اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
اصول غامدی:۔
غامدی صاحب نے مبادی تدبر قرآن سے متعلق کچھ اصول ذکر کئے ہیں اور تمھیداً قرآن مجید کی عربی فصاحت وبلاغت اوراس کے معجزاتی کلام ہونے پر مختصر بحث کی ہے جس سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔آگے غامدی صاحب رقمطراز ہیں :۔
قرآن مجید کے بعد یہ زبان احادیث اور آثار صحابہ کے ذخائر میں ملتی ہے اس میں شبہ نہیں کہ روایت بالمعنی کی وجہ سے ان ذخائر کا بہت تھوڑا حصہ ہی ہے جسے اب زبان کی تحقیق میں سند وصحت کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے لیکن یہ جتنا کچھ بھی باقی ہے اہل ذوق کے لئے متاع بے بہاہے۔(اصول ومبادی،ص۱۴)
جواب:۔
بلا شبہ قرآن مجید کے بعد عربی زبان احادیث اور آثار صحابہ کے وسیع ذخائر میں ہی ملتی ہے اور یہ کہنا کہ روایت بالمعنی کی وجہ سے بہت تھوڑا حصہ ہی باقی رہا ہے جسے اب زبان کی تحقیق میں سند وحجت کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے انتہائی کم علمی پر مبنی اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شک وشبھات پیدا کرنے والا اصول ہے اس میں شک نہیں کہ احادیث اوراقوال صحابہ ؓ میں کچھ مرویات روایت بالمعنی منقول ہوئیں ہیں مگر تمام ذخیرہ حدیث روایت بالمعنی منقول نہیں ہے اس لئے کہ صحابہ کرام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو بلفظہ بیان کرنے کے لئے کماحقہ کوشش فرمائی ہے۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریر ؓ کے متعلق ایک واقعہ بڑا مشہور ہے کہ مروان نے ایک مرتبہ ابوہریرہ ؓ کو بلوایا اور اپنے کاتب کو چارپائی کے نیچے بٹھا کر ابو ہریر ہ ؓ سے سوال کرنے لگا،ابو ہریرہ ؓ کے جوابات(احادیث)کو وہ کاتب چارپائی کے نیچے بیٹھا لکھتا رہا پھر ابو ہریرہ ؓ وہاں سے تشریف لے گئے ایک سال گزرنے کے بعد مروان نے ابو ہریر ہ ؓ کو پھر بلوا بھیجا اور اسی کاتب کو پردے کے پیچھے بٹھا دیا اور مروان نے گزشتہ سال پوچھے گئے سوالات کو ابو ہریرہ ؓسے دوبارہ پوچھنا شروع کردیا تو اس کاتب کا بیان ہے کہ ابو ہریر ہؓ نے ان جوابات (احادیث )میں نہ زیادتی کی نہ کمی نہ کوئی چیز آگے بیان کی اور نہ کوئی چیز پیچھے بیان کی ۔(سیر اعلام النبلائ،ج۳،ص۵۲۲)
اور اسی طرح صحابہ کرام سے تابعین کرام نے روایت بلفظہ ہی نقل کی ہیں ۔جیسا کہ امام ابن شہاب الزہریؒ کے متعلق امام ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں رقمطراز ہیں کہ’’خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے امام زہری سے تقریباً چار سو احادیث املا کروائیں اور پھر ایک مہینے کے بعد دوبارہ امام زہری کو بلوایا اور کہا کہ وہ کتاب جو آپ نے لکھوائی تھی ضائع ہو گئی ہے اسے دوبارہ لکھوادیں امام زہری نے کاتب کو بلوا کر وہ احادیث دوبارہ املا کر وادیں ۔خلیفہ نے اس کتاب کا تقابل جب سابقہ کتاب سے کیا تو اس میں ایک حرف کی چوک واقع نہیں ہوئی تھی ۔(تذکرۃ الحفاظ،ج۱،ص۱۳۷)
اور اگر روایت حدیث میں کوئی لفظی بھول چوک محسوس کی یعنی یہ شبہ ہوا کہ یہ لفظ بیان فرمایا تھا یا یہ لفظ۔تو بجائے کسی ایک لفظ نقل کرنے کے وہ دونوں الفاظ ہی نقل فرمادئیے۔ باوجود اس کے کہ وہ دونوں الفاظ ہم معنی مترادف تھے ۔ مثلا ایک روایت میں راوی کو شبہ ہوا کہ حدیث میں لفظ مومن آیا ہے یا موقن تو راوی حدیث نے شبہ کو بالکل ختم کردینے کے لئے دونوں الفاظ کو نقل کردیا ۔حالانکہ دونوں الفاظ معناً مترادف ہیں ۔ اس قدر احتیاط کے باوجود غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ اکثر مرویات بالمعنی منقول ہوئیں ہیں کم علمی اور حدیث رسول سے تعصب نہیں تو اور کیا ہے ۔آگے غامدی صاحب رقمطراز ہیں’’ اس کے(حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ ؓ)بعد اس زبا ن کا سب سے بڑا ماخذ کلام عرب ہے ۔‘‘(اصول ومبادی میزان صفحہ ۱۴)
اس بات سے ہم بھی متفق ہیں کہ لغت میں قرآن وصحیح حدیث کے بعد کلام عرب کا نمبر آتا ہے۔ غامدی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ لغت وادب کہ ائمہ اس بات پر ہمیشہ متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی بناء پرزبان کی تحقیق میں سند وحجت کی حیثیت رکھتا ہے (اصول ومبادی میزان صفحہ ۱۶)