ سے یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں کام اسی ترتیب سے ہو چکے ہیں
یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو موت دہنے کے بعد ہی اللہ کی طرف بلند کیا گیا ہے ،
اور نا درست طور پر لغوی معانی پر ہی انحصار کرتے ہوئے ہوئے ان صاحبان میں سے ایک بھائی کی طرف سے ایک اور """خلاف ء قران """ تاویل بھی دیکھنے میں آئی ہے، جس کا ذِکر ان شاء اللہ لفظ """ رفع """ کو بنیاد بنا کر کیے گئے اعتراض کے جواب میں کروں گا ،
ان اعتراضات میں سے تقریبا سب ہی کا اور دیگر کئی باتوں کا جواب میں بہت عرصہ پہلے ، عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا انکار کرنے والوں کے بڑے صاحب کو دے چکا ہوں ،
اس کے بعداِن شاء اللہ میں یہاں اُن لوگوں کے اعتراضات ذکر کرنے کے بعد اپنے جوابات کو یہاں کی گفتگو کے مطابق پیش کروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::: ساتواں حصہ ::::: اعتراضات اور جوابات ::::::: پہلا حصہ ::: پہلے اور دُوسرے اعتراض کا جواب :::::::
::::::: پہلا اعتراض :::::::
::: معترضین یعنی اعتراض کرنے والے کہتے ہیں :::
کیا یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ پہلے تم کو "متوفی کروں گا" وفات دوں گا اور دوم تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا؟
::::::: دوسرا اعتراض :::::::
لفظ متوفی کیا قرآن میں وفات یعنی موت واقع ہوجانے کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے کہ ایک شخص کا وقت پورا ہوگیا، تکمیل ہوگئی، پورا ہوگیا۔ اگر پورا ہوگیا تو باقی کیا بچا؟
::::::: دونوں اعتراضات کا مخلوطہ :::::::
قرآن کہتا ہے کہ "وفات" کے بعد "ارفع"‌ کیا۔ یہ وفات ، عمر کا پورا ہونا، نیند آنا، مکمل ہونا، موت آنا تو ممکن ہے۔ لیکن یہ زندہ رہنا کیسے ہوا ؟
اور کچھ اس قسم کی باتیں لکھتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ قران کریم میں"""وفات """بمعنی موت بھی استعمال ہوا ہے اس لیے یہاں بھی """
متوفیکَ """ کا معنیٰ """میں تمہیں موت دوں گا """ ہی ہے ، اور قولی ترتیب کے مطابق پہلے موت دی گئی اور پھر اٹھایا گیا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: پہلے اور دُوسرے اعتراض اور دونوں اعتراضات کے مخلوطے کے جوابات :::::::
ہمارے پاس سورت آل عمران کی آیت مبارکہ رقم 55 ((((( إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ::: جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں تمہیں مکمل طور پر(پورے کا پورارُوح و جسم سمیت) قبضے میں لے لوں گا اپنی طرف بُلند کر لوں گا اور تمہیں کفر کرنے والوں سے نجات دلاوا دوں گا ، اور تمہاری تابع فرمانی کرنے والوں کو کفر کرنے والے پر قیامت کے دن تک فوقیت دوں گا ، پھر تُم سب کو میری ہی طرف پلٹنا ہے ، تو پھر میں تُم لوگوں کے درمیان جو اختلاف ہیں ان کے بارے میں فیصلہ کروں گا)))))کو بالکل اُسی طرح سمجھنے کے لیے قران کریم میں سے ہی دلائل موجود ہیں جس طرح کہ صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں عیسی علیہ السلام کے بارے میں خبر موجود ہے ، اور جس طرح میں نے اِس آیت مبارکہ کی کچھ تفسیر پیش کی ہے ، آیے دیکھتے ہیں :::
::::: (1) ::::: لفظ """ متوفی """ کا اصل مادہ """ وفیٰ """ ہے اور اس مادے سے لفظ """ متوفی """ قُران پاک میں بمعنی """ موت دینے """ یا """ موت ہونے """ کے مفہوم میں ہی تو استعمال نہیں ہوا ،
بھتیجے عبداللہ حیدر نے ایک مراسلہ رقم میں لکھا تھا کہ :::
""""""عربی زبان کی گہرائی سے آپ بخوبی واقف ہوں گے اس لیے اشارہ ہی کافی ہے کہ اس بے مثل زبان میں ایک ہی لفظ بسا اوقات ستر ستر معنوں میں استعمال ہوتا ہے جسے سیاق و سباق سے سمجھا جاتا ہے، "وفات" ہی کو لے لیجیے، ایسے ایسے استعمال ملتے ہیں کہ غیر عرب حیران ہو کر رہ جائے۔ عربی کی معتبر ترین لغت لسان العرب سے دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

تَوَفَّيتُ المالَ منه
لفظی مطلب: """ میں نے اس کے مال کو "وفات"دے دی"""
حقیقی مراد: """میں نے اس کا سارا مال لے لیا """
ایک اور مثال:

تَوَفَّيتُ عَدَد القومِ
لفظی مطلب: """میں نے قوم کے سب افراد کو وفات دی"""
حقیقی مراد: """میں نے قوم کے سب افراد کو شمار کیا """ ،،،،،، """""۔
(عبداللہ حیدر کی بات سے اقتباس مکمل ہوا)۔
اور اب میں کہتا ہوں کہ اعتراضات کرنے والے صاحبان حسب معمول یا تو ان سب باتوں کو دیکھے بغیر اپنی ہی دُھن میں مگن اپنی بات کرتے چلے جاتے ہیں یا پھرانہیں ان باتوں کی سمجھ ہی نہیں آتی ، یا سمجھ کر بھی انجان بنتے ہوئے اپنی بات کا واویلا کرنا ہی ان کا مشغلہ ہے ،
اِن کُنتَ لا تدری فتلک المصیبۃ ::: و اِن کُنتَ تدری فالمصیبۃ أعظم
اگر تُم نہیں جانتے تو یہ ہی مُصیبت ہے ::: اور اگر تُم جانتے ہو تو یہ اُس سے بڑی مُصیبت ہے

واللہ أعلم بالصواب ،
یہاں یہ بات خوب اچھی طرح سوچنے اور سمجھنے کی ہے یہ اعتراض کرنے والے صاحبان عیسی علیہ السلام کے تا حال زندہ ہونے اور اُن کے نازل کیے جانے سے متعلق بات کرتے ہوئے """
توفیٰ """ کا معنی اور مفہوم صرف """ موت ""' کے لیے کیسے """ مُقیّد """ کر رہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
کیوں اپنی اس غلط فہمی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث کے انکار کا مرتکب ہو کر اہانت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا مرتکب ہو رہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
مجھے ان سوالات کے جوابات درکار نہیں ،یہ سوالات صرف قارئین کرام کی سوچ کو متوجہ کرنے کے لیے ہیں کہ وہ سوچیں کہ ان سب سوالات کے جوابات کن امکانیات کی طرف اشارہ کُناں ہو سکتے ہیں ؟؟؟
یاد رکھنے کی بات ہے کہ ، آغاز امر سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین ، اور ساری امت کے عُلماء کی بہت بڑی اکثریت نے یہاں اس آیت یعنی سورت آل عمران کی آیت 55 میں """
متوفیکَ """ میں """ وفات """ کا معنیٰ """ نیند """ لیا ہے ،
پس اگر کہیں کوئی کسی خود ساختہ سوچ و فکر، من گھڑت فلسفوں ، اپنی لا علمی ، یا کم علمی ، یا اپنے ہی بنائے قران فہمی کے مسلک اور دِین فہمی کے منھج کی بنا پر ، دوسروں پر الزام لگا لگا کر ، """ عیسائیوں اور یہودیوں """کے عقائد کو قران سے ثابت کرنے کی کوشش میں صحیح ثابت شدہ سنّت مبارکہ کا انکار کرے تو کوئی سلیم العقل مسلمان اس کی بات ماننے والا نہ ہو گا ، بلکہ وہ دیکھے گا ، اور اس میں تدبر کرے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی فرمان کا مفہوم اللہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور ان کے شاگردوں رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور ان کے شاگردوں رحمہم اللہ جمعیاً نے کیا بیان کیا ہے ، و ذلک احسن تاویلا ،
================================

::::: (2) ::::: میری بات کے آغاز میں قران کریم کی آیات مبارکہ کی روشنی میں بڑی وضاحت سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ سورت آل عمران کی آیت مبارکہ رقم55 میں """متوفیکَ """ میں سے """ توفیٰ """ کا معنیٰ اور مفہوم یہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سلامت ، پورے کا پورا، رُوح اور جسم سمیت اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں لے لیا ،
قران کریم کے دلائل کے مطابق یہ معنی ٰ اور مفہوم عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سلامت اللہ کی طرف اٹھا ئے جانے اور پھر ان کے دوبارہ اتارے جانے کے بارے میں وارد ہونے والی صحیح احادیث کی مکمل موافقت فراہم کرتا ہے ، لہذا ان احادیث مبارکہ میں کہیں قران کریم کے خلاف کچھ نہیں ہے ،
مخالفت یا تضاد ،قران کریم اور صحیح احادیث شریفہ کے مابین نہیں بلکہ یقیناً مخالفت اعتراضات کرنے والوں کی """خلاف ء قران ، قران فہمی """میں ہے ، جِس کی بنا پر وہ قران کریم میں اللہ کے کلام کے مفاہیم اپنے ہی طور سمجھتے ہیں اور پھر اسی """ فہم """ کے مطابق ان مفاہیم کو کسوٹی بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کو رد کرتے ہیں ،

چلیے اب اِن شاء اللہ ، """ متوفی ٰ """کے بارے میں لغت کے مطابق بھی کچھ سمجھتے ہیں ، اور اِن شاء اللہ قران فہمی کے درست منھج کے مطابق ہم صرف لغت کے ذریعے ہی سمجھنے پر اکتفاء نہیں کریں گے ، بلکہ اس لغوی مفہوم کے لیے اللہ کے کلام کی تصدیق بھی دکھائیں گے ،
دو معانی اور مفہوم تو عبداللہ حیدر نےاپنے مراسلے میں ذکر کیے تھے، اِن شاء اللہ میں بھی کچھ مزید بات لغوی قواعد کے رُو سے کرتا ہوں ،

اس آیت مبارکہ یعنی سورت آل عمران کی آیت 55 میں """ متوفیکَ """ میں استعمال ہونے والے """ توفی ٰ """ کا استعمال لغت کے حقیقی مفہوم کے مطابق ہوا ہے ،
لغت کے حقیقی مفہوم کا مفہوم یہ ہے کہ """""ایسا معنی ٰ جو لغت میں بنیادی طورپر اور عام طور پر استعمال میں ہو """""
،
اور ""' توفی ٰ""" کے عام معنوں میں سے بنیادی معنی کسی چیز کو مکمل ، بغیر کسی کمی اور نُقص کے قبضے لے لینا ہے ،
جیسا کہ اہل زبان ، عرب کہتے ہیں (عبداللہ حیدر نے اپنے مراسلے میں مختصراً اس کا ذکر بھی کیا ہے) اور میں اس کو مکمل طور پر ذکر کرتا ہوں کہ """"""
و تَوَفَّـيتُ الـمالَ مِنه و استوفَـيته إِذا أَخذتهُ كُلّهُ ::: میں نے اس سے مال لے لیا اور اس مال پر قنضہ کر لیا جب میں نے اس کو مکمل طور پر لے لیا """"" دیکھیے لسان العرب ، مادہ """ وفی ٰ """ ،
اور کہا جاتا ہے """""
توفیٰ فُلانٌ دینہُ فھو مُتوفٍ لہُ اِذا قِبضہُ و حازہ اِلیہ کا ملاً مِن غیر نقصٍ ::: فُلان نے اپنا قرض لے لیا پس وہ اس کو وفات دینے والا ہوا جب اُس نے اُس کو اپنی طرف لے لیا اور اس پر مکمل طور پر قابض ہو گیا """""
تو لغوی طور پر بھی یہ ثابت ہے کہ """ توفیٰ""' کا معنی اور مفہوم""" کسی چیز کو مکمل طور پر ، کسی کمی کے بغیر اپنے قبضے میں لینا ، اور اسی طرح کسی کمی کے بغیر اس کو ادا کرنا """ ہے ،
اِس لغوی مفہوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب قران کریم میں قبولیت عطاء فرماتے ہوئے استعمال فرمایا ہے ، اللہ کے درج ذیل فرامین مبارکہ ملاحظہ فرمایے:::

(((((وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ::: اور اس دن سے بچو جس دِن اللہ کی طرف پلٹائے جا ؤ گے ، پھر ہر کسی کو اس کی کمائی کا پورے کا پورے بدلہ دے دیا جائے گا اور لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا )))))سورت البقرہ /آیت281 ،
(((((
وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ::: اور کسی نبی کی شان کے مطابق ہی نہیں کہ وہ خیانت کرے ، اور جو کوئی خیانت کرے گا قیامت والے دِن اُس چیز کو لائے گا جسے خیانت کے ذریعے لیا تھا ، پھر ہر کوئی پورے کا پورے وہ کچھ پالے گا جو اس نے کمایا تھا اور لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا)))))سورت آل عمران /آیت161 ،
(((((
يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ::: جس دن ہر شخص اپنے ہی لیے جھگڑتا ہو آئے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا(کسی کمی کے بغیر ) بدلہ دیا جائے گا اوران پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا )))))سورت النحل /آیت 111،
(((((
لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ::: تاکہ الله انہیں ان کے اجر پورے کے پورے(کسی کمی کے بغیر ) دے دے اور انہیں اپنے فضل سے زیادہ دےبے شک وہ بخشنے والا قدردان ہے ))))) سورت الفاطر /آیت 30،
(((((
وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ ::: اورہر شخص کو جو کچھ اس نے کیا تھا پورا پورا(کسی کمی کے بغیر ) بدلہ دیا جائے گا اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں )))))سورت الزُمر/آیت70،
(((((
وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا وَ لِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ::: اور ہر ایک کے لیے اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ہیں تاکہ الله انہیں ان کے اعمال کا پورے کا پورا (کسی کمی کے بغیر ) عوض دے دے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا ))))) سورت الاحقاف/آیت 19،
(((((
أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ::: پیمانہ پورے کا پورا (کسی کمی کے بغیر ) دو اور نقصان دینے والے نہ بنو ))))) سورت الشعراء/آیت 181،
((( میں نے مذکورہ بالا آیات میں ایک ہی جیسی عبارات کا ترجمہ مختلف اسلوب میں کیا ہے ، تا کہ ترجمے پڑھ کر قران سمجھنے والے بھائی بہنوں کے لیے یہ واضح رہے کہ تراجم کے مختلف الفاظ و انداز کے باوجود بھی ان آیات مبارکہ کا مفہوم ایک ہی ہے )))
لفظ """ توفی ٰ""" کا لغت کے مطابق ذِکر کردہ معنی اور مفہوم کو اللہ کے کلام کی تصدیق حاصل ہونے کے مطابق میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ یہ حقیقی معنی اور مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کی موافقت کرتا ہے ، وہ احادیث شریفہ جو قران پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان
((((( إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ ،،،،، ::: میں تمہیں مکمل طور پر پورے کا پورا اپنی طرف بُلند کر لوں گا ،،،،، ))))) کی شرح اور تفسیر ہیں ، کسی مخالفت والی نہیں ہیں ،
اس آیت مبارکہ ، اور ابھی ابھی ذِکر کردہ دیگر آیات شریفہ میں جو انداز کلام ء اختیار کیا گیا ہے ، اس انداز بیان کو کہا جاتا ہے """""
تقدیم الحقیقۃ اللغویۃ علی الحقیقۃ العُرفیۃ ::: لغت کے مطابق کسی لفظ کے حقیقی مفہوم کو اس لفظ کے عام معروف مفہوم پر أولیت دیتے ہوئے با ت کرنا"""""،
یہ اسلوب اللہ پاک کے کلام میں بہت مقامات پر موجود ہے ، جس کی دلیل ابھی ابھی ذکر کی گئی آیات مبارکہ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اس معنی ٰ کی طرف آتے ہیں جسے لے کراعتراض کرنے والے عیسیٰ علیہ السلام کے واپس نازل ہونے کی خبر پر مشتمل تمام متواتر صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کو معاذ اللہ غلط قرار دیتے ہیں ،
اور وہ معنی ہے """ موت دینا """ ،
جی ہاں، یہ دُرُست ہے کہ """
توفی ٰ"""کے معانی میں ایک معنی ٰ"""موت دینا """بھی ہے جسےلغتاً """الحقیقۃ العُرفیۃ """ کہا جاتا ہے ،
یعنی الفاظ کا وہ معنیٰ جو عام معروف ہو چکا ہو ، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ ان الفاظ کا صرف وہی ایک معنی ہے جو عام معروف ہو چکا ہے ،
لہذا یہ کسی بھی طور درست نہیں کہ کسی بات کو خصوصاً قران و سنّت کی کسی نص کو سمجھنے کے لیے، اور بالخصوص کسی نص یا کچھ نصوص کے فہم میں اختلاف ظاہر ہونے کی صُورت میں ، بس ایک معروف معنی و مفہوم تک محدود رہا جائے اور دیگر معانی اور مفاہیم سے چشم پوشی کی جائے اور وہ بھی اس حد تک کہ صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کا انکار ہی کر دیا جائے ،
لہذا خوب سمجھ لینے کی بات ہے کہ ،سورت آل عمران کی آیت 55 میں اللہ ربارک و تعالیٰ کے فرمان
((((( إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ ،،،،،:::میں تمہیں مکمل طور پر پورے کا پورا اپنی طرف بُلند کر لوں گا ،،،،، ))))) میں """ متوفیکَ """ کا معنیٰ اور مفہوم """موت دوں گا """ نہیں ،
بلکہ نیند دے کر مکمل طور پر جِسم اور رُوح سمیت اپنے قبضے میں لینا ہے ،

جیسا کہ اس کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اِس فرمان مُبارک میں واضح فرمایا ہے کہ :::
(((((
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ :::اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت پورے کا پورا قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی (اسی طرح قبض کرتا ہے )جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک مقررہ وقت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں )))))سورت الزُمر/آیت42 ،
اس مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ وہ کسی جان کو پورے کا پورا قبضے میں لینا اس کی موت ہی کی صورت میں نہیں ہوتا ، جیسا کہ سونے والے کی جان یعنی رُوح کو اللہ پوری طرح سے اپنے قبضے میں فرما لیتا ہے ، لیکن اس سوئے ہوئے شخص کی موت واقع نہیں ہوتی ، اور اس کیفیت کو بھی لفظ """
توفیٰ """ میں ہی تعبیر فرمایا گیا ہے ،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان (((((
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ::: اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے(یا یوں کہہ لیجیے کہ موت دے دیتا ہے ) اور جو کچھ تم دن میں کر چکے ہو وہ جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ وہ وعدہ پورا ہو جو مقرر ہو چکا ہے پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے پھر تمہیں خبر دے گا اس کی جو کچھ تم کرتے تھے ))))) سُورت الانعام /آیت 60،
اور اس مذکورہ بالا آیت میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے لفظ """
توفیٰ """ کو ہی استعمال فرما کر انسانوں کی جانوں کو اُن کی نیند حالت میں اس طرح اپنے قبضے میں لینے کا ذِکر فرمایا ہے جس میں اُن کی موت تو واقع نہیں ہوتی لیکن وہ گویا مردے کی طرح ہی ہوتے ہیں ،
اسی کیفیت کی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یوں خبر کروائی (((((
النَّوْمُ أَخُو الْمَوْتِ، وَلَا يَمُوتُ أَهْلُ الْجَنَّةِ ::: نیند موت کا بھائی ہے ، اور جنّت والے نہیں مریں گے)))))شعب الایمان للبھیقی، السلسہ الصحیحہ /حدیث 1087،
مجھے امید ہے کہ اب تک پیش کیے گئے قرانی اور لغوی دلائل کی روشنی میں غور و فکر ، تدبر اور تفکر کے ساتھ مطالعہ کرنے والے ہر ایک غیر متعصب قاری کے لیے ان شاء اللہ یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرمان """متوفیکَ """ سے کہیں یہ لازم نہیں ہوتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو موت ہی دے گئی ، بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نیند کی حالت میں زندہ سلامت، پورے کا پورا ، کسی کمی یا نقص کے بغیر ، اُن کی رُوح اور جِسم سمیت اپنے قبضے میں لے لیا ۔
::::: ªªª یہاں تک کی بات سے ، اِن شاء اللہ واضح ہوچکا ہو گا کہ :::
::::: سورت آل عمران کی آیت
55 میں ،لفظ """ توفیٰ """سے بننے والے """ متوفیکَ """ کا مفہوم قران کریم کی دوسری آیات مبارکہ ، لغت اور احادیث کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کو نیند کی حالت میں پورے کا پورا ، زندہ و سلامت ، رُوح و جِسم کے ساتھ قبض کر لینا ہے نہ کہ انہیں موت دے کر مار دینا ہے ،
لہذا لفظ """
توفیٰ """سے بننے والے """ متوفیکَ """ کے لیے یہ اصرار کرنا سراسر خِلاف قران ہے کہ اِس کا معنی صِرف """موت دینا """ ہی ہے ، لہذا اِس """خِلاف قران ، قران فہمی """ پر مبنی جو اعتراض کیا جاتا ہے، خود قران کریم کی دیگر آیات مبارکہ کی روشنی میں ہی اِس اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہیں ، وللہ الحمد الذی لا تتم الصالحات الا بتوفیقہ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا ء ہے کہ اللہ پاک یہاں تک پیش کردہ مذکورہ بالا تشریح کو عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سلامت ، اُن کی رُوح و جسم سمیت اللہ کی طرف اٹھا لیے جانے کے بارے میں ایسی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے والی بنا دے ،جن غلط فہمیوں کی بنا پر اللہ کے ان فرامین کی تصدیق کی بجائے تکذیب ہوتی ہے اور یہود و نصاریٰ کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو مارا جا چکا ہے ،
اور اللہ تعالیٰ میری اس محنت کو قُبُول فرمائے ، اور میری پیش کردہ ان معلومات کو اس غلط فہمی کی درستگی کا سبب بھی بنا دے کہ عیسی علیہ السلام کے زندہ اٹھائے جانے اور ان کے دوبارہ زندہ ہی واپس اتارے جانے والی صحیح احادیث شریفہ قران کریم کی کسی آیت مُبارکہ کے خلاف ہیں ، اور یہ سمجھنے کا سبب بنا دے کہ وہ صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ ان آیات شریفہ کی تفسیر ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنا منصبءِ بیان پورا فرماتے ہوئے بتائی ہے ۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::: آٹھواں حصہ :::::
::::::: اعتراضات اور جوابات ::::::: دُوسرا حصہ ::: تیسرا اعتراض، اور اس کے چار جوابات :::::::
:::::: تیسرا اعتراض ::::::
اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے :::
""""" اگر ہم رفع الیہ کا ترجمہ اس طرح کریں کہ اللہ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمانوں میں اٹھا لیا تو ہم اللہ کی بادشاہت اور قدرت کو اور اس کے وجود کو صرف آسمان تک محدود کر دیتے ہیں ۔ جبکہ اللہ جس طرح آسمانوں میں قائم ہے اس طرح زمین پر بھی- اور زمین آسمان کے مقابلے میں ایک باریک سے ذرّہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لہٰذا اگر حضرت عیسیٰ کی اللہ نے یہودیوں سے حفاظت کر کے عزت رکھ لی تو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کسی بھی آیت میں آسمان کا لفظ نہیں ملتا ، یہ محظ ہمارے ذہن کی پیداوار ہے ۔ اور ہاں اگر یہودی انہیں قتل کرنے میں ناکام رہے تو اس کا یہ بھی ہرگز مطلب نہیں کہ وہ زندہ ہیں۔ اللہ نے جو آیات بیان فرمائی ہیں ان کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ یہودی اپنی سازش میں ناکام رہ گئے ۔ اور عیسائیوں کے اس عقیدے کو بھی غلط ثابت کرنا ہے کہ حضرت عیسٰی نے صلیب پر قربانی دے کر ہمیں جہنم سے بچا لیا۔ افسوس مسلمان بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی پیروی کرنے لگے """""
اور یہ بھی کہا گیا کہ :::
""""" اسی طرح لفظ ارفع ، اوپر اٹھانے (‌موت کی صورت میں )‌ اور عزت و احترام بڑھانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ آسمان میں زندہ لے جانے کے لئے صرف اس موقع پر کیوں استعمال ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے لفظ متوفیک موجود ہے۔ """""
::::::: تیسرے اعتراض کی دلیل :::::::
اس اعتراض کی کوئی دلیل نہیں ، کیونکہ اعتراض کرنے والے بھائی نے کسی طور لفظ """رفع """ اور اس سے بننے والے دیگر الفاظ والی آیات جمع کر کے ان آیات شریفہ میں سے یہ مذکورہ بالا اعتراض دریافت کیا ہے ، جو کہ کسی بھی طور درست نہیں ، نہ ہی لغوی اعتبار سے ، اور نہ ہی قران کریم کی آیات مبارکہ کے مطابق ، کہ اگر انہی آیات کو بغور پڑھا جاتا ، دُرست طور پر سمجھا جاتا تو انہی میں اعتراض کرنے والے بھائی کے اپنائے ہوئے عقیدے کا انکار موجود ہے ، اسی معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں پہلے کہہ گذرا ہوں کہ ،
""" اور نا دُرست طور پر لغوی معانی پر ہی انحصار کرتے ہوئے ہوئے ان صاحبان میں سے ایک بھائی کی طرف سے ایک اور """خلاف ء قران """ تاویل بھی دیکھنے میں آئی ہے، جس کا ذِکر اِن شاء اللہ لفظ """ رفع """ کو بنیاد بنا کر کیے گئے اعتراض کے جواب میں کروں گا """
اور اب اِن شاء اللہ اِس کی باری ہے ،
::::: تیسرے اعتراض کا پہلا جواب ::::::

اُن بھائی صاحب کی پیش کردہ آیات کریمہ میں درجات کی بلندی کا ذکر ہے ، اور ایک آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذِکر بلند کرنے کا ذِکر ہے ، کسی بھی آیت میں کسی شخص کو پورے کا پورا کسی کمی کے بغیر ، اس کے رُوح و جِسم سمیت ، کسی طرف بلند کرنے کا ذکر نہیں ہے ،
جبکہ ہم جن آیات کو عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ سلامت ، پورے کے پورے ، رُوح و جِسم سمیت اللہ کی طرف اٹھائے جانے ، بُلند کیے جانے کی دلیل مانتے ہیں اُن آیات مبارکہ میں بڑے ہی واضح طور پر عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کو ، تمام تر صفات کے ساتھ ، پورے کا پورا ، زندہ سلامت ، رُوح و جِسم سمیت اللہ کی طرف اٹھائے جانے کا بیان ہے ، اُن علیہ السلام کے درجات کی بلندی کا ذِکر نہیں ،
آیے ، محترم قارئین ، سورت آل عمران کی آیت 55 ایک دفعہ پھر پڑھتے ہیں (((((
إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ ،،،،،::: میں تمہیں مکمل طور پر پورے کا پورا قبضے میں لے لوں گا اور اپنی طرف بُلند کر لوں گا ،،،،، )))))
اِس آیت کریمہ میں کسی اشکال کی بھی گنجائش ہی نہیں ، کیونکہ اِس آیت مبارکہ میں تو ایک ذات کو دوسری ذات کی طرف بلند کر لیے جانے کی بات ہے ، نہ کہ کسی کے درجات بلند کیے جانے کی ،
اسی طرح سُورت النساء کی آیت 158کو بھی ایک دفعہ پھر پڑھتے ہیں (((((
بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ::: بلکہ اللہ نے عیسیٰ کو اپنی طرف بلند کر لیا ، اور یقیناً اللہ تعالیٰ بہت زبردست اور حکمت والا ہے )))))اِس آیت کریمہ میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی طرف بلند کیے جانے کا ذِکر ہے ، نہ کہ اُن علیہ السلام کے درجات کو بلند کیے جانے کا ،
لہذا """
رفع"""کےسرچ رزلٹز میں آنے والی آیات میں سے ہر ایک آیت میں غور کرنا ضروری ہے کہ یہ لفظ کس چیز کو """رفع"""کرنے ، یا کس چیز کے """رفع"""ہونے کا ذِکر لیے ہوئے ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::::: تیسرے اعتراض کا دُوسرا جواب ::::::
اِسی تیسرے اعتراض کے آغاز میں اعتراض کرنے والے بھائی نے لکھا ہے :::
اگر ہم رفع الیہ کا ترجمہ اس طرح کریں کہ اللہ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمانوں میں اٹھا لیا تو ہم اللہ کی بادشاہت اور قدرت کو اور اس کے وجود کو صرف آسمان تک محدود کر دیتے ہیں ۔ جبکہ اللہ جس طرح آسمانوں میں قائم ہے اس طرح زمین پر بھی-
اِسی بات کے بارے میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ اعتراض خلافء قران قران فہمی پر مبنی ہے ،
جی ہاں ، کیونکہ اللہ سبحانہ ُ و تعالیٰ نہ تو آسمانوں میں قائم ہے اور نہ زمین پر ،
جی ہاں ، اللہ العلی ، الاعلیٰ ، اپنے تمام تر مخلوق سے الگ ، جُدا ، بلند اپنے عرش سے اُوپر مستوی ہے ،

لہذا (((((رَافِعُكَ إِلَيَّ ،،،،، ::: اپنی طرف بُلند کر لوں گا)))))
اور (((((
رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ::: بلکہ اللہ نے عیسیٰ کو اپنی طرف بلند کر لیا)))))
میں اللہ کی طرف بلندیوں میں اٹھائے جانے کی یقینی خبر ہے ،
میرے بھائی نےہماری دلیل والی آیات کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہر جگہ قائم یا موجود ہونے کی غلط فہمی کے مطابق سمجھتے ہوئے یہ اعتراض وارد کیا ہے ، جو کہ درست نہیں ہے ،
میں یہاں اس موضوع پر بات نہیں کروں گا کہ اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کی ذات مبارک ، وجود پاک کہاں ہے ؟ کیونکہ اس طرح ہمارے زیر مطالعہ موضوع سے انحراف واقع ہو جائے گا ،
بس فی الحال ، اِن شاء اللہ صرف اس مذکورہ بالا اعتراض کی منطق کے مطابق ایک بات کہتاہوں کہ اگر بھائی کے اعتراض کی منطق کے مطابق یہ تصور کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود جس طرح آسمانوں میں ہے اسی طرح زمین میں قائم ہے ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان یوں ہونا چاہیے تھے کہ،
(((((
انشرُكَ إِلَيَّ ،،،،، ::: اپنی طرف منتشر کر لوں گا)))))
اور (((((
نشرَہُ اللَّهُ إِلَيْهِ::: بلکہ اللہ نے عیسیٰ کو اپنی طرف منتشر کر لیا)))))
کیونکہ ان کی منطق کے مطابق ، معاذ اللہ ، اللہ عزّ و جلّ کا وجود تو آسمانوں اور زمین میں منتشر قرار پاتا ہے ،
[[[میں نے پہلے بھی کسی اور مُقام پر ذِکر کیا تھا ،اور یہاں ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اس موضوع پر میری ایک کتاب """ اللہ کہاں ہے ؟ """ الحمد للہ انٹر نیٹ پر شائع ہو چکی ہے ، اس موضوع کو سمجھنے کے لیے تمام قارئین کرام اس کا مطالعہ ضرور فرمائیں ، قران کریم ، صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین تبع تابعین اور اُمت کے اِماموں کی تعلیمات کے مطابق، اپنے رب اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کے بارے میں ایک بنیادی ترین مسئلہ سمجھنے میں مدد ہوگی اور، اِن شاء اللہ بہت فائدہ مند ہو گا ،
یہ کتاب درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :::
http://bit.ly/1IxNUWR ]]]
حاصل کلام یہ ہوا کہ اُن صاحب نے جس منطق کو اپنا کر اعتراضات وارد کیے ہیں وہ منطق ہی سِرے سے غلط ہے ، خلافء قران ہے ، صحیح ثابت شدہ احادیث ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین اور امت کے اماموں رحمہم اللہ جمعیاً کے اقوال کے خلاف ہے ، لہذا س کے مطابق اخذ کردہ ترجمہ یا مفہوم بھی نا دُرُست ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::::: تیسرے اعتراض کا تیسرا جواب ::::::
اور اسی تیسرے اعتراض میں ایک اور منطق بھی پیش کی گئی ہے کہ :::
"""
اللہ نے جو آیات بیان فرمائی ہیں ان کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ یہودی اپنی سازش میں ناکام رہ گئے ۔ اور عیسائیوں کے اس عقیدے کو بھی غلط ثابت کرنا ہے کہ حضرت عیسٰی نے صلیب پر قربانی دے کر ہمیں جہنم سے بچا لیا۔ افسوس مسلمان بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی پیروی کرنے لگے """
جب کہ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ، کہ ان آیات مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کی طرف سے عیسیٰ علیہ السلام کو کسی طور مار دینے ، یا انہیں صلیب پر چڑھا کر قتل کر دینے کے دعوے کو باطل قرار دیا ہے ، بلکہ ان کے دعووں کو باطل قرار دینے کے ساتھ ہی ساتھ بڑے ہی واضح انداز میں یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو ان کافروں سے محفوظ رکھتے ہوئے ، مکمل طور پر ، کسی کمی کے بغیر ، پورے کا پورا ، زندہ سلامت ، رُوح و جِسم کے ساتھ اپنی طرف بلند فرما لیا،
قران کریم کی آیات مبارکہ اور لغوی قواعد و مفاہیم کے مطابق اس بات کی وضاحت سابقہ گفتگو میں پیش کی جا چکی ہے ، اور اِن شاء اللہ احادیث شریفہ کا ذِکر اُن کے مقام پر ہو گا ،
::: حاصل کلام :::حقیقت یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہو چکی ہونے کا عمداً یا نا دانستہ طور پر اقرار ، خواہ وہ انہیں قتل کیے جانے کی صُورت میں ہو ، یا صلیب پر خود سے جان دینے کی صُورت میں ہو یا طبعی موت کی صُورت میں ہو ، بہر صُورت عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہو چکی ہونے کا اقرار یہود و نصاریٰ کے دعوے کی تصدیق اور اللہ پاک کے فرامین کا انکار ہے ، اور اس باطل دعوے کے اقرار کے مرتکب اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کے انکار کے مرتکب ہوجاتے ہیں ، و العکس بالعکس ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::: تیسرے اعتراض کا چوتھا اور آخری جواب ::::::
اسی تیسرے اعتراض کے اختتام میں لکھا :::
"""
اسی طرح لفظ ارفع ، اوپر اٹھانے (‌موت کی صورت میں )‌ اور عزت و احترام بڑھانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ آسمان میں زندہ لے جانے کے لئے صرف اس موقع پر کیوں استعمال ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے لفظ متوفیک موجود ہے۔"""
سب سے پہلی بات تو یہ کہ لفظ ""'
ارفع "" کہیں استعمال نہیں ہوا ،
بلکہ """
رافع """ اور """رفع """ استعمال ہوئے ہیں ، اور ان کا مادہ ، اصل، بنیاد ، سہ حرفی مجرد ، """رفع """ہوتا ہے ، """ارفع """ نہیں ، """ارفع"""بذات خود اسی """رفع """ سے بنا ہوا ہے ،
دوسری بات یہ کہ """
رافع """ اور """رفع """ کے ساتھ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے جو دیگر الفاظ استعمال فرمائے ہیں وہ اس """رفع """ کی کیفیت کو بہت ہی واضح طور پر بیان کرتے ہیں ،
تیسری بات یہ کہ """
رافع """ اور """رفع """کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے """ الیّ """ اور """ اِلیہِ """ فرما کر واضح فرما دیا ہے کہ عیسی ٰ علیہ السلام کو اللہ کی طرف بلند کیا گیا ، نہ کہ ان کی عزت و احترام کو بڑھاوا دینے کا ذکر ہے ،
اور یہ کہ """ کی طرف"""سے کسی بھی طور """کے پاس """ لازم نہیں ہوتا بلکہ یہ اس بات کی مزید وضاحت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ جُدا اور بلند تھا اور ہے ، عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف بلند کیا گیا نہ کہ اللہ کے پاس بلند کیا گیا ،
اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے """
رافعکَ الیّ """کی بجائے """رافعکَ عندی """ اور"""رفعہُ اِلیہِ """ کی بجائے """ رفعہُ عندہُ """ کہا جاتا تو پھر کسی طور کچھ کھینچ تان کرتے ہوئے کسی کے لیے کچھ ایسا سمجھنے کی کچھ سبیل ہوتی کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تبارک و تعالی کے پاس بلند کیے گئے ،
چوتھی بات یہ کہ ہمارے دلائل میں پیش کردہ آیت کریمہ میں """
متوفیکَ """ کا معنیٰ یا مفہوم کسی بھی طور """تُمہیں موت دوں گا""" نہیں بنتا ،
آخری تین باتوں کی قران کریم اور لغت کے مطابق کافی سے زیادہ وضاحت سابقہ جوابات میں کی جا چکی ہے ، و للہ الحمد ،

::: حاصل کلام ::: اس اعتراض کا سبب بھی سابقہ جوابات میں بیان کردہ وجوہات کے مطابق الفاظ کے محدود اور موقع محل کے مطابق نا دُرست مفہوم ہے ۔ پس یہ اعتراض بھی قران کریم کی قران کریم کے مطابق ہی تفسیر و تفہیم کے منافی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::: نواں حصہ :::::
::::::: اعتراضات اور جوابات ::::::: تیسرا حصہ ::: چوتھا اعتراض، اور اس کے چار جوابات :::::::
::::: چوتھا اعتراض ::::: اگر لفظ وفات سے تسلی نہیں ہوتی تو یہ لے لیں :::::
::::: چوتھے اعتراض کے دلائل :::::
چوتھے اعتراض کو ، اعتراض کرنے والے بھائی نے اپنی سوچ کے مطابق یہ عنوان دیا کہ""" اگر لفظ وفات سے تسلی نہیں ہوتی تو یہ لے لیں """ اور اس عنوان کے تحت قران کریم کی دو آیات مبارکہ نقل کرتے ہوئے لکھا :::
اگر لفظ وفات سے تسلی نہیں ہوتی تو یہ لے لیں
مسیح ابنِ مریم (علیھما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں، یقیناً ان سے پہلے کے رسول گزر چکے ہیں، اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں، وہ دونوں کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ (اے حبیب!) دیکھئے ہم ان (کی رہنمائی) کے لئے کس طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں پھر ملاحظہ فرمائیے کہ وہ کس طرح پھرے جارہے ہیںo(المائدہ 75)
حضرت عیسٰی علیہ السلام سے پہلے کے تمام رسول اس بے وفا دنیا سے کوچ کر گئے یعنی انتقال کر گئے۔
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)، یقیننا آپ سے پہلے بھی پیغمبرگزر چکے ہیں، پھر اگر وہ وفات فرما جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ ۔ ۔ (ال عمران 144)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام رسول انتقال فر ما چکے ہیں۔ اللہ نے اس آیت میں گزر جانے کا مطلب سوائے موت کے اور کوئی نہیں لیا۔ اگر کوئی اور مطلب ہے تو بتا دیں
:::::: چوتھے اعتراض کا پہلا جواب ::::::
جی عام معروف مفہوم کے مطابق یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان دو آیات مبارکہ میں پہلے گذر چکے رسولوں علیہم السلام کی موت کا ہی ذکر ہے ، لیکن یہ لازم نہیں کہ ہر ایک بات کو عام معروف مفہوم کے مطابق ہی لیا جائے گا ، اور نہ ہی یہ لازم ہے کہ اس خبر کو علی العموم ہی سمجھا جائے ، بلکہ اس خبر میں سے عیسیٰ علیہ السلام کے تا وقت حال زندہ ہونے اور اللہ کی طرف اٹھا لیے جانے کی خبر کی وجہ سے اُن علیہ السلام کا معاملہ مستثنیٰ اور خاص مانا جائے گا ،
ان معاملات کو سمجھنے کے لیے """
تخصیص مِن العام""" یا """حمل المطلق علی المقید""" یا """الاستثناء مِن الجِنس"""کے قوانین کا مطالعہ کیا جانا چاہیے ،
پس ، اعتراض کرنے والے بھائی کے لیے ان دونوں آیات شریفہ میں سے وہ کچھ سمجھنے کی کوئی دلیل نہیں جو انہوں نے سمجھا ہے اور ان دونوں آیات مبارکہ میں پہلے گذر چکے رسولوں علیہم السلام کے مر چکنے کے ذکر سے کسی بھی طور یہ لازم قرار نہیں دیا جا سکتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہو چکی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::::::: چوتھے اعتراض کا دُوسرا جواب :::::::
اس اعتراض میں ذکر کردہ پہلی آیت مبارکہ سُورت المائدہ کی آیت رقم 75 ہے ، اور اس میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ایک مکمل پس منظر بھی اس سے پہلے والی آیات میں بیان ہوا ہے ، پس اس آیت مبارکہ کو اسی پس منظر میں ، موضوع اور کلام کے اُسی تسلسل کے مطابق ہی سمجھا جانا دُرُست فہم دے سکتا ہے ،
آیے ان آیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں ، تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اعتراض کرنے والے بھائی کی طرف ذکر کردہ آیت کا دُرُست مفہوم سمجھا دے ،
(((((
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ::: یقیناً اُن لوگوں نے کفر کیا (جنہوں نے یہ ) کہا کہ مریم کا بیٹا مسیح ہی اللہ ہے ، اور مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو (جو ) تُمہارا اور میرا رب ہے ، بے شک جو کوئی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا یقیناً اللہ نے اُس پر جنّت حرام کر دی ہے اور اس(شرک کرنے والا ) کا ٹھکانہ جہنم ہے اور شرک کرنے والوں کا کوئی مددگار نہ ہوگا O لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ :::یقیناً انہوں نے کفر کیا (جنہوں نے یہ) کہا کہ اللہ تین میں سے ایک ہے اور (جبکہ حقیقت میں) صِرف ایک ہی معبود(اللہ) ہے اور اگر یہ لوگ جو کچھ یہ کہتے ہیں اُس سےباز نہ آئے تو یقیناً اُن میں سے (اِس ) کفر( پر اصرار) کرنے والوں کو شدید دردناک عذاب ملے گا O أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ::: یہ (کفر کرنے والے)لوگ اللہ کی طرف توبہ کیوں نہیں کرتے ، اور کیوں اس سے بخشش طلب نہیں کرتے اور (جبکہ) اللہ تو بخشنے والا اور مہربان ہے O مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ انْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ::: مریم کا بیٹا مسیح تو صرف ایک رسول ہی ہے ، جس سے پہلے (اِسی جیسے ) اور بھی رسول گذر چکے ہیں ، اور مسیح کی والدہ ولیّہ ہے ، دونوں ہی (عام انسانوں کی طرح) کھانا کھاتے تھے ، دیکھیے (اے محمد ) ہم ان لوگوں کے لیے کیسی نشانیاں بیان کرتے ہیں ، اور پھر دیکھیے کہ یہ لوگ کیسےجھوٹے الزام لگاتے ہیں))))) سُورت المائدہ / آیات 72تا75،
اس تمام موضوع کے مطالعے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اعتراض کرنے والے کی طرف سے ذکر کردہ آیت کریمہ میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا ذِکر نہیں ، بلکہ عیسائیوں کو یہ باور کروا جا رہا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی ان سے پہلے جیسے رسولوں علیہم السلام کی طرح اللہ کے ایک رسول ہیں ، نہ کہ معاذ اللہ خود اللہ ، اور نہ ہی معاذ اللہ ، اللہ کے بیٹے ،

::: حاصل کلام ::: سُورت المائدہ کی آیت رقم 75 ، اپنے مقام پر ایک موضوع کے بیان کے تسلسل کی آخری آیت ہے ، اور اسی سے پہلے والی آیات میں بیان کردہ مسلسل موضوع کے مطابق سُورت المائدہ کی آیت رقم 75 میں اعتراض کرنے والوں کے لیے عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہوچکے ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:::::: چوتھے اعتراض کا تیسرا جواب :::::::
اس چوتھے اعتراض میں ذِکر کردہ دوسری آیت مبارکہ سُورت آل عمران کی آیت (((((وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ::: اور محمد تو ایک رسول ہیں ، اور اُن سے پہلے بھی رسول ہو گذرے ہیں ، تو کیا اگر محمد مر جائیں ، یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تُم لوگ (دِین حق چھوڑ کر )اپنی ایڑھوں کے بل(اُلٹے پاؤں)واپس(کفر و شرک اور جہالت کی طرف) پلٹ جاؤ گے اور جو کوئی اُلٹے پاؤں واپس پلٹ گیا تو یقینا ً وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور جلد ہی اللہ شکر کرنے والوں کو جزاء عطاء فرمائے گا ))))) 144 ہے ،
اس آیت مبارکہ میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے گذر چکے رسولوں علیہم السلام کے ذکر میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہو چکے ہونے کی کوئی دلیل نہیں بنتی ،
اور کیسے نہیں بنتی اس کا جواب پہلے بیان کردہ :::::: چوتھے اعتراض کا پہلا جواب ::::::: میں دیا جا چکا ہے ، اس کے علاوہ اس اعتراض کا ایک اور پہلو سے بھی جواب میسر ہے ،

:::::: چوتھے اعتراض کا چوتھا اور آخری جواب :::::::
سورت آل عمران کی مذکورہ بالا آیت رقم 144 سے اگلی ہی آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے (((((وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا ::: اور کسی جان کی قدرت میں یہ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر مر سکے ،(اس کی موت کا) طے شدہ وقت ہے)))))
پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا جو وقت مقرر کر رکھا ہے انہیں اسی وقت موت آئے گی ، پہلے گذر چکے ، فوت ہو چکے رسولوں علیہم السلام میں سے عیسیٰ علیہ السلام کی موت کو مستثنیٰ ماننے کے لیے ہمارے دلائل میں سے دو آیات مبارکہ ، یعنی سُورت آل عمران کی آیت مبارکہ 55، اور سُورت النساء کی آیت رقم 158 کے ساتھ ساتھ یہ آیت کریمہ بھی ایک دلیل ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا معاملہ اللہ ہی کی طرف سے مقرر کردہ عام فطری انداز سے مستثنیٰ رکھا ،

براہ مہربانی اس مضمون کے جواب میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے موضوع پر بات شروع نہ کی جائے ، جسے اس موضوع پر بات کرنے کی حاجت محسوس ہو وہ ایک الگ موضوع کی طرح اس پر بات کرے ، پیشگی خوش آمدید ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
:::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::: دسواں حصہ :::::
::::::: اعتراضات اور جوابات ::::::: چوتھا حصہ ::::::
::::::: سُورت آل عمران کی آیت مبارکہ رقم 55میں بیان کردہ قولی ترتیب کے مُطابق وارد کیے گئے اعتراض کا جواب :::::::
اعتراض کرنےوالوں کا کہنا ہے کہ چونکہ آیت مبارکہ میں پہلے ((((( انی متوفّیکَ ::: میں تمہیں مکمل طور پر پورے کا پورا قبضے میں لے لوں گا ))))) فرمایا گیا اور پھر اُس کے بعد فرمایا ((((( وَ رافعکَ اِلیّ :::اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا ))))) لہذا اِس ترتیب کے مُطابق یہ لازمی ہے کہ پہلے عیسیٰ علیہ السلام کو موت دی گئی اور پھر انہیں اٹھا لیا گیا ،
لفظ """ متوفیکَ """ میں سے """توفیٰ """کے مفہوم کو صِرف """ موت دینا""" سمجھنا کس قدر غلط ہے ، الحمد للہ قران کریم کی آیات اور لغت کے مطابق اس کا بیان سابقہ جوابات میں ہو چکا ہے ،
پس اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ، یہاں میں صرف اس بات کا ذکر کروں گا کہ قولی ترتیب سے فعلی ترتیب بھی لازم نہیں ہوتی ،
اعتراض کرنے والے کی طرف سےنقل کردہ اور ہماری زیر فہم آیت مبارکہ کا ایک اور پہلو سے بھی وہی مفہوم بنتا ہے جو کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحیح ثابت شدہ فرامین میں ملتا ہے ، اور جسے سمجھنے میں اعتراض کرنے والوں کو ایک اور شدید غلط فہمی ہے کہ اس آیت مبارکہ میں بیان کردہ کاموں کی قولی ترتیب سے ہوئی ہے،
اور وہ یوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلے فرمایا ((((( انی متوفّیکَ ::: میں تمہیں مکمل طور پر پورے کا پورا قبضے میں لے لوں گا )))))اور پھر فرمایا ((((( وَ رافعکَ اِلیّ :::اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا ))))) لہذا اعتراض کرنے والے اور ان سے متاثرین یہ سمجھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کو پہلے موت دی اور پھر اوپر اٹھا لیا ،
محترم قارئین"""ارفع """ کا معنی """اس ایک مذکر نے اوپر اٹھایا """ ہوتا ہے اور اس کا مادہ، سہ حرفی مجرد، روٹ ورڈ """ رفع """ ہے ، پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان (((((رافعکَ الیّ ::: میں تمہیں اپنی طرف اوپر اٹھاوں گا )))))سے مراد عیسی علیہ السلام کو اللہ کا اپنی طرف اوپر اٹھانا ہی ہے ،(((اعتراض کرنے والے صاحبان ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے زمینء آسمان پر نزول فرمانے کا بھی انکار کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ وہم ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے لہذا کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ نازل ہونے کی خبر غلط ہے ، اور جب اپنا کوئی فسفلہ ثابت کرنے کی کوشش ہو تو پھر مان لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے !!!)))
پہلی بات تو یہ کہ کچھ کاموں کو ایک خاص ترتیب سے ذکر کرنے کا یہ مطلب خاص نہیں کیا جا سکتاکہ ان کاموں کو اسی ترتیب سے کیا گیا یا کیا جائے گا ،
:::::::
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (((((فأنجینَاہُ و أصحاب السَّفِینۃ ::: اور ہم نے نجات دے دی اس(نوح علیہ السلام ) کو اور(اُس کی) کشتی(میں پائے جانے) والوں کو)))))سورت العنکبوت / آیت 15 ،
قارئین کرام ، اب بتایے تو کس طور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ طوفانء نوح سے ،سب سے پہلے نوح علیہ السلام کو ہی نجات دی گئی اور پھر کشتی والوں کو ؟؟؟؟؟؟؟
:::::::
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ((((((و جُمِعَ الشمسُ و القمر ::: اور سورج اور چاند کو جمع کر دیا گیا ))))) سورت القیامہ/آیت 9 ،
اعتراض کرنے والوں میں سے کوئی ، قران حکیم میں سے ایسی کوئی تخصیص دکھائے جس یہ یقینی ہو جائے کہ پہلے سورج کو ہی چاند میں ڈالا جائے گا یا چاند کو سورج میں ؟؟؟؟؟؟؟
:::::::
اسی طرح (((((وَجَاء رَبُّكَ وَالمَلَكُ صَفّاً صَفّاً ::: اور آیا تُمارا رب اور فرشتے صف باندھے ))))) سورت الفجر / آیت22 ،
اعتراض کرنے والے ذرا قران کریم میں سے ہی تاکید کر کے یہ تو بتائیں کہ بھلا اللہ تبارک و تعالیٰ پہلے آئیں گے یا فرشتے؟؟؟؟؟؟؟خیال رہے دُنیاوی پروٹوکولز اور انداز وہاں نہیں ہوں گے ،
::::::: اسی طرح ((((( يَومَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالمَلَائِكَةُ صَفّاً لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَن أَذِنَ لَهُ الرحمَنُ وَقَالَ صَوَاباً ::: اُس دن جبریل اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے ، بات تک نہ کریں گے سوائے اس کے جس کو رحمان اجازت دے گا اور وہ درست بات کہے گا )))))سورت النبأ/ آیت 38 ،
اعتراض کرنے والے قران کریم میں اس ترتیب کا لزوم بھی ثابت کریں کہ قیامت والے دِن جبریل علیہ السلام پہلے آئیں گے اور فرشتے بعد میں؟؟؟؟؟؟؟
اور پھر ان میں سے اللہ تعالیٰ کس کو پہلے بولنے کی اجازت دے گا ، جبریل علیہ السلام کو یا فرشتوں میں سے کسی اور کو ؟؟؟؟؟؟؟ اس اجازت کو کون پابند کر سکتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ کچھ کاموں کا ایک ہی جگہ ایک ترتیب سے ذکر ہونا اس ترتیب کے لازم ہونے کی دلیل نہیں ، جب تک اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اس ترتیب کی تاکید وارد نہ ہو ،
قارئین کرام ، توجہ فرمایے ، کہ ، ابھی ابھی بیان کی گئی چار آیات شریفہ میں سے درمیانی دو آیات مبارکہ میں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ مُستقبل میں ہونے والے کام کا ماضی میں ہو چکے ہوئے کام کی طرح ذکر فرما رہے ہیں ،
کیا اعتراض کرنے والے ، مُستقبل کی خبر دینےو الے الفاظ کی موجودگی کی وجہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اِن دو مذکورہ بالاآیات مبارکہ میں ذِکر فرمودہ کام واقع ہو چکے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
قارئین کرام ، اس نکتے کو ذہن میں رکھیے گا ، اِن شاء اللہ ابھی آگے اِس کے مُطابق کچھ بات ہو گی ،

:::::::::: اگر کسی طرح کھنچ تان کر ،بفرض محال، سُورت آل عمران کی آیت مبارکہ رقم 55میں مذکور کاموں کے واقع ہونے کو ،ذِکر کیے جانے کی ترتیب کے مطابق ہی سمجھا جائے تو بھی سابقہ مراسلات میں ""' متوفیکَ """ کا وہ معنیٰ اور مفہوم بیان ہو چکا جو صحیح احادیث میں وارد ہے ، اور لغتا بھی زیادہ حقیقی ہے ،
::::::::::: اور اگر اسی طرح بفرض محال اس آیت مبارکہ میں """متوفیکَ """ کو ""' میں تمہیں موت دوں گا """ ہی کے معنیٰ میں لیا جائے تو پھر اِس آیت شریفہ کی تفسیر ، اسلوب کلام کے اس اصول کے مطابق ہو گی کہ """"" تقدیم الحقیقۃ العُرفیۃ علی الحقیقۃ اللغویۃ """""، لہذا پہلے موت دے کر پھر اوپر اٹھائے جانے کا ذکر فرمایا ہے ،
پس اعتراض کرنے والوں نے اِس آیت مبارکہ کی جِس طرح غلط تاویل کی ، اُس طرح بھی اُن کا اعتراض کچھ علمی حقیقت حاصل نہیں کر پاتا ، کیونکہ (((((انی متوفیکَ ::: میں تمہیں موت دوں گا ))))) سے کہیں یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس فرمان کے بعد عیسی علیہ السلام کو موت دے بھی دی ،
اور نہ ہی کچھ کاموں کے ذِکر کی ترتیب سے اُن کاموں کااُسی ترتیب سے واقع لازم قرار پاتا ہے ، الحمد للہ ، اِس کی تشریح اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک قران کریم میں سے ہی ابھی ابھی پیش کر چکا ہوں ،

پس اللہ تبارک و تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کسی کام کو کرنے کا ارداہ ظاہر فرما کر اسے کب کرتا ہے اور کس ترتیب سے کرتا ہے ، کوئی اس کی خبر نہیں دے سکتا جب تک اسے خود اللہ کی طرف سے خبر نہ ہو یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اس کام کے ہو چکنے کی خبر نہ ہو ،
اور یہاں ہمیں ایسی کوئی خبر میسر نہیں ، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یہ خبریں میسر ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو زندہ اٹھایا گیا اور زندہ ہی واپس اتارا جائے گا ،

اعتراض کرنے والوں سے گذارش ہے کہ ، براہ مہربانی ، صرف چند ترجمے پڑھ کر ، کچھ مخصوص لیکن خِلاف ء قران سوچ و فِکر رکھنے والوں کی اسلامی علوم کے مطابق نا دُرست باتیں پڑھ کر ، چند الفاظ کے کچھ لغوی معانی پڑھ کر اللہ کے کلام کو سمجھنے اور سمجھانے کی بجائے، اللہ کے کلام شریف کو اللہ ہی کے فرامین اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین سے سمجھنے کی کوشش فرمایے کیونکہ ان صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہونے والا ہر کلمہ وحی ہے ،
جی لغت سے مدد لی ہی جائے گی لیکن اسے حرف آخر نہیں بنایا جائے گا ۔
اس موضوع پر ابھی اور بھی بہت سے دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں ، لیکن اِن شاء اللہ عقل سلیم رکھنے والے قارئین کرام کے لیے اتنے ہی کافی ہوں گے ، لہذا میں اپنی بات کو یہاں ختم کرتا ہوں ،
اللہ جلّ وعُلا ہم سب کو ، ہمارے عزیز و اقارب و لواحقین کو اور ہمارے ہر ایک مسلمان بھائی اور بہن کو حق جاننے ،پہچاننے ، ماننے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے مرنے کی توفیق عطاء فرمائے کہ جب ہم اللہ کے سامنے حاضر ہوں تو وہ ہم پر راضی ہو، والسلام علیکم۔
 
Top