• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوہ ٔ فتح مکہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کعبے کی کنجی( حق بحقدار رسید) :
اس کے بعد رسول اللہﷺ مسجد حرام میں بیٹھ گئے۔ حضرت علیؓ نے ...جن کے ہاتھ میں کعبے کی کنجی تھی ...حاضر خدمت ہوکر عرض کی : حضور ہمارے لیے حجاج کو پانی پلانے کے اعزاز کے ساتھ خانہ کعبہ کی کلید برداری کا اعزاز بھی جمع فرمادیجیے۔ اللہ آپﷺ پر رحمت نازل کرے۔ ایک اور روایت کے بموجب یہ گذارش حضرت عباسؓ نے کی تھی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : عثمان بن طلحہ کہاں ہیں ؟ انہیں بلایا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا ! عثمان ! یہ لو اپنی کنجی ، آج کا دن نیکی اور وفاداری کا دن ہے۔ طبقات ابن سعد کی روایت ہے کہ آپﷺ نے کنجی دیتے ہوئے فرمایا : اسے ہمیشہ ہمیش کے لیے لو۔ تم لوگوں سے اسے وہی چھینے گا جو ظالم ہوگا۔ اے عثمان ! اللہ نے تم لوگوں کو اپنے گھر کا امین بنایا ہے۔ لہٰذا اس بیت اللہ سے تمہیں جو کچھ ملے اس سے معرف کے ساتھ کھانا۔
فتح یا شکر انے کی نماز :
اسی روز رسول اللہﷺ اُ مِّ ہانیٔ بنت ابی طالب کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں غسل فرمایا اور ان کے گھر میں ہی آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ یہ چاشت کا وقت تھا۔ اس لیے کسی نے اس کو چاشت کی نماز سمجھا اور کسی نے فتح کی نماز۔ اُمِّ ہانی ٔ نے اپنے دو دیوروں کو پناہ د ے رکھی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا : اے ام ہانی !جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ اس ارشاد کی وجہ یہ تھی کہ اُم ہانی ٔ کے بھائی حضرت علی بن ابی طالبؓ ان دونوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے ام ہانی ٔ نے ان دونوں کو چھپا کر گھر کا دروازہ بند کررکھا تھا۔ جب نبیﷺ تشریف لے گئے تو ان کے بارے میں سوال کیا اور مذکورہ جواب سے بہرہ ور ہوئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اکابرمجرمین کا خون رائیگاں قرار دے دیا گیا :
فتح مکہ کے روز رسول اللہﷺ نے اکابر مجرمین میں سے نو آدمیوں کا خون رائیگاں قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ اگر وہ کعبے کے پردے کے نیچے بھی پائے جائیں تو انہیں قتل کردیا جائے۔ ان کے نام یہ ہیں :
(۱) عبد العزیٰ بن خَطل (۲) عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح (۳) عکرمہ بن ابی جہل (۴) حارث بن نُفیل بن وہب (۵) مقیس بن صبابہ (۶) ہبّار بن اسود (۷،۸) ابن ِ خطل کی دولونڈیاں جو نبیﷺ کی ہجو گایا کرتی تھیں (۹) سارہ ، جو اولاد عبدالمطلب میں سے کسی کی لونڈی تھی، اسی کے پاس حاطب کا خط پایا گیا تھا۔
ابن ابی سرح کا معاملہ یہ ہوا کہ اسے حضرت عثمان بن عفانؓ نے خدمت نبویﷺ میں لے جاکرجان بخشی کی سفارش کردی اور آپﷺ نے اس کی جان بخشی فرماتے ہوئے اس کا اسلام قبول کرلیا لیکن اس سے پہلے آپﷺ کچھ دیر تک اس امید میں خاموش رہے کہ کوئی صحابی اٹھ کر اسے قتل کردیں گے۔ کیونکہ یہ شخص اس سے پہلے بھی ایک بار اسلام قبول کرچکا تھا اور ہجرت کرکے مدینہ آیا تھا لیکن پھر مرتد ہو کر بھاگ گیا تھا (تاہم اس کے بعد کا کردار ان کے حسنِ اسلام کا آئینہ دار ہے۔ؓ )
عکرمہ بن ابی جہل نے بھاگ کر یمن کی راہ لی۔ لیکن اس کی بیوی خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوکر اس کے لیے امان کی طالب ہوئی اور آپﷺ نے امان دے دی۔ اس کے بعد وہ عکرمہ کے پیچھے پیچھے گئی اور اسے ساتھ لے آئی۔ اس نے واپس آکر اسلام قبول کیا اور اس کے اسلام کی کیفیت بہت اچھی رہی۔
ابن خطل خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر لٹکا ہوا تھا۔ ایک صحابی نے خدمتِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر اطلاع دی۔ آپﷺ نے فرمایا : اسے قتل کردو، انہوں نے اسے قتل کردیا۔
مقیس بن صبابہ کو حضرت نُمیلہ بن عبد اللہ نے قتل کیا۔ مقیس بھی پہلے مسلمان ہوچکا تھا لیکن پھر ایک انصاری کو قتل کرکے مرتد ہوگیا اور بھاگ کر مشرکین کے پاس چلاگیا تھا۔
حارث ، مکہ میں رسول اللہﷺ کو سخت اذیت پہنچایا کرتا تھا۔ اسے حضرت علیؓ نے قتل کیا۔
ہَبَّار بن اسود وہی شخص ہے جس نے رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کو ان کی ہجرت کے موقع پر ایسا کچوکا مارا تھا کہ وہ ہودج سے ایک چٹان پر جاگری تھیں اور اس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ یہ شخص فتح مکہ کے روز نکل بھاگا، پھر مسلمان ہوگیا اور اس کے اسلام کی کیفیت اچھی رہی۔
ابن خطل کی دونوں لونڈیوں میں سے ایک قتل کی گئی۔ دوسری کے لیے امان طلب کی گئی اوراس نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح سارہ کے لیے امان طلب کی گئی اور وہ بھی مسلمان ہوگئی۔ (خلاصہ یہ کہ نو میں سے چار قتل کیے گئے ، پانچ کی جان بخشی ہوئی اور انہوں نے اسلام قبول کیا)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جن لوگوں کا خون رائیگاں قرار دیا گیا ان کے ضمن میں ابو معشر نے حارث بن طلال خزاعی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسے حضرت علیؓ نے قتل کیا۔ امام حاکم نے اسی فہرست میں کعب بن زہیر کا ذکر کیا ہے -- کعب کا واقعہ مشہور ہے۔ اس نے بعد میں آکر اسلام قبول کیا اور نبیﷺ کی مدح کی۔ (اسی فہرست میں ) وحشی بن حرب اور ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ ہیں ، جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ابن خطل کی لونڈی ارنب ہے جو قتل کی گئی۔ اور امِ سعد ہے ، یہ بھی قتل کی گئی۔ جیسا کہ ابن ِ اسحاق نے ذکر کیا ہے۔ اس طرح مردوں کی تعداد آٹھ اور عورتوں کی تعداد چھ ہوجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں لونڈیاں ارنب اور ام ِ سعد ہوں اور اختلاف محض نام کا ہو یا کنیت اور لقب کے اعتبار سے اختلا ف ہوگیا ہو۔1
صفوان بن اُمیہّ اور فضالہ بن عُمیر کا قبولِ اسلام :
صفوان کا خون اگر چہ رائیگاں نہیں قرار دیا گیا تھا لیکن قریش کا ایک بڑا لیڈر ہونے کی حیثیت سے اسے اپنی جان کا خطرہ تھا۔ اسی لیے وہ بھی بھاگ گیا۔ عُمیر بن وَہب جمحی نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکراس کے لیے امان طلب کی۔ آپﷺ نے امان دے دی اور علامت کے طور پر عمیر کو اپنی وہ پگڑی بھی دے دی جو مکہ میں داخلے کے وقت آپﷺ نے سر پر باندھ رکھی تھی۔ عمیر ، صفوان کے پاس پہنچے تو وہ جدہ سے یمن جانے کے لیے سمندر پر سوار ہونے کی تیاری کررہا تھا۔ عُمیر اسے واپس لے آئے۔ اس نے رسول اللہﷺ سے کہا: مجھے دومہینے کا اختیار دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: تمہیں چار مہینے کا اختیار ہے۔ اس کے بعد صفوان نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کی بیوی پہلے ہی مسلمان ہوچکی تھی۔ آپ نے دونوں کو پہلے ہی نکاح پر برقرار رکھا۔
فضالہ ایک جری آدمی تھا۔ جس وقت رسول اللہﷺ طواف کررہے تھے وہ قتل کی نیت سے آپ کے پاس آیا لیکن رسول اللہﷺ نے بتادیا کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ اس پر وہ مسلمان ہوگیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فتح الباری ۸/۱۱،۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کعبے کی چھت پر اذانِ بلالی :
اب نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبے پر چڑھ کر اذان کہیں۔ ا س وقت ابو سفیان بن حرب ، عتاب بن اَسِید اور حارث بن ہشام کعبہ کے صحن میں بیٹھے تھے۔ عتاب نے کہا : اللہ نے اسید کو یہ شرف بخشا کہ انہوں نے یہ (اذان) نہ سنی ، ورنہ انہیں ایک ناگوار چیز سننی پڑتی۔ اس پر حارث نے کہا : سنو! واللہ ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ وہ برحق ہیں تو میں ان کا پیروکار بن جاؤں گا۔ اس پر ابو سفیان نے کہا : دیکھو ! واللہ ! میں کچھ نہیں کہوں گا۔ کیونکہ اگر میں بولوں گا تو یہ کنکریاں بھی میرے متعلق خبر دے دیں گی۔ اس کے بعد نبیﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : ابھی تم لوگو ں نے جو باتیں کی ہیں ، وہ مجھے معلوم ہوچکی ہیں۔ پھر آپﷺ نے ان کی گفتگو دہرادی۔ اس پر حارث اور عتاب بول اٹھے : ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ کی قسم ! کوئی شخص ہمارے ساتھ تھا ہی نہیں کہ ہماری اس گفتگو سے آگاہ ہوتا اور ہم کہتے کہ اس نے آپ کو خبر دی ہوگی۔
فتح کے دوسرے دن رسول اللہﷺ کا خطبہ :
فتح کے دوسرے دن خطبہ دینے کے لیے رسول اللہﷺ لوگوں کے درمیان پھرکھڑے ہوئے۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد وثنا کی اور اس کے شایانِ شان اس کی تمجید کی۔ پھر فرمایا : لوگو! اللہ نے جس دن آسمان کو پیدا کیااسی دن مکہ کو حرام (حرمت والا شہر ) ٹھہرایا۔ اس لیے وہ اللہ کی حرمت کے سبب قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ کوئی آدمی جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے حلال نہیں کہ اس میں خون بہائے یا یہاں کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی شخص اس بناپر رخصت اختیار کرے کہ رسول اللہﷺ نے یہاں قتال کیا تواس سے کہہ دو کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی ،لیکن تمہیں اجازت نہیں دی ہے۔ اور میرے لیے بھی اسے صرف دن کی ایک ساعت میں حلال کیا گیا، پھر آج اس کی حرمت اسی طرح پلٹ آئی۔ جس طرح کل اس کی حرمت تھی۔ اب چاہیے کہ جو حاضر ہے وہ غائب کو یہ بات پہنچا دے۔
ایک روایت میں اتنا مزید اضافہ ہے کہ یہا ں کاکا نٹانہ کاٹا جائے۔ شکار نہ بھگایا جائے اور گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے۔ البتہ وہ شخص اٹھا سکتا ہے جواس کا تعارف کرائے اور یہاں کی گھاس نہ اکھاڑی جائے۔ حضرت عباسؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ ! اِذخر (عرب کی مشہور گھاس جو موج کی ہم شکل ہوتی ہے اور چائے اور دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہے ) کیونکہ یہ لوہار اور گھر کی( ضروریات)کی چیز ہے آپ نے فرمایا : مگر اِذْخر۔
بنو خزاعہ نے اس روز بنو لیث کے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا کیونکہ بنو لیث کے ہاتھوں ان کا ایک آدمی جاہلیت میں مارا گیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اس بارے میں فرمایا :خزاعہ کے لوگو! اپنا ہاتھ قتل سے روک لو کیونکہ قتل اگر نفع بخش ہوتا تو بہت قتل ہوچکا۔ تم نے ایک ایسا آدمی قتل کیا ہے کہ میں اس کی دیت لازما ً ادا کروں گا۔ پھر میرے اس مقام کے بعد اگر کسی نے کسی کو قتل کیا تو مقتول کے اولیاء کو دوباتوں کا اختیار ہوگا۔ چاہیں تو قاتل کا خون بہائیں اور چاہیں تو اس سے دیت لیں۔
ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد یمن کے ایک آدمی نے جس کا نام ابوشاہ تھا اُٹھ کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! (اسے ) میرے لیے لکھوا دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : ابوشاہ کے لیے لکھ دو۔1
انصار کے اندیشے:
جب رسول اللہﷺ فتح مکہ کی تکمیل فرماچکے - اورمعلوم ہے کہ یہی آپ کا شہر ، آپ کی جائے پیدائش اور وطن تھا - تو انصار نے آپس میں کہا : کیا خیال ہے اب اللہ نے رسول اللہﷺ کو آپ کی اپنی سرزمین اور آپ کا شہر فتح کرا دیا ہے تو آپ یہیں قیام فرمائیں گے ؟ اس وقت آپﷺ صفا پر ہاتھ اٹھائے دعا فرمارہے تھے۔ دعا سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ تم لوگوں نے کیا بات کی ہے ؟ انہوں نے کہا : کچھ نہیں یا رسول اللہ! مگر آپﷺ نے اصرار فرمایا تو بالآخر ان لوگوں نے بتلادیا۔ آپﷺ نے فرمایا : اللہ کی پناہ !اب زندگی اور موت تمہارے ساتھ ہے۔
بیعت :
جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کو مکہ کی فتح عطا فرمادی تو اہل ِ مکہ پر حق واضح ہوگیا اور وہ جان گئے کہ اسلام کے سوا کامیابی کی کوئی راہ نہیں۔ اس لیے وہ اسلام کے تابعدار بنتے ہوئے بیعت کے لیے جمع ہوگئے۔ رسول اللہﷺ نے صفا پر بیٹھ کر لوگوں سے بیعت لینی شروع کی۔ حضرت عمر بن خطابؓ آپ سے نیچے تھے اور لوگوں سے عہد وپیمان لے رہے تھے۔ لوگوں نے حضورﷺ سے بیعت کی کہ جہاں تک ہوسکے گا آپ کی بات سنیں گے اور مانیں گے۔
اس موقع پر تفسیر مدارک میں یہ روایت مذکور ہے کہ جب نبی کریمﷺ مردوں کی بیعت سے فارغ ہوچکے تو وہیںصفا ہی پر عورتوں سے بیعت لینی شروع کی۔ حضرت عمرؓ آپﷺ سے نیچے بیٹھے تھے اور آپﷺ کے حکم پر عورتوں سے بیعت لے رہے تھے۔ اور انہیں آپ کی باتیں پہنچارہے تھے۔ اسی دوران ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ بھیس بدل کر آئی۔ دراصل حضرت حمزہؓ کی لاش کے ساتھ اس نے جو حرکت کی تھی اس کی وجہ سے وہ خوف زدہ تھی کہ کہیں رسول اللہﷺ اسے پہچان نہ لیں۔ ادھر رسول اللہﷺ نے (بیعت شروع کی ) تو فرمایا : میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگی۔ حضرت عمرؓ نے (یہی بات دہراتے ہوئے ) عورتوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اور چوری نہ کروگی۔ اس پر ہندہ بول اٹھی کہ ابو سفیان بخیل آدمی ہے۔ اگر میں اس کے مال سے کچھ لے لوں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ان روایات کے لیے دیکھئے: صحیح بخاری ۱/۲۲، ۲۱۶، ۲۴۷، ۳۲۸، ۳۲۹، ۲/۶۱۵، ۶۱۷ ، صحیح مسلم ۱/۴۳۷ ، ۴۳۸ ، ۴۳۹ ، ابن ہشام ۲/۴۱۵ ،۴۱۶ ، سنن ابی داؤد ۱/۲۷۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تو؟ ابو سفیان نے (جو وہیں موجود تھے ) کہا: تم جو کچھ لے لو وہ تمہارے لیے حلال ہے۔ رسول اللہﷺ مسکرانے لگے۔ آپﷺ نے ہندہ کو پہچان لیا۔ فرمایا : اچھا ... تو تم ہو ہندہ ؟ وہ بولی : ہاں ، اے اللہ کے نبی ، جو کچھ گزر چکا ہے اسے معاف فرمادیجیے۔ اللہ آپ کو معاف فرمائے۔
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : اور زنانہ کروگی۔ اس پر ہندہ نے کہا : بھلا کہیں حُرَّہ (آزاد عورت ) بھی زنا کرتی ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا : اور اپنی اولاد کو قتل نہ کروگی۔ ہندہ نے کہا : ہم نے تو بچپن میں انہیں پالا پو سا، لیکن بڑے ہونے پر آپ لوگوں نے انہیں قتل کردیا۔ اس لیے آپ اور و ہی بہتر جانیں - یاد رہے کہ ہندہ کا بیٹا حنظلہ بن ابی سفیان بدر کے دن قتل کیا گیا تھا- یہ سن کر حضرت عمرؓ ہنستے ہنستے چت لیٹ گئے اور رسول اللہﷺ نے بھی تبسم فرمایا۔
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : اور کوئی بہتان نہ گھڑو گی۔ ہندہ نے کہا : واللہ! بہتان بڑی بُری بات ہے اور آپ ہمیں واقعی رشد اور مکارم اخلاق کا حکم دیتے ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا : اور کسی معروف بات میں رسول کی نافرمانی نہ کروگی۔ ہندہ نے کہا : اللہ کی قسم !ہم اپنی اس مجلس میں اپنے دلوں کے اندر یہ بات لے کر نہیں بیٹھی ہیں کہ آپ کی نافرمانی بھی کریں گی۔
پھر واپس ہوکر ہندہ نے اپنا بُت توڑ دیا۔ وہ اسے توڑتی جارہی تھی اور کہتی جارہی تھی : ہم تیرے متعلق دھوکے میں تھے۔1
صحیح بخاری میں یہ ہے کہ ہند بنت عتبہ آئی۔ اور بولی : یارسول اللہ ! روئے زمین پر کوئی بھی خیمے والے نہیں تھے کہ جن کا ذلیل ہونا آپ کے خیمے والوں کے ذلیل ہونے سے بڑھ کر مجھے پسند رہا ہو لیکن آج یہ حال ہے کہ روئے زمین پر کوئی خیمے والے نہیں ہیں جن کا عزیز ہونا آپ کے خیمے والوں کے عزیز ہونے سے بڑھ کر مجھے پسند ہو۔ آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابھی اور بھی۔
ہندہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ابو سفیان بخیل آدمی ہے۔ تو کیا مجھ پر کوئی حرج ہے کہ اس کے مال سے اپنے عیال کو کھلاؤں ؟ آپﷺ نے فرمایا : معروف کے مطابق لے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔2
مکہ میں نبیﷺ کا قیام اور کام :
مکہ میں رسول اللہﷺ نے اُنیس ۱۹ روز قیام فرمایا اس دوران آپ نقوش ِ اسلام کی تجدید کرتے رہے۔ اور لوگوں کو ہدایت وتقویٰ کی رہنمائی فرماتے رہے۔ انہی دنوں آپﷺ کے حکم سے حضرت ابو اسید خزاعی نے نئے سرے سے حدود حرم کے کھمبے نصب کیے۔ آپﷺ نے اسلام کی دعوت اور مکہ کے آس پاس بتوں کو توڑنے کے لیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: مدارک التنزیل للنسفی تفسیر آیت بیعہ
2 صحیح بخاری مع فتح الباری ۷/۱۷۵ ، ۱۳/۱۴۸ حدیث نمبر ۳۸۲۵ ، ۷۱۶۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
متعدد سرایا بھی روانہ کیے اور اس طرح سارے بت توڑ ڈالے گئے۔ آپ کے منادی نے مکے میں اعلان کیا کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے گھر میں کوئی بت نہ چھو ڑے بلکہ اسے توڑ ڈالے۔
سرایا اور مہمات:
فتح مکہ سے یک سو ہوجانے کے بعد رسول اللہﷺ نے ۲۵ / رمضان ۸ھ کو حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں عُزّیٰ کے انہدام کے لیے ایک سریہ روانہ فرمایا۔ عُزّیٰ نخلہ میں تھا۔ قریش اور سارے بنو کنانہ اس کی پوجا کرتے تھے اور یہ ان کا سب سے بڑا بت تھا۔ بنو شیبان اس کے مجاور تھے۔ حضرت خالدؓ نے تیس سواروں کی معیت میں نخلہ جاکر اسے ڈھا دیا۔ واپسی پر رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم نے کچھ دیکھا بھی تھا۔ حضرت خالدؓ نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا : تب تو درحقیقت تم نے اسے ڈھایا ہی نہیں۔ پھر سے جاؤ اور اسے ڈھادو۔ حضرت خالدؓ بپھرے ہوئے اور تلوار سونتے ہوئے دوبارہ تشریف لے گئے۔ اب کی بار ان کی جانب ایک ننگی ، کالی ، پراگندہ سر عورت نکلی۔ مجاور اسے چیخ چیخ کر پکارنے لگا۔ لیکن اتنے میں حضر ت خالدؓ نے اس زور کی تلوار ماری کہ اس عورت کے دوٹکڑے ہوگئے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس واپس آکر خبر دی۔ آپ نے فرمایا: ہا ں ! وہی عُزّیٰ تھی۔ اب وہ مایوس ہوچکی ہے کہ تمہارے ملک میں کبھی بھی اس کی پوجا کی جائے۔
! اس کے بعد آپ نے عَمرو بن عاصؓ کو اسی مہینے سُوَاع نامی بُت ڈھانے کے لیے روانہ کیا۔ یہ مکہ سے تین دن کے فاصلے پر رہاط میں بنو ہُذَیل کا ایک بت تھا۔ جب حضرت عمروؓ وہاں پہنچے تو مجاور نے پوچھا : تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا : مجھے رسول اللہﷺ نے اسے ڈھانے کا حکم دیا ہے۔ اس نے کہا : تم اس پر قادر نہیں ہوسکتے۔ حضرت عمروؓ نے کہا : کیوں؟ اس نے کہا : (قدرتاً) روک دیے جاؤ گے۔ حضرت عمروؓ نے کہا : تم اب تک باطل پر ہو ؟ تم پر افسوس، کیا یہ سنتا یا دیکھتا ہے ؟ اس کے بعد بت کے پاس جاکر اسے توڑ ڈالا، اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے خزانہ والا مکان ڈھادیں لیکن اس میں کچھ نہ ملا۔ پھر مجاور سے فرمایا : کہو کیسا رہا ؟ اس نے کہا : میں اللہ کے لیے اسلام لایا۔
" اسی ماہ حضرت سعد بن زید اشہلی کو بیس سوار دے کر مَنَاۃ کی جانب روانہ کیا گیا۔ یہ قُدید کے پاس مشلل میں اوس وخزرج اور غسّان وغیرہ کا بت تھا۔ جب حضرت سعدؓ وہاں پہنچے تو اس کے مجاور نے ان سے کہا: تم کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا : مناۃ کوڈھانا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا : تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ حضرت سعدؓ مناۃ کی طرف بڑھے تو ایک کالی ننگی ،پراگندہ سر عورت نکلی۔ وہ اپنا سینہ پیٹ پیٹ کر ہائے ہائے کررہی تھی۔ اس سے مجاور نے کہا : مناۃ ! اپنے کچھ نافرمانوں کو پکڑ لے۔ لیکن اتنے میں حضرت سعدؓ نے تلوار مار کر اس کا کام تمام کردیا۔ پھر لپک کر بت ڈھادیا، اور اسے توڑ پھوڑ ڈالا۔ خزانے میں کچھ نہ ملا۔
3 عُزّیٰ کو ڈھاکر حضرت خالد بن ولیدؓ واپس آئے تو انہیں رسول اللہﷺ نے اسی ماہ رمضان ۸ھ میں بنوجَذِیمہ کے پاس روانہ فرمایا۔ لیکن مقصود حملہ نہیں بلکہ اسلام کی تبلیغ تھی۔ حضرت خالدؓ مہاجرین وانصار اور بنو سلیم کے ساڑھے تین سو افراد لے کر روانہ ہوئے اور بنو جذیمہ کے پاس پہنچ کر اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے أسلمنا (ہم اسلام لائے ) کے بجائے صَبَاٗنا صَبَاٗنا (ہم نے اپنا دین چھوڑ ا، ہم نے اپنا دین چھوڑا ) کہا۔ اس پر حضرت خالدؓ نے ان کا قتل اور ان کی گرفتاری شروع کردی، اور ایک ایک قیدی اپنے ہر ہر ساتھی کے حوالے کیا۔ پھر ایک دن حکم دیا کہ ہر آدمی اپنے قیدی کو قتل کردے۔ لیکن حضرت ابن عمرؓ اور ان کے ساتھیوں نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کردیا۔ اور جب نبیﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپﷺ نے اپنے دونو ں ہاتھ اٹھائے اور دوبار فرمایا : اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے تیری طرف براء ت اختیار کرتا ہوں۔1
اس موقع پر صرف بنوسُلیم کے لوگوں نے اپنے قیدیوں کو قتل کیا تھا۔ انصار ومہاجرین نے قتل نہیں کیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیج کر ان کے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔ اس معاملے میں حضرت خالد اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے درمیان کچھ سخت کلامی اور برائی بھی ہوگئی تھی۔ اس کی خبر رسول اللہﷺ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا : خالد ! ٹھہرجاؤ۔ میرے رفقاء کو کچھ کہنے سے باز رہو۔ اللہ کی قسم! اگر احد پہاڑ سونا ہوجائے اور وہ سارا کا سارا تم اللہ کی راہ میں خرچ کردو تب بھی میرے رفقاء میں سے کسی ایک آدمی کی ایک صبح کی عبادت یاایک شام کی عبادت کو نہیں پہنچ سکتے۔2
------------​
یہ ہے غزوۂ فتح مکہ - یہی وہ فیصلہ کن معرکہ اور فتح اعظم ہے جس نے بت پرستی کی قوت مکمل طور پر توڑ کررکھ دی اور اس کاکام اس طرح تمام کر دیا کہ جزیرۃ العرب میں اس کے باقی رہنے کی کوئی گنجائش اور کوئی وجہ جواز نہ رہ گیا۔ کیونکہ عام قبائل منتظر تھے کہ مسلمانوں اور بت پرستوں میں جو معرکہ آرائی چل رہی ہے دیکھیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ ان قبائل کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ حرم پر وہی مسلّط ہوسکتا ہے جو حق پر ہو۔ ان کے اس اعتقاد ِ جازم میں مزید حد درجہ پختگی نصف صدی پہلے اصحابِ فیل اَبْرَہَہ اور اس کے ساتھیوں کے واقعہ سے آگئی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۴۵۰ ، ۲/۶۲۲
ؓ2 اس غزوے کی تفصیلات ذیل کے مآخذ سے لی گئی ہیں : ابن ہشام۲/۳۸۹ تا ۴۳۷ ، صحیح بخاری ۱/ کتاب الجہاد اور کتاب المناسک ، ۲/۶۱۲تا ۶۱۵ ، ۶۲۲ فتح الباری ۸/۳تا ۲۷ ، صحیح مسلم ۱/۴۳۷، ۴۳۸ ، ۴۳۹، ۲/۱۰۲،۱۰۳، ۱۳۰ ، زاد المعاد ۲/۱۶۰ تا ۱۶۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تھی۔ کیونکہ اہلِ عرب نے دیکھ لیا تھا کہ ابرہہ اور اس کے ساتھیوں نے بیت اللہ کا رُخ کیا تو اللہ نے انہیں ہلاک کر کے بھُس بنادیا۔
یاد رہے کہ صلح حدیبیہ اس فتح عظیم کا پیش خیمہ اورتمہید تھی۔ اس کی وجہ سے امن امان کا دَور دورہ ہو گیا تھا۔ لوگ کھل کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ اسلام کے متعلق تبادلۂ خیال اور بحثیں ہوتی تھیں، مکہ کے جو لوگ درپردہ مسلمان تھے ، انہیں بھی اس صلح کے بعد اپنے دین کے اظہار وتبلیغ اور اس پر بحث ومناظرہ کا موقع ملا۔ ان حالات کے نتیجے میں بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یہاں تک کہ اسلامی لشکر کی جو تعداد گزشتہ کسی غزوے میں تین ہزار سے زیادہ نہ ہوسکی تھی اس غزوۂ فتح مکہ میں دس ہزار تک جا پہنچی۔
اس فیصلہ کن غزوے نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں اور ان پر پڑا ہوا وہ آخری پر دہ ہٹا دیا جو قبول اسلام کی راہ میں روک بنا ہوا تھا۔ اس فتح کے بعد پورے جزیرۃ العرب کے سیاسی اوردینی اُفق پر مسلمانوں کا سورج چمک رہا تھا اور اب دینی سربراہی اوردنیوی قیادت کی زمام ان کے ہاتھ آچکی تھی۔
گویا صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کی موافقت میں جو مفید تغیر شروع ہوا تھا اس فتح کے ذریعے مکمل اور تما م ہوگیا۔ اور اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوا جو پورے طور پر مسلمانوں کے حق میں تھا اور جس میں پوری صورت حال مسلمانوں کے قابو میں تھی اور عرب اقوام کے سامنے صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ وفود کی شکل میں رسول اللہﷺ کی ـخدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیں۔ اور آپ کی دعوت لے کر چار دانگ عالم میں پھیل جائیں۔ اگلے دوبرسوں میں اسی کی تیاری کی گئی۔
****​
 
Top