محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
غفلت: دل کی سب سے بڑی بیماری
کام میں غفلت کی وجہ کر جاب کا چلے جانا، ڈرائیور کی ٹھوڑی سی غفلت سے حادثات ہو جانا یا پھر ڈاکٹر کی تھوڑی سی غفلت سے کسی کی جان چلے جانا وغیرہ وغیرہ سے ہم سب واقف ہیں۔ جو کہ دنیاوی معاملات میں غفلت کے بُرے اور بھیانک انجام ہیں۔ اس لئے ایسی کسی بھی غفلت سے بچنے کی ہم سب ہی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ آخرت کی غفلت سے بچنے کے بارے آج سب ہی غافل ہیں حالانکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہوئے آخرت کے بارے میں غفلت برتنے کے بُرے اور بھیانک انجام سے انس و جن کو ڈرایا ہے۔
غفلت دل کی سب سے بڑی بیماری ہے۔ جب دل احساس ذمہ داری سے خالی ہو یا دل میں خیر و بھلائی سے لگاؤ نہ ہو تو انسان فرائض و واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی برتتا ہے، اسی کو غفلت کہتے ہیں۔
افسوس کہ کافر تو کافر آج مسلمانوں کی اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی غفلت کے نہایت ہی بُرے اور بھیانک انجام ہیں، اس لئے اپنی آخرت کے معاملے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ
’’لوگ دُنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں‘‘۔ (٧) سورة الروم
اور لوگوں کی اکثریت اللہ کی نشانیوں سے غافل ہی رہتی ہے:
’’پس آج ہم صرف تیرے بدن (فرعون کی لاش) کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لئے (عبرت کی) ایک نشانی بن جائے (اگرچہ) لوگوں کی اکثریت ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتی ہے‘‘۔ (٩٢) سورة يونس
آخرت کے انجام سے غفلت برتنے پر وعیدیں:
’’ قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ غفلت میں پڑے منہ پھیرے ہوئے ہیں‘‘۔(1) سورة الأنبياء
’’ اور (اے رسول ﷺ) انہیں حسرت (و افسوس) کے دن سے ڈرائیں جبکہ ہر بات کا (آخری) فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے‘‘۔(۳۹) سورة مريم
’’اور (جب) اللہ کا سچا وعدہ (قیامت کا) قریب آجائے گا تو ایک دم کافروں کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی (اور کہیں گے) ہائے افسوس! ہم اس سے غفلت میں رہے بلکہ ہم ظالم تھے‘‘۔ (۹۷) سورة الأنبياء
’’یقیناً (اے غا فل) تو اس (وعید کے) دن سے غفلت میں رہا تو (آج) ہم نے تیری آنکھوں سے تیرا پردہ ہٹا دیا سو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے‘‘۔ (۲۲) سورة ق
پورے غافل کون ہیں:
غفلت میں مسلمان بھی پڑتا ہے اور کافر بھی۔ غفلت میں پڑا ایک مسلمان بعض خیر وبھلائی کے کاموں میں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت برتتا ہے جبکہ ایک کافر یا منافق اپنی کفر و عناد اور شرکشی کی وجہ کر ایسی غفلت میں پڑا ہوا ہے جو اسے حق کو قبول کرنے نہیں دیتا اور جس غفلت کی وجہ کر وہ جہنم میں دائمی جلے سڑے گا۔
’’اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہّنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں - یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ (پورے) غافل ہیں‘‘ ۔ (١٧٩) سورة الأعراف
جو کوئی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے سوائے اس صورت کے کہ اسے مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (کہ اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے) لیکن جو کشادہ دلی سے کفر اختیار کرے (زبان سے کفر کرے اور اس کا دل اس کفر پر رضامند ہو) تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیاده محبوب رکھا اور یقیناً اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کیا کرتا۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی اور یہی لوگ (پورے) غافل ہیں‘‘۔ (۱۰۶ ۔ ۱۰۸) سورة النحل
اور ایسے ہی غافلوں کا ٹھکانہ ہمیشہ کی جہنم ہے:
بیشک جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیوی زندگی سے خوش ہیں اور اسی سے مطمئن ہوگئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ انہی لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کے بدلہ میں جو وہ کماتے رہے‘‘۔(۷ ۔ ۸) سورة يونس
قرآن ھدایت، رحمت اور غفلت سے بچانے والی ہے:
اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (155) (قرآن اس لئے نازل کیا ہے) کہ تم کہیں یہ (نہ) کہو کہ بس (آسمانی) کتاب تو ہم سے پہلے صرف دو گروہوں (یہود و نصارٰی) پر اتاری گئی تھی اور بیشک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے غافل اور بے خبر تھے (156) یا یہ (نہ) کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم یقیناً ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے، سو اب تمہارے رب کی طرف تمہارے پاس واضح دلیل اور ہدایت اور رحمت (قرآن کی صورت میں) آچکی ہے، پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو آیاتِ الٰہی کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے ۔ ہم عنقریب ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں انہیں اس رو گردانی کی پاداش میں بدترین سزا دے کر رہیں گے (157) سورة الأنعام
لیکن ناحق تکبر کرنے والے غفلت میں ہی پڑے رہیں گے:
’’میں اپنی آیتوں (کے سمجھنے اور قبول کرنے) سے ان لوگوں کو باز رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں (تب بھی) اس پر ایمان نہیں لائیں اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں (پھر بھی) اسے (اپنا) راستہ نہیں بنائیں اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھ لیں (تو) اسے اپنالیں، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غفلت کرتے رہے‘‘۔ (١٤٦) سورة الأعراف
غفلت سے بچنے کیلئے ضروری ہے:
’’اور اپنے رب کی اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ ذکر کیا کرو اور اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام اور خبردار ان لوگوں میں سے نہ ہو جانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔(٢٠٥) سورة الأعراف
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خبردار تمہاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانی دنیا کی زینت کے طلب گار بن جاؤ اور ہرگز اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے‘‘۔(۲۸) سورة الكهف
اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو دنیوی یا اُخروی کسی بھی معاملے میں غفلت برتنے کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان صدیوں دینی دنیوی ہر معاملے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اسی غفلت نے آج مسلمانوں کو دنیا بھر ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا۔
امید ہے کہ ہم سب مسلمان قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت پر غور و فکر کرتے ہوئے دین، دنیا اور آخرت کے معاملات میں غفلت برتنے سے ہمیشہ پرہیز کریں گے۔
اللہ تعالی ہم سبھوں کو اپنی پاک کلام کی برکتوں سے نوازے، اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اس کی احکامات پر اور نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر مکمل عمل کرنے والا بنائے، اور ہمیں ہر غفلت سے بچائے۔ آمین
کام میں غفلت کی وجہ کر جاب کا چلے جانا، ڈرائیور کی ٹھوڑی سی غفلت سے حادثات ہو جانا یا پھر ڈاکٹر کی تھوڑی سی غفلت سے کسی کی جان چلے جانا وغیرہ وغیرہ سے ہم سب واقف ہیں۔ جو کہ دنیاوی معاملات میں غفلت کے بُرے اور بھیانک انجام ہیں۔ اس لئے ایسی کسی بھی غفلت سے بچنے کی ہم سب ہی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ آخرت کی غفلت سے بچنے کے بارے آج سب ہی غافل ہیں حالانکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہوئے آخرت کے بارے میں غفلت برتنے کے بُرے اور بھیانک انجام سے انس و جن کو ڈرایا ہے۔
غفلت دل کی سب سے بڑی بیماری ہے۔ جب دل احساس ذمہ داری سے خالی ہو یا دل میں خیر و بھلائی سے لگاؤ نہ ہو تو انسان فرائض و واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی برتتا ہے، اسی کو غفلت کہتے ہیں۔
افسوس کہ کافر تو کافر آج مسلمانوں کی اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی غفلت کے نہایت ہی بُرے اور بھیانک انجام ہیں، اس لئے اپنی آخرت کے معاملے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ
’’لوگ دُنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں‘‘۔ (٧) سورة الروم
اور لوگوں کی اکثریت اللہ کی نشانیوں سے غافل ہی رہتی ہے:
’’پس آج ہم صرف تیرے بدن (فرعون کی لاش) کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لئے (عبرت کی) ایک نشانی بن جائے (اگرچہ) لوگوں کی اکثریت ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتی ہے‘‘۔ (٩٢) سورة يونس
آخرت کے انجام سے غفلت برتنے پر وعیدیں:
’’ قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ غفلت میں پڑے منہ پھیرے ہوئے ہیں‘‘۔(1) سورة الأنبياء
’’ اور (اے رسول ﷺ) انہیں حسرت (و افسوس) کے دن سے ڈرائیں جبکہ ہر بات کا (آخری) فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے‘‘۔(۳۹) سورة مريم
’’اور (جب) اللہ کا سچا وعدہ (قیامت کا) قریب آجائے گا تو ایک دم کافروں کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی (اور کہیں گے) ہائے افسوس! ہم اس سے غفلت میں رہے بلکہ ہم ظالم تھے‘‘۔ (۹۷) سورة الأنبياء
’’یقیناً (اے غا فل) تو اس (وعید کے) دن سے غفلت میں رہا تو (آج) ہم نے تیری آنکھوں سے تیرا پردہ ہٹا دیا سو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے‘‘۔ (۲۲) سورة ق
پورے غافل کون ہیں:
غفلت میں مسلمان بھی پڑتا ہے اور کافر بھی۔ غفلت میں پڑا ایک مسلمان بعض خیر وبھلائی کے کاموں میں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت برتتا ہے جبکہ ایک کافر یا منافق اپنی کفر و عناد اور شرکشی کی وجہ کر ایسی غفلت میں پڑا ہوا ہے جو اسے حق کو قبول کرنے نہیں دیتا اور جس غفلت کی وجہ کر وہ جہنم میں دائمی جلے سڑے گا۔
’’اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہّنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں - یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ (پورے) غافل ہیں‘‘ ۔ (١٧٩) سورة الأعراف
جو کوئی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے سوائے اس صورت کے کہ اسے مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (کہ اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے) لیکن جو کشادہ دلی سے کفر اختیار کرے (زبان سے کفر کرے اور اس کا دل اس کفر پر رضامند ہو) تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیاده محبوب رکھا اور یقیناً اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کیا کرتا۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی اور یہی لوگ (پورے) غافل ہیں‘‘۔ (۱۰۶ ۔ ۱۰۸) سورة النحل
اور ایسے ہی غافلوں کا ٹھکانہ ہمیشہ کی جہنم ہے:
بیشک جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیوی زندگی سے خوش ہیں اور اسی سے مطمئن ہوگئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ انہی لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کے بدلہ میں جو وہ کماتے رہے‘‘۔(۷ ۔ ۸) سورة يونس
قرآن ھدایت، رحمت اور غفلت سے بچانے والی ہے:
اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (155) (قرآن اس لئے نازل کیا ہے) کہ تم کہیں یہ (نہ) کہو کہ بس (آسمانی) کتاب تو ہم سے پہلے صرف دو گروہوں (یہود و نصارٰی) پر اتاری گئی تھی اور بیشک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے غافل اور بے خبر تھے (156) یا یہ (نہ) کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم یقیناً ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے، سو اب تمہارے رب کی طرف تمہارے پاس واضح دلیل اور ہدایت اور رحمت (قرآن کی صورت میں) آچکی ہے، پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو آیاتِ الٰہی کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے ۔ ہم عنقریب ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں انہیں اس رو گردانی کی پاداش میں بدترین سزا دے کر رہیں گے (157) سورة الأنعام
لیکن ناحق تکبر کرنے والے غفلت میں ہی پڑے رہیں گے:
’’میں اپنی آیتوں (کے سمجھنے اور قبول کرنے) سے ان لوگوں کو باز رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں (تب بھی) اس پر ایمان نہیں لائیں اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں (پھر بھی) اسے (اپنا) راستہ نہیں بنائیں اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھ لیں (تو) اسے اپنالیں، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غفلت کرتے رہے‘‘۔ (١٤٦) سورة الأعراف
غفلت سے بچنے کیلئے ضروری ہے:
’’اور اپنے رب کی اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ ذکر کیا کرو اور اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام اور خبردار ان لوگوں میں سے نہ ہو جانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔(٢٠٥) سورة الأعراف
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خبردار تمہاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانی دنیا کی زینت کے طلب گار بن جاؤ اور ہرگز اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے‘‘۔(۲۸) سورة الكهف
اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو دنیوی یا اُخروی کسی بھی معاملے میں غفلت برتنے کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان صدیوں دینی دنیوی ہر معاملے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اسی غفلت نے آج مسلمانوں کو دنیا بھر ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا۔
امید ہے کہ ہم سب مسلمان قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت پر غور و فکر کرتے ہوئے دین، دنیا اور آخرت کے معاملات میں غفلت برتنے سے ہمیشہ پرہیز کریں گے۔
اللہ تعالی ہم سبھوں کو اپنی پاک کلام کی برکتوں سے نوازے، اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اس کی احکامات پر اور نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر مکمل عمل کرنے والا بنائے، اور ہمیں ہر غفلت سے بچائے۔ آمین