ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 594
- ری ایکشن اسکور
- 188
- پوائنٹ
- 77
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرجیہ کی بدعت کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلی صدی ہی میں ہوگیا تھا۔ اس وقت دو قسم کے ارجاء کرنے والے گروہ سامنے آئے :
- غالی مرجیہ
- احناف مرجیہ
جو غالی مرجیہ تھے انہوں نے اپنی عقل وفلسفہ کی پیروی میں، اعمال دین کی مشقت سے چھٹکارے کیلئے، اور خوارج کے حکمرانوں کے خلاف خروج اور اس پر مرتب ہونے والی سختی اور سزاؤں کے نتیجے اور دنیا طلبی و حکمرانوں کی اطاعت میں یہ عقیدہ اپنایا کہ ایمان صرف دل سے اللّٰہ کی معرفت و پہچان واقرار کا نام ہے۔
یعنی دل سے توحید اور اس کی شریعت کے حلال وحرام اور تمام احکام کا اقرار واعتقاد رکھ لیا جائے۔ لیکن اللّٰہ کی توحید اور اس کے دیگر احکام کو بدن کے دیگر اعضاء وجوارح سے بجالانا ایمان میں شامل نہیں۔
حتی کہ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص دل سے اسلام پر اعتقاد ویقین رکھتے ہوئے عمل سے بدن کے دیگر اعضاء وجوارح سے فسق وکبائر یا کفریہ وشرکیہ کام بھی کرے تو وہ کامل ایمان والا ہی کہلاتا ہے۔ یعنی کہ عمل کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس سے ایمان پر کچھ اثر پڑھتا ہے۔
البتہ مرجئہ کی پیروی کرنے والے بعد کے متاخرین علماء کے نزدیک عمل کا ایمان سے تعلق تو ہے (یہ ایمان کی تعریف میں عمل کو مانتے ہیں) لیکن ان کے نزدیک بھی کفریہ وشرکیہ مجرد عمل سے ایمان ختم نہیں ہوتا لیکن ناقص ہوجاتا ہے۔
یعنی ایمان کی شروحات میں ان کے نزدیک بھی ایمان کے لیے اصل چیز صرف دل سے اللہ کی توحید اور اس کے احکام کو ماننا اور اقرار کرنا ہے اور دل میں یہ اقرار کرتے ہوئے کوئی شخص اگر کفریہ یا شرکیہ عمل بھی کرے لیکن وہ دل میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ عمل اللّٰہ کی نافرمانی ہے تو کفر کرنے والا بھی ان کے نزدیک مسلمان یعنی (کمزور) ایمان والا ہے۔
تو یہ طرز عمل ان غالی مرجیہ کاہی ہے جو ایمان کو اس کی شروحات میں صرف اعتقاد کا نام دیتے تھے۔ ان کے اس بدعتی روش سے اسلام پر دل سے اعتقاد ویقین رکھنے والا شخص عمل سے جو مرضی کفریہ عمل کرے ایسا شخص مسلمان یا گناہ گار مسلمان ہی کہلاتا ہے اور اس طرح وہ شخص جس قدر عظیم کفریہ عمل کرکے اسلام کونقصان پہنچائے اس کو مسلمانوں کے حقوق حاصل رہتے ہیں اس کا خون حلال نہیں ہوتا۔ سلف صالحین نے ان دلائل سے اہل کفر کا دفاع کرنے والے لوگوں کو بھی مرجیہ قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ان(مرجیہ) نے یہ سمجھا ہے کہ ایمان مجرد تصدیق اور دل کے علم کا نام ہے، انہوں نے دل کے اعمال کو ایمان میں شمار نہیں کیا ان کا گمان ہے کہ انسان اپنے دل(اعتقاد) سے مومن ہو سکتاہے، خواہ (اپنے عمل سے) اللہ اور اس کے رسول کو گالیاں ہی کیوں نہ دیتا ہو، خواہ اللہ تعالٰی اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اللہ کے دوستوں سے عداوت ودشمنی رکھتا ہو، خواہ انبیاء کو قتل کرتا ہو، مساجد کو مسمار کرتا ہو، قرآن کی بے حرمتی کرتا ہو کافروں کا انتہائی اکرام واحترام کرتا ہو اور اہل ایمان کو رسوا اور ان کی اہانت کرتا ہو، کہتے ہیں یہ سارے اعمال گناہ (ناقص ایمان) تو ہیں مگر اس ایمان کے منافی(خارج کرنے والے) نہیں جو دل میں ہے."
(مجموع الفتاویٰ: ۱۸۸-۷)
اس طرح مرجیہ کے اس بدعقیدے کا اثر یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اسلام کا نام نہاد دعویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں شریعت پر ایمان لاتا ہوں لیکن عملاً اسلام کو مٹانے کا ہر قسم کا کفریہ وشرکیہ اقدام کرتا ہے ایسے شخص کو مرجئہ کے مطابق اسلامی حقوق ملتے ہیں اور اس کو کافر ومرتد قرار نہ دینے کی وجہ سے اس سے دفاع ومقابلہ اور جہاد وقتال ممکن نہیں ہوتا۔
اس طرح اسلام ان لوگوں کے ہاتھوں مغلوب و مٹ جاتا ہے۔ لیکن اہل اسلام ان کے خلاف لڑنے اور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ومستعد نہیں ہوتے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس باطل کے خلاف کھڑے ہونے والے مسلمان اور مجاہدین گمراہ و خوارج ٹھرتے ہیں۔
احناف مرجیہ:
سلف صالحین نے دوسرے جن لوگوں کا ارجاء کے باب میں تذکرہ کیا ہے۔ ان میں امام ابو حنیفہ اور کچھ دیگر فقہاء کوفہ شامل ہیں۔ یہ لوگ مرکب ایمان کی بجائے بسیط ایمان کے قائل ہیں۔ اور ان کے نزدیک عمل ایمان کی اصل حقیقت میں شامل نہیں۔
اس لیے یہ ایمان کی تعریف میں عمل کو شامل نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ایمان اعتقاد اور قول کا نام ہے۔ اور عمل سے ایمان کی اصل حقیقت گھٹتی بڑھتی نہیں۔
اہلسنت ان کا بھی عمل کو اصل اور مرکب ایمان میں شامل نہ کرنے اور عمل سے ایمان کے زیادہ اور کم ہونے کے قائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ارجاء کے باب میں ذکر کرتے ہیں۔
یہ لوگ خود پر فقہی اصول وقیاس کے غلبے کی وجہ سے اور خوارج کا خلاف کرنے کی نیت سے یہ اجتہادی خطا کر بیٹھے۔ اور یہ خیال کیا کہ اگر ہم عمل کو اصل ایمان میں شامل کر دیں گے تو ہم اصول کے ایک اعتبار سے فسق و کبیرہ گناہ کا عمل کرنے والے کے ایمان کو غیر ثابت کر دیں گے۔
یعنی وہ یہ سمجھے کہ اگر کوئی دل اور اعتقاد میں نیکی کے اعمال صالحہ کو مانتا لیکن عمل میں بطور فسق عمل صالحہ نہیں بجالاتا تو ایمان کی تعریف میں عمل شامل کرنے ایسا شخص ایمان والا نہیں کہلائے گا (کہ اہلسنت کے نزدیک ایسا شخص ایمان والا ہی کہلاتا ہے لیکن ناقص ایمان والا)
درحقیقت یہ لوگ اجتہادی غلطی کرتے ہوئے یہ اندازہ نہ کر سکے کہ اہلسنت کے باقی تمام جمہور ائمہ جو عمل کو اصل ایمان میں شامل کرتے ہیں۔ تو وہ ایسا کچھ بنیادی اعمال کے اصلاً ایمان میں شامل ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں کہ جن کا عملاً بھی کرنا اصل ایمان کی حقیقت میں داخل ہے۔
مثلاً دین کے بنیادی احکام اور توحید کا بدن کے دیگر اعضاء کے ذریعے اثبات یعنی عمل میں غیر اللہ کا انکار و برأت کرنا وغیرہ۔ اور اہلسنت کے نزدیک عمل کو ایمان کی تعریف میں شامل کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ تمام اعمال کو قرآن وحدیث میں مطلقاً ایمان کے طور پر منسوب کیا گیا ہے جیساکہ قرآن میں اعمال صالحہ کے بعد "زادتھم ایمانا" (کہ ان کا اس سے ایمان اور بڑھ گیا) کی تعبیرات سے ثابت ہوتا ہے۔
اس لیے اہلسنت کے اجماع کے مطابق ان دو وجوہات کی وجہ سے عمل کو مطلقاً ایمان میں شامل کیا جاتا ہے۔ اور احادیث رسول میں بھی ان دونوں چیزوں کو مطلقاً ایمان میں شامل کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ، أَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْعَظْمِ عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل لا إله إلا الله کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ۲؎، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۳؎ ۔
(سنن ابو داؤد ، حدیث : ۴۶۷۶)
نیز قرآن میں عمل سے ایمان کے بڑھنے اور گھٹنے کو بھی صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :
فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ.(التوبہ:۱۲۴)
"جو لوگ ایمان والے ہیں ان کا ایمان یقیناً زیادہ ہوجاتا ہے".
اس لیے اہلسنت کے اجماع کے مطابق عمل ایمان میں شامل ہے۔
اہلسنت امام ابو حنیفہ کو عمل ایمان میں شامل نہ کرنے کو ان کی غلطی بتاتے ہیں اور حق جمہور اہلسنہ کا عقیدہ ہے۔
البتہ امام ابو حنیفہ عمل کو ایمان میں شامل نہ کرنا غالی مرجیہ کی طرح اعمال صالحہ سے چھٹکارے یا عمل کی بالکل حقیقت کو ختم کر دینے کی طرح نہ تھا۔ امام ابو حنیفہ اعمال کو واجب سمجھتے تھے۔ اوروہ خود بھی صاحب تقویٰ اور اعمال کے پیکر تھے۔ اوراعمال صالحہ نہ کرنے والے کو گناہ گار وظالم سمجھتے تھے۔
اس طرح وہ عملی کفر کرنے والے کو بھی کافر کہتے تھے اور ایسے لوگوں کا غالیہ مرجیہ کی طرح ارجائی دلائل سےدفاع نہیں کرتے تھے۔ (بلکہ آپ نے تو ظالم خلیفہ منصور کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دیا تھا.)
امام عبدالبر اور امام ابن عز حنفی نے بعض سند سے روایت کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے عمل کو ایمان میں شامل نہ کرنے اور ایمان کے کم زیادہ نہ ہونے کے عقیدے سے بعد میں رجوع کرلیا تھا۔ لیکن بعد کے کئی متاخرین احناف نے جمہور اہلسنہ کا عقیدہ اپنانے کی بجائے بسیط ایمان کے قائل ہیں اور عمل کو مرکب ایمان میں شامل نہیں سمجھتے۔
دار العلوم دیوبند سے صحیح بخاری کا ترجمہ مع شرح 'ایضاح البخاری' کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے باب الایمان میں وارد احادیث اور مسئلہ "یزید وینقص" (کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے) کی شرح میں مذکو رہے :
"امام بخاری نے جس انداز سے مسئلہ شروع فرمایا ہے، اس کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ ایمان تین چیزوں سے مرکب ہے : اعتقاد قلبی، قول لسانی، افعال جوارح... امام بخاری نے جو کچھ فرمایا ہے یہی جملہ سلف کا مسلک ہے، صحابہ وتابعین وتبع تابعین وجملہ امامان اسلام سب اس پر بالاتفاق عقیدہ رکھتے ہیں۔
ہاں مرجیہ وکرامیہ وجہمیہ ومعتزلہ وخوارج وروافض کو ان سے اختلاف ضرور ہے اور ان ہی کی تردید امام بخاری کا مقصد ہے...اگر اس سلسلہ میں کچھ اختلاف آتا ہے تو وہ امام ابو حنیفہ کا ہے کیونکہ صرف امام(ابو حنیفہ) ہی کی طرف لا یزید ولا ینقص(اعمال سے ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں) کی نسبت کی گئی ہے۔
اور جمہور یزید وینقص(ایمان کے گھٹنے بڑھنے) کے قائل ہیں گویا امام ابو حنیفہ بساطت ایمان کے قائل ہیں اور جمہور مرکب کے، اس لیے بظاہر تردید امام ابو حنیفہ ہی کی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اصل تو یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ سے 'لا یزید ولا ینقص' کا ثبوت ہی دشوار ہے... اور صحیح یہ ہے کہ امام تک ان کی نسبت کی صحت میں کلام ہے۔
اور حضرت علامہ کشمیری کی تحقیق کے مطابق امام ابو حنیفہ کے مذہب کا رخ ہی یہ نہیں ہے کہ جس کو امام بخاری سمجھ رہے ہیں۔ نیز ابراہیم بن یوسف تلمیذ امام ابو یوسف اور احمد بن عمران کا قول طبقات الحنفیہ میں موجود ہے کہ وہ ایمان کی کمی بیشی کے قائل تھے...
البتہ (ہم) احناف کے نزدیک ایمان بسیط ہے اور وہ صرف تصدیق کا نام ہے۔ اعمال اس میں داخل نہیں ہیں نہ وہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے۔ ہاں اعمال ایمان کی ترقی کے لیے ضروری ہیں...
بسیط ماننے والوں کی دو جماعتیں ہیں۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ ایمان کی حقیقت صرف تصدیق ہے۔ اعمال اور اقرار ایمان کی حقیقت میں داخل نہیں۔ امام اعظم اور فقہاء کہتے ہیں کہ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے۔ لیکن اعمال (اصل ایمان کی بجائے) ایمان کی (شاخوں کی) ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اور مرجیہ کہتے ہیں کہ اعمال بالکل غیر ضروری ہیں۔ ایمان لانے کے بعد نماز ادا کرنا اور کھانا دونوں برابر ہیں۔
بسیط ماننے والوں میں دوسری جماعت مرجیہ اور کرامیہ کی ہے۔ جو صرف اقرار کو ایمان کی حقیقت بتلاتے ہیں تصدیق اور اعمال اس کا جزو نہیں۔ صرف یہ شرط کہ اقرار لسانی کے ساتھ دل میں انکار نہ ہونا چاہیے۔"
(ایضاح البخاری: ۲-۱۳۲/۱۳۸)
اس لیے احناف اصل ایمان کی ترقی اور اس کے بڑھنے کے قائل نہ ہونے اور مرکب ایمان میں عمل کو شامل نہ کرنے، اور ایمان کے گھٹنے بڑھنے کو نہ ماننے کی وجہ سے اس مسئلہ میں دیگر جمہور اہلسنت سے خلاف کرتے ہیں. اس لیے سلف صالحین احناف کو ارجاء کے باب میں ہی گنتے ہیں۔