• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غامدی صاحب: دبستان شبلی کے وارث یا دبستان سرسید کے جانشین

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
تعارف
غامدی صاحب: دبستان شبلی کے وارث یا دبستان سرسید کے جانشین

غامدی صاحب کے حلقہ فکر کا علمی اثاثہ صرف گنے چُنے موضوعات کیوں؟​
غامدی صاحب ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’شبلی ہنگامۂ مشرق میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۴ء کے ہنگامۂ مغرب میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ انہی کا دور ہے جس میں مغربی تہذیب سے ہمارا پہلا تعارف ہوا اور اس کے نتیجے میں یہ امّت دو گروہوں میں بٹ گئی۔ ان میں سے ایک گروہ اس بات پر مصر ہوا کہ نہ دین کو خاص اپنے مکتب فکر کے اصول و مبادی اور اپنے اکابر کی رایوں سے بالاتر ہو کر براہ راست قرآن و سنت سے سمجھنا ممکن ہے اور نہ مغربی تہذیب اور اس کے علوم اس کے مستحق ہیں کہ وہ کسی پہلو سے اہل دین کی نظروں میں ٹھہریں۔ یہ دیو بند کا گروہ ہے۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جن کے نزدیک حق و باطل کا معیار یہی تہذیب اور اس کے علوم قرار پائے۔ ان کا سرخیل وہی بڈّھا [سرسیّد احمد خان] تھا جس کے بارے میں خود شبلی نے کہا تھا ؂ پیری سے کمر میں اک ذرا خم۔ شبلی ان دونوں کے مقابلے میں ایک تیسری جماعت کے بانی ہوئے۔ اس جماعت کے بنیادی اصول دو تھے: ایک یہ کہ ہمارے لیے ترقی یہی ہے کہ ہم پیچھے ہٹتے چلے جائیں۔ دوسرے یہ کہ یہ خود قدیم کی ضرورت ہے کہ ہم جدید سے بھی اسی طرح آشنا رہیں جس طرح قدیم سے ہماری شناسائی ہے۔ میں اسے ’’دبستان شبلی‘‘ کہتا ہوں۔ اس دبستان میں جس شخص کو امام العصر کہنا چاہیے وہ تنہا حمید الدین فراہی ہیں۔ چنانچہ اس راہ کے مسافروں میں منزل بھی تنہا اسے ہی ملی۔ اب اس وقت دیکھیے، پہلے گروہ کی عمر پوری ہوچکی۔ دوسرا گروہ پرانی ضلالتوں کی کچھ عرصے کے بعد مٹ جائے گا۔ آنے والے دور کی امامت ’’دبِستان شبلی‘‘ ہی کے لیے مقدر ہے۔‘‘ اس لفاظی کے بعد غامدی صاحب خود کو دبستان شبلی کی مسند کا واحد اور آخری جانشین سمجھتے ہوئے بزعم خود مسند نشین ہوجاتے ہیں اس دبستان کے سرخیل حمید الدین فراہی کی شخصیت اور افکار کا ابھی تک سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا گیا۔ عموماً ان کی شہرت ۱۹۳۰ء میں معارف میں سلیمان ندویؒ کے معرکہ آراء شذرے سے عام ہوئی کیونکہ ان کی تحریریں جان بوجھ کر شائع نہیں کی گئیں سلیمان ندویؒ فراہی صاحب کے بارے میں اس وقت شدید تحفظات کا شکار ہوگئے تھے جب ان کی بعض غیر مطبوعہ تحریریں دارالمصنفین طباعت کے لیے آئیں لیکن ان کی طباعت سے انکار کر دیا گیا۔ دبستان شبلی کے بانی حمید الدین فراہی کی زندگی کو بھی از سر نو دیکھنے کی ضرورت ہے: ۱۹۰۰ء میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نے عرب سرداروں سے سیاسی تعلقات قائم کرنے کے لیے سواحل عرب اور خلیج فارس کا خفیہ سفر کیا اس سفر میں ترجمانی کے لئے حمید الدین فراہی کا انتخاب کیا گیا یہ انتخاب کس کے کہنے پر ہوا تھا یہ ایک الگ داستان ہے اسی سفر سے واپسی پر علی گڑھ میں انھیں عربی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ حیدر آباد دکن میں دارالعلوم میں تدریس کی نوکری دی گئی، جو وہاں کا سب سے بڑا سرکاری مدرسہ تھا الہ آباد یونیورسٹی سے عربی کی پروفیسری چھوڑ کر اسکول کی نوکری کیوں قبول کی گئی؟ یہ وہی حیدرآباد تھا جہاں علامہ اقبال عدالت کا جج بن کر جانا چاہتے تھے، کشن پرشاد وزیر اعظم حیدر آباد، سر اکبر حیدر ی اقبال سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود اقبال کومغرب کے خلاف شاعری کے جرم کی پاداش میں حیدر آباد کی ملازمت نہیں مل سکی۔ لیکن حمید الدین فراہی کو بغیر خواہش کے یہ ملازمت دے دی گئی اور یونیورسٹی کی پروفیسر شپ پر ایک اسکول کی مدرسی انھوں نے بخوشی قبول کرلی جبکہ مالی طور پر وہ آسودہ شخص تھے ضرورت مند نہ تھے۔ اس سوال پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ فراہی صاحب کو اپنے عہد کے وائسرائے کرزن کے ایک خفیہ سفر میں کرزن کی ترجمانی کا شرف بخشا گیا تھا۔عصر حاضر کے لارڈ کرزن نے غامدی صاحب کو مغرب اور اسلام کی ترجمانی کے لیے کیوں منتخب کیا ہے؟ یہ محض اتفاق ہے یا حادثہ؟ اس سوال کے جواب سے بے شمار عقدے حل ہوجائیں گے۔ اصلاً غامدی صاحب دبستان سرسیّد کے حقیقی، روحانی، معنوی اور اصلی جانشین ہیں جو قرآن کو کلام اللہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ غامدی صاحب ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے سرسید کی طرح ان کی شخصیت مکمل ارتقاء یافتہ نہیں ہوسکی ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے جو جلد پوری ہوجائے گی۔ لیکن برعظیم کی اسلامی تاریخ میں علامہ اقبال کے بعد وہ دوسرے آدمی ہیں جس نے سنت کا بحیثیت ماخذ دین علماً و عملاً انکار فرما دیا ہے اور سنت کو رسول اللہ سے خاص کرنے کے بجائے اسے حضرت ابراہیمؑ اور تمام انبیاء سابقین سے مختص کر دیا ہے۔ یہ ارتقاء کا پہلا زینہ ہے دوسرا زینہ سرسید کے تتبع میں قرآن کے کلام اللہ سے انکار پر منتج ہوگا۔ سنت کو ماخذ دین کے طور پر منہدم کرنے کے لیے غامدی صاحب نے ۱۹۷۸ء سے لے کر ۲۰۰۷ء تک سنت کے تقریباً چودہ مختلف اور متضاد مفاہیم بیان کیے ہیں اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ ہر مفہوم کے ساتھ لاریب کا صیغہ بھی استعمال فرماتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’محمدؐ سے دین ہمیں تین صورتوں میں ملا ہے۔ قرآن مجید ، سنت ثانیہ، حدیث۔ ہمارا دین رسول کی ذات ہی سے وابستہ ہے ان کے اوامرو نواہی تقاریر و گفتگوئیں نصیحتیں اور تادیبات اعمال اور فیصلے یہاں تک کہ کسی معاملے میں ان کی خاموشی بھی اسے دین کا حصہ بنادیتی ہے لہٰذا لاریب ہم بلا تامل یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ دین کا ماخذ تنہا رسو ل اللہ کی ذات ہے ان سے دین ہم تک قرآن کے الفاظ سے آتا ہے یا اس کے مطابق ان کے عمل سے یہی چیز ہے جسے ہم سنت کہتے ہیں‘‘ کتاب و سنت ایک حقیقت کے دو روپ ہیں جو کچھ دین ہے وہ کتاب و سنت ہی سے ماخوذ ہے۔دین کے ماخذ قرآن و سنت ہیں جب کہ اسلامی قانون کے ماخذ قرآن سنت اور اجتہاد ہیں۔ کیوں کہ امام اصلاحی قیاس اجماع کو اجتہاد کی دو قسمیں بتاتے ہیں]دین کا ماخذ صرف قرآن نہیں بلکہ رسول اللہ بھی ہیں، دین پیغمبر کے قول فعل تقریر و تصویب کا نام ہے۔ اللہ کے رسول نے دین کو جاننے کے لئے تین چیزیں چھوڑی ہیں قرآن سنت حدیث ان تینوں ذرائع سے جب کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو دین کا جزو بنتی ہے۔ قرآن مجید دین کا ایک حصہ ہے سارا دین نہیں حدیث قرآن و سنت کے کسی حکم کی تشریح کرتی ہے۔ جمہوریت ایک باطل نظام ہے اس کے لئے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اس موضوع پر غامدی صاحب نے اشراق جون ۸۹ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

ایک زمانے میں عورت کی ختنہ، ایام حیض میں عورت کے روزوں کی قضاء سُنت سے ثابت تھی، سنت کی روشنی میں حائضہ عورت مسجد نہیں جاسکتی تھی چور کا ہمیشہ دایاں ہاتھ کاٹنا سنت تھا، ارتقاء کے اس سفر کے دوران ایک تقریر میں فرماتے تھے، قرآن مجید دین کا ایک حصہ ہے سارا دین نہیں۔ حدود میں قتل سرقہ زنا قذف کی سزاؤں کا غیر مسلم رعایا پر بھی یکساں اطلاق سُنت سے ثابت تھا۔ انھیں اسلامی انقلاب کے نبوی منہاج کی پوری تاریخ اور مراحل قرآن مجید حدیث و سنت کے ذخائر میں محفوظ نظر آتی تھی ان کی نظر میں اس وقت جمہوریت ایک باطل نظام تھا جس کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ جماعت اسلامی کو جمہوری عمل میں شرکت پر غامدی صاحب نہابت جلی کٹی سناتے تھے لیکن اچانک تاریخ رک گئی زمین و آسمان کی نبضیں تھم گئیں اور غامدی صاحب کے خیالات ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر حملے کے بعد بالکل ہی بدل گئے۔

جاوید غامدی صاحب کو اس بات کا زعم ہے کہ دبستان شبلی مشرق و مغرب کا جامع ہے اورعالم اسلام میں یہ واحد دبستان ہے جو جدیدو قدیم علوم سے واقف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال محض دعویٰ ہے۔ حمید الدین فراہمی جدید مغربی فکر و فلسفے اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے مباحث سے قطعاً ناواقف تھے۔ اصلاحی صاحب کادعویٰ تھا کہ اس موضوع پر انھوں نے مسودہ تحریر فرمایا تھا لیکن شاید وہ اس قابل نہ تھا کہ اہل علم اس سے استفادہ کرسکتے۔ سوسال گزر جانے کے باوجود اہل علم اس مسودے سے لاعلم ہیں۔ خود غامدی صاحب بھی اس سے مستفید نہ ہوسکے۔ یہی حال امین احسن اصلاحی کا تھا۔ وہ بھی جدید مغربی فکر و فلسفے کے مباحث سے یکسر ناواقف رہے اور کبھی ان علوم کی تحصیل نہیں کی قدیم علوم میں امت کے تعامل اور صحابہ کبار کے نظائر کو ترک کر کے اپنے استاد فراہی صاحب کی آزادانہ پیروی پر فخر کرتے رہے۔ جاوید غامدی صاحب قدیم علوم میں فراہی صاحب اور اصلاحی صاحب جتنی استعداد بھی نہیں رکھتے، ان کو زعم ہے کہ وہ لغت عرب اور ادب جاہلیت کے واحدسوداگر ہیں لیکن ان کی عربی دانی کا حال یہ ہے کہ وہ عربی زبان میں ایک درست جملہ لکھنے سے قاصر ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں غامدی صاحب نے پہلی مرتبہ عربی زبان میں کل ایک سو بائیس صفحات لکھے اور صرف ۲۲ صفحات الاعلام کے چار شماروں میں شائع کیے ان مضامین کی عربی املا، انشاء، زبان، بیان،صرف و نحو، مطالب مفاہیم ہر اعتبار سے اغلاط کا دفتر ہے۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ۱۹۸۲ء کی یہ غلط در غلط بلکہ غلط سلط تحریریں آج بھی المورد کی ویب سائٹ [۵؍ اپریل ۲۰۰۷ء تک] پر موجود ہیں جس میں ۱۹۸۲ء کی تمام اغلاط من و عن درج ہیں۔ جاوید غامدی صاحب آج بھی اپنی ۲۷ سال قدیم اور غلط عربی تحریر کی تصحیح کی صلاحیت سے عاجز و قاصر ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ تحریر بھی ان کی نہیں ہے کسی اور سے لکھوائی گئی ہے۔ ورنہ ارتقاء کے اصول کے تحت ہر شخص اپنی ۲۷ سالہ پرانی تحریروں کی تصحیح و ترمیم بخوبی کرسکتا ہے۔

اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کے حلقہ مفکرین میں ایک بھی شخص اس قابل نہیں کہ وہ غامدی صاحب کی عربی اغلاط کی تصحیح کرسکے گویا غامدی صاحب کے شاگردوں کا پورا حلقہ عربی دانی کی بنیادی صلاحیت سے عاری ہے جو علوم اسلامی اور اجتہاد کے لیے لازمی بنیادی صفت ہے۔ ۲۷ سالہ پرانی غلطیوں پر قائم و دائم رہنا اور اس غلط سلط عربی تحریر کو ۲۰۰۷ء میں بھی سینے سے لگائے رکھنا، تاریخ ادب عربی کا افسوس ناک سانحہ ہے۔ غامدی صاحب مغربی فکر و فلسفے کے بنیادی مباحث اور بنیادی کتابوں سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ۱۹۶۵ء میں ۱۴ سال کی عمر میں انھوں نے ایک اکیڈیمی قائم کرنے کا سہانا خواب دیکھا جس کا عملی آغاز بقول ان کے ۱۹ سال کی عمر میں ۱۹۷۰ء میں ہوا اور ۷۵ء میں یہ اکیڈیمی وجود میں آگئی۔ جب غامدی صاحب کی عمر صرف ۲۴ سال تھی ظاہر ہے اس کچی عمر کے خواب خواب پریشاں ہی ہوسکتے ہیں جس کے باعث پوری امت اب بے خوابی کی کیفیت میں مبتلا کر دی گئی ہے۔ ۱۴ اور ۱۹ سال میں علمی فتوحات کے خوبصورت خواب دیکھنے اور دکھانے والے غامدی صاحب کو اصلاحی حلقہ علم میسر آیا وہ بھی امت کے تعامل سے انحراف میں فخر محسوس کرتا تھا لہٰذا یہ صحبتیں غامدی صاحب کو مزید گم راہ کرنے میں ممدو معاون ہوئیں، کشمش بننے سے پہلے منقیّٰ بننے کی کوشش نے غامدی صاحب کی نفیس و تستعلیق شخصیت میں موجود بے کراں امکانات کی سرزمین کو ایک اجاڑ اور بنجر ویرانے میں بدل ڈالا جہاں زقوم کاشت کیا جا رہا ہے۔ سب کو کہنی مار کر آگے بڑھنے اور سب میں نمایاں نظر آنے کا وصف خاص جماعت اسلامی سے ان کے اخراج کا باعث بنا۔ مولانا مودودیؒ نے انھیں خوب اچھی طرح پہچانا اور ایک دن خاموشی سے انھیں ادارہ معارف اسلامی سے ہمیشہ کے لیے رخصت کر دیا گیا۔ مولانا مودودیؒ نے جدیدیت پسند اسرار عالم، نجات اللہ صدیقی، وحید الدین خان، کوثر نیازی اور ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کو بروقت پہچان لیا تھا۔ غامدی صاحب کو متوسلین کا جو حلقہ ملا وہ بھی سونے پر سہاگہ تھا، جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی سے نکلنے والے یا نکالے جانے والے علمی پیاس بجھانے کے طلب گار اس پنگھٹ پر جمع ہونے لگے، گھانٹ گھانٹ سے، گھونٹ گھونٹ پانی پی کر سیرابئ علم کا تماشہ دیکھنے والوں کا ایک شکستہ، خستہ، بے حال، بے بال و پر قافلہ جمع ہوگیا جسے کراچی اور لاہور کے بعض سرمایہ داروں کے رزق کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ جاوید غامدی کے تربیت یافتہ تمام طلباء مغربی فلسفے، جدید سائنس، سوشل سائنس کے مباحث سے یکسر ناواقف ہیں، دینی علوم میں کورے، مشرق و مغرب سے بے خبر کردار میں ادھورے مگر عہد جدید کے لال بجھکڑ ہیں جن کا کام اسلامی تاریخ و تہذیب و عقائد میں کیڑے ڈالنا ہے، ان تمام مفکرین کی مشترکہ اساس یامشترکہ علمی و عملی اثاثہ غامدی صاحب کے بے ربط متون کی تشریح اور قصداً ٹوپی ترک کرنا اور داڑھی کو ممکنہ حد تک مختصر رکھنا ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی اکیڈیمی کے نصاب کے لیے جو کتابیں تجویز فرمائیں وہ مغربی فلسفے سے ان کی عدم واقفیت کا ثبوت ہیں نصاب میں ہائیڈیگر جیسے عظیم فلسفی کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ اس نصاب میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی پر بھی کسی فلسفی کی کوئی کتاب نہیں رکھی گئی۔ غامدی صاحب بیسویں صدی کے کسی حقیقی فلسفی [اوریجنل فلاسفر] سے واقف نہیں ہیں وہ پس جدید فلاسفہ کے علمی کام سے بھی ناواقف ہیں۔ اگر ان فلاسفہ سے وہ واقف ہوتے تو یقیناًنصاب میں مشل فوکو، دریدا، ڈلیوز، ہیبرماس، جان رالس، رچرڈ رارٹی کے متون لازماً شامل ہوتے۔ انھوں نے اپنی فہرست میں سارتر کو سرفہرست رکھا جو ہائیڈیگر، فوکو، ڈلیوز، ہیبرماس کے سامنے معصوم بچہ نظر آتا ہے۔ غامدی صاحب جدید فلسفہ معیشت سے بھی قطعاً لاعلم ہیں۔ ور نہ وہ لیوہیوبرمین کی کتاب Man's Wordly Goodsجیسی از کار رفتہ کتاب شامل نہ کرتے جس کا جدید فلسفہ معیشت سے دور کا تعلق بھی نہیں، لیکن جس کا ترجمہ ایک زمانے میں بہت مقبول ہوگیا تھا۔ وہ شامپٹر کی کتاب History of Economical Analysis سے ناواقف ہیں۔ جدید معیشت پر ہیش مین، گلبرٹ، لپسی، سیمولسن کی معروف کتابوں سے بھی وہ واقف نہیں۔ لیو ہیوبرمین کی کتاب کے سوا تیس سال میں فلسفہ معیشت پر انھوں نے کوئی کتاب نہیں پڑھی، اس لیے ۱۹۷۸ء سے ۲۰۰۴ء تک معیشت پر ان کے ہر مضمون اور تقریر میں صرف اسی کتاب کا حوالہ بڑے کروفر سے ملتا ہے۔ وہ سرمایہ داری پر کسی کتاب سے واقف نہیں۔ انھیں مغرب کے عروج، عیسائیت کے زوال، سرمایہ داری کے عروج میں پروٹسٹنٹ ازم کے کردار کا بھی علم نہیں۔ ان کی کم علمی کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فلسفہ سیاست کے لیے بلنچلی کی کتاب Theory of State تجویز فرماتے ہیں یہ وہی کتاب ہے جو حمید الدین فراہی نے اپنے ایام طالب علمی میں پڑھی اور اصلاحی صاحب کو سبقاً سبقاً پڑھائی۔ زمانہ ایک صدی آگے نکل گیا لیکن غامدی صاحب فلسفہ سیاست کی فہرست کتب میں اس کتاب کے سوا کچھ اور دیکھنے سے قاصر رہے۔ وہ اسٹراؤس کی کتاب History of Political Philosophy، لوئس کی Readings in Social Science سے واقف نہیں وہ ریکارڈ مل بیتھم ریکارڈو کی کتب اور پولیٹیکل اکانومی کے مباحث سے بھی قطعاً لاعلم ہیں۔ وہ Theory of Moral Centiments سے ناواقف ہیں جو جدید معیشت کی انجیل اور مذہب معیشت کی مابعد الطبیعیات ہے۔ منطق پر ارسطو اور مل کا کام غامدی صاحب کے نصاب میں شامل نہیں کیونکہ وہ اس سے واقف ہی نہیں ہیں۔

Hermunitic logic پر ریکوائر اور ہیبرماس کے کام کی آگہی بھی غامدی صاحب کو حاصل نہیں اس لیے جدید منطق ان کے نصاب میں شامل نہیں جو ان کی لاعلمی کا ثبوت ہے۔ Hermunitic کے علم کے بغیر تو جدید مغربی فلسفہ کے مفاہیم اور عزائم و ارادوں کو سمجھنا ممکن ہی نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو وہ قدیم علوم سے سطحی واقفیت رکھتے ہیں اور جدید علوم کی امہات کتب سے قطعاً ناواقف ہیں اس کے باوجود غرہ اس بات کا ہے کہ آنے والا دور ان کے حلقہ جہلا کا مقدر ہے اور مسند علم ان کے لیے خالی کر دی گئی ہے۔ ان کے حلقہ فضلاء میں شامل برخود غلط مجتہدین، اور محققین کا کل علمی اثاثہ درج ذیل ہے [۱] مغر امجد اسلام پر دو کتابچے [۲] شہزاد سلیم غامدی صاحب کے مضامین کے انگریزی ترجمے [۳] منظور الحسن غامدی صاحب کی تقریریں مرتب کر کے مصنف کہلاتے ہیں۔ [۴] طالب محسن نے کیا لکھا کتابی شکل میں شائع نہیں ہوا۔ [۵] رفیع مفتی نے رسول اللہ کا نکاح، مسئلہ تصویر اور ظہور مہدی پر کچھ لکھا ہے۔ [۶] ساجد حمید کی اہم تصانیف مشکلیں کیوں آتی ہیں بدگمانی سے کیسے بچیں، صبر کیا ہے؟ [۷] عمار خان ناصر شیخ الحدیث ، مولانا سرفراز خان صفدر کے پوتے اور زاہد الراشدی کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا علمی کام مسجد اقصیٰ پر تین بے بنیاد مضامین ہیں۔ یہ مضامین بھی غامدی صاحب کی تحقیق ہیں لیکن نام ایک راسخ العقیدہ گھرانے کے فرزند کا استعمال کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق خان کی تمام کتابیں غامدی صاحب کے مضامین، تقاریر پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان پر غامدی صاحب کا نام شائع نہیں ہوتا ان میں جرأت ہی نہیں ہے کہ اپنا فکر اپنے نام سے پیش کرسکیں۔ فاروق خان نہ علم حدیث سے واقف ہیں نہ علم تفسیر سے، ان کی تمام کتابیں غامدی صاحب کی آراء پر مشتمل ہیں۔ کوکب شہزاد نے زندگی میں کبھی کوئی کتاب نہیں لکھی یہی حال محمد بلال کا ہے۔ نعیم بلوچ بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے ہیں اور بچوں کو ختنہ کے موضوع پر گفتگو کے آداب سکھاتے ہیں۔ [کتابوں سے متعلق تمام معلومات المورد غامدی اشراق اور رینے ساں کی ویب سائٹ سے ۵؍ اپریل کو لی گئی ہیں بقیہ معلومات ان کی تحریروں، پمفلٹ، اور تین سو کسیٹ سے اخذ کی گئی ہیں] بڑوں سے لے کر بچوں تک اس حلقے کا دلچسپ موضوع ختنہ شریف ہے۔ عورت کی ختنہ سنت ہے یا بدعت۔ جاوید غامدی ہوں یا نعیم بلوچ عصر حاضر کا اہم ترین مسئلہ ختنہ کے مسائل اور ختنہ پر گفتگو کا سلیقہ سکھانا ہے۔ ختنے کے مسئلے میں مولویوں کے پیدا کردہ مسائل ان کو یاد ہیں لیکن عریانی، فحاشی، ٹی وی، میڈیا، مغربی تہذیب، فلسفے، اقدار، روایات سے پیدا ہونے والے مسائل کا ان کی تحریر و تقریر میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے آقا کی ہدایت یہی ہے کہ ان امور میں غص بصر، درگزر اور عفو سے کام لو۔ [۸] سمیع مفتی غامدی صاحب کی تحریروں کے عربی مترجم ہیں کیونکہ بے چارے غامدی صاحب جو عہد حاضر کے سب سے بڑے عالم عربی ہیں جن کے بارے میں سہیل عمر ناظم اقبال اکادمی کے یہ فرد موات بذریعہ فراست رضوی ہم تک پہنچے ہیں کہ عالم عرب میں کوئی غامدی جیسی عربی نہ لکھ سکتا، نہ بول سکتا وہ عربوں کو عربی پڑھاتے ہیں اور جب وہ عربی بولتے ہیں تو بڑے بڑے علمائے عرب لغات کھول کر اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ غالباً یہ تمام علمائے عرب سہیل عمر صاحب کے توسط سے اقبال اکیڈیمی کے خرچ پر غامدی صاحب کے دروازے تک پہنچے ہیں اس لیے ان قیمتی معلومات سے ان کے سوا کوئی واقف نہیں۔ غامدی صاحب کی عربی کا حال تو اگلے صفحات میں رضوان علی ندوی صاحب کے خامہ معجز رقم سے پڑھ لیجیے۔ اگر یہ عربی کے اتنے بڑے عالم ہیں تو اپنی تحریریں ترجمہ کیوں کراتے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں غامدی صاحب نے الاشراق کے نام سے عربی میں تفسیر قرآن لکھنے کا اعلان کیا تھا۔ مستنصر میر کے مطابق یہ تفسیر ۱۹۸۰ء میں لکھی جاچکی تھی، لیکن آج تک شائع نہیں کی گئی۔ دائرۃ المعارف کے ڈاکٹر محمد امین کی روایت کے مطابق اس تفسیر کے مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد کلیہ علوم شریعہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر منصوری نے انھیں طویل خط لکھا جس میں عربی کی سینکڑوں اغلاط واضح کرنے کے بعد منصوری صاحب نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ آپ صرف اردو میں لکھیں لہٰذا اس مشورے کی پیروی میں غامدی صاحب نے مستقبل کے منصوبوں سے عربی تفسیر کو خارج کر دیا۔ لیکن اپنی ویب سائٹ پر ایک جگہ الاشراق کے مصنف ہونے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ دوسری جگہ الاشراق کو تصانیف کی فہرست میں نہیں رکھا گیا۔

سلیم شہزاد، منظور الحسن، سیمع مفتی، کوکب شہزاد، عمار ناصر، مغر امجد، رفیع مفتی کا کام محض غامدی صاحب کے مضامین کی جگالی اور ان کے بے ربط غیر علمی متون کی تشریح و حاشیہ آرائی کے سوا کچھ نہیں، ان محققین کا کوئی وقیع کام دکھایا نہیں جاسکتا۔ المورد کے ان مفکرین کی سالانہ تنخواہوں پر لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ لیکن اس تہی دامنی کے باوجود یہ جہلاء علماء کو مطعون کر کے عرب و عجم اور مغرب پر اپنے غرور علم کا پرچم لہرانے چلے ہیں۔ یہ دبستان شبلی کی کل علمی میراث ہے۔ اس میراث پر غرہ یہ ہے کہ عرب و عجم کو غامدی صاحب فتح کرلیں گے اور مشرق و مغرب کو ملا دیں گے۔ بے چارہ دبستان شبلی کروڑوں روپے کے خرچے کے بعد عام سے موضوعات پر ۳۵ سالوں میں چند کتابچے اور کتابیں تحریر کرسکا۔ اشراق اعلام رینے ساں کے شماروں میں آپ کو مغرب، مغربی فلسفہ، مغربی علوم سائنس و ٹیکنالوجی جدید عہد کے پیدا کردہ مسائل پر ایک مضمون ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ اس کے باوجود دعویٰ ہے کہ یہ جدیدیت سے واقف ہیں۔ جہلا اپنے آپ کو علماء کہلانے پر مصر ہیں۔ یہ اس عہد کا المیہ ہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
شاہد نذیر بھائی ، مضمون کے عنوان کے نیچے ، مضمون نگار کا نام بہرصورت لکھا کیجیے۔
سلیم شہزاد، منظور الحسن، سیمع مفتی، کوکب شہزاد، عمار ناصر، مغر امجد، رفیع مفتی کا کام محض غامدی صاحب کے مضامین کی جگالی اور ان کے بے ربط غیر علمی متون کی تشریح و حاشیہ آرائی کے سوا کچھ نہیں، ان محققین کا کوئی وقیع کام دکھایا نہیں جاسکتا۔ المورد کے ان مفکرین کی سالانہ تنخواہوں پر لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ لیکن اس تہی دامنی کے باوجود یہ جہلاء علماء کو مطعون کر کے عرب و عجم اور مغرب پر اپنے غرور علم کا پرچم لہرانے چلے ہیں۔ یہ دبستان شبلی کی کل علمی میراث ہے۔ اس میراث پر غرہ یہ ہے کہ عرب و عجم کو غامدی صاحب فتح کرلیں گے اور مشرق و مغرب کو ملا دیں گے۔ بے چارہ دبستان شبلی کروڑوں روپے کے خرچے کے بعد عام سے موضوعات پر ۳۵ سالوں میں چند کتابچے اور کتابیں تحریر کرسکا۔ اشراق اعلام رینے ساں کے شماروں میں آپ کو مغرب، مغربی فلسفہ، مغربی علوم سائنس و ٹیکنالوجی جدید عہد کے پیدا کردہ مسائل پر ایک مضمون ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ اس کے باوجود دعویٰ ہے کہ یہ جدیدیت سے واقف ہیں۔ جہلا اپنے آپ کو علماء کہلانے پر مصر ہیں۔ یہ اس عہد کا المیہ ہے۔
حاصل مطالعہ فقرے ہیں۔ اقتباس میں گنائے گئے چند ناموں سے میں واقف ہوں اور ان کی تحریریں کافی پڑھی ہیں ۔۔۔ لیکن غامدیت سے ان کے اس قدر "تعلق" والی بات علم میں نہیں تھی۔
 
Top