مسند احمد کی روایت ہے
حدثنا هُشيم عن سَيَّار عن جَبْر بن عَبِيدَة عن أبي هريرة، قال: وعدَناِ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في غزوة الهند، فإن اسْتُشْهِدْتُ كنتُ من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المُحَرَّرَةُ.
جَبْر بن عَبِيدَة ، أبي هريرة سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے غزوہ ہند کا وعدہ کیا پس اگر اس کو پاؤ تو میں سب سے بہتر شہداء میں سے ہوں گا
الذھبی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں کہتے ہیں
جبر بن عبيدة، أو جبير: عن أبي هريرة، مجهول
احمد شاکر نے اس روایت کو صحیح کہا ہے لیکن انہوں نے اس کی کوئی بھی مظبوط دلیل نہیں دی بلکہ یہ راوی مجھول ہے اس کی نہ توثیق ہے نہ جرح اور ایسے راویوں کو مجھول ہی کہا جاتا ہے اس کی مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ بے حساب – لہذا یہ روایت صحیح نہیں – البانی اور شعيب الأرناؤوط بھی اس کو ضعيف الإسناد کہتے ہیں اسی راوی کی سند سے سنن الکبری نسائی ، مستدرک حاکم، سنن الکبری البیہقی بَابُ مَا جَاءَ فِي قِتَالِ الْهِنْدِ میں روایت ہوئی ہے
عصمت الله کتاب غزوہ ہند میں اس کو پیش کرتے ہیں لیکن اس مجھول راوی کا اتا پتا ان کو بھی نہیں
عصمت الله صاحب کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں لکھا ہے
جرح و تعدیل کی کتابوں میں اس روایت کو لکھا گیا ہے کیونکہ اس مخصوص روایت کو صرف جبر بن عبيدة ہی نقل کرتا ہے نہ کہ یہ کوئی خوبی کی بات ہے
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا الْبَرَاءُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ، فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَاكَ، وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي مِنَ النَّارِ
ابو ھریرہ کہتے ہیں
میرے دوست رسول الله نے مجھے بتایا کہ اس امت میں سند اور ہند کی طرف روانگی ہو گی اگر کوئی اس کو پائے تو ٹھیک اور اگر واپس پلٹ آئے تو میں ابو بریرہ ایک محرر ہو گا جس کو الله جہنم سے آزاد کر دے گا
شعيب الأرناؤوط اس کو إسناده ضعيف کہتے ہیں – عصمت الله کتاب غزوہ ہند میں اس کو بڑے طمطراق کے ساتھ پیش کرتے ہیں جبکہ اسنادہ ضعیف
الحسن البصري کے لئے کہا جاتا ہے – لم يسمع من أبي هريرة انہوں نے ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا
نعیم بن حماد کی چوتھے درجے کی کتاب الفتن کی روایات بھی عصمت الله صاحب نے پیش کی ہیں مثلا کعب الاحبار کا قول جس کو حدیث کہا ہے اور اس کے ساتھ رضی الله عنہ بھی لگا دیا ہے کہ گویا وہ کوئی صحابی ہو- قول ہے
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: «يَبْعَثُ مَلِكٌ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ جَيْشًا إِلَى الْهِنْدِ فَيَفْتَحُهَا، فَيَطَئُوا أَرْضَ الْهِنْدِ، وَيَأْخُذُوا كُنُوزَهَا، فَيُصَيِّرُهُ ذَلِكَ الْمَلِكُ حِلْيَةً لَبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَيُقْدِمُ عَلَيْهِ ذَلِكَ الْجَيْشُ بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مُغَلَّلِينَ، وَيُفْتَحُ لَهُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَيَكُونُ مَقَامُهُمْ فِي الْهِنْدِ إِلَى خُرُوجِ الدَّجَّالِ»
کعب نے کہا کہ بیت المقدس کے بادشاہ کی جانب سے ہندوستان کی جانب لشکر روانہ کیا جائے گا پس ہند کو پامال کیا جائے گا اور اس کے خزانوں پر قبضہ کریں گے اور اس سے بیت المقدس کو سجائیں گے وہ لشکر ہند کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائے گا اور مشرق و مغرب فتح کرے گا اور دجال کا خروج ہو گا
اس کی سند میں الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ اور کعب کے درمیان مجھول راوی ہے جس کا نام تک نہیں لیا گیا- عصمت الله صاحب بھی اس کو منقطع کہتے ہیں تو پھر دلیل کیسے ہو گئی
ضعیف احادیث کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کرنا مجھول راویوں پر یقین کرنا کہاں کا انصاف ہے
غزوہ ہند کی روایت نہایت کمزور ہیں اور اگر یہ صحیح بھی ہوں تو یہ غزوہ محمد بن قاسم رحمہ الله علیہ کی سربراہی میں ہو چکا ہے
اسی طرح کا مغالطہ ترکوں کو بھی ہوا اور کئی سو سال تک ترک بخاری کی قیصر کے شہر پر حملہ والی روایت کو اپنے خلفاء پر ثبت کرتے رہے جبکہ وہ لشکر جس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا وہ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کا لشکر تھا نہ کہ کوئی اور
یونانی لوگوں نے اندر سے منسوب اندر ندی کو انڈس ندی کہا اور وقت کے ساتھ عربوں میں یہی مقام ہند کہلایا
تو پھر آپ سے گزارش ہے کہ آپ غزوہ ہند کی مخالفت کر کہ '' اکھنڈ بھارت "کے لیے کام کریں،، کیونکہ پھر یہی صورت رہ جاتی ہے، آج بے جے پی اور آر ایس ایس اسی نقشہ پر کام کر رہے ہیں، آپ ہندوستان کے خلاف جہاد نہیں کریں گے تو لازمی طور پر آپ کو اکھنڈ بھارت تسلیم کرنا پڑے گا، پھر اس کے نتیجے میں آپ کی '' شدی کرن '' بھی ہو گی، ایسا ہو گا اور لازماً ہو گا،، آپ کی یہ تاویلیں آپ کے کسی کام نہیں آئیں گی،، جتنی مخالفت آپ غزوہ ہند کے اس دور کی کر رہے ہیں کاش اتنی مخالفت آپ '' اکھنڈ بھارت کی کرتے،، لیکن
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
Sent from my MI 4W using Tapatalk