• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غداری وخیانت کا ِفرقہ ،کفر ونفاق کا مجموعہ الشِّیْعَۃیہودیوں کا ایجنٹ کافر گروہ ھل اتاک حدیث الرافضة

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
علمائے مسلمین کا کردار...
علماء کی مسئولیت و ذمہ داری حکمرانوں سے کسی طور کم نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں اور خیر کی طرف راہنمائی کرنے والے اور معروف کا حکم دینے والے اور وہ امت کی آنکھوں کی مانند ہیں جس سے وہ حق و باطل کو پہچانتی ہے...اور ان کے بغیر امت ضلالت کے میدانِ تیہ میں سرگرداں پھرتی رہتی ہے۔یہاں علماء سے ہماری مراد ربانی علماء ہیں جو اپنی زندگیوں کو علم و عمل اور دعوت میں فنا کردیتے ہیں اور اس رستے میں آنے والے مصائب اور اذیتوں پر صبر کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو دنیا کو ہر گز ترجیح نہیں دیتے اور اپنی آخرت کو دنیا کے کم فائدے کی خاطر برباد نہیں کرتے۔نہ ہی وہ اس بات پر راضی ہوتے ہیں کہ دشمن ان کی سرزمینوں کو روندے اور اسے پامال کرے۔ ربانی علماء تو بطل وحریت کی راہ چلتے ہیں اور ہمیشہ جہاد و شہادت کے ذکر کی تذکیر کرتے ہیں۔پھر جب امت پر کڑا وقت آتا ہے تو وہ امت کی قیادت کرتے ہوئے اسے معرکوں کے میدان میں لے جاتے ہیں اور رشدو ہدایت کی راہ دکھاتے ہیں ...ایسے ہی ہمارے اسلاف تھے اور وہ ایسے ہر گز نہ تھے کہ محض علم کے حلقات پر تکیہ کرکے بیٹھ جائیں۔

امت کے وجود کا دفاع حتمی طور پر ان کی رائے پر موقوف ہوتا ہے اس لیے علماء پر یہ واجب ہے کہ وہ حق جہراً کھل کر بغیر کسی طاغوت سے خوف کھائے بیان کریں تاکہ وہ اللہ کی وعید کا مصداق نہ ٹہریں۔ اللہ گفرماتے ہیں{إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ} بے شک وہ لوگ جو ہماری نازل کردہ ہدایت کو کتاب میں ہمارے بیان کیے جانے کے باوجود چھپاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرتے ہیں لعنت کرنے والے۔اور ان پر لازم ہے حق کو ڈنکے کی چوٹ کہنا...{ الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ...} وہ لوگ جو اللہ کی رسالت کا پیغام پہنچاتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے...اور انہیں ڈرنا چاہیے کہ وہ لوگوں کو حق سے گمراہ کرنے کا وسیلہ بن جائیں{لِیَحْمِلُوا اٴَوْزَارَھُمْ کَامِلَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَمِنْ اٴَوْزَارِ الَّذِینَ یُضِلُّونَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ اٴَلاَسَاءَ مَا یَزِرُونَ} کہ قیامت کے دن وہ اپناکامل بوجھ اٹھائیں گے اوران لوگوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے ہیں تو کیا ہی برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے۔اس گمراہی میں سے یہ ہے کہ غاصب دشمن کے قبضہ کو تسلیم کرنے کے لیے امت کے سامنے باطل عذر پیش کیے جائیں ،عدمِ قدرتِ مزاحمت اور ولی الامر کی عدم مواقفت کے بہانے بنائے جائیں۔پھر اس کے بعد وہ دوسری بعید اشیاء میں امت کو مشغول کردیتے ہیں اور اہم ترین امور کو ترک کردیتے ہیں۔پس اولین ترجیح جس بات کے بیان و توضیح کی ہونی چاہیے وہ ہے ...''موجودہ صلیبی جنگ''!!جسے صلیبیوں نے امت کے خلاف شروع کر رکھا ہے۔

ایسے لوگ جواپنی نسبت علم کے ساتھ کرتے ہیں اور پھر وہ چاہتے ہیں کہ امت دشمن کے ہاتھوں لٹتی رہے اور وہ اس کا خون بہائے، اس کی عزتوں کو پامال کرے اور ان کے وسائل لوٹے ...تووہ سوائے علماء ومشایخِ سوء کے اور کچھ نہیں ہیں جنہوں نے اپنا دین دنیا کے تھوڑے فائدے کی خاطربیچ دیا ہے۔پھر ان میں ایسے ہیں جو جہاد سے منع کرنے کے فتوے داغتے ہیں اور اسے فتنہ قرار دیتے ہوئے اس سے بھاگنے کا درس دیتے سنائی دیتے ہیں۔بعض ان میں تنخواہ دار ہوتے ہیں اور وہ اپنے حاکم کے باطل احکام کی بھی تعمیل کرتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی نوکری بچانا ہے اور ''سلامتی '' اختیار کرنا ہے ۔ بلکہ ایسے لوگ اپنے افعال کے لیے ان باطل فتووں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو ''پکڑ '' سے بچالیں!!

ان لوگوں کا کردار ان صوفیوں کی طرح ہے کہ جب امت اپنے دشمن کے خلاف خونریز معرکہ میں مشغول تھی تو وہ اپنے ذکر میں مشغول تھے۔ یہ ایسے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی تأثیر صرف جاہلوں پر ہی ہوتی ہے یا ان لوگوں پر جو ان کے منہج پر چل رہے ہوتے ہیں!!!

اس لیے علمائے صادقین کو چاہیے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے لیے کھڑے ہوجائیں اور اپنا کردار ادا کریں جیسے کہ اس کا حق ہے۔ ورنہ میدان اوپر مذکور گمراہوں اور جاہلوں کے لیے کھلا رہ جائے گا اس لیے وہ اپنے کندھوں پر پڑی بھاری ذمہ داری کو محسوس کریں اور امت کے سامنے بیان کریں کہ دشمن کے ساتھ اسے کیسا تعامل کرنا ہے... کہ یہی وہ فریضہ ہے جس کے لیے اللہ گنے انہیں اپنی رسالت کا پیغام پہنچانے کے لیے منتخب کیا ہے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
(حزب الشیطان)''حزب اللہ''اور امت کی حالت!!!
موجودہ حالات میں اس جماعت کا کردار جو خود کو ''حزب اللہ'' کہتی ہے بہت خبیث ہے۔اس شیعی رافضی جماعت نے موجودہ حالات میں معاملات کو ملوّن کرنے میں بہت چالاکی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس نے دشمن کے سامنے یہ ظاہر کیا ہے کہ شیعہ ہی غاصب کے سامنے کھڑے ہیں اور اس کے لیے انہوںنے ''تحریکِ مزاحمتِ اسلامیہ'' کا بھیس بھی استعمال کیا ہے اور فلسطینی کارڈ کو بھی خوب استعمال کیا ہے کیونکہ وہ امت کا حساس ترین مسئلہ ہے۔یہاں سے اس حزب نے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور انہیں گمراہ کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ ایسے لوگ ان کا آسانی سے شکار ہوگئے ہیں جو شیعہ کی حقیقت اور اس کے خبیث کردار سے واقف نہیں۔کون نہیں جانتا کہ یہ حزب ایران کی سرپرستی اور یہودیوں کی ''برکت ''سے چل رہی ہے اور اسے لبنان کے پڑوسی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس حزب کے اہداف کا خلاصہ یہ ہے...
(۱)جنوب سے ابتدا کرتے ہوئے لبنان کے کونے کونے میں شیعیت کو پھیلانا اور سنیوں کا مکمل خاتمہ کرنا!

(۲)لبنان میں اہل السنۃ کی جماعتوں کو ختم کرنا اور انہیں کسی بھی حکومتی عہدہ تک پہنچنے سے روکنا اور معاشرے کی لگام شیعہ اور عیسائیوں کے ہاتھ میں دینا!

(۳)غاصب اسرائیلیوں کے خلاف دشمنی کا ڈرامائی کردار ادا کرنا تاکہ شیعہ کی خیانتوں اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دین کے دشمنوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی شہرت کو کم کیا جائے!

(۴)عام اہل السنۃ کو فلسطینی مسئلہ کی نصرت کے معاملہ میں گمراہ کرنا اور وحدتِ مزاحمت کے پردہ میں سنیوں کو نوکریاں دینا تاکہ ایران کے لیے پراپیگنڈہ کیا جائے۔

(۵)لبنان کو صلیبیوں اور شیعوں کے تمام منصوبوں کی تکمیل کے لیے آماجگاہ بنانا۔

وہ بات جو ہم کہتے ہیں اس کی سچائی کی دلیل اس حزب کا وہ موقف ہے جو اس نے موجودہ احداث میں اپنایا ۔ افغانستان پر قبضہ سے لیکر عراق تک شیعہ کی مناصرت اور اجنبی غاصب کی تائیداور اس اثناء میں عوام کو دھوکہ میں مبتلا رکھنے کے لیے امریکہ کے خلاف دشمنی کے جھوٹے کھوکھلے دعوے!!

جبکہ قطعی دلیل جو کسی بھی ادنیٰ سے شک کو باقی نہیں چھوڑتی ہے وہ اس حزب کے سابق ''امین۔صبحی الطفیلی '' کا بیان ہے جس میں اس نے اس حزب کو اسرائیل کا ایجنٹ اور اسکی شمالی سرحدوں کا محافظ بیان کیا ہے۔ پس میرے ساتھ آپ اس کی گواہی کو سنیں جو اس نے ''الجزیرۃ اور العربیہ''چینل میں دی۔ اگر چہ العربیہ چینل کے دشمن کا نیٹ ورک ہونے کے باعث میں اس کو نقل نہیں کرنا چاہتا لیکن میں نے نبیﷺکے اس قول کے مصداق عمل کیا{صدقک وھوکذوب}اس نے تجھ سے سچ کہا جبکہ وہ جھوٹا ہے! جبکہ الجزیرہ کے بارے میں بحث کا یہاں موضوع نہیں!! یہ ملاقات جو23 جولائی2004 کو ہوئی وہ کچھ یوں ہے...
پروگرام کے میزبان نے کہا ''گویا کہ آپ حزب اللہ پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے؟!!
صبحی الطفیلی: ہاں... میں کیا الزام لگاؤں اور کیا کوئی ایسا ہے جو اس میں شک کرتا ہو۔ جب سے اسرائیلی اس معاہدے کے ساتھ نکلے ہیں1996 سے جس میں حزب اللہ نے اعتراف کیا کہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے کی اجازت نہ دے گی۔ یہ ارضِ لبنان کے اندر لبنانی مزاحمت ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ لبنان میں اسرائیلی فوجی موجود ہیں اور انہیں لڑنے کا حق ہے لیکن فلسطین کے معاملے میں اس کی آزادی کے مسئلہ میں مجاہدین کوکوئی حق نہیں... یہی اصل مصیبت ہے!!

اسی طرح العربیہ چینل میں اس نے کہا '' کہ اسرائیلی سرحدوں پہ موجودحزب اللہ کا کام اسلحہ اٹھا کر اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور جو اس کی تصدیق نہیں کرتا تو وہ وہاں جا کر اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لے تاکہ وہ دیکھے کہ اسے کون منع کرے گا ... اسے جیل میں ڈالے گا ... تعذیب دیگا... اور اس سے کون انتقام لے گا...!

اور جو کوئی ان دو ملاقاتوں کی زیادہ تفصیل چاہتا ہے تو وہ ان چینلوں کی ویب سائٹوں پر موجود ہیں جاکے دیکھ لے تاکہ اس کے لیے حجت قائم ہوجائے ...اور وہ بھی جو ابھی تلک رافضیوں کے ساتھ خیر کا جذبہ رکھتا ہے اور ان کے حقیقی تاریخ و عقائد کو بھلا ئے ہوئے ہے!!!
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
موجودہ صلیبی جنگ میں مسلمانوں کا کردار...
اب تک صلیبیوں اور شیعہ کے اتحاد کے بارے میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ کافی ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کا کیا کردار ہے؟!!...شر کے اس محور کو ختم کرنے میں جس کے پیچھے صہیونی ہیں جو اپنے اہداف کے لیے ہر دو طبقہ کو استعمال کررہے ہیں۔اس موضوع میں ہم ہر مسلمان سے مطلوب کردار کو ذیل کے نقاط میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔

(۱) رافضہ کی معرفت اس کے حقیقی روپ میں، اور ان کے افکار کی اطلاع اور ان کے اسلام سے انحراف کا علم اور ان کے ساتھ عدم حسنِ ظن رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہر مسلمان پر واجب ہے ان کے مکرو فریب پر گہری نظر رکھے!!!

(۲) اسی طرح پوری باریک بینی کے ساتھ رافضی صلیبی اتحاد پر نظر رکھیں تاکہ امت ان کے دھوکہ میں مبتلا ہو کر کسی بڑے خطرہ میں نہ گھر جائے اور اس اتحاد کے خلاف لڑنے کی تیاری کرے اور ان دشمنوں کی جانب سے ہمیشہ بد سے بدتر سلوک کی توقع رکھے کیونکہ یہ اخلاق و دین سے عاری لوگ ہیں۔

(۳)مسلمان اہل السنۃ کے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہے اور ان سے جڑا رہے تاکہ ان کی قوت بڑھے اور وہ مل کر دشمن کے خلاف بہتر تیاری کرسکیں۔

(۴) ان غفلت میں پڑے لوگوں کو خبردار کرے جو ابھی تک رافضیوں کے ساتھ خیر کی توقع اور امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ انہیں بتائے کہ کس طرح یہ لوگ اللہ کے دین کے دشمنوں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے مستعد ہیں تاکہ وہ مل کر اس دین کا خاتمہ کردیں۔

(۵)دشمن کے ان منصوبوں کا قلع قمع کریں جس کے ذریعے وہ شیعیت کے افکار کو پھیلانے کی سعی کررہا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ان کی رسوائیت پسندی اور رذالتوں کو بیان کیا جائے اور اسلام کے مفاہیم کو کتاب و سنتِ صحیحۃ کی روشنی میں نشر کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کوششوں کو بھی روکا جائے جن کے تحت بعض اسلامی ممالک میں رہن سہن کے انداز کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ یہ کام شیعہ بڑے منظم انداز میں کررہے ہیں جس میں اس صلیبی جنگ کی لپیٹ میں آئے ملک خاص طور پر شامل ہیں۔

(۶)موجودہ دور کے فتنوں کے سامنے لوگوں کو توحید کی طرف بلایا جائے اور انہیں اہل السنۃ والجماعۃ کے منہج پر گامزن ہونے کی تاکید کی جائے۔کیونکہ توحید ہی وہ بہترین وسیلہ ہے جس کے ساتھ ان رافضی باطنیوں کے افکار کو روکا جا سکتا ہے۔اس لیے بھی کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت توحید کے ساتھ ہی پھیلی اورجب لوگ توحید کو جان جائیں گے تو اسی کے ذریعے شرک کے مظاہر ختم ہوں گے۔

(۷) مسلمانوں کے امور کا اہتمام کیا جائے اور ان کے حالات کے ساتھ تفاعل برتا جائے اور انہیں انانیت وذاتیت سے نکالا جائے اور انہیں اس بات کی یاد دہانی کروائی جائے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور اس بھائی چارے کے سبب دوسرے مسلمان کی نصرت، نصیحت، اور مشکل وقت میں مدد واجب ہے!! جیسے کہ حدیث میں ہے:
{ ما من امریء یخذل امرء ا مسلما فی موطن ینتقص فیہ من عرضہ وینتہک فیہ من حرمتہ الا خذلہ اللّٰہ تعالیٰ فی موطن یحب فیہ نصرتہ وما من احد ینصر مسلما فی موطن ینتقص فیہ من عرضہ وینتہک فیہ من حرمتہ الا نصرہ اللّٰہ فی موطن یحب فیہ نصرتہ}
جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو ایسے موقع پر رسوا کرتا ہے کہ اس کی عزت پامال ہورہی ہو اور اس کی حرمت لُٹ رہی ہو تو ایسے شخص کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ایسے ہی موقع پر ذلیل کرے گا جس میں وہ اس سے نصرت کی امید لگائے ہوئے ہوگا اور جو اپنے مسلمان بھائی کی ایسے موقع پر نصرت کرتا ہے جہاں اس کی عزت پامال ہورہی ہو اور اس کی عزت لٹ رہی ہو تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ایسے شخص کی نصرت کرے گا جہاں وہ اس سے نصرت چاہے گا(صحیح الجامع)

(۸)مسلمانوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کی نصرت کے لیے نکلنے کی ترغیب دینا اور انہیں عصبیت اور قومیت کے بھنور سے نکالنا۔ انہیں سمجھانا کہ ہمارا سارے مسلمانوں کے ساتھ تعلق صرف اسلام کا ہے اور یہ تعلق ہر تعلق سے قوی ہے جیسے کہ ابن قیم کہتے ہیں{أخوة الدین انسب من أخوةالنسب}دین کا بھائی چارہ نسب کے بھائی چارے سے زیادہ قوی ہے۔ ان کے غم ایک ہیں وہ دوسرے علاقوں میں بسنے والے افراد ملت کو اتنا ہی اپنے جسم کا حصہ سمجھتے ہیں جنتا وہ اپنے علاقہ کے لوگوں سے محبت رکھتے ہیں۔ ان کے غم اور دکھ ایک ہیں ،وہ امتِواحدہ ہیں اور جب ان کے جسم کے کسی ایک حصہ میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ سب باتیں اللہ کے دین کے دفاع کی مسئولیت کو تمام مسلمانوں پر فرضِ عین کردیتی ہیں بصرفِ نظر ان کے وطنوں، رنگ وقومیتوں اورذاتوں کے!!!

(۹)علم کا حصول اپنے اوپر واجب سمجھنا اور دشمن کے منصوبوں کا احاطہ کرنا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اس قول کے مصداق{وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ}اور ہم آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے۔اس لیے امت کو چاہیے کہ وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے قول {وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم ...الخ }کے مصداق عمل کرے اور دشمن کو اپنی تیاری کے ساتھ دہشت زدہ کرے اور اسے مرعوب رکھے۔پس مسلمان اپنی جانوں کو ایمانی و بدنی دونوں طور پر تیار کریں اور گھر بیٹھ کے دشمن کا انتظار نہ کرتے رہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
کیا تجھے رافضیوں کی خبر پہنچی؟

بسم اللّٰہ الذی لہ الحکم والامر کلہ والیہ المعاد،والحمد للّٰہ الذی قدر الافتراق لھذہ الامة فرقاً فلا تقارب ولایکاد، والصلاة والسلام علی من استثنیٰ من ھذہ الفرق بالنجاة واحدة ومن عداہم وعاداھم یکاد۔
امابعد...!


ہم نے تاریخ کا مطالعہ کیا تو اس کے ماضی و حاضر میں اور نہ ہی آنے والے مستقبل میں ہم نے کوئی ایسی قوم رافضیوں سے بدتر پائی ہے جس کی سیرت قباحتوں سے بھر پور ہو۔اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ان رافضیوں کو رسوا کرے کہ جنہوں نے اس کے دین کو بدل ڈالا اور اس کے سیدھے رستے کو ٹیڑھا کر دیا۔ اس اعلیٰ دین کو انہوں نے ادنی معاملات سے بدل دیا اور یہودیوں کی خباثتوںاور عیسائیوں کی گمراہیوں کا ملغوبہ لے کر ایک ایسا دین نکالا تاکہ وہ نیا دین اسلام کے دشمنوں کے ادیان سے مناسبت رکھے۔وہ ایک ایسا دین لے کے آئے جو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اس امت کے آخری لوگ اس کے پہلوں پر (نعوذ باللہ) لعنت بھیجیں، قرآن ِ مجید کا مکمل انکار کر دیں، شریعت کو معطل کر دیں، قبلہ کے بارے میں شرک کا ارتکاب کریں، یہاں تک کہ مسلمان اپنے قبلہ کو چھوڑ کر کربلا و مشہد کی طرف رُختِ سفر باندھنے لگ جائیں اور مسلمانوں میں دین کے نام پر فحاشی کو پھیلایا جائے۔

اس لیے ہم نے اپنے رب سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف معذرت کرتے ہوئے لازمی سمجھا کہ ہم اس قوم کے جرائم کو بے نقاب کر دیں تا کہ شاید وہ باز آجائیں۔

قبل اس کے کہ ہم راٖفضیوں کی جملہ خیانتوں کے متعلق گفتگو کریں ایک بات کو مد نظر رکھ لینا بہت ضروری ہے کہ !
جب ہم لفظِ ''رافضہ''بولتے ہیں تو اس سے ہماری مراد وہ بڑا گروہ ہے جو ان ایام میں موجود ہے اور وہ ہیں ''شیعہ جعفریہ ، اثنا عشریہ'' ۔ اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ائمہ نے ان کے اندر موجود ان تمام غالی فرقوں کا اعتبار کیا ہے جو کہ امامیہ کی طرف منسوب ہیں۔ پس جب وہ ان گروہوں ، آدمیوں اور حکومتوں کے متعلق بات کرتے ہیں تو اس وقت ان کی مراد تمام وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی نسبت ''شیعیت'' کی طرف ہوتی ہے، چاہے وہ اسماعیلیہ سے ہوں ، باطنیہ سے ہوں یا وہ دہریہ زندیقوں میں سے ہوںیا غالی مجسمہ میں سے ہوں۔ مثال کے طور پر جب وہ حکومتوں کا ذکر کریں جو کہ پہلے ادوار میں تھیں جیسے کہ فاطمیوں کی حکومت تو ان کی مراد شیعیت ہے حالانکہ وہ اثنا عشریہ نہیں تھی۔

اس کے بعد ہم اللہ عزوجل کی توفیق کے ساتھ کہتے ہیں۔

اولاً...
رافضیت ایسا دین ہے جو نبی ﷺ کے لائے ہوئے دین سے بالکل مختلف ہے:
یہ ممکن ہی نہیں کہ شیعیت اسلام کی اکثر فروع و اصول میں موافقت کر جائے۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ان کے بڑے مزعومہ آیۃ اور علماء نے دلائل کے درمیان ترجیح کے ایسے قواعد مرتب کیے ہیں کہ جو بات اہل السنۃ کے مخالف ہو اسے وہ ''العامہ'' کا نام دیتے ہیں اور اس کے بر عکس اسے صحیح ترین قول قرار دیتے ہیں جو ان کی جھوٹی روایات کی سند کے ساتھ ہو۔ وہ قاعدہ ان کے اندر اصل مانا جاتا ہے جو اسلام کی فروع و اصول کے ساتھ واضح مخالفت پہ مشتمل ہو۔

ایک رافضی عالم ''الحر العاملی''اپنی کتاب ''وسائل الشیعہ''میں باب باندھتے ہوئے لکھتا ہے''عدم جواز ھما یوافق العامہ ویوافق طریقتہم'' اس بات کے عدم جواز میں کہ جو بات عامہ کی موافقت میں ہو۔ پھر کہتا کہ اس بات کے عدم جواز میں وارد احادیث متواترہ ہیں یعنی اس بات پہ عمل کے جواز میں جو عامہ کے موافق ہو اور اس میں صادق علیہ السلام کا قول ہے دو مختلف حدیثوں میں
'' اعرضوا علی اخبار العامہ۔ای اھل السنة والجماعة۔ فما وافق اخبارھم فذروہ وما خالف اخبار ھم فخذوہ''
مجھ پہ عامہ کی خبریں پیش کرو۔ یعنی اہل السنۃ کی۔ تو جو خبریں ان کی آپس میں موافقت کر جائیں ان کو چھوڑ دو اورجو مخالف ہوں انہیں لے لو

وقال علیہ السلام''خذ بما فیہ خلاف العامہ فما خالف العامہ ففیہ الرشاد''
اس بات کو لے لو جس میں عامہ کا اختلاف ہو کیوں کہ ہدایت اسی میں ہے۔

اسی طرح ''عیون الاخبارالرضی'' میں ہے کہ ایک صدوق نے علی بن اسباط سے روایت کی وہ کہتا ہے کہ میں نے رضا علیہ السلام سے کہاکہ کوئی معاملہ ہو جاتا ہے لیکن مجھے اس کی حقیقت کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا اور جس شہر میں میں رہتاہوں وہاں کوئی ایسا بھی نہیں کہ اس سے فتویٰ لوں تو انہوں نے کہا :
اِیْتِ فقیہ البلد فاستفتہ فی امرک فاذا افتاک بشیء فخذ بخلافہ فان الحق فیہ
کہ تو شہر کے(سنی) فقیہ کے پاس جا اور اپنے معاملے میں اس سے فتویٰ لے اور جب وہ تجھے فتویٰ دید ے تو اس کے خلاف عمل کر کیوں حق اسی میں ہے۔

یہ بات معلوم ہے کہ اسلام...اجمالاً وتفصیلاً ...خالق کی توحید، مخلوقات کی اللہ عزوجل کے لیے عبادت اور نبی ﷺ کی اقتداء پہ اور متبع غیرِبدعتی کی اقتداء پہ قائم ہے۔ یہ تمام باتیں ان دلائل پر مبنی ہیں جو کہ کتاب و سنت میں وارد ہوئے ہیں۔

جبکہ رافضیت بنیادی طور پہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ساتھ شرک اور مخلوق کی غیر اللہ کیلیے عبادت ،وسیلہ و تضرع کے ساتھ قائم ہے۔اسی طرح رافضیت اس دعویٰ پہ قائم ہے کہ اللہ عزوجل کی کتاب قرآن تحریف شدہ ہے اور اس میں کمی بیشی کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سنتِ نبی ﷺ کا بھی انکار کرتے ہیں چاہے وہ صحیح ہو ۔رافضیت ان کی تکذیب کرتی ہے اور انکو ہماری طرف نقل کرنے والوں کی طرف خیانت منسوب کرتی ہے جبکہ وہ امت کے اشراف میں سے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایسی صحیح ترین کتب کا بھی انکار کردیا جن کو امت نے اجتماعی طور پہ قبولیت بخشی اور ان کتابوں کو ہماری طرف نقل کرنے والے لوگ انتہائی ثقہ تھے۔ وہ کتابیں جن کا انکار کیا گیا ان میں صحیح بخاری وصحیح مسلم سب سے پہلے ہیں جبکہ ان کے علاوہ جو کچھ ہیں ان کا انکار تو بالاولیٰ ٹھہرا۔

جیسے کہ ان کا دین مسلمانوں کی متفقہ امامت و خلافت کے انکار پہ قائم ہے۔ وہ خلافت کہ جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ جبکہ ان آئمہ کی تعریف خود نبی ﷺ نے فرمائی اور انہیں ہدایت یافتہ کے نام سے موسوم فرمایا، انکی سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا بلکہ ان کی سنت کو اپنی سنت کے برابر ذکر کیا۔ لیکن رافضیت تو ام المومنین عائشہ صدیقہ طاہر ہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا بھی انکار کرتی ہے جن کی برأت کا اعلان خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا اور جن لوگوں نے ان کی عزت کے بارے میں زبان دراز کی اور ان پہ تہمت لگائی ، اللہ تعالیٰ نے انکی سخت پکڑ کی اور انہیں تنبیہ فرمائی۔

نعمۃ اللہ الجزائری اپنی کتاب ''انوار النعمانیۃ'' میں کہتا ہے باب اس بارے میں کہ''روشن بات اور علت امامیہ کے دین میں یہ ہے کہ جس کے سبب ہم عامہ کے مخالف قول کو پکڑتے ہیں''۔ ہم ان کے ساتھ یعنی اہل السنۃ کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے نہ کسی برتن پر، نہ کسی نبی پر نہ کسی امام پر اور یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب وہ ہے جس کے نبی محمد ﷺ ہیں اور ان کے بعد ان کے خلیفہ ابوبکرؓ ہیں۔ جبکہ ہم یہ بات نہیں کہتے کہ ایسارب ہمارا رب ہے اورنہ ایسا نبی ہمارا نبی ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ رب جس کے نبی محمد ﷺہیں اور ابوبکرؓ ان کے خلیفہ ہیں وہ ہمارا رب نہیں ہے اور نہ ہی ایسا نبی ہمارا نبی ہے''۔

سید حسین الموسوی کہتا ہے اور وہ ان کے ایسے قلیل علماء میں سے ہے جن کی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے سالم رکھا تو اس نے اپنی کتاب{لِلّٰہِ ثُمَّ لِلتَّارِیْخ}میں رافضیوں کے موقف کو یہ کہتے ہوئے باطل قرار دے دیا '' کہ ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کسی مسئلہ میں حق عامہ یعنی اہل السنۃ کے ساتھ ہے تو کیا پھر بھی ہم پہ یہ واجب ہے کہ ہم ان کے خلاف ہی عمل کریں۔ اس سوال کا جواب ایک دفعہ مجھے سید محمد باقر نے دیا اور کہا ، ہاں کہ ان کے خلاف ہی عمل کیا جائے گا کیونکہ اقوال ان کے خلاف عمل کرنے کو ہی کہتے ہیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہ بات اس سے کم تر ہے کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ کسی مسئلہ میں حق ان کے ساتھ ہے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ثانیاً...
دینِ رافضیت اپنے آغاز سے ہی کسی بنیاد پہ نہیں کھڑا ہوا اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے موجودہ دور تک اس کا ہدف اسلام کی عمارت کو ڈھانا، مسلمانوں کے درمیان فتنوں کو ہوا دینا اور اسلامی حکومتوں کو کمزور کرنا ہی رہا ہے۔ اہل السنۃ والجماعہ یعنی وہ پہلی جماعت ہے جس کو نبی ﷺنے آگ میں جانے والے ان تہتر فرقوں سے مستثنی قرار دیا۔ یہ کوئی مبالغہ آمیزی کی بات نہیں، نہ ہی یہ کوئی واہمہ ہے بلکہ ایسی بات ہے جسے علماء سلف و خلف نے مقرر رکھا ہے۔ لیکن رافضیت رات کے اندھیروں میں ایسے کھڑی ہوئی کہ اس کی غرض دو راستوں سے اسلام کی عمارت کو گرانا ہے۔

(۱)اس دین کی حقیقت کو مشکوک بنا دیا جائے اور اس کے عقائد کو ٹیڑھا کر دیا جائے ۔ اہلِ حق کے مذہب کے اندر شبہات پیدا کیے جائیں اور اس دین کے اصول و ضوابط میں شک پیدا کیا جائے اور کلی طور پہ اسکی راہ روکی جائے۔ چاہے اس کے لیے اس دین کے اصول و فروع میں تحریف کی جائے تاکہ یہ دین ایک مسخ شدہ دین بن کے رہ جائے۔

(۲)دوسری طرف سیاسی میدان میں اسلامی حکومت کے خارجی و داخلی ستونوں کو کمزور کیا جائے۔

داخلی طور پر قوم کے اندر چھپ کر ان کے نفوس کو کمزور کیا جائے اوراصحابِ حرص کے ذریعے انہیں امام اور خلیفۃ المسلمین کے خلاف خروج کے لیے ابھارا جائے یا خلیفہ کے خلاف مشتبہ الزامات و دعوے کر کے اس کا قتل کیا جائے ۔ خارجی طور پر دین کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کیا جائے اور ان کے ساتھ اتحاد قائم کیا جائے تاکہ وہ اسلامی حکومت کو گرانے میں مددگار ثابت ہوں۔

یہ دو امور ہی اصل بنیادی منہج ہیں جس کے اوپر دینِ رافضیت اپنے آغاز ہی سے اس کے یہودی موجد ''عبد اللہ بن سبا ملعون''کے ہاتھوں قائم ہے۔ وہ کمینہ انسان کہ جسے اپنے آپ کو چھپانے کے لیے''حبِّ اہلِ بیت'' کے نعرے کے علاوہ کوئی سہارا نہ ملا جبکہ اس سے قبل وہ اپنے اسلام کا اظہار کرچکا تھا اور اندرونی طور پر وہ کفر پہ قائم رہا اور اسلام کے خلاف دسیسہ کاریوں میں مصروف رہا۔

لیکن ابن سبا اپنے اس منصوبے کے لیے مسلم معاشرے میں بہت سے کمزور نفوس اور خواہشات کے غلام ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا اور اسے ایسے اہلِ ہوس مل گئے جنہوں نے امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ کھڑا کر دیا۔ جونہی اسے ایسے ساتھی ملے وہ دین کے دشمنوں کے ساتھ اسلامی دارالخلافہ کے باہر تعاون کرنے اور فتنہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گیا یہاں تک کہ ایسے لوگوں نے خلیفہ کو قتل کرڈالا اور اس کی رعیت کو مشکل میں مبتلا کر دیا۔ اس نے اپنے انہی خبیث ساتھیوں کی مدد سے صحابہؓ کے درمیان بھی اختلافات پیدا کرنے کی راہ نکال لی اور ایک دفعہ پھر مسلم معاشرے میں قبائلی عصبیت پھیل گئی جس کو ختم کرنے کے لیے اسلام آیا تھا۔انہوں نے آل بیت کے نام پر فتنہ کھڑا کر دیا اور لوگوں کو بھی فتنہ میں مبتلا کیا یہاں تک کہ کتاب و سنت کو ہم تک نقل کرنے والے صحابہؓ کی صداقت میں تشکیک پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی۔اس کام کے لیے انہوں نے آلِ بیت کی محبت کا لبادہ اوڑھا بلکہ اس میں مبالغہ کرتے ہوئے ان کے لیے ''عصمت '' کا عقیدہ گھڑ لیا۔ یہاں تک کہ اس سبائی فرقہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں الوہیت کا عقیدہ گھڑ لیا۔

میں کہتا ہوں کہ جب ابن ِ سبا کے پیرو کاروں نے دیکھا کہ وہ اپنے ان سارے مکرو ہ فتنوں میں کامیاب ہوگیا ہے تو رافضیوں نے اسی طریق کو جاری رکھا اور اسی منہج پروہ اپنے پہلے دن سے آج تک عمل پیرا ہیں۔ علماء سلف نے اپنے کتب و بیانات میں رافضیت اور انکے دین کی حقیقت کو آشکار کیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن ِ تیمیہ ؒ(منہاج السنۃ)میں فرماتے ہیں:
والرافضہ لیس لھم سعی الا فی ھدم الاسلام ونقض عراہ و افساد قواعدہ
رافضیوں کی ہر سعی اسلام کے عقائد و قواعد کو گرانے کے لیے ہی ہوئی ہے۔

ابنِ تیمیہؒ کہتے ہیں کہ ''ابو بکر و عمر پہ طعن صرف دو آدمی ہی کرسکتے ہیں ۔
(۱) منافق ، زندیق، اسلام کا دشمن کوئی ملحد یہاں تک کہ وہ اس طعن میں بڑھتا ہوا نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺکی ذات پر اور دین پر بھی طعن کرنے لگ جاتا ہے۔ یہی حال تھا اس مذہب کے پہلے بدعتی موجد کا اور باطنیہ فرقہ کے آئمہ کا۔

(۲) یا کوئی جاہل جو اپنی جہالت میں افراط و تفریط کا شکار ہو، یا خواہش کا پجاری ہو اور یہ غالب عام شیعوں کی حالت ہے چاہے وہ باطنی طور پر مسلمان ہی ہوں۔

ابن تیمیہ اپنے فتاویٰ میں کہتے ہیں '' کہ امام احمد بن حنبلؒ نے عبدوس بن مالک کے رسالہ میں کہا :
اصول السنة عندنا التمسک بما کان علیہ اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ والسنة تفسر القرآن وھی دلآء للقرآن ای دلالت علی معناہ ولہذا ذکر العلماء ان الرفض اساس الزندقة وان اول من ابتدع الرفض انما کان منافقا زندیقا وھو عبد اللّٰہ بن سبا۔ فانہ قد قدح فی السابقین الاولین وقد قدح فی نقل الرسالة او فی فھمھا او فی اتباعہا۔ فالرافضة تقدح تارة فی علمھم بھا وتارة فی اتباعھم لہا، وتحیل ذالک علی اھل البیت وعلی المعصوم الذی لیس لہ وجود فی الوجود۔
سنت کے متعلق ہمارے اصول یہ ہیں کہ اس کے ساتھ تمسک کیا جائے جس پر نبی ﷺ کے صحابہؓ کاربند تھے اور ان کی اقتداء کی جائے۔ بدعتوں کو ترک کیا جائے اور یہ کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ سنت ہمارے نزدیک نبی ﷺکے آثار ہیں اور سنت قرآن کی تفسیر ہے اور یہ قرآن کی دلالت میں سے ہے۔ اسی لیے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ رافضیت زندقہ کی بنیاد ہے اور سب سے پہلے جس شخص نے اس بدعتی دین کو ایجاد کیا وہ عبد اللہ بن سبا تھا ۔ اس نے نہ صرف سابقین الاولین کے بارے میں زبانِ طعن دراز کی بلکہ پیغامِ رسالت کے نقل، اسکے فہم اور اسکے اتباع کے بارے میں بھی جرح کی۔ پس رافضیت بعض اوقات اپنے علم کے سبب اور بعض اوقات اپنے اتباع کے سبب قابلِ جرح ٹھہرتی ہے ۔ جبکہ ایسا اہلِ بیت کے لیے کیا جانا محال ہے اور ایسے معصوم پر بھی جس کا کائنات میں وجود ہی نہیں ہے(امام احمد کا کلام ختم ہوا)۔

اسی طرح ''المنتقیٰ منہاج الاعتدال'' میں ہے کہ ''رافضیوں کی جہالت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں کسی ایک کو معصوم قرار دیتے ہیں اور باقی تمام مسلمانوں میں جب کوئی معصوم نہ ہو تو ان پر تجاوز کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے رافضیت کی ابتداء کی اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو معصوم قرار دیا وہ ایک زندیق آدمی تھا جس نے اس دین میں فساد پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور وہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے جو پولس(Polis )نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ سب سے بڑی دلیل اس مذہب کے خراب ہونے کی یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ خود اس دین سے اور اس کے پیرو کاروں سے برأت کا اظہار کرتے تھے بلکہ انہوں نے ان میں سے ہر ایک کو اسکی بدعت کے مطابق سزا دی۔ پس جو کوئی ابو بکرو عمررضی اللہ عنہما کے بارے میں طعن کرتا تھا آپ رضی اللہ عنہ انہیں بہتان باندھنے کی حد لگاتے تھے اور جو کوئی غالی ہوتا تھا اسے آگ میں جلوا دیتے۔

جمہور علماء سلف ہمارے لیے رافضہ کے بارے میں شریعت کا فیصلہ بیان کیا ہے اور وہ ہے کہ ... انہیں کافر قرار دیا جائے اور ان میں سے جس کی بدعت ظاہر ہو جائے اس کے ساتھ قتال کیا جائے۔ خاص طور پہ جب ایسا کوئی گروہ باغی ہو۔ ایسے لوگوں کے کافر ہونے اور ان کے ساتھ قتال کیے جانے میں کتاب و سنت سے واضح دلائل موجود ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ رافضیوں کی اپنی کتابیں ان کے اپنے بارے میں اہلِ بیت کے ان سے بری الذمہ ہونے، نبیﷺ سے ان کی نسبت نہ ہونے اور اسلام سے ان کے خارج ہونے کی روایات نقل کرتی ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ثالثاً...
کتاب و سنت سے دلائل
اللہ د فرماتے ہیں:
{مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ } ۔
محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے جانثار صحابہؓ کافروں کے بارے میں بہت سخت اور آپس میں بہت رحیم ہیں اے دیکھنے والے تو انہیں دیکھے گا رکوع وسجود کرتے ہوئے اللہ کے فضل کی تلاش میں سرگرداں۔ ان کے چہروں پر کثرتِ سجود کی چمک ہے۔ ان کی مثالیں تورات و انجیل میں بیان کی گئی ہیں ایسی فصل کی مانند جو اپنا بھر پور پھل دے اور وہ خوب پک جائے تو یہ منظر کھیتی کے مالک کو بہت بھلا معلوم ہوتا ہے تاکہ کافر اسے دیکھ کر غیظ میں مبتلا ہوں۔

ابنِ کثیر الدمشقی کہتے ہیں ''اس آیت سے امام مالک ؒنے رافضیوں کی تکفیر کا مسئلہ اخذ کیا، وہ جو صحابہؓ سے بغض رکھتے ہیں کیونکہ وہ {یغیظونھم}ان سے غیظ کھاتے ہیں اور جو کوئی صحابہؓ کے ساتھ غیض کھائے تو وہ اس آیت کے سبب کافر ہے۔ علماء کے ایک گروہ نے ان کی اس معاملے میں موافقت کی ہے۔

امام القرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں'' کہ ابو عروۃ الزبیریؒ جو زبیررضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں روایت کرتے ہیں کہ ہم مالک بن انس ؒ کے پاس تھے تو وہاں ایک ایسے آدمی کا ذکر ہوا جو نبی ﷺکے صحابہ ؓکی شان میں گستاخی کرتا تھا تو امام مالک ؒنے یہ آیت پڑھی{مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ ...}یہاں تک کہ جب وہ اس جگہ پہنچے {یعجب الزراع لیغیظ بہم الکفار} تو امام مالک نے کہا کہ لوگوں میں کوئی بھی ایسا شخص جس کے دل میں صحابہؓ کے متعلق بغض ہے تو اسے یہ آیت عتاب میں لاتی ہے ( اس روایت کو ابوبکر الخطیب ؒ نے بھی ذکر کیا ہے)

میں کہتا ہوں کہ قرطبی نے بہت ہی اچھی بات کہی ہے کہ'' امام مالکؒ نے نہایت احسن بات کہی اور انہوں نے اس کی بہترین تاویل فرمائی ہے پس جس کسی نے بھی ایک صحابی ؓ کا بھی نقص کیا یا اس کی روایت میں طعن کیا تو اس نے اللہ کی بات کو جھٹلایا اور مسلمانوں کی شریعت کو باطل ٹھہرا دیا ''۔( قرطبی کا کلام ختم ہوا)

اسی طرح انہوں نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اس قول سے بھی استدلال کیا
{وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ}
اور جب تم نے اس بہتان کو سنا تو تمہیں چاہیے تھا کہ کہتے ، ہمیں ایسا کہنا جائز نہیں کہ ایسی بات کہیں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا کہ تم آئندہ ایسی بات کو دوہراؤاگر تم مومن ہو۔

ابن عبد القویٰ امام احمد سے روایت کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ صحابہؓ پر تبراء کرنے والے اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا وارضاہا کو گالی دینے والے اور ان پر الزام لگانے والے کو کافر قرار دیتے تھے اور ایسے شخص کے لیے یہ آیت تلاوت کرتے {يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ } اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ تمہیں نصیحت کرتاہے کہ ایسی بات آئندہ دہراؤ اگر تم مومن ہو۔

قرطبی ؒ نے کہاکہ'' ہشام بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے امام مالکؒ کو کہتے ہوئے سنا
من سب ابا بکر ؓوعمرؓ أدب ومن سب عائشة قتل لان اللّٰہ تعالیٰ یقول:يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔فمن سب عائشة فقد خالف القرآن ومن خالف القرآن قتل
جس نے ابو بکرؓ و عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دی اسے تأدیبی سزا دی جائے گی اور جس نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالی دی اسے قتل کردیا جائے گا کیونکہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ ایسی بات کو دوہراؤ اگر تم مومن ہو۔ کیونکہ عائشہؓ کو گالی دینا قرآن کی مخالفت ہے اور جو قرآن کی مخالفت کرتا ہے وہ قتل کیا جائے گا۔

ابن العربی کہتے ہیں کہ اصحاب ِ شافعی نے کہا کہ جس شخص نے عائشۃؓ کو گالی دی اسے تأدیبی سزا دی جائے گی جیسے کہ تمام مومنین کے مسئلہ میں ہے اور اللہ کا فرمان { إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ } عائشہ ؓ کو گالی دینے والے کے متعلق نہیں کیونکہ وہ کفر ہے بلکہ یہ کہنا ایسا ہے جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
لا یؤمن من لا یأمن جارہ ھوائقہ
وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔

پس اگرعائشہ کو گالی دینے والے کو گالی دینے سے ایمان حقیقۃ سلب ہوتا تو اس کا سلب ہونا ایسا تھا جیسے کہ آپ ﷺ کے فرمان میں ہے {لایزنی الزانی حین یزنی وھومؤ من}زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا۔ یعنی پھر ہم اسے بھی حقیقت خیال کرتے۔

میں (ابن العربی) کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے جیسا تم اصحابِ شافعی نے زعم کیا ہے کیونکہ اہلِ افک نے عائشۃ المطہرۃ ام المو منین پہ زنا کا الزام لگایا پس جس کسی نے انہیں ایسی بات کی گالی دی جس سے کہ اللہ عزوجل نے خود انہیں بری قرار دیا تو اس نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو جھٹلایا اور جس نے اللہ کو جھٹلایا وہ کافر ہے۔ یہ بالکل امام مالک ؒ کے جیسا قول ہے اور یہ ایسا اعلیٰ رستہ ہے جو اہلِ بصیرت پہ بہت واضح ہے۔ پس اگر کسی شخص نے عائشہؓ پر کسی ایسی بات کا الزام لگایا جو اس کے علاوہ ہے جس کی اللہ نے برأت نازل کی ہے تو اسے تادیبی سزا دی جائے گی( ابن العربی کا کلام ختم ہوا)۔

میں کہتا ہوں کہ اسے بھی قتل ہی کیا جائے گا کیونکہ اللہ عزوجل نے جو برأت نازل کی وہ ہر برائی سے امی عائشہؓ مطہرۃ کی برات ہے اور اگر کوئی ایسی بات آپ میں معاذ اللہ موجود ہوتی تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اسے ضرور ذکر فرمادیتے۔ پس ابن العربی کا بغیر برأت شدہ معاملہ میں تعزیری سزا دینا درست نہیں ہے( واللہ اعلم)۔

اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا {فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ھۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِھا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِھَا بِکٰفِرِیۡنَ }سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں تو ہم نے اس کے لیے ایسے بہت سے لوگ مقرر کردیے ہیں جو اس کے منکر نہیں اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فرمان{لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ} تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔

امام ابو المحاسن الواسطی اس آیت سے اس شخص کے کفر پہ استدلال کرتے ہیں جو صحابہؓ کی کتاب اللہ میں ثابت شدہ عدالت میں نقص بیان کرتا ہے ان کی تکفیر کی جائے گی کیونکہ وہ محمد رسول اللہ ﷺکے صحابہ کی تکفیر کرتا ہے جن کاتزکیہ اور انکی عدالت کا ثبوت خود قرآن نے بیان کیا ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں{لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ}تاکہ تمہیں بنالے لوگوں پر گواہ۔پس اللہ کی ان پر اس شہادت کے باعث ان کی تکفیر نہ کی جائے گی اور ایسا اللہ کے اس قول کے سبب بھی ہے {فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ھۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِھا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِھَا بِکٰفِرِیۡنَ}سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں تو ہم نے اس کے لیے ایسے بہت سے لوگ مقرر کردیے ہیں جو اس کے منکر نہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
سنت سے دلائل
مجمع الزوائد میں ابن عباس ص سے باسنادٍ حسن مروی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺکے پاس تھا اور علی رضی اللہ عنہ بھی آپﷺکے پاس تھے تو آپ ﷺنے فرمایا:
یاعلی سیکون فی امتی قوم ینتحلون حب اھل البیت، لھم نبذ، یسمون الرافضة، قاتلوھم فانھم المشرکون۔
اے علی رضی اللہ عنہ ! میری امت میں ایک ایسی قوم ہوگی جو اہلِ بیت سے نسبت کا دعویٰ کرے گی اور وہ علیحدہ ہوجائے گی ان کا نام رافضہ ہو گا، ان سے قتال کرنا کہ بے شک وہ مشرک ہیں۔

امام احمد بن حنبلؒ اپنی مسند میں اور امام بزازؒ ابراہیم بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ:
قال علیؓ بن ابی طالب قال رسول اللّٰہ ﷺ یظھر فی آخر الزمان قوم یسمون الرافضہ یرفضون الاسلام
علیؓ بن ابی طالب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا آخری زمانوں میں ایک قوم ظاہر ہوگی جن کا نام رافضہ ہوگا اور وہ اسلام کا انکار کردیں گے۔

عجیب بات تو یہ ہے اس سے علیحدہ ہوئے گروہ یعنی رافضیوں کے آئمہ نے خود اپنی معتبر اصول کی کتب میں حسین بن علی بن ابی طالب ؓ سے اس قسم کی روایات کو نقل کیا ہے۔
پس ''للہ ثم للتاریخ''کے مصنف نے کتاب الکافی سے نقل کیا ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے کہ ان کے پاس رافضی آئے تو انہوں نے ان سے کہا کہ{انا قد نبذنا نبذا اثقل ظھورنا وماتت لہ افئدتنا واستحلت لہ الولاة دمائنا... }ہم جب علیحدہ ہوئے اور ہمارا ظہور بھاری ہوگیا جبکہ ہمارے دل مر دہ ہو چکے اور ہمارے والیوں نے ہمارے خون ہلال کر لیے۔ ایک حدیث میں جسے ان کے فقہاء نے روایت کیا ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے ان سے کہا یعنی رافضیوں سے وہ کہنے لگے جی...!{فقال لا واللّٰہ ماھم سموکم ولکن اللّٰہ سماکم بہ} نہیں اللہ کی قسم انہوں نے تمہار ا نام رافضی نہیں رکھا بلکہ اللہ نے تمہارا نام رکھا ہے۔
پس السید حسین الموسوی اس پہ تعلیقاً کہتا کہ ابو عبد اللہ نے واضح کیا کہ اللہ عزوجل نے ان کا نام رافضہ رکھا ہے نہ کہ اہل السنۃ نے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
اقوالِ سلف سے رافضیوں کی تکفیر
امام احمد بن حنبل ؒ سے مروی ہے جسے خلال نے ابوبکر المروزی سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں میںنے ابو عبد اللہ احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا اس شخص کے متعلق جو ابوبکر و عمر و عائشہ رضی اللہ عنہم کو گالی دیتا ہے تو انہوں نے کہا{ ما اراہ علی الاسلام} میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسلام پہ ہے۔

خلالؒ کہتے ہیں کہ مجھے عبد الملک بن عبد الحمید خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ کو کہتے ہوئے سنا '' جس نے صحابہ کو گالی دی مجھے اس پر کفر کا خوف ہے جیسے کہ رافضہ۔ پھر انہوں نے کہا جس نے اصحاب ِ محمد کوگالی دی ہم اس کے لیے اس بات سے امن میں نہیں کہ وہ دین سے خارج ہوگیا ہے۔

امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ''السنۃ''میں رافضہ کے متعلق لکھاکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اصحابِ محمد ﷺکوگالی دیتے ہیں اور ان کا نقص کرتے ہیں اورچارعلیؓ ، عمارؓ، المقدادؓ اور سلمانؓ کے علاوہ باقی تمام آئمہ کو گالی دیتے ہیں اور رافضۃ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

امام البخاری ''خلق افعال العباد''میں کہتے ہیں :
ما ابالی صلیت خلف الجھمی والرافضی ام صلیت خلف الیھود والنصاریٰ،ولا یسلم علیھم ولایعادون، ولا یناکحون ولا یشھدون ولا توکل ذبائحھم۔
میں اس میں فرق نہیں جانتا کہ میں کسی جہمی کے پیچھے نماز پڑھوں یا رافضی کے پیچھے یا یہودی و عیسائی کے پیچھے۔ ان پر سلام نہ کیا جائے، ان کی عیادت نہ کی جائے، نہ ان سے نکاح کیا جائے نہ ان کے جنازے میں حاضر ہوا جائے اور نہ ہی ان کا ذبیحہ کھایا جائے۔

امام احمد بن یونسؒ ( جن کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے کہا جبکہ وہ ایک آدمی سے مخاطب تھے '' اخرج الی احمد بن یونس فانہ شیخ الاسلام'' احمد بن یونس کی طرف جاؤ کہ وہ شیخ الاسلام ہیں۔ امام احمد بن یونس کہتے ہیں کہ:
لو ان یھودیا ذبح شاة وذبح رافضی لأکلت ذبیحة الیھودی ولم أکل ذبیحة الرافضی ،لانہ مرتد عن الاسلام۔
اگر ایک یہودی ایک بکری ذبح کرے اور ایک رافضی ایک بکری ذبح کرے تو میں یہودی کا ذبیحہ کھالوں گا اور رافضی کا ذبیحہ نہیں کھاؤں گا کیونکہ وہ اسلام سے مرتد ہے۔

امام ابن حزم ؒ ان عیسائیوں کے جواب میں کہتے جورافضیوں کے قول سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن مجید تحریف شدہ ہے وہ کہتے:
واما قولہم یعنی النصاریٰ فی دعویٰ الروافض تبدیل القرآن، فان الروافض لیسوا من المسلمین۔
اور ان عیسائیوں کا یہ کہنا کہ رافضیوں کا دعویٰ ہے کہ قرآن محرف ہے تو رافضی مسلمان ہی نہیں ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ''الصارم المسلول''میں کہتے ہیں جس نے یہ گمان کیا کہ قرآن میں نقص ہے یااس سے کچھ چھپایا گیا ہے یا اس نے قرآن میں ایسی باطنی تاویلات کی ،اس کے تمام مشروع اعمال ساقط ہیں ایسے لوگوں کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جس نے یہ سمجھا کہ صحابہؓ نبی ﷺکی وفات کے بعد مرتد ہوگئے سوائے چند نفوس کے جن کی تعداد دس سے کچھ اوپر تک ہے اور ان کے عامہ پر فسق کا حکم لگایا پس ایسے شخص کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں کیونکہ ایسا کرنے والا قرآن کی نصوص کا انکار کر رہا ہے ۔ان نصوص نے متعدد مقامات پر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی صحابہؓ پر رضا کا ذکر کیا ہے اور ان کی تعریف کی ہے۔ بلکہ جو کوئی ایسے شخص کے کفر میں شک کرے اس کا کفر بھی متعین ہے۔ کیونکہ رافضیوں کی اس بات کا خلاصہ ہوتا ہے کہ کتاب و سنت کے نقل کرنے والے کافر یا فاسق ہیں۔ یہ آیت { كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے۔ جس نے انہیں بہترین قرار دیا وہ قرآن ہے اوراگر ان پہلے لوگوں کے عامہ کافر یا فاسق ہیں تو پھر اس کا خلاصہ یہ رہ جاتا ہے یہ امت شریر ترین امت ہے اور اس امت کے پہلے لوگ شریر لوگ تھے۔ اسلام میں ایسے بندے کا کفر معلوم ہے۔

یہاں تک کہ ابن تیمیہ ؒنے کہا{انھم شر من عامة اھل الاھواء واحق بالقتال من الخوارج} بے شک وہ عام ہوس پرستوں سے بھی بدتر ہیں اور خوارج سے زیادہ قتال کے حق دار ہیں۔

امام السمعانی ''الانساب'' میں کہتے ہیں
واجتمعت الامة علی تکفیر الامامیة لانھم یعتقدون تضلیل الصحابہ وینکرون اجماعھم و ینسبونھم الی مالا یلیق بھم۔
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ امامیہ کافر فرقہ ہے کیونکہ وہ صحابہؓ کے گمراہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے اجماع کا انکار کرتے ہیں اور ان کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جن کی نسبت انکی طرف کرنا جائز نہیں۔

تناقص و فرق میں عجیب بات یہ بھی ہے کہ حکومتِ سعودیہ (اور دوسری حکومتوں کو اس پر قیاس کر لیجیے) جو پہلے ان کے ساتھ دشمنی کا آوازہ لگایا کرتی تھی اور شیعہ کے آئندہ خطرے سے متنبہ کیا کرتی تھی آج ہم انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے قریب ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں اور ان کے ساتھ سرکاری سطح پہ تعلقات استوار کر رہے ہیں۔
لیکن یہ رہی ان کی{لجنة دائمة للبحوثِ والافتاء}جس نے کھبی رافضہ کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا تھا ایک سوال کے جواب میں جو ان کی طرف ایک سائل نے بھیجا تھا جو کہتا ہے '' میں ایک ایسے قبیلہ سے ہوں جو کہ شمالی حدود میں رہائش پذیر ہے ۔ ہم اور عراق کے کچھ قبائل اکٹھے رہتے ہیں۔ ان کا مذہب شیعہ بت پرستی کا ہے۔ انہوں نے ایسے قبے بنائے ہوئے ہیں جسے وہ حسن، حسین اور علی کا نام دیتے ہیں اور جب وہ کھڑے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں '' یاعلی ، یاحسین''۔ لیکن ہمارے قبیلہ کے بعض لوگوں نے ان کے ساتھ تعامل روا رکھا حتیٰ کہ نکاح میں اور تمام احوال میں۔ میں نے ان کو کئی بار نصیحت کی لیکن وہ میری بات نہیں سنتے جبکہ وہ بستیوں کے عہدہ دار لوگ ہیں۔ میرا علم ان کے علم سے زیادہ بھی نہیں لیکن میں اس بات سے کراہت کرتا ہوں اور ان سے اختلاط بھی نہیں کرتاجبکہ میں نے سن رکھا ہے کہ ان کا ذبیحہ نہیں کھایا جاتا لیکن یہ لوگ ان کا ذبیحہ بھی کھاتے ہیں اور اس بات میں احتیاط نہیں برتتے۔ میری آپ جناب سے یہ درخواست اس مسئلہ میں جو میں نے ذکر کیا ہے،کہ ہمارے اوپر کیا واجب ہے اس کی توضیح فرمائیں؟

تو لجنة کا جواب یہ تھا''اگر حقیقت ایسے ہی ہے جس کا کہ تو نے ذکر کیا ہے کہ وہ علی و حسن کو پکارتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو ایسے لوگ مشرک ہیں اور شرکِ اکبر کے مرتکب ہیں اور ملتِ اسلامیہ سے خارج ہیں۔ پس یہ ہر گز جائز نہیں کہ ہم مسلمان بیٹیوں کی شادی ان کے ساتھ کریں اور نہ ہی ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ان کی عورتوں سے نکاح کریں۔ نہ ہی ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان کا ذبیحہ کھائیں ۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
{وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ}
اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ایک مومن لونڈی ایک مشرکۃ عورت سے بہترہے چاہے تمہیں وہ اچھی لگے اور نہ ہی مشرک مردوں سے نکاح کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور ایک مومن غلام ایک مشرک سے بہتر ہے چاہے تمہیں بھلا معلوم ہو یہ لوگ آگ کی طرف بلانے والے ہیں اور اللہ عزوجل جنت و مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیات کو کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں

{و با للّٰہ التوفیق و صلی اللّٰہ علی محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم} ''اللجنة الدائمة للبحوث والافتاء''
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
کتبِ رافضۃ میں وارد اہل بیت اور جناب رسول اللہ ﷺ کی ان سے برأت اور ان کا اس امت سے خارج ہونا
کتاب ''الاحتجاج'' میں ہے امام زین العابدین ؒ نے اہلِ کوفہ سے کہا ( ھل تعلمون انکم کتبتم الی ابی و خدعتموہ و اعطیتموہ من انفسکم العھدو المیثاق ثم قتلتموہ و خزلتموہ بای عین تنظرون الی رسول اللّٰہ ﷺ و ھو یقول لکم قاتلتم عترتی و انھتم حرمتی فلستم من امتی) کیا تم جانتے ہو کہ تم ہی نے میرے والد کی طرف خط لکھا اور پھر انہیں دھوکہ دیا اور تم نے خود انہیں پختہ عہد و پیمان دیا پھر تم نے ہی انہیں قتل کردیا اور انہیں رسوا کرڈالا تم کس نظر سے رسول اللہ ﷺکی طرف دیکھو گے جبکہ وہ فرمائیں گے کہ تم نے میری اولاد کو قتل کردیا اور میری حرمت کو رسوا کرڈالا تم میری امت میں سے نہیں ہو۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
رابعاً...
جب ہم کتب رافضہ اور ان کے اقوال کا ذکر کرتے ہیں جو ان کے ہاں معتمد ہیں تو اس سے ہم ان اقوال و روایت کی حاجت میں نہیں ہوتے بلکہ ہم تو انہیں اس لیے وارد کرتے ہیں تاکہ {وشھدوا علی انفسھم}انہوں نے خود اپنے اوپر گواہی دی...کے باب میں خود ان پر گواہی قائم ہوجائے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے...!
 
Top