- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
غامدی صاحب کا یہ دعوی ہے کہ وہ فکر فراہی کے امین ہیں جبکہ ان کا یہ دعوی قطعی طور غلط ہے۔ وہ اصول وفروع میں فکر فراہی سے منحرف ہیں۔ ہم ذیل میں ایک مثال سے اس دعوی کی صداقت کا تجزیہ کریں گے۔
فکر فراہی کا ایک امتیاز تفسیر قرآن مجید میں نظم قرآن کے اصول کو نمایاں کرنا ہے۔ استاذ حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرآن کے سیاق وسباق اور نظم قرآن سے چہرے کا پردہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’ ’حجاب کے مسئلہ میں تفاسیر اور فقہ میں پوری توضیح موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے۔ میری رائے میں نظمِ قرآن پر توجہ نہ کرنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ ایسی قدیم غلطیوں کا کیا علاج کیا جائے! کون سنتا ہے کہانی میری‘ اور پھر وہ بھی زبانی میری۔ فقہاء اور مفسرین کا گروہ ہم زبان ہے مگر صحابہ اور تابعین زیادہ واقف تھے۔ انہوں نے ٹھیک سمجھا ہے مگر متاخرین حضرات نے ان کا کلام بھی نہیں سمجھا۔ بہرحال الحق أحق اَنْ یُتَّبع۔ میں اس مسئلے پر مطمئن ہوں اور میرے نزدیک اجنبی سے پورا پردہ کرنا واجب ہے اور قرآن نے یہی حجاب واجب کیا ہے جوشرفاء میں مروّج ہے‘ بلکہ اس سے قدرے زائد۔ ذرا مجھے طاقت آئے تومفصل مضمون آپ کی خدمت میں بھیجوں۔ ‘‘ (فراہی‘ حمید الدین مولانا‘ ماہنامہ’ اشراق‘ مئی ۱۹۹۲ء‘ ص ۶۰‘ المورد‘ لاہور)
ان کے شاگرد استاذ امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ اس ٹکڑے سے کسی کویہ غلط فہمی نہ ہوکہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جواشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اوّل تواحکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں‘ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تووہ احکام کالعدم ہوجائیں۔ ‘‘(اصلاحی‘ امین احسن مولانا‘ تدبر قرآن‘ جلد۶‘ ص ۲۷۰‘ فاران فاؤنڈیشن‘ لاہور‘ طبع اوّل‘ نومبر۱۹۷۸ء)
فکر فراہی کے امین اور پاسدار ہونے کے دعویدار جناب غامدی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
’ ’ان آیتوں میں أن یعرفن فلا یؤذین کے الفاظ اور ان کے سیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہ کوئی پردے کا حکم نہ تھا‘ بلکہ مسلمان عورتوں کے لیے الگ شناخت قائم کر دینے کی ایک وقتی تدبیر تھی جو اوباشوں اور تہمت تراشنے والوں کے شر سے مسلمان عورتوں کومحفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی۔ ‘‘ (غامدی‘ جاوید احمد‘ میزان‘ص۲۵‘المورد‘دسمبر۲۰۰۹ء ص ۴۶۸)
متن ایک یعنی قرآن مجید، اصول بھی ایک یعنی نظم قرآن اور اور استاذ امام، امام اور مقتدی کی رائے میں کھلا تضاد؟
فکر فراہی کا ایک امتیاز تفسیر قرآن مجید میں نظم قرآن کے اصول کو نمایاں کرنا ہے۔ استاذ حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرآن کے سیاق وسباق اور نظم قرآن سے چہرے کا پردہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’ ’حجاب کے مسئلہ میں تفاسیر اور فقہ میں پوری توضیح موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے۔ میری رائے میں نظمِ قرآن پر توجہ نہ کرنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ ایسی قدیم غلطیوں کا کیا علاج کیا جائے! کون سنتا ہے کہانی میری‘ اور پھر وہ بھی زبانی میری۔ فقہاء اور مفسرین کا گروہ ہم زبان ہے مگر صحابہ اور تابعین زیادہ واقف تھے۔ انہوں نے ٹھیک سمجھا ہے مگر متاخرین حضرات نے ان کا کلام بھی نہیں سمجھا۔ بہرحال الحق أحق اَنْ یُتَّبع۔ میں اس مسئلے پر مطمئن ہوں اور میرے نزدیک اجنبی سے پورا پردہ کرنا واجب ہے اور قرآن نے یہی حجاب واجب کیا ہے جوشرفاء میں مروّج ہے‘ بلکہ اس سے قدرے زائد۔ ذرا مجھے طاقت آئے تومفصل مضمون آپ کی خدمت میں بھیجوں۔ ‘‘ (فراہی‘ حمید الدین مولانا‘ ماہنامہ’ اشراق‘ مئی ۱۹۹۲ء‘ ص ۶۰‘ المورد‘ لاہور)
ان کے شاگرد استاذ امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ اس ٹکڑے سے کسی کویہ غلط فہمی نہ ہوکہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جواشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اوّل تواحکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں‘ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تووہ احکام کالعدم ہوجائیں۔ ‘‘(اصلاحی‘ امین احسن مولانا‘ تدبر قرآن‘ جلد۶‘ ص ۲۷۰‘ فاران فاؤنڈیشن‘ لاہور‘ طبع اوّل‘ نومبر۱۹۷۸ء)
فکر فراہی کے امین اور پاسدار ہونے کے دعویدار جناب غامدی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
’ ’ان آیتوں میں أن یعرفن فلا یؤذین کے الفاظ اور ان کے سیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہ کوئی پردے کا حکم نہ تھا‘ بلکہ مسلمان عورتوں کے لیے الگ شناخت قائم کر دینے کی ایک وقتی تدبیر تھی جو اوباشوں اور تہمت تراشنے والوں کے شر سے مسلمان عورتوں کومحفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی۔ ‘‘ (غامدی‘ جاوید احمد‘ میزان‘ص۲۵‘المورد‘دسمبر۲۰۰۹ء ص ۴۶۸)
متن ایک یعنی قرآن مجید، اصول بھی ایک یعنی نظم قرآن اور اور استاذ امام، امام اور مقتدی کی رائے میں کھلا تضاد؟