ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
بزدلی اور دوغلہ پن، سُنت کی روشنی میں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تصویر کا پہلا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُحد کے دن ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں شہید کر دیا گیا تو میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں"۔ (یہ سن کر) اس نے وہ کھجوریں پھینکیں جو اس کے ہاتھ میں تھیں، پھر وہ لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہو گیا۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، حدیث 4046)
عوف بن حارث (ابن عفراء) کہنے لگے: "اللہ کے رسول! ربِ کریم اپنے بندے کے کس کام سے ہنستا ہے؟" آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "وہ آدمی جو بغیر زرہ اور خود کے دشمن پر جھپٹ پڑے۔" انہوں نے فوراً زرہ اتار پھینکی، پھر تلوار پکڑی اور دشمن پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ شہید ہو گئے۔"
(سیرۃ ابن ہشام ج2 ص322)
یہ سیرت نبوی کا ایک رُخ ہے جس میں جب دوسروں کے بچے مروانے ہوتے تھے تو ان کو جنت کہ کہانیاں سُنا سُنا کر دشمنوں کے نرغے میں بھیج دیا جاتا۔ حتیٰ کہ لوہے کے حفاظتی لباس زرہ تک اتروا کر انہیں دشمنوں میں جھونکا گیا کہ جاؤ ہمارے دشمنو کو بھی مارو اور خود بھی مرو اور اس کے بدلے اللہ خوش بھی ہو گا اور جنت بھی دے گا۔ ان مسلمانوں کو جنت اور شہید ہو کر نام نہاد اللہ کی رضا کے لئے اس قدر برانگیختہ کیا جاتا کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ وہ شہید ہو جائے اور وہ اس کے لئے حفاظتی زرہ تک نہ پہنتے۔ چنانچہ اُحد کے واقعات میں ہے کہ
جنگ کے لئے جاتے ہوئے حضرت عمر نے اپنے بھائی حضرت زید سے کہا: "تم میری زرہ لے لو۔" زید کہنے لگے: "جس طرح آپ کی خواہش ہے شہید ہونے کی اُسی طرح میں بھی شہادت کا آرزو مند ہوں۔" آخرکار دونوں میں سے کسی نے بھی زرہ نہیں پہنی۔" (مجمع الزوائد ج5 ص298)
اب اس کے مقابلے میں اپنا حال دیکھئے:
تصویر کا دوسرا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُحد کے دن اوپر تلے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی لبس الدروع، حدیث 2590)
اندازہ لگائیے اس بزدلی اور دوغلے پن کا کہ دوسروں کو کہنا کہ اللہ کو خوش کرنا ہے تو بغیر کسی حفاظتی لباس کے دشمن کے نرغے میں گھس جاؤ، شہید ہو جاؤ اور اپنا حال یہ کہ بغیر دشمن کی صفوں میں گھسے ہی دو دو زرہیں پہن رکھی ہیں، وہ بھی اس حال میں کہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک کے پاس زرہ تو دور تلوار تک نہ ہوتی تھی۔
پھر یہ بھی مد نظر رکھئے کہ بذعم خویش یہ نبی اس بات کے بھی دعویدار رہے کہ اللہ نے ان کی حفاظت کا خصوصی ذمہ لے رکھا ہے کہ دشمنوں سے انہیں بچائے گا۔
اس اُحد کے ہی میدان میں جس میں خود آنجناب نے دو دو زرہیں بھی پہن رکھی تھیں، حال یہ تھا کہ جب کافروں نے حملہ کیا اور کچھ آنجناب تک بھی آ پہنچے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارد گرد سات انصار اور دو قریش صحابی تھے۔ جب دشمن بالکل بالمقابل آ گیا تو بجائے خود بھی مقابلہ کرنے کے اس عظیم بہادر جرنیل نے پھر فرمایا:
"جو ان مشرکین کو مجھ سے دور کرے گا، اُس کے لئے جنت ہے، یا (فرمایا:) وہ جنت میں میرا ساتھی ہے۔"
یعنی خود مقابلہ نہیں کرنا پھر دوسروں کو جنت کا لولی پاپ دے دیا اور اس کے ماننے والے اندھے عقیدتمند بھی اس کے دفاع میں قربان ہوتے رہے حتیٰ کہ سات کے سات انصار شہید ہو گئے۔ اپنی اس بزدلی کا خود بھی احساس تھا چنانچہ دو ساتھ رہ جانے والے قریشی ساتھیوں سے فرمایا: ہم نے اپنے ان ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔"
اس تفصیلی واقعہ کے لئے دیکھئے صحیح مسلم (کتاب الجہاد و السیر، باب غزوۃ احد، حدیث 4641)
خود لڑنے کی ہمت کم ہی پائی تھی جناب نے، چنانچہ اپنے ترکش سے بھی سارے تیر نکال کر اپنے ایک صحابی سعد بن ابی وقاص کو دے دیے اور اسے لڑنے کے لئے ابھارتے ہوئے کہا: "ان پر تیروں کی بارش کرو، میرے ماں باپ تجھ پر قربان۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4055)
آہ! جان کس قدر پیاری چیز ہے، دوسرے مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ اس پر بھی بس نہیں ابو طلحہ نامی صحابی اپنی ڈھال لے کر خود بھی اپنے اس نبی کے اوپر ڈھال بنا ہوا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4064)
دوسرے اپنی جان وارتے رہے اور اتنے مشکل حالات میں بھی یہ نیچے دُبکے بیٹھا رہا۔ سر اٹھا کر دشمن کو دیکھنے کی کوشش کرتا تو یہ اندھے عقیدتمند کہتے: "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ سر نہ اُٹھائیں، مبادا کافروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے قربانی کے لئے موجود ہے۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4064)
اس پر پھر یاد کیجئے کہ یہ سب اس حال میں ہو رہا ہے کہ آنجناب نے دو دو زرہیں بھی پہن رکھی ہیں، پھر بھی بہادری کا یہ حال ہے۔ دوسروں کو شہید کروانے کے لئے لمبی لمبی چھوڑنا اور ایک جنگ میں زرا سے جان پر بنی تو کیا حال ہو گیا جناب کا۔
مگر جس طرح وہاں کے اندھے عقیدتمندوں کو یہ سمجھ نہیں تھی کہ مذہب کا کاروبار کرنے والے موت ہمیشہ دوسروں میں بانٹتے ہیں، افسوس کہ آج بھی عقیدت کے مارے یہ بات سمجھ نہیں پاتے
تحریر ۔
سعد رضا
حضرت ام عمارہ انصار کی عورتوں میں سے تھیں ہجرت کے بعد اکثر لڑائیوں میں شریک ہوئیں جنگ احد کےوقت انکی عمر تینتالیس سال تھی
انکے خاوند اور دو بیٹے بھی لڑائ میں شریک تھے فرماتی ہیں
جنگ میں جب کافروں کو غلبہ ہونے لگا تو میں حضور کے قریب پہنچ گئ جو ادھر کا رخ کرتا اسکو ہٹاتی تھی ابتدا میں ڈھال بھی نہ تھی بعد میں ملی جس پر کافروں کا حملہ روکتی تھی کمر پر اک کپڑا باندھ رکھا تھا جسکے اندر چیتھڑے بھرے ہوۓ تھے کہ جب کوئ زخمی ہو جاۓ تو چیتھڑا نکال کر اسکے زخم بھر سکوں، حضور پاک کی حفاظت میں خود بھی کئ جگہ سے زخمی ہوئی، بارہ تیرہ وار لگے جن میں سے اک بہت سخت تھا، ام سعید کہتی ہیں میں نے ان کے مونڈھے پر اک بڑا اور گہرا زخم دیکھا پوچھا کہ یہ کس طرح پڑا تو کہا احد کی لڑائ میں ابن قمیہ یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ بتاؤ محمد کہاں ہے اگر آج وہ بچ گیا تو میری نجات نہیں، مصعب بن عمیر اور چند آدمی اسکے سامنے آۓ میں بھی آگے بڑھی اس نے میرے مونڈے پر وار کیا میں نے بھی اسکے جسم پر کئ وار کئے مگر اسکی دوہری زرہ تھی اسلئے وار کارگر نہ ہوۓ. جنگ میں دشمن گھڑ سوار تھے اور ہم پیدل جب کوئ حملہ کرتا میں ڈھال پر اسکا وار روکتی اور اسکے گھوڑے کی ٹانگ پر وار کرتی گھوڑا اور سوار گرتے تو حضور فورآ میرے لڑکے کو آواز دیتے اور ہم ماں بیٹا مل کر اسکو نمٹا دیتے.
اسی جنگ میں اک بار اک کافر سامنے آیا تو حضور نے مجھ سے کہا یہی ہے جس نے تیرے بیٹےکو زخمی کیا میں نے آگے بڑھ کر اسکی پنڈلی پر وار کیا تو وہ زخمی ہوکر بیٹھ گیا، حضور مسکراۓ اور فرمایا کہ بیٹے کا بدلہ لے لیا. اسکے بعد ہم نے اس کو نمٹا دیا.
جنگ احد میں اسی ابن قمیہ کا اک وار حضورپاک کے خود کےحلقوں پر پڑا جسکے نتیجے میں حلقے حضور پاک کے گال میں دھنس گئے اور خون بہنے لگا، جبکہ اس واقعہ سے زرا پہلے کسی کافر نے حضور پر پتھر پھینک مارا تھا جس سے حضورپاک کے دو دانت مبارک شہید ہوگئے تھے
علی سینا کے بقول دو زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے رسول کریم کا چلنا مشکل ہوتا تھا، آپ اپنے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے چلا کرتے تھے۔ کبھی کبھار آپ ہاتھ میں دھول لے کر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے اور پھر اس دھول کو کفار کی طرف اچھال دیتے۔ دھول کو دشمن کی طرف اچھالنا ہی آپ کا سب سے بڑا بہادری ک کارنامہ ہوا کرتا تھا
جسنے معراج میں اللہ کو روبرو دیکھا ہو اسکے ایمان کی تو یہ کیفیت ہونی چاہیے کہ اکیلا نہتا نکل کھڑا ہوا، کیونکہ اللہ کے نبی نے دنیا میں اپنا مقصد پورا کئیے بغیر تو مرنا نہیں تھا، اللہ نے مرنے ہی نہیں دینا تھا، تو پھر دو دو زرہ کی کیا ضرورت تھی، یعنی نبی کو خود ہی اللہ کی قدرت پر یقنین نہیں تھا، انکو اللہ سے زیادہ زرہ پر اعتبار تھا؟ پھر دوسروں کو شہادت کی ترغیب دینا تو عین منافقت اور انتہا درجہ بزدلی ہے۔
بیان کردہ پہلی دونوں روایات آج کے دور میں خودکش حملوں کے لیے صریح جواز ہیں
A.J
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تصویر کا پہلا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُحد کے دن ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں شہید کر دیا گیا تو میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں"۔ (یہ سن کر) اس نے وہ کھجوریں پھینکیں جو اس کے ہاتھ میں تھیں، پھر وہ لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہو گیا۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، حدیث 4046)
عوف بن حارث (ابن عفراء) کہنے لگے: "اللہ کے رسول! ربِ کریم اپنے بندے کے کس کام سے ہنستا ہے؟" آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "وہ آدمی جو بغیر زرہ اور خود کے دشمن پر جھپٹ پڑے۔" انہوں نے فوراً زرہ اتار پھینکی، پھر تلوار پکڑی اور دشمن پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ شہید ہو گئے۔"
(سیرۃ ابن ہشام ج2 ص322)
یہ سیرت نبوی کا ایک رُخ ہے جس میں جب دوسروں کے بچے مروانے ہوتے تھے تو ان کو جنت کہ کہانیاں سُنا سُنا کر دشمنوں کے نرغے میں بھیج دیا جاتا۔ حتیٰ کہ لوہے کے حفاظتی لباس زرہ تک اتروا کر انہیں دشمنوں میں جھونکا گیا کہ جاؤ ہمارے دشمنو کو بھی مارو اور خود بھی مرو اور اس کے بدلے اللہ خوش بھی ہو گا اور جنت بھی دے گا۔ ان مسلمانوں کو جنت اور شہید ہو کر نام نہاد اللہ کی رضا کے لئے اس قدر برانگیختہ کیا جاتا کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ وہ شہید ہو جائے اور وہ اس کے لئے حفاظتی زرہ تک نہ پہنتے۔ چنانچہ اُحد کے واقعات میں ہے کہ
جنگ کے لئے جاتے ہوئے حضرت عمر نے اپنے بھائی حضرت زید سے کہا: "تم میری زرہ لے لو۔" زید کہنے لگے: "جس طرح آپ کی خواہش ہے شہید ہونے کی اُسی طرح میں بھی شہادت کا آرزو مند ہوں۔" آخرکار دونوں میں سے کسی نے بھی زرہ نہیں پہنی۔" (مجمع الزوائد ج5 ص298)
اب اس کے مقابلے میں اپنا حال دیکھئے:
تصویر کا دوسرا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُحد کے دن اوپر تلے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی لبس الدروع، حدیث 2590)
اندازہ لگائیے اس بزدلی اور دوغلے پن کا کہ دوسروں کو کہنا کہ اللہ کو خوش کرنا ہے تو بغیر کسی حفاظتی لباس کے دشمن کے نرغے میں گھس جاؤ، شہید ہو جاؤ اور اپنا حال یہ کہ بغیر دشمن کی صفوں میں گھسے ہی دو دو زرہیں پہن رکھی ہیں، وہ بھی اس حال میں کہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک کے پاس زرہ تو دور تلوار تک نہ ہوتی تھی۔
پھر یہ بھی مد نظر رکھئے کہ بذعم خویش یہ نبی اس بات کے بھی دعویدار رہے کہ اللہ نے ان کی حفاظت کا خصوصی ذمہ لے رکھا ہے کہ دشمنوں سے انہیں بچائے گا۔
اس اُحد کے ہی میدان میں جس میں خود آنجناب نے دو دو زرہیں بھی پہن رکھی تھیں، حال یہ تھا کہ جب کافروں نے حملہ کیا اور کچھ آنجناب تک بھی آ پہنچے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارد گرد سات انصار اور دو قریش صحابی تھے۔ جب دشمن بالکل بالمقابل آ گیا تو بجائے خود بھی مقابلہ کرنے کے اس عظیم بہادر جرنیل نے پھر فرمایا:
"جو ان مشرکین کو مجھ سے دور کرے گا، اُس کے لئے جنت ہے، یا (فرمایا:) وہ جنت میں میرا ساتھی ہے۔"
یعنی خود مقابلہ نہیں کرنا پھر دوسروں کو جنت کا لولی پاپ دے دیا اور اس کے ماننے والے اندھے عقیدتمند بھی اس کے دفاع میں قربان ہوتے رہے حتیٰ کہ سات کے سات انصار شہید ہو گئے۔ اپنی اس بزدلی کا خود بھی احساس تھا چنانچہ دو ساتھ رہ جانے والے قریشی ساتھیوں سے فرمایا: ہم نے اپنے ان ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔"
اس تفصیلی واقعہ کے لئے دیکھئے صحیح مسلم (کتاب الجہاد و السیر، باب غزوۃ احد، حدیث 4641)
خود لڑنے کی ہمت کم ہی پائی تھی جناب نے، چنانچہ اپنے ترکش سے بھی سارے تیر نکال کر اپنے ایک صحابی سعد بن ابی وقاص کو دے دیے اور اسے لڑنے کے لئے ابھارتے ہوئے کہا: "ان پر تیروں کی بارش کرو، میرے ماں باپ تجھ پر قربان۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4055)
آہ! جان کس قدر پیاری چیز ہے، دوسرے مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ اس پر بھی بس نہیں ابو طلحہ نامی صحابی اپنی ڈھال لے کر خود بھی اپنے اس نبی کے اوپر ڈھال بنا ہوا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4064)
دوسرے اپنی جان وارتے رہے اور اتنے مشکل حالات میں بھی یہ نیچے دُبکے بیٹھا رہا۔ سر اٹھا کر دشمن کو دیکھنے کی کوشش کرتا تو یہ اندھے عقیدتمند کہتے: "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ سر نہ اُٹھائیں، مبادا کافروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے قربانی کے لئے موجود ہے۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4064)
اس پر پھر یاد کیجئے کہ یہ سب اس حال میں ہو رہا ہے کہ آنجناب نے دو دو زرہیں بھی پہن رکھی ہیں، پھر بھی بہادری کا یہ حال ہے۔ دوسروں کو شہید کروانے کے لئے لمبی لمبی چھوڑنا اور ایک جنگ میں زرا سے جان پر بنی تو کیا حال ہو گیا جناب کا۔
مگر جس طرح وہاں کے اندھے عقیدتمندوں کو یہ سمجھ نہیں تھی کہ مذہب کا کاروبار کرنے والے موت ہمیشہ دوسروں میں بانٹتے ہیں، افسوس کہ آج بھی عقیدت کے مارے یہ بات سمجھ نہیں پاتے
تحریر ۔
سعد رضا
حضرت ام عمارہ انصار کی عورتوں میں سے تھیں ہجرت کے بعد اکثر لڑائیوں میں شریک ہوئیں جنگ احد کےوقت انکی عمر تینتالیس سال تھی
انکے خاوند اور دو بیٹے بھی لڑائ میں شریک تھے فرماتی ہیں
جنگ میں جب کافروں کو غلبہ ہونے لگا تو میں حضور کے قریب پہنچ گئ جو ادھر کا رخ کرتا اسکو ہٹاتی تھی ابتدا میں ڈھال بھی نہ تھی بعد میں ملی جس پر کافروں کا حملہ روکتی تھی کمر پر اک کپڑا باندھ رکھا تھا جسکے اندر چیتھڑے بھرے ہوۓ تھے کہ جب کوئ زخمی ہو جاۓ تو چیتھڑا نکال کر اسکے زخم بھر سکوں، حضور پاک کی حفاظت میں خود بھی کئ جگہ سے زخمی ہوئی، بارہ تیرہ وار لگے جن میں سے اک بہت سخت تھا، ام سعید کہتی ہیں میں نے ان کے مونڈھے پر اک بڑا اور گہرا زخم دیکھا پوچھا کہ یہ کس طرح پڑا تو کہا احد کی لڑائ میں ابن قمیہ یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ بتاؤ محمد کہاں ہے اگر آج وہ بچ گیا تو میری نجات نہیں، مصعب بن عمیر اور چند آدمی اسکے سامنے آۓ میں بھی آگے بڑھی اس نے میرے مونڈے پر وار کیا میں نے بھی اسکے جسم پر کئ وار کئے مگر اسکی دوہری زرہ تھی اسلئے وار کارگر نہ ہوۓ. جنگ میں دشمن گھڑ سوار تھے اور ہم پیدل جب کوئ حملہ کرتا میں ڈھال پر اسکا وار روکتی اور اسکے گھوڑے کی ٹانگ پر وار کرتی گھوڑا اور سوار گرتے تو حضور فورآ میرے لڑکے کو آواز دیتے اور ہم ماں بیٹا مل کر اسکو نمٹا دیتے.
اسی جنگ میں اک بار اک کافر سامنے آیا تو حضور نے مجھ سے کہا یہی ہے جس نے تیرے بیٹےکو زخمی کیا میں نے آگے بڑھ کر اسکی پنڈلی پر وار کیا تو وہ زخمی ہوکر بیٹھ گیا، حضور مسکراۓ اور فرمایا کہ بیٹے کا بدلہ لے لیا. اسکے بعد ہم نے اس کو نمٹا دیا.
جنگ احد میں اسی ابن قمیہ کا اک وار حضورپاک کے خود کےحلقوں پر پڑا جسکے نتیجے میں حلقے حضور پاک کے گال میں دھنس گئے اور خون بہنے لگا، جبکہ اس واقعہ سے زرا پہلے کسی کافر نے حضور پر پتھر پھینک مارا تھا جس سے حضورپاک کے دو دانت مبارک شہید ہوگئے تھے
علی سینا کے بقول دو زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے رسول کریم کا چلنا مشکل ہوتا تھا، آپ اپنے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے چلا کرتے تھے۔ کبھی کبھار آپ ہاتھ میں دھول لے کر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے اور پھر اس دھول کو کفار کی طرف اچھال دیتے۔ دھول کو دشمن کی طرف اچھالنا ہی آپ کا سب سے بڑا بہادری ک کارنامہ ہوا کرتا تھا
جسنے معراج میں اللہ کو روبرو دیکھا ہو اسکے ایمان کی تو یہ کیفیت ہونی چاہیے کہ اکیلا نہتا نکل کھڑا ہوا، کیونکہ اللہ کے نبی نے دنیا میں اپنا مقصد پورا کئیے بغیر تو مرنا نہیں تھا، اللہ نے مرنے ہی نہیں دینا تھا، تو پھر دو دو زرہ کی کیا ضرورت تھی، یعنی نبی کو خود ہی اللہ کی قدرت پر یقنین نہیں تھا، انکو اللہ سے زیادہ زرہ پر اعتبار تھا؟ پھر دوسروں کو شہادت کی ترغیب دینا تو عین منافقت اور انتہا درجہ بزدلی ہے۔
بیان کردہ پہلی دونوں روایات آج کے دور میں خودکش حملوں کے لیے صریح جواز ہیں
A.J