• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوۂ ذات الرقاع

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غزوۂ ذات الرقاع

( ۷ھ)​
جب رسول اللہﷺ احزاب کے تین بازوؤں میں سے دو مضبوط بازوؤں کو توڑ کر فارغ ہو گئے تو تیسرے بازو کی طرف توجہکا بھر پور موقع مل گیا۔ تیسرا بازو وہ بَدُّو تھے جو نجد کے صحرا میں خیمہ زن تھے اور رہ رہ کر لوٹ مار کی کارروائیاں کرتے رہتے تھے۔
چو نکہ یہ بدُّو کسی آبادی یا شہر کے باشندے نہ تھے اوران کا قیام مکانات اور قلعوں کے اندر نہ تھا، اس لیے اہل مکہ اور باشندگان ِ خیبر کی بہ نسبت ان پر پوری طرح قابو پالینا اور ان کے شروفساد کی آگ مکمل طور پر بجھادینا سخت دشوار تھا۔ لہٰذا ان کے حق میں صرف خوف زدہ کرنے والی تادیبی کارروائیاں ہی مفید ہوسکتی تھیں۔
چنانچہ ان بدوؤں پر رعب ودبدبہ قائم کرنے کی غرض سے - اور بقول دیگر مدینہ کے اطراف میں چھاپہ مارنے کے ارادے سے جمع ہونے والے بدوؤں کو پراگندہ کرنے کی غرض سے - نبیﷺ نے ایک تادیبی حملہ فرمایا جو غزوہ ذات الرقاع کے نام سے معروف ہے۔
عام اہل مغازی نے اس غزوہ کا تذکرہ ۴ھ میں کیا ہے۔ لیکن امام بخاری نے اس کا زمانہ ٔ وقوع ۷ ھ بتایا ہے اور چونکہ اس غزوے میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے شرکت کی تھی ، لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غزوہ ، غزوہ ٔ خیبر کے بعد پیش آیا تھا۔ (مہینہ غالباً ربیع الاول کا تھا۔ ) کیونکہ حضرت ابو ہریرہؓ اس وقت مدینہ پہنچ کر حلقہ بگوش اسلا م ہوئے تھے جب رسول اللہﷺ خیبر کے لیے مدینہ سے جاچکے تھے۔ پھر حضرت ابو ہریرہؓ مسلمان ہوکر سیدھے خدمت نبویﷺ میں خیبر پہنچے اور جب پہنچے تو خیبر فتح ہوچکا تھا۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری حبش سے اس وقت خدمت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے تھے جب خیبر فتح ہوچکا تھا۔ لہٰذا غزوہ ذات الرقاع میں ان دونوں صحابہ کی شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غزوۂ خیبر کے بعد ہی کسی وقت پیش آیا تھا۔
اہلِ سِیر نے اس غزوے کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے قبیلہ اَنمار یا بنو غطفان کی دوشاخوں بنی ثعلبہ اور بنی محارب کے اجتماع کی خبر سن کر مدینہ کا انتظام حضرت ابوذر یا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما کے حوالے کیا اور جھٹ چار سو یا سات سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں بلادِ نجد کا رخ کیا۔ پھر مدینہ سے دودن کے فاصلے پر مقام نخل پہنچ کر بنو غطفان کی ایک جمعیت سے سامنا ہوا لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ البتہ آپﷺ نے اس موقع پر صلوٰۃ ِ خوف (حالتِ جنگ والی نماز) پڑھائی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ نماز کی اقامت کہی گئی۔ اور آپﷺ نے ایک گروہ کو دو رکعت نماز پڑھائی۔ پھر وہ پیچھے چلی گئی۔ اور آپﷺ نے دوسرے گروہ کو دورکعت نماز پڑھائی۔ یوں رسول اللہﷺ کی چار رکعتیں ہوئیں۔ اور قوم کی دورکعتیں۔ 1
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ہمراہ نکلے۔ ہم چھ آدمی تھے اور ایک ہی اونٹ تھا جس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس سے ہمارے قدم چھلنی ہوگئے۔ میرے بھی دونوں پاؤںزخمی ہوگئے اورناخن جھڑ گیا۔ چنانچہ ہم لوگ اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹے رہتے تھے۔ اسی لیے اس کا نام ذات الرقاع (چیتھڑوں والا ) پڑ گیا۔ کیونکہ ہم نے اس غزوے میں اپنے پاؤں پر چیتھڑے اور پٹیاں باندھ اور لپیٹ رکھی تھیں۔2
اور صحیح بخاری ہی میں حضرت جابرؓ سے یہ روایت ہے کہ ہم لوگ ذات الرقاع میں نبیﷺ کے ہمراہ تھے۔ (دستور یہ تھا کہ ) جب ہم کسی سایہ دار درخت پر پہنچتے تو اسے نبیﷺ کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ (ایک بار) نبیﷺ نے پڑاؤ ڈالا اور لوگ درخت کا سایہ حاصل کرنے کے لیے اِدھر اُدھر کانٹے دار درختوں کے درمیان بکھر گئے۔ رسول اللہﷺ بھی ایک درخت کے نیچے اُترے اور اسی درخت سے تلوار لٹکا کر (سوگئے )۔ حضر ت جابر فرماتے ہیں کہ ہمیں بس ایک نیند آئی تھی کہ اتنے میں ایک مشرک نے آکر رسول اللہﷺ کی تلوار سونت لی اور بولا : تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے کہا : تب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے فرمایا : اللہ!
حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہمیں اچانک رسول اللہﷺ پکار رہے تھے۔ ہم پہنچے تو دیکھا کہ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس بیٹھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : میں سویا تھا اور اس نے میری تلوار سونت لی۔ اتنے میں میں جاگ گیا اور سونتی ہوئی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مجھ سے کہا: تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ میں نے کہا: اللہ۔ تو اب یہ وہی شخص بیٹھا ہو اہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے اسے عتاب نہ کیا۔
ابو عوانہ کی روایت میں اتنی تفصیل اور ہے کہ (جب آپﷺ نے اس کے سوال کے جوا ب میں اللہ کہا تو ) تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ پھر وہ تلوار رسول اللہﷺ نے اٹھا لی اور فرمایا: اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا : آپ اچھے پکڑنے والے ہویئے۔ (یعنی احسان کیجیے ) آپﷺ نے فرمایا : تم شہادت دیتے ہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے کہا : میں آپﷺ سے عہد کرتا ہوں کہ آپﷺ سے لڑائی نہیں کروں گا اور نہ آپﷺ سے لڑائی کرنے والوں کا ساتھ دوںگا۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ اس کے بعد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۴۰۷ ، ۴۰۸ ، ۲/۵۹۳
2 صحیح بخاری : باب غزوۃ ذات الرقاع ۲/۵۹۲ صحیح مسلم : باب غزوۃ ذات الرقاع ۲/۱۱۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آپﷺ نے اس کی راہ چھوڑ دی اور اس نے اپنی قوم میں جاکر کہا :میں تمہارے یہاں سب سے اچھے انسان کے پاس سے آرہا ہوں۔1
صحیح بخاری کی روایت میں جسے مسددنے ابو عوانہ سے اور انہوں نے ابو بشر سے روایت کیاہے، بتایا گیا ہے کہ اس آدمی کا نام غورث بن حارث تھا۔ 2ابن حجرؓ کہتے ہیں کہ واقدی کے نزدیک اس واقعے کی تفصیلات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس اعرابی کانام دعثور تھا اور اس نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن واقدی کے کلام سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ الگ الگ دو واقعات تھے ، جو دو الگ الگ غزووںمیں پیش آئے تھے۔3 واللہ اعلم
اس غزوہ سے واپسی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مشرک عورت کو گرفتار کرلیا۔ اس پر اس کے شوہر نے نذر مانی کہ وہ اصحاب محمدﷺ کے اندر ایک خون بہا کررہے گا۔ چنانچہ وہ رات کے وقت آیا۔ رسول اللہﷺ نے دشمن سے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے دو آدمیوں، یعنی عباد بن بشر اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو پہرے پر مامور کر رکھا تھا۔ جس وقت وہ آیا حضرت عبادکھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ اس نے اسی حالت میں ان کو تیر مار ا، انہوں نے نماز توڑے بغیر تیرنکال کر جھٹک دیا۔ اس نے دوسرا اور تیسرا تیر مارا ، لیکن انہوں نے نماز نہ توڑی اور سلام پھیر کر ہی فارغ ہوئے۔ پھر اپنے ساتھی کو جگایا۔ ساتھی نے (حالات جان کر ) کہا : سبحان اللہ ! آپ نے مجھے جگا کیوں نہ دیا ؟ انہو ں نے کہا : میں ایک سورت پڑھ رہا تھا۔ گوارہ نہ ہوا اسے کاٹ دوں۔4
سنگ دل اعراب کو مرعوب اور خوفزدہ کرنے میں اس غزوے کا بڑا اثر رہا۔ ہم اس غزوے کے بعد پیش آنے والے سرایاکی تفصیلات پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ غطفان کے ان قبائل نے اس غزوے کے بعد سر اٹھانے کی جرأت نہ کی بلکہ ڈھیلے پڑتے پڑتے سپر انداز ہوگئے اور بالآخر اسلام قبول کرلیا، حتیٰ کہ ان اعراب کے کئی قبائل ہم کو فتح مکہ اور غزوۂ حنین میں مسلمانوں کے ساتھ نظر آتے ہیں اور انہیں غزوہ ٔ حنین کے مالِ غنیمت سے حصہ دیا جاتا ہے۔ پھر فتح مکہ سے واپسی کے بعد ان کے پاس صدقات وصول کرنے کے لیے اسلامی حکومت کے عمال بھیجے جاتے ہیں اور وہ باقاعدہ اپنے صدقات ادا کرتے ہیں۔ غرض اس حکمت عملی سے وہ تینوں بازوٹوٹ گئے جو جنگ ِ خندق میں مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ اور اس کی وجہ سے پورے علاقے میں امن وسلامتی کا دور دورہ ہوگیا۔ اس کے بعد بعض قبائل نے بعض علاقوں میں جو شور وغوغا کیا اس پر مسلمانوں نے بڑی آسانی سے قابو پالیا۔ بلکہ اسی غزوے کے بعد بڑے بڑے شہروں اور ممالک کی فتوحات کا راستہ ہموار ہونا شروع ہوا، کیونکہ اس غزوے کے بعد اندرون ملک حالات پوری طرح اسلام اور مسلمانوں کے لیے سازگار ہوچکے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مختصر السیرۃ شیخ عبداللہ نجدی ص ۲۶۴، نیز دیکھئے: فتح الباری ۷/۴۱۶
2 صحیح بخاری ۲/۵۹۳ 3 فتح الباری ۷/۴۲۸
4 زاد المعاد ۲/۱۱۲ ، نیز اس غزوے کے مباحث کی تفصیلات کے لیے دیکھئے: ابن ہشام ۲/۲۰۳ تا ۲۰۹ ، زاد المعاد ۲/۱۱۰ ، ۱۱۱، ۱۱۲، فتح الباری ۷/۴۱۷ تا ۴۲۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۷ ھ کے چند سرایا

اس غزوے سے واپس آکر رسول اللہﷺ نے شوال ۷ ھ تک مدینہ میں قیام فرمایا اور اس دوران متعدد سرایا روانہ کیے۔ بعض کی تفصیل یہ ہے :
۱۔ سریۂ قدید : (صفر یا ربیع الاول ۷ ھ )
یہ سریہ غالب بن عبد اللہ لیثی کی کمان میں قدید کی جانب قبیلہ بنی ملوح کی تادیب کے لیے روانہ کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ بنوملوح نے بِشر بن سُوید کے رفقاء کو قتل کردیا تھا اور اسی کے انتقام کے لیے اس سریہ کی روانگی عمل میں آئی تھی۔ اس سریہ نے رات میں چھاپہ ماکر بہت سے افراد کو قتل کردیا اور ڈھورڈنگر ہانک لائے۔ پیچھے سے دشمن نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ تعاقب کیا لیکن جب مسلمانوں کے قریب پہنچے تو بارش ہونے لگی۔ اور ایک زبردست سیلاب آگیا جو فریقین کے درمیان حائل ہوگیا۔ اس طرح مسلمانوں نے بقیہ راستہ بھی سلامتی کے ساتھ طے کر لیا۔
۲۔ سریہ ٔ حسمی: (جمادی الآخرہ ۷ھ )
اس کا ذکر شاہان عالم کے نام خطوط کے باب گزرچکا ہے۔
۳۔ سریہ ٔ تربہ : (شعبان ۷ھ )
یہ سریہ حضرت عمر بن خطابؓ کی قیادت میں روانہ کیا گیا ان کے ساتھ تیس آدمی تھے جو رات میں سفر کرتے اور دن میں روپوش رہتے تھے۔ لیکن بنو ہوازن کو پتہ چل گیااور وہ نکل بھاگے۔ حضرت عمرؓ ان کے علاقے میں پہنچے تو کوئی بھی نہ ملا ، اور وہ مدینہ پلٹ آئے۔
۴۔سریہ اطراف فدک: (شعبان ۷ ھ )
یہ سریہ حضرت بشیر بن سعد انصاریؓ کی قیادت میں تیس آدمیوں کے ہمراہ بنومرہ کی تادیب کے لیے روانہ کیا گیا۔ حضرت بشیرنے ان کے علاقے میں پہنچ کر بھیڑ بکریاں اور چوپائے ہانک لائے اور واپس ہوگئے۔ رات میں دشمن نے آلیا۔ مسلمانوں نے جم کر تیر اندازی کی لیکن بالآخر بشیر اور ان کے رفقاء کے تیر ختم ہوگئے۔ اور ان کا ہاتھ خالی ہوگیا اور اس کے نتیجے میں سب کے سب قتل کردیے گئے۔ صرف بشیر زندہ بچے۔ انہیں زخمی حالت میں اٹھا کر فدک لایاگیا اور وہ یہود کے پاس مقیم رہے۔ یہاں تک کہ ا ن کے زخم مندمل ہوگئے، اس کے بعد وہ مدینہ آئے۔
۵۔ سریہ میفعہ: (رمضان ۷ھ )
یہ سریہ حضرت غالب بن عبد اللہ لیثی کی قیادت میں بنو عوال اور بنو عبد بن ثعلبہ کی تادیب کے لیے اورکہا جاتاہے کہ قبیلہ ٔ جہینہ کی شاخ حرقات کی تادیب کے لیے روانہ کیا گیا۔ مسلمانوں کی تعداد ایک سو تیس تھی۔ انہوں نے دشمن پر یکجائی حملہ کیا اور جس نے بھی سر اٹھایا اسے قتل کردیا۔ پھر چوپائے اور بھیڑ بکریاں ہانک لائے۔ اسی سریہ میں حضرت اُسامہ بن زیدؓ نے نہیک بن مرداس کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے باوجود قتل کردیاتھا اور اس پر نبیﷺ نے بطور عتاب فرمایا تھا کہ تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ معلوم کرلیا کہ وہ سچاتھا یاجھوٹا؟
۶۔ سریہ خیبر : (شوال ۷ ھ )
یہ سریہ تیس سواروں پر مشتمل تھا۔ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی قیادت میں بھیجا گیا تھا۔ وہ یہ تھی کہ اسیر یا بشیر بن زَرام بنو غطفان کو مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کے لیے جمع کررہا تھا۔ مسلمانوں نے اسیر کو یہ امید دلاکر کہ رسول اللہﷺ اسے خیبر کا گورنربنادیں گے ، اس کے تیس رفقاء سمیت اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کرلیا، لیکن قرقرہ نیار پہنچ کر فریقین میں بدگمانی پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں اسیر اور اس کے تیس ساتھیوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
۷۔ سریہ یمن وجبار: (شوال ۷ھ )
جبار کی جیم کو زبر۔ یہ بنو غطفان ، اور کہا جاتا ہے کہ بنو فزارہ اور بنو عذرہ کے علاقہ کا نام ہے۔ یہاں حضرت بشیر بن کعب انصاریؓ کو تین سو مسلمانوں کی معیت میں روانہ کیا گیا۔ مقصود ایک بڑی جمعیت کو پراگندہ کرنا تھاجو مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے جمع ہورہی تھی۔ مسلمان راتوں رات سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے۔ جب دشمن کو حضرت بشیر کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت بشیر نے بہت سے جانوروں پر قبضہ کیا۔ دوآدمی بھی قید کیے اور جب ان دونوں کو لے کر خدمتِ نبویﷺ میں مدینہ پہنچے تو دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔
۸۔ سریہ غابہ:
اسے امام ابن قیم نے عمرہ ٔ قضاء سے قبل ۷ھ کے سرایا میں شمار کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبیلہ جشم بن معاویہ کا ایک شخص بہت سے لوگوں کوساتھ لے کر غابہ آیا۔ وہ چاہتا تھا کہ بنوقیس کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے جمع کرے۔ نبیﷺ نے حضرت ابو حَدْرَد کو صرف دوآدمیوں کے ہمراہ روانہ فرمایا کہ اس کی خبر اور اس کا پتہ لے کر آئیں۔ وہ سورج ڈوبنے کے وقت ان لوگوں کے پاس پہنچے۔ ابو حدرد ایک جانب چھپ گئے۔ اور ان کے دونوں ساتھی دوسری جانب چھپ گئے۔ ان لوگوں کے چرواہے نے دیر کردی۔ یہاں تک کہ شام کی سیاہی جاتی رہی۔ چنانچہ ان کا رئیس تنہا اٹھا۔ جب ابوحدرد کے پاس سے گزرا تو انہیں تیر مارا ، جو دل پر جاکر بیٹھ گیا۔ اور وہ کچھ بولے بغیر جاگرا ابو حدرد نے سر کاٹا۔ اور تکبیر کہتے ہوئے لشکر کی جانب دوڑ لگائی۔ ان کے دونوں ساتھیوں نے بھی تکبیر کہتے ہوئے دوڑ لگائی۔ دشمن بھاگ کھڑا ہوا۔ اور یہ تینوںحضرات بہت سے اونٹ اور بکریاں ہانک لائے۔1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۱۴۹، ۱۵۰ ، ابن ہشام ۲/۶۲۹ ، ۶۳۰ ، ابن ہشام کے یہاں ابن ابی حدرد ہے۔ ان سرایا کی تفصیلات رحمۃ للعالمین ۲/۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۱ ، زاد المعاد ۲/۱۴۸، ۱۴۹، ۱۵۰ ، تلقیح الفہوم مع حواشی ص ۳۱ اور مختصر السیرہ للشیخ عبداللہ نجدی ص ۳۲۲، ۳۲۳ ، ۳۲۴ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عمرہ ٔ قضا

امام حاکم کہتے ہیں : یہ خبرتواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب ذی قعدہ کا چاند ہو گیا تو نبیﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اپنے عمرہ کی قضاء کے طور پرعمرہ کریں اور کوئی بھی آدمی جو حدیبیہ میں حاضرتھا پیچھے نہ ہے۔ چنانچہ (اس مدت میں ) جو لوگ شہید ہوچکے تھے انہیں چھوڑ کربقیہ سب ہی لوگ روانہ ہوئے۔ اور اہلِ حدیبیہ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی عمرہ کرنے کے لیے ہمراہ نکلے۔ اس طرح تعدا ددوہزار ہوگئی، عورتیں اور بچے ان کے علاوہ تھے۔1
رسول اللہﷺ نے اس موقع پر ابو رھم غفاریؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔ ساٹھ اونٹ ساتھ لیے اور ناجیہ بن جندب اسلمی کو ان کی دیکھ بھال کاکام سونپا۔ ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا۔ اور لبیک کی صدا لگائی۔ آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی لبیک پکارا۔ اور قریش کی جانب سے بدعہدی کے اندیشے کے سبب ہتھیار اور جنگجو افراد کے ساتھ مستعد ہوکر نکلے۔ جب وادی یَا جِجْ پہنچے تو سارے ہتھیار، یعنی ڈھال ، سپر ، نیزے سب رکھ دیے اور ان کی حفاظت کے لیے اوس بن خولی انصاریؓ کی ماتحتی میں دوسو آدمی وہیں چھوڑ دیے اور سوار کا ہتھیار اور میان میں رکھی ہوئی تلواریں لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔2
رسول اللہﷺ مکہ میں داخلے کے وقت اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ مسلمانوں نے تلواریں حمائل کررکھی تھیں اور رسول اللہﷺ کو گھیرے میں لیے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔
مشرکین مسلمانوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے (گھروں سے ) نکل کر کعبہ کے شمال میں واقع جبل قعیقعان پر (جابیٹھے تھے ) انہوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس ایک ایسی جماعت آرہی ہے جسے یثرب کے بخار نے توڑ ڈالا ہے۔ اس لیے نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکردوڑ کر لگائیں۔ البتہ رکن یمانی اورحجرِ اسود کے درمیان صرف چلتے ہوئے گزریں۔ کُل (ساتوں ) چکر دوڑ کر لگانے کا حکم محض اس لیے نہیں دیا کہ رحمت وشفقت مقصود تھی۔ اس حکم کا منشاء یہ تھا کہ مشرکین آپ کی قوت کا مشاہدہ کرلیں۔3 اس کے علاوہ آپ نے صحابہ کرام کو اضطباع کا بھی حکم دیا۔ اضطباع کا مطلب یہ ہے کہ دایاں کندھا کھلارکھیں (اور چادر دا ہنی بغل کے نیچے سے گزارکر آگے پیچھے دونوں جانب سے ) اس کا دوسراکنارہ بائیں کندھے پر ڈال لیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فتح الباری ۷/۷۰۰ 2 ایضا مع زاد المعاد ۲/۱۵۱
3 صحیح بخاری ۱/۲۱۸ ، ۲/۶۱۰ ، ۶۱۱ ، صحیح مسلم ۱/۴۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
رسول اللہﷺ مکے میں اس پہاڑ ی گھاٹی کے راستے سے داخل ہوئے جو حجون پر نکلتی ہے۔ مشرکین نے آپﷺ کو دیکھنے کے لیے لائن لگا رکھی تھی - آپﷺ مسلسل لبیک کہہ رہے تھے ،یہاں تک کہ (حرم پہنچ کر ) اپنی چھڑی سے حجر اسود کو چھویا، پھر طواف کیا۔ مسلمانوں نے بھی طواف کیا۔ اس وقت حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ تلوار حمائل کیے رسول اللہﷺ کے آگے آگے چل رہے تھے اور رجز کے یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

خـلوا بنی الکفار عن سبـیلـہ خلـوا فکل الخیر فی رسولہ​
قد أنزل الرحمـن فـي تـنزیلـہ فی صحف تتلی علی رسولہ​
یـا رب إنـي مـؤمــن بـقیـلـہ إني رأیت الحـق فی قبولـــہ​
بــان خیـر القتـل فی سبیلــہ الیوم نضـربکــم علی تنزیلہ​
ضرباً یزیـل الہـام عن مقیلـہ ویذہــل الخلیـل عن خلیلہ 1​

''کفّار کے پوتو! ان کا راستہ چھوڑ دو۔ راستہ چھوڑ دو کہ ساری بھلائی اس کے پیغمبر ہی میں ہے۔ رحمان نے اپنی تنزیل میں اتارا ہے۔ یعنی ایسے صحیفوں میں جن کی تلاوت اس کے پیغمبر پر کی جاتی ہے۔ اے پروردگار ! میں ان کی باتوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور اسے قبول کرنے ہی کو حق جانتا ہوں کہ بہترین قتل وہ ہے جو اللہ کی راہ میں ہو۔ آج ہم اس کی تنزیل کے مطابق تمہیں ایسی مارمار یں گے کہ کھوپڑی اپنی جگہ سے جھٹک جائے گی ، اور دوست کو دوست سے بے خبر کردے گی۔''
حضرت انسؓ کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا : اے ابن رواحہ ! تم رسول اللہﷺ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر کہہ رہے ہو ؟ نبیﷺ نے فرمایا : اے عمر ! انہیں رہنے دو۔ کیونکہ یہ ان کے اندرتیر کی مار سے بھی زیادہ تیز ہے۔2
رسول اللہﷺ اور مسلمانوں نے تین چکر دوڑ کر لگائے۔ مشرکین نے دیکھا تو کہنے لگے : یہ لوگ جن کے متعلق ہم سمجھ رہے تھے کہ بخار نے انہیں توڑ دیا ہے یہ تو ایسے اور ایسے لوگوں سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔3
طواف سے فارغ ہوکر آپﷺ نے صَفا ومَرَوہ کی سعی کی۔ اس وقت آ پﷺ کی ہدی یعنی قربانی کے جانور مَرَوہ کے پاس کھڑے تھے۔ آپﷺ نے سعی سے فارغ ہوکرفرمایا : یہ قربان گاہ ہے اور مکے کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں۔ اس کے بعد مَرَوہ ہی کے پاس جانوروں کو قربان کردیا، پھر وہیں سر منڈایا۔ مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کو یَا جِجْ بھیج دیا گیا کہ وہ ہتھیاروں کی حفاظت کریں اور جولوگ حفاظت پر مامور تھے وہ آکر اپنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 روایات کے اندر ان اشعار اور ان کی ترتیب میں بڑا اضطراب ہے۔ ہم نے متفرق اشعار کو یکجا کردیا ہے۔
2 جامع ترمذی ، ابواب الاستیذان والادب ، باب ماجاء فی انشاد الشعر ۲/۱۰۷
3 صحیح مسلم ۱/۴۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عمرہ ادا کرلیں۔
رسول اللہﷺ نے مکہ میں تین روز قیام فرمایا تھا۔ چوتھے دن صبح ہوئی تو مشرکین نے حضرت علیؓ کے پاس آکر کہا ،: اپنے صاحب سے کہو کہ ہمارے یہاں سے روانہ ہوجائیں۔ کیونکہ مدت گزرچکی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ مکہ سے نکل آئے اور مقام سرف میں اتر کر قیام فرمایا۔
مکہ سے آپ کی روانگی کے وقت پیچھے پیچھے حضرت حمزہؓ کی صاحبزادی بھی چچا چچا پکارتے ہوئے آ گئیں۔ انہیں حضرت علیؓ نے لے لیا۔اس کے بعد حضرت علی، حضرت جعفر اور حضرت زید کے درمیان ان کے متعلق اختلاف اُٹھ کھڑا ہوا۔ (ہر ایک مدعی تھا کہ وہی ان کی پرورش کا زیادہ حقدار ہے ) نبیﷺ نے حضرت جعفرؓ کے حق میں فیصلہ کیا۔ کیونکہ اس بچی کی خالہ انہیں کی زوجیت میں تھی۔
اسی عمرہ میں نبیﷺ نے حضرت میمونہ بنت حارث عامریہؓ سے شادی کی۔ اس مقصد کے لیے رسول اللہﷺ نے مکہ پہنچنے سے پہلے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کو اپنے آگے حضر ت میمونہ کے پاس بھیج دیا تھا۔ اور انہوں نے اپنا معاملہ حضرت عباس کو سونپ دیا تھا کیونکہ حضرت میمونہ کی بہن حضرت اُم الفضل انہی کی زوجیت میں تھیں ، حضرت عباسؓ نے حضرت میمونہؓ کی شادی نبیﷺ سے کردی۔ پھرآپﷺ نے مکے سے واپسی کے وقت حضرت ابورافع کو پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ حضرت میمونہؓ کو سوار کر کے آپﷺ کی خدمت میں لے آئیں۔ چنانچہ آپﷺ سرف پہنچے تو وہ آپﷺ کی خدمت میں پہنچادی گئیں۔1
اس عمرہ کا نام عمرہ ٔ قضاء یا تو اس لیے پڑا کہ یہ عمرہ ٔ حدیبیہ کی قضا کے طور پر تھا یا اس لیے کہ یہ حدیبیہ میں طے کردہ صلح کے مطابق کیا گیا تھا۔ (اوراس طرح مصالحت کو عربی میں قضا اورمقاضاۃ کہتے ہیں ) اس دوسری وجہ کومحققین نے راجح قراردیا ہے۔ 2نیز اس عمرہ کو چار نام سے یاد کیا جاتا ہے ! عمرہ ٔ قضا، عمرۂ قضیہ ، عمرۂ قصاص اور عمرۂ صلح۔3
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۱۵۲
2 زاد المعاد ۲/۱۷۲ ، فتح الباری ۷/۵۰۰
3 ایضا فتح الباری ۷/۵۰۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
چند اور سرایا

۱۔ سریہ ابوا لعوجاء: (ذی الحجہ ۷ھ )
رسول اللہﷺ نے پچاس آدمیو ں کو حضرت ابو العوجاء کی سر کردگی میں بنو سلیم کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے روانہ کیا۔ لیکن جب بنو سلیم کو اسلام کی دعوت دی گئی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ تم جس بات کی دعوت دیتے ہو ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر انہوں نے سخت لڑائی کی جس میں ابو العوجاء زخمی ہوگئے۔ تاہم مسلمانوں نے دشمن کے دو آدمی قید کیے۔
۲۔ سریہ غالب بن عبد اللہ: (صفر ۸ ھ )
انہیں دوسو آدمیوں کے ہمراہ فدک کے اطراف میں حضرت بشیر بن سعد کے رفقاء کی شہادت گاہ میں بھیجا گیا تھا۔ ان لوگوں نے دشمن کے جانوروں پر قبضہ کرلیا اور ان کے متعدد افراد قتل کیے۔
۳۔ سریہ ذات اطلح: (ربیع الاول ۸ ھ )
ا س سریہ کی تفصیل یہ ہے کہ بنو قضاعہ نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بڑی جمعیت فراہم کررکھی تھی۔ رسول اللہﷺ کو علم ہوا تو آپﷺ نے کعب بن عمیرؓ کی سرکردگی میں صرف پندرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کی جانب روانہ فرمایا۔ صحابہ کرام نے سامناہونے پر انہیں اسلام کی دعوت دی۔ مگر انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بجائے صحابہ کو تیروں سے چھلنی کرکے سب کو شہید کرڈالا۔ صرف ایک آدمی زندہ بچا، جو مقتولین کے درمیان سے اٹھالایا گیا۔1
۴۔ سریہ ذات عرق: (ربیع الاول ۸ ھ )
اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنو ہوازن نے باربار دشمنوں کوکمک پہنچائی تھی۔ اس لیے پچیس آدمیوں کی کمان دے کر حضرت شجاع بن وہب اسدیؓ کو ان کی جانب روانہ کیا گیا۔ یہ لوگ دشمن کے جانور ہانک لائے لیکن جنگ اور چھیڑ چھاڑ کی نوبت نہیں آئی۔2
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 رحمۃ للعالمین ۲/۲۳۱
2 ایضا وتلقیح الفہوم ص ۳۳ (حاشیہ )
 
Top