محمد اشرف یوسف
مبتدی
- شمولیت
- اکتوبر 04، 2012
- پیغامات
- 20
- ری ایکشن اسکور
- 78
- پوائنٹ
- 0
غلام نے اپنی کتاب استفتأ جو 1378 ھ میں نصرت پریس ، ربوہ ، پاکستان میں طبع ہوئی، کے صفحہ 72 پر اپنا تعارف اس طرح کرایا ہے : "میرا نام غلام احمد ابن مرزا غلام مرتضیٰ ہے۔ اور مرزا غلام مرتضیٰ مرزا عطا محمد کا بیٹا تھا۔" اسی صفحہ پر وہ اپنے بارے میں کہتا ہے " اور میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ ہمارے آباواجداد مغلیہ نسل سے تھے۔ مگر خدا نے مجھ پر وحی بھیجی کہ وہ ایرانی قوم سے تھے، نہ کہ ترکی قوم سے۔" اس کے بعد کہتا ہے، " میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ میرے اسلاف میں سے کچھ عورتیں بنی فاطمہ میں سے تھیں۔" صفحہ 76 پر وہ کہتا ہے، " اور میں نے اپنے والد سے سنا ہے اور ان کے سوانح میں پڑھا ہے کہ ہندوستان میں آنے سے پہلے وہ لوگ سمرقند میں رہا کرتے تھے۔"
غلام احمد 1835 عیسوی یا 1839 عیسوی اور یا شاید 1840 عیسوی میں ہندوستان میں پنجاب کے موضع قادیان میں پیدا ہوا۔ بچپن میں اس نے تھوڑی سے فارسی پڑھی اور کچھ صرف و نحو کا مطالعہ کیا۔ اس نے تھوڑی بہت طب بھی پڑھی تھی۔ لیکن بیماریوں کی وجہ سے، جو بچپن سے اس کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور جن میں قادیانی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق مالیخولیا (جنون کی ایک قسم) بھی شامل تھا، وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکا۔ وہ نوجوان ہی تھا کہ ایک دن اُسے اس کے گھر والوں نے اپنے دادا کی پنشن وصُول کر لانے کے لیے بھیجا، جو انگریزوں نے اس کی انجام کردہ خدمات کے صلے میں اس کے لیے منظور کی تھی۔ اس کام کے لیے جاتے ہوئے اس کا ایک دوست امام الدین بھی غلام احمد کے ساتھ ہو گیا۔ پنشن کا روپیہ وصول کرنے کے بعد غلام کو اس کے دوست امام الدین نے پُھسلایا کہ قادیان سے باہر کچھ دیر موج اُڑائی جائے۔ غلام احمد اس کے جھانسے میں آ گیا اور پنشن کے روپے تھوڑی ہی دیر میں میں اُڑا دیئے گئے۔ روپے ختم ہونے پر اس کے دوست امام الدین نے اپنی راہ لی۔ اور غلام کو گھر والوں کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگنا پڑا۔ چنانچہ وہ سیالکوٹ چلا گیا جو اب مغربی پاکستان کے پنجاب کے علاقہ میں ایک شہر ہے۔ سیالکوٹ میں اُسے کام کرنا پڑا تو وہ ایک کچہری کے باہر بیٹھ کر عوامی محرر (نقل نویس) کا کام کرنے لگا۔ جہاں وہ تقریباً 15 روپے ماہوار کے برائے نام معاوضہ پر عریضوں کی نقلیں تیار کیا کرتا۔
اس کے سیالکوٹ کے قیام کے دوران وہاں ایک شام کا اسکول قائم کیا گیا جہاں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔ غلانے نے بھی اس اسکول میں داخلہ لے لیا اور وہاں اس نے بقول خود ایک یا دو انگریزی کتابیں پڑھیں۔ پھر وہ قانون کے ایک امتحان میں بیٹھا لیکن فیل ہو گیا۔
پھر اس نے 4 سال بعد سیالکوٹ میں اپنا کام چھوڑ دیا اور اپنے باپ کے ساتھ کام کرنے چلا گیا جو وکالت کرتا تھا۔
یہی وہ زمانہ ہے جب اس نے اسلام پر مباحثے منعقد کرنا شروع کئے اور بہانہ کیا کہ وہ ایک ضخیم کتاب، جس کا نام اس نے " براہینِ احمدیہ " رکھا تھا، تالیف کرے گا۔ جس میں وہ اسلام پر اعتراضات اٹھائے گا۔ تب ہی لوگ اُسے جاننے لگے
_________________حکیم نور الدین بُہیروی
سیالکوٹ میں قیام کے دوران غلام احمد کا واسطہ نور الدین بُہیروی نامی ایک منحرف شخصیت سے پڑا۔ نور الدین کی پیدائش ۱۲۵۸ ہجری مطابق ۱۸۴۱ عیسوی بُہیرہ ضلع شاہ پور میں ہوئی جو اب مغربی پاکستان کے علاقہ پنجاب میں سرگودھا کہلاتا ہے۔ اس نے فارسی زبان، خطاطی، ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۵۸ عیسوی میں اس کا تقرر راولپنڈی کے سرکاری اسکول میں فارسی کے معلم کے طور پر ہو گیا۔ اس کے بعد ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر بنا دیا گیا۔ چار سال تک اس جگہ پر کام کرنے کے بعد اس نے ملازمت سے استغفٰی دے دیا اور اپنا پورا وقت مطالعہ میں صرف کرنے لگا۔ پھر اس نے رامپور سے لکھنؤ کا سفر کیا جہاں اس نے حکیم علی حسین سے طبِ قدیم پرھی۔ علی حسین کی معیت میں اس نے دو سال گزارے پھر ۱۲۸۵ ھ میں وہ حجاز چلا گیا جہاں مدینہ منورہ میں اس کا رابطہ سیخ رحمت اللہ ہندی اور شیخ عبد الغنی مجددی سے ہوا۔ اس کے بعد وہ اپنے وطن واپس آ گیا۔ جہاں اس نے مناظرہ بازی میں کافی شہرت حاصل کی۔ پھر اس کا تقرر جنوبی کشمیر کے صوبہ جموں میں بطور طبیب ہو گیا۔ ۱۸۹۰ عیسوی میں اسے اس عہدہ سے برطرف کر دیا گیا۔ جموں میں قیام کے دوران اس نے غلام احمد قادیانی کے بارے میں سنا۔ پھر وہ گہرے دوست بن گئے۔ چناچہ جب غلام نے ’براہینِ احمدیہ‘ لکھنی شروع کی تو حکیم نور الدین نے ’تصدیقِ براہین احمدیہ‘ لکھی۔
پھر حکیم نے غلام کو نبوت کا دعویٰ کرنے کی ترغیب دینی شروع کی۔ اپنی کتاب ’سیرت المہدی‘ میں صفحہ ۹۹ پر حکیم نے کہا، کہ اس وقت اس نے کہا تھا : "اگر اس شخص (یعنی غلام) نے نبی اور صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کیا اور قرآن کی شریعت کو منسوخ کر دیا تو میں اس کے اس فعل کی مخالفت نہیں کروں گا۔"
اور جب غلام قادیان گیا تو حکیم بھی اس کے پاس وہیں پہنچ گیا۔ اور لوگوں کی نگاہ میں غلام کا سب سے اہم پیرو بن گیا۔
ابتدا میں غلام نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بعد میں اس نے کہا کہ وہ مہدی معہود تھا۔ حکیم نورالدین نے اُسے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرنے کے لئے آمادہ کیا اور ۱۸۹۱ عیسوی میں غلام نے دعویٰ کر دیا کہ وہ مسیح موعود تھا اور لکھا :
"درحقیقت مجھے اسی طرح بھیجا گیا جیسے کہ موسیٰ کلیم اللہ کے بعد عیسیٰ کو بھیجا گیا تھا اور جب کلیم ثانی یعنی محمد آئے تو اس نبی کے بعد، جو اپنے اعمال میں موسیٰ سے مشابہت رکھتے تھے، ایک ایسے نبی کو آنا تھا جو اپنی قوت، طبیعت و خصلت میں عیسیٰ سے مماثلت رکھتا ہو۔ آخرالذکر کا نزول اتنی مدت گزرنے کے بعد ہونا چاہیے جو موسیٰ اور عیسیٰ ابنِ مریم کے درمیانی فصل کے برابر ہو۔ یعنی چودھویں صدی ہجری میں۔
پھر وہ آگے کہتا ہے :
"میں حقیقتاً مسیح کی فطرت سے مماثلت رکھتا ہوں اور اسی فطری مماثلت کے بنا پر مجھ عاجز کو مسیح کے نام سے عیسائی فرقہ کو مٹانے کے لئے بھیجا گیا تھا کیونکہ مجھے صلیب کو توڑنے اور خنازیر کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ میں آسمان سے فرشتوں کی معیت میں نازل ہوا جو میرے دائیں بائیں تھے۔"
جیسا کہ خود غلام احمد نے اپنی تصنیف ’ازالہ اوہام‘ میں اعلان کیا، نور الدین نے درپردہ کہا کہ دمشق سے، جہاں مسیح کا نزول ہونا تھا، شام کا مشہور شہر مراد نہیں تھا بلکہ اس سے ایک ایسا گاؤں مراد تھا جہاں یزیدی فطرت کے لوگ سکونت رکھتے تھے۔
پھر وہ کہتا ہے : "قادیان کا گاؤں دمشق جیسا ہی ہے۔ اس لئے اس نے ایک عظیم امر کے لئے مجھے اس دمشق یعنی قادیان میں اُس مسجد کے ایک سفید مینار کے مشرقی کنارے پر نازل کیا، جو داخل ہونے والے ہر شخص کے لئے جائے امان ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے منحرف پیروؤں کے لئے قادیان میں جو مسجد بنائی تھی وہ اس لئے تھی کہ جس طرح مسلمان مسجد الحرام کو حج کے لئے جاتے ہیں، اسی طرح اس مسجد کے حج کے لئے آئیں، اور جس میں اس نے ایک سفید مینارہ تعمیر کیا تھا تا کہ لوگوں کو اس کے ذریعہ یہ باور کرایا جا سکے کہ مسیح کا (یعنی خود اس کا) نزول اسی مینارہ پر ہو گا۔
_________________اس کا نبی ہونے کا دعویٰ
غلام احمد نے اپنے گمراہ پیروؤں میں سے ایک شخص کو قادیان میں اپنی مسجد کا پیش امام مقرر کیا تھا جس کا نام عبد الکریم تھا۔ جیسا کہ خود غلام نے بتایا، عبد الکریم اس کے دو بازوؤں میں سے ایک تھا جبکہ حکیم نورالدین دوسرا۔
۱۹۰۰ عیسوی میں عبد الکریم نے ایک بار جمعہ کے خطبہ کے دوران غلام کی موجودگی میں کہا کہ مرزا غلام احمد کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا اور اس پر ایمان لانا واجب تھا۔ اور وہ شخص جو کہ دوسرے نبیوں پر ایمان رکھتا تھا مگر غلام پر نہیں، وہ درحقیقت نبیوں میں تفریق کرتا تھا اور اللہ تعالٰی کے قول کی تردید کرتا تھا جس نے مومنین کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
"ہم اس کے نبیوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔"
اس خطبہ نے غلام کے پیروؤں میں باہمی نزاع پیدا کر دیا جو اس کے مجدد، مہدی معہود اور مسیح موعود ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ لہٰذا جب انہوں نے عبد الکریم پر تنقید کی تو اس نے اگلے جمعہ کو ایک اور خطبہ دیا اور غلام کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ : "میرا عقیدا ہے کہ آپ اللہ کے رسول اور اس کے نبی ہیں۔ اگر میں غلط ہوں تو مجھے تنبیہہ کیجئے۔" اور نماز ختم ہونے کے بعد جب غلام جانے لگا تو عبد الکریم نے اُسے روکا۔ اس پر غلام نے کہا : " یہی میرا دین اور دعویٰ ہے۔" پھر وہ گھر میں چلا گیا۔ اور وہاں ہنگامہ ہونے لگا جس میں عبد الکریم اور کچھ اور لوگ ملوث تھے جو شور مچا رہے تھے۔ شور سنکر غلام گھر سے باہر نکلا اور کہا، " اے ایمان والو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
اس کا دعویٰ کہ نبوت کا دروازہ ابھی تک کُھلا تھا
غلام نے واقعی کہا تھا کہ نبوت کا دروازہ ہنوز کُھلا ہوا تھا۔ اس کا اظہار اس کے لڑکے محمود احمد نے، جو قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ تھا، اپنی کتاب ’حقیقت النبوت‘ کے صفحہ ۲۲۸ پر اس طرح کیا تھا : "روز روشن میں آفتاب کی طرح یہ واضح ہے کہ بابِ نبوت ابھی تک کُھلا ہوا ہے۔" اور ’انوارِ خلافت‘ میں صفحہ ۶۲ پر وہ کہتا ہے : "حقیقتاً، انہوں نے (یعنی مسلمانوں نے) کہا کہ خدا کے خزانے خالی ہو گئے ہیں۔ اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خدا کی صحیح قدر و قیمت کی سمجھ نہیں ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ بجائے صرف ایک کے ہزاروں نبی آئیں گے۔" اسی کتاب کے صفحہ ۶۵ پر وہ کہتا ہے : "اگر کوئی شخص میری گردن کے دونوں طرف تیز تلواریں رکھ دے اور مجھ سے یہ کہنے کے لئے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں یقیناً کہوں گا کہ وہ کاذب ہے۔ کیونکہ ایسا نہ صرف ممکن بلکہ قطعی ہے کہ ان کے بعد نبی آئیں گے۔" رسالۂ تعلیم (۱) کے صفحہ ۱۴ پر خود غلام کہتا ہے : "یہ ذرا بھی نہ سوچنا کہ وحی زمانۂ پارینہ کا قصہ بن چکی ہے، جس کا آجکل کوئی وجود نہیں ہے۔ یا یہ کہ روح القدس کا نزول صرف پرانے زمانے میں ہی ہوتا تھا، آجکل نہیں۔ یقیناً اور حقیقتاً میں کہتا ہوں کہ ہر ایک دروازہ بند ہو سکتا ہے مگر روح القدس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔"
’رسالۂ تعلیم‘ کے صفحہ ۹ پر وہ کہتا ہے : "یہ وہ ہی خدائے واحد تھا جس نے مجھ پر وحی نازل کی اور میری خاطر عظیم نشانیاں ظاہر کیں۔ وہ جس نے مجھے عہدِ حاضر کا مسیح موعود بنایا، اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں، نہ زمین پر نہ آسمان پر۔ اورجو اس پر ایمان نہیں لائے گا، اس کے حصہ میں بدقسمتی اور محرومیت آئے گی۔ مجھ پر حقیقت میں وحی نازل ہوتی ہے جو آفتاب سے زیادہ واضح اور صریح ہے۔"
_________________اس کا دعویٰ کہ وہ نبی اور رسول ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے
غلام ’مکتوب احمد‘ (مطبوعہ ربوہ 1383 ھ طبع پنجم) کے صفحہ 7 اور 8 پر کہتا ہے : "اس کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے مجھے ان ناموں سے مخاطب کیا " تم میری حضوری کے قابل ہو، میں نے تمہیں اپنے لئے انتخاب کیا۔" اور اس نے کہا، " میں نے تمہیں ایسے مرتبہ پر فائز کیا جو خلق کے لئے نامعلوم ہے۔" اور کہا " اے میرے احمد، تم میری مراد ہو اور میرے ساتھ ہو۔ اللہ اپنے عرش سے تمہاری تعریف بیان کرتا ہے۔" اس نے کہا۔ " تم عیسیٰ ہو، جس کا وقت ضائع نہیں ہو گا۔ تمہارے جیسا جوہر ضائع ہونے کے لئے نہیں ہوتا۔ تم نبیوں کے حلیہ میں اللہ کے جری ہو۔" اس نے کہا، "کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے اول ہوں۔" اس نے کہا، " ہمارے جوہر سے اور ہمارے حکم کے مطابق جائے پناہ تعمیر کرو۔ جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی اطاعت کا عہد کر رہے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔" اس نے کہا، "ہم نے تمہیں دنیا پر صرف رحمت بنا کے بھیجا۔" غلام کہتا ہے، "اس کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب اس نے دیکھ کہ پادری حد سے زیادہ مفسد ہو گئے ہیں اور کہنے لگے ہیں کہ وہ ملک میں بلند مرتبوں پر پہنچ گئے ہیں تو اس نے ان کی سرکشی کے سیلاب اور تیرگی کے عروج پر مجھے بھیجا۔" اس نے کہا، " آج تم ہمارے ساتھ کھڑے ہو، طاقتور اور قابلِ اعتماد۔ تم جلیل القدر حضوری سے آئے ہو۔" غلام کہتا ہے : "اس نے مجھے یہ کہتے ہوئے پکارا اور مجھ سے کلام کیا : میں تمہیں ایک مفسدین کی قوم کی طرف بھیجتا ہوں۔ میں تمہیں لوگوں کا قائد بناتا ہوں اور تمہیں اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں اور عزت کی علامت کے طور پر اور اپنے دستور کے مطابق، جیسا کہ پہلے لوگوں کے تھا۔"
غلام کہتا ہے : "اس نے مجھے ان ناموں سے مخاطب کیا : میری نظر میں تم عیسیٰ ابنِ مریم کی مانند ہو۔ اور تمہیں اس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم اپنے رب الاکرم کے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کرو۔ حقیقتً اس کا وعدہ برقرار ہے اور وہ اصدق الصادقین ہے۔" "اور اس نے مجھ سے کہا کہ اللہ کے نبی عیسٰی کا انتقال ہو چکا تھا۔ انہیں اس دنیا سے اٹھا لیا گیا تھا اور وہ جا کر مُردوں میں شامل ہو گئے تھے اور ان کا شمار ان میں نہیں تھا جو واپس آتے ہیں۔" (مکتوب احمد صفحہ 9)۔
اسی کتاب کے صفحہ ۶۳ اور ۶۴ پر غلام کہتا ہے : "خدا نے مجھے یہ کہتے ہوئے خوشخبری دی : اے احمد، میں تمہاری تمام دعائیں قبول کروں گا، سوائے ان کے جو تمہارے شرکا کے خلاف ہوں گی۔ اور اس نے اتنی بے شمار دعائیں قبول کیں کہ جگہ کی کمی کے باعث ان کی فہرست اور تفصیل کا تو ذکر ہی کیا اس جگہ ان کا خلاصہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔ کیا تم اس معاملے میں میری تردید کر سکتے ہو؟ یا مجھ سے پِھر سکتے ہو؟"
اپنی کتاب ’مواہب الرحمٰن‘ (مطبوعہ ربوہ ۱۳۸۰ ھ) کے صفحہ ۴ پر وہ کہتا ہے : "میرا رب مجھ سے اوپر سے کلام کرتا ہے۔ وہ مجھے ٹھیک طرح سے تعلیم دیتا ہے اور اپنی رحمت کی علامت کے طور پر مجھ پر وحی نازل کرتا ہے میں اس کی پیروی کرتا ہوں۔"
’استفتا‘ (مطبوعہ ربوہ ۱۳۷۸ ھ) کے صفحہ ۱۲ پر غلام کہتا ہے : "میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔"
اسی کتاب کے صفحہ ۱۷ پر وہ کہتا ہے : "خدا نے مجھے نبی کہہ کر پکارا۔"
اسی کتاب کے صفحہ ۲۰ پر وہ کہتا ہے : "خدا نے مجھے اس صدی کے مجدد کے طور پر، مذہب کی اصلاح کرنے، ملت کے چہرے کو روشن کرنے، صلیب کو توڑنے، عیسائیت کی آگ کر فرو کرنے اور ایسی شریعت کو جو تمام خلق کے لئے سودمند ہے قائم کرنے، مفسد کی اصلاح کرنے اور جامد کو رواج دینے کے لئے بھیجا۔ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں۔ خدا نے مجھے وحی اور الہام سے سرفراز کیا اور اپنے مرسلین کرام کی طرح مجھ سے کلام کیا۔ اس نے اپنی ان نشانیوں کے ذریعہ جو تم دیکھتے ہو، میری سچائی کی شہادت دی۔" صفحہ ۲۵ پر غلام کہتا ہے : "خدا نے مجھ پر وحی بھیجی اور کہا : میں نے تمہارا انتخاب کیا اور تمہیں ترجیح دی۔ کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں اپنی توحید اور انفرادیت کے مرتبہ پر فائز کرتا ہوں۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ تم خود کو عوام الناس پر ظاہر کرو اور ان میں خود کو شہرت دو جو ہر طرف سے آئیں گے۔ جن کو ہم بذریعہ الہام کہیں گے کہ وہ تمہاری پشت پناہی کریں۔ وہ ہر طرف سے آئیں گے۔ یہی میرے رب نے کہا ہے۔"
غلام نے صفحہ ۲۷ پر بھی کہا : " اور میرے پاس خدا کی تصدیقات ہیں۔"
’مسیح ناصری ہندوستان‘ (مطبوعہ ربوہ میں) کے صفحہ 12 اور 13 پر غلام کہتا ہے : "انتہائی ملائمت اور صبر کے ساتھ لوگوں کو سچے خدا کی طرف رہبری کرنے کے لیے اور اسلام کے اخلاقی معیار کے دوبارہ تعمیر کے لیے اس نے مجھے بھیجا۔ اس نے مجھے ان نشانیوں سے عزت بخشی جو حق کے متلاشیوں کی تسلی و تشفی اور تیقن کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ اس نے حقیقت میں مجھے معجزے دکھائے اور مجھ پر ایسے پوشیدہ امور اور مستقبل کے راز ظاہر کئے جو سچے علم کی بنیاد کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس نے مجھے ایسے علوم اور معلومات سے سرفراز کیا جن کی تاریکیوں کے بیٹے اور باطل کے حمایتی مخالفت کرتے ہیں۔"
’حمامتہ البشریٰ‘ (مطبوعہ ربوہ 1378 ھ) کے صفحہ 60 پر غلام کہتا ہے : " یہی وجہ ہے جس کے سبب اللہ تعالٰی نے مجھے انہیں حالات میں بھیجا جن حالات میں مسیح کو بھیجا تھا۔ اس نے دیکھا کہ میرا زمانہ اسی کے زمانے جیسا تھا۔ اس نے ایک قوم دیکھی جو اُسی کے قوم جیسی تھی۔ اس نے تلے کے اوپر تلا دیکھا۔ اس لئے اُس نے عذاب بھیجنے سے قبل مجھے بھیجا تاکہ ایک قوم کو تنبیہ کر دوں، چونکہ ان کے آبأ و اجداد متنبہ نہیں کئے گئے تھے، اور تاکہ بدکاروں کا راستہ صاف ہو جائے۔"
’تحفۃ بغداد‘ (مطبوعہ ربوہ 1377 ھ) کے صفحہ 14 پر غلام کہتا ہے : " میں قسم کھاتا ہوں کہ میں جو عالی خاندان سے ہوں، فی الحقیقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔"
’خطبات الہامیۃ‘ (مطبوعہ ربوہ 1388 ھ) کے صفحہ 6 پر وہ کہتا ہے : " مجھے آبِ نور سے غسل دیا گیا اور تمام داغوں اور ناپاکیوں سے چشمہ مقدس پر پاک کیا گیا۔ اور مجھے میرے رب نے احمد کہہ کر پکارا۔ سو میری تعریف کرو اور بے عزتی نہ کرو۔"
صفحہ 8 پر وہ کہتا ہے : " اے لوگو، میں محمدی مسیح ہوں، میں احمد مہدی ہوں اور میرا رب میری پیدائش کے دن سے مجھے قبر میں لٹائے جانے کے دن تک میرے ساتھ ہے۔ مجھے فنا کر دینے والی آگ اور آبِ زلال دیا گیا۔ میں ایک جنوبی ستارہ ہوں اور روحانی بارش ہوں۔"
صفحہ 87 پر وہ یہ بھی کہتا ہے : " اسی وجہ سے مجھے خدا نے آدم اور مسیح کہہ کر پکارا، جس نے، میرا خیال ہے، مریم کی تخلیق کی، اور احمد، جو فضیلت میں سب سے آگے تھا۔ یہ اُس نے اس لیے کیا تاکہ ظاہر کر سکے کہ اس نے میری روح میں نبیوں کی تمام خصوصیات جمع کر دی تھیں۔"
’البدر‘ مورخہ 5 مارچ 1908 عیسوی میں ایک مضمون کے تحت، جس کا عنوان تھا ’ہمارا دعویٰ کہ ہم رسول و نبی ہیں‘ اس نے لکھا: " اللہ کے حکم کے مطابق میں اس کا نبی ہوں۔ اگر میں اس سے انکار کرتا ہوں تو میں گنہگار ہوں۔ اگر خدا مجھے اپنا نبی کہتا ہے تو میں اس کی نفی کیسے کر سکتا ہوں۔ میں اس کے حکم کی تعمیل اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک اس دنیا سے کنارہ نہ کر لوں۔" (دیکھیے مسیح موعود کا خط بنام مدیر اخبار عام، لاہور) یہ خط مسیح موعود نے اپنے انتقال سے صرف تین دن پہلے لکھا تھا۔ 23 مئی 1908 عیسوی کو اس نے یہ خط لکھا اور 26 مئی 1908 عیسوی کو، اس کے انتقال کے دن اس اخبار میں شائع ہوا۔
’کلمہ فصیل‘ (قولِ فیصل) مصنفہ بشیر احمد قادیانی اور REVIEW OF RELIGIONS نمبر 3، جلد 4، صفحہ 110 پر شائع شدہ میں یہ عبارت شامل ہے : " اسلامی شریعت نے ہمیں نبی کا جو مطلب بتایا ہے وہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ مسیح موعود استعارتاً نبی ہو۔ بلکہ اس کا سچا نبی ہونا ضروری ہے۔"
’حقیقت النبوۃ‘ مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد میں مصنف صفحہ 174 پر اپنے منشور میں ’فرقہ احمدیہ میں داخلہ کی شرائط‘ کے عنوان سے اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے : "مسیح موعود (یعنی غلام احمد) اللہ تعالٰی کے نبی تھے اور اللہ کے نبی کا انکار سخت گستاخی ہے جو ایمان سے محرومی کی طرف لے جا سکتی ہے۔"
_________________بعض دوسرے نبیوں پر اپنی فضیلت کا غرور اور بحث
غلام احمد پر غرور اور تکبر بری طرح چھایا ہوا تھا۔ اس لئے اس نے دل کھول کر اپنی تعریف کی۔ اس نے اپنی کتاب ’استفتأ‘ میں مندرجہ ذیل عبارت کا حوالہ دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس سے اس طرح خدا نے خطاب کیا " میرے لئے تم میری وحدانیت اور انفرادیت کے بمنزلہ ہو۔ میرے لئے تم بمنزلہ میرے عرش کے ہو۔ میرے لئے تم بمنزلہ میرے بیٹے کے ہو۔"
’احمد رسول العالم الموعود‘ نامی کتاب میں شامل ایک مضمون میں وہ کہتا ہے : "حقیقت میں مجھے اللہ القدیر نے خبر دی ہے کہ اسلامی سلسلہ کا مسیح موسوی سلسلہ کے مسیح سے بہتر ہے۔" اسلامی سلسلہ کے مسیح سے اُس کی مراد بذات خود ہے۔ اسی لئے غلام احمد عیسٰی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے دعووں میں سے ایک اور یہ ہے کہ خدا نے کہ کہتے ہوئے اس سے کلام کیا : " میں نے عیسٰی کے جوہر سے تمہاری تخلیق کی اور تم اور عیسٰی ایک ہی جوہر سے ہو اور ایک ہی ہو۔" (حمامتہ البشریٰ سے) وہ کہتا ہے کہ وہ عیسٰی سے بہتر ہے۔ ’رسالہ تعلیم‘ میں صفحہ 7 پر وہ کہتا ہے : " اور یقینی طور سے جان لو کہ عیسٰی کا انتقال ہر گیا ہے اور یہ کہ اس کا مقبرہ سرینگر، کشمیر میں محلہ خانیار میں واقعہ ہے۔ اللہ نے اس کی وفات کی خبر کتاب العزیز میں دی۔ اور مجھے مسیح ناصری کی شان سے انکار نہیں حالانکہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ محمدی مسیح، مسیح ناصری سے بلند مرتبہ ہو گا۔ تاہم میں ان کا نہایت احترام کرتا ہوں کیوں کہ وہ امت موسوی میں خاتم الخلفأ تھے جس طرح میں امت محمدی میں خاتم الخلفأ ہوں۔ جس طرح مسیح ناصری ملتِ موسوی کا مسیح موعود تھا اسی طرح میں ملتِ اسلامیہ کا مسیح موعود ہوں۔"
وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فضیلت کا دعوی کرتا ہے۔ حقیقت النبوۃ، مصنفہ مرزا بشیر احمد، خلیفہ ثانی کے صفحہ 257 پر مصنف کہتا ہے : " غلام احمد حقیقت میں بعض اولی العظم رسولوں سے افضل تھے۔"
’الفضل‘ جلد 14، شمارہ 29 اپریل 1927 عیسوی سے مندجہ ذیل اقتباس پیش ہے :
"حقیقت میں انہیں بہت سے انبیا پر فوقیت حاصل ہے اور وہ تمام انبیا کرام سے افضل ہو سکتے ہیں۔"
اسی صحیفہ ’الفضل‘ کی پانچویں جلد میں ہم پڑھتے ہیں : "اصحاب محمد اور مرزا غلام احمد کے تلامذہ میں کوئی فرق نہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ بعثِ اول سے تعلق رکھتے تھے اور یہ بعثِ ثانی۔ (شمارہ نمبر 92 مورخہ 28 مئی 1918 عیسوی)۔
اسی صحیفہ ’الفضل‘ کی تیسری جلد میں ہم پڑھتے ہیں : "مرزا محمد ہیں۔" وہ خدا کے قول کی تائید کرتا ہے، "اس کا نام احمد ہے۔" (انوارِ خلافت، صفحہ 21)۔ یہ کتاب یہاں تک کہتی ہے کہ غلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی افضلیت حاصل ہے۔ ’خطبات الہامیہ‘ صفحہ 177 پر خود غلام احمد کہتا ہے : "محمد کی روحانیت نے عام وصف کے ساتھ پانچویں ہزارے کے دور میں اپنی تجلی دکھائی۔ اور یہ روحانیت اپنی اجمالی صفات کے ساتھ اس ناکافی وقت میں غایت درجہ بلندی اور اپنے منتہا کو نہیں پہنچی تھی۔ پھر چھٹے ہزارے میں (یعنی مسیح موعود غلام احمد کے زمانے میں) اس روحانیت نے اپنے انتہائی عالیشان لباس میں اپنے بلند ترین مظاہر میں اپنی تجلی دکھائی۔" اپنے رسالہ ’اعجازِ احمدی‘ میں وہ یہ اضافہ کرتا ہے :
"اُن کے لئے چاند کی روشنی گہنا گئی۔"
کیا تمہیں اس سے انکار ہے کہ میرے لئے چاند اور سورج، دونوں کہ گہن لگا۔"
اس کا دعویٰ کے اُسے خدا کا بیٹا ہونے کا فخر حاصل ہے اور وہ بمنزلہ عرش کے ہے
’استفتا‘ کے صفحہ 82 پر غلام کہتا ہے : "تم بمنزلہ میری وحدانیت اور انفرادیت کے ہو۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ تم خود کو عوام میں ظاہر کر دو اور واقف کرا دو۔ تم میرے لئے بمنزلہ میرے عرش کے ہو۔ تم میرے لئے بمنزلہ میرے بیٹے کے ہو۔ تم میرے لئے ایک ایسے مرتبہ پر فائز ہو جو مخلوق کے علم میں نہیں۔"
اجماع امت محمد یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خامتم المرسلین تھے، کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور یہ کہ جو اس سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔
قرآن پاک، سنتِ رسول اور اجماعِ امت سے بے پرواہ غلام احمد دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی اور رسول ہے۔ شریعت کے یہ تینوں ماخذ اس کے ثبوت میں شہادت دیتے ہیں کہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین اور مرسلین ہیں۔
قرآن میں خدا کا قول ہے : "محمدﷺ تم لوگوں میں سے کسی کے والد نہیں بلکہ خدا کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔"
خاتم بکسر ’تا‘ پڑھا جائے تو صفت کا اظہار کرتا ہے جو محمدﷺ کو انبیا میں سب سے آخری بیان کرتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ کے بعد کوئی بھی شخص مقام نبوت کو نہیں پہنچ سکتا۔ لہٰذا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ ایک ایسی چیز کا مدعی ہے جو اس کی رسائی سے باہر ہے۔ اسی لفظ کو بفتح ’تا‘ خاتم پڑھا جائے تو بھی عرب علما لغت کے مطابق اس کے یہ ہی معنی و تعبیر ہو گی۔ حقیقت میں مفسرین و محققین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے اور سنت صحیحہ نے بھی اسی کی تصدیق کی ہے۔ امام بخاری کی صحیح بخاری میں ابو ہریرہ سے ایک حدیث روایت کی گئی ہے اور انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ فرمایا : "بنی اسرائیل کی رہبری نبیوں کے ذریعہ کی گئی۔ ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرے نبی نے اس کی جانشینی کی۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔"
صحیح بخاری میں ایک دوسری حدیث نقل کی گئی ہے۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول خدا سے سنا۔ فرماتے تھے : میری اور مجھ سے قبل آنے والے نبیوں کی مثال اس شخص کے معاملہ جیسی ہے کہ اس نے ایک مکان بنایا، خوب اچھا اور خوبصورت لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ یہ مکان دیکھنے آتے اور مکان کی تعریف و توصیف کرتے، مگر کہتے " وہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھ دیتے تم؟" رسولِ خدا نے کہا، "وہ اینٹ میں ہوں – اور میں خاتم النبیین ہوں۔" مسلم کی روایت کے مطابق جابر سے روایت ہے کہ رسولِ خدا نے کہا "اس اینٹ کی جگہ میں ہوں۔ میں آیا اور انبیا پر مہر لگا دی۔"
یہی اجماع المسلمین ہے اور ضرورتاً مذہب کی ایک حقیقت معلومہ بن گیا ہے۔ ’خاتم النبیین‘ کی تفسیر میں امام ابنِ کثیر کا قول ہے : "اللہ تعالٰی نے ہم سے اپنی کتاب میں کہا ہے، جیسا کہ اس کے رسول نے سنتِ متواترہ میں کہا "کہ اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انہیں جان لینے دو کہ اس کے بعد جو کوئی اس مقام کا دعویٰ کرتا ہے وہ کذاب، مکار، فریبی اور دجال ہے۔" الالوسی نے اپنی تفسیر میں کہا : "اور یہ حقیقت کہ وہ (محمد رسول اللہ) خاتم النبیین ہیں، قرآن پاک میں بیان کی گئی ہے، سنت نے اس کی تصدیق کی ہے اور اُمت کا بالاتفاق اس پر اجماع ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اس کے برخلاف دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ہے۔"
خاتم النبیین کی قادیانی تفسیر
’رسالہ تعلیم‘ میں صفحہ 7 پر غلام احمد کہتا ہے : "ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، سوائے اس کے جس کو بطور جانشینی ردا محمدیہ عطا کی گئی ہو۔ اس کی ایک دوسرے تاویل میں "میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا" والی حدیث کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے بعد (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد) ان کی اُمت کے علاوہ کسی دوسری اُمت سے کوئی نبی نہیں ہو گا۔ یہ دوسری تاویل دراصل غلام احمد نے ایک دوسرے جھوٹے نبی اسحاق الاخرس سے نقل کی ہے جو سفاح کے زمانہ میں ظاہر ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ دو فرشتے اس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ وہ نبی تھا۔ اس پر اس نے کہا، "یہ کیسے ہو سکتا ہے جب اللہ تعالٰی کہہ چکا ہے کہ رسولِ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں؟" اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا، " تم سچ کہتے ہو، لیکن خدا کا مطلب یہ تھا کہ وہ ان نبیوں میں سب سے آخری تھے جو اُن کے مذہب کے نہیں تھے۔"
اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے قادیانیوں نے ’خاتم النبیین‘ کی یہ تفسیر کی کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ محمد صلی اللہ علی وسلم انبیا کی مہر ہیں تا کہ ان کے بعد آنے والے ہر نبی کی نبوت پر ان کی مہر تصدیق ثبت ہو۔ اس سلسلہ میں یہ مسیح موعود کہتا ہے : "ان الفاظ (یعنی خاتم النبیین) کا مطلب یہ ہے کہ اب کسی بھی نبوت پر ایمان نہیں لایا جا سکتا۔ تا وقتیکہ اس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت نہ ہو۔ جس طرح کوئی دستاویز اس وقت تک معتبر نہیں ہوتی جب تک اس پر مہر تصدیق ثبت نہ ہو جائے، اسی طرح ہر وہ نبوت جس پر اس کی مہر تصدیق نہیں غیر صحیح ہے۔"
’ملفوظات احمدیہ‘ مرتبہ محمد منظور الٰہی قادیانی میں صفحہ 290 پر درج ہے : "اس سے انکار نہ کرو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انبیا کی مُہر ہیں لیکن لفظ ’مُہر‘ سے وہ مراد نہیں جو عام طور پر عوام الناس کی اکثریت سمجھتی ہے، کیوں کہ یہ مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، ان کی اعلٰی و ارفع شان کے قطعی خلاف ہے۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نبوت کی نعمت عظمٰی سے محروم کر دیا۔ اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ وہ انبیا کی مہر ہیں۔ اب فی الحال کوئی نبی نہیں ہو گا سوائے اس کے جس کی تصدیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں۔ ان معنی میں ہمارا ایمان ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ (الفضل مورخہ 22 ستمبر 1939 عیسوی - الفضل ایک روزانہ اخبار ہے جو تقسیم ملک سے پہلے قادیان سے شائع ہوتا تھا۔ اب یہ ربوہ سے شائع ہوتا ہے اور قادیانیوں کا ترجمان ہے۔)
’الفضل، مورخہ 22 مئی 1922 عیسوی میں ہم پڑھتے ہیں : "مہر ایک چھاپ ہوتی ہے۔ سو اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھاپ ہیں، تو وہ یہ کیسے ہو سکتے ہیں اگر ان کی اُمت میں کوئی اور نبی نہیں؟"
اُس کا دعویٰ کہ انبیا نے اُس کی شہادت دی
وہ دعویٰ کرتا ہے کہ صالح نے اس کی شہادت دی۔ اپنی کتاب ’مکتوب احمد‘ میں صفحہ 62 پر وہ کہتا ہے : "حقیقتاً صالح نے میری صداقت کی شہادت میری دعوت سے بھی پہلے دی۔ اور کہا کہ وہ ہی عیسیٰ مسیح تھا جو آنے والا تھا۔ اس نے میرا اور میری زوجہ کا نام بتایا اور اس نے اپنے پیروؤں سے کہا : مجھے میرے رب نے ایسا ہی بتایا ہے لہٰذا میری یہ وصیت مجھ سے لے لو۔"
نزول مسیح کے بارے میں اس کے متضاد بیانات کبھی اُس کا انکار، کبھی اقرار، کبھی اس کی تاویلات – رفع مسیح کا بھی باری باری انکار، اقرار اور تاویل
’مکتوب احمد‘ صفحہ 47 پر وہ کہتا ہے : "فی الحقیقت تم نے سنا ہو گا کہ ہم قرآن کے بیان صریح کے مطابق مسیح اور اس کے رفیق کے نزول کے قائل ہیں، ہم اس نزول کے برحق ہونے کو واجب تسلیم کرتے ہیں اور ہمیں یا کسی اور کو اس سے مفسدوں کی طرح منحرف نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی کسی کو اس کے اقرار پر متکبرین کی طرح آزردہ ہونا چاہیے۔"
’حمامۃ البشریٰ‘ کے صفحہ 11 پر وہ کہتا ہے : "اس لقب کے بعد میں سوچا کرتا تھا کہ مسیح موعود ایک غیر ملکی تھا۔ اور اس پوشیدہ راز کے ظاہر ہو جانے تک، جو خدا نے اپنے بہت سے بندوں سے ان کا امتحان لینے کے لئے چھپا رکھا تھا، میں نے کبھی نہیں سوچا تھاکہ میں ہی مسیح موعود تھا۔ اور میرے رب نے ایک الہام میں مجھے عیسیٰ ابن مریم کہہ کر پکارا اور کہا : "اے عیسیٰ، میں تمیہں اپنے پاس بلاؤں گا، تمہیں اپنے تک اٹھاؤں گا اور تمہیں ان لوگوں سے پاک کروں گا جنہوں نے کفر کیا۔ میں ان لوگوں کو جنہوں نے تمہارا اتباع کیا، ان لوگوں سے اونچا مرتبہ دوں گا جو یومِ القیامت پر ایمان نہیں لائے۔ ہم نے تمہیں عیسیٰ ابن مریم بنایا اور تمہیں ایسے مرتبہ پر فائز کیا جس سے مخلوق لا علم ہے۔ اور میں نے تمہیں اپنی توحید اور انفرادیت کے مرتبہ پر فائز کیا اور آج تم میرے ساتھ ہو اور مضبوطی و حفاظت کے ساتھ متمکن ہو۔"
صفحہ 38 پر وہ کہتا ہے : "کیا انہوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا ہے کہ خدا نے قرآن میں ہر وہ اہم واقعہ بیان کیا ہے جو اس نے دیکھا۔ پھر اس نے نزول مسیح کے واقعہ کو اس کی عظیم اہمیت اور انتہائی معجزانہ ماہیت کے باوجود کیسے چھوڑ دیا؟ اگر یہ واقعہ سچا تھا تو اس کا ذکر کیوں چھوڑ دیا جبکہ یوسف کی کہانی دوہرائی؟ خدا نے کہا : "ہم تمہیں بہترین قصے سناتے ہیں۔" اور اس نے اصحابِ کہف کا قصہ سنایا۔ اس نے کہا : یہ ہماری عجیب نشانیوں ہیں سے ہیں۔ لیکن اس نے آسمان سے نزول مسیح کے بارے میں اس کی وفات کے ذکر کے بغیر کچھ نہیں کہا۔ اگر نزول کی کوئی حقیقیت ہوتی تو قرآن نے اس کا ذکر ترک نہ کیا ہوتا بلکہ اسے ایک طویل سورۃ میں بیان کیا ہوتا اور اسے کسی دوسرے قصے کی بہ نسبت بہتر بنایا ہوتا کیوں کہ اس کے عجائبات صرف اسی لئے مخصوس ہیں اور کسی دوسرے قصے میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ اُسے اُمت کے لئے ختم دنیا کی نشانی بنا دیتا۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ یہ الفاظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں کئے گئے ہیں بلکہ اس گفتگو میں اس سے ایک مجدد عظیم مراد ہے جو مسیح کے نقش قدم پر اس کے مثیل و نظیر ہو گا۔ اسے مسیح کا نام اسی طور پر دیا گیا تھا جس طرح کچھ لوگوں کو عالمِ رویا میں کسی دوسرے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔"
اسی کتاب کے صفحہ 41 پر وہ کہتا ہے : "وہ کہتے ہیں کہ مسیح آسمان سے نازل ہو گا، دجال کو قتل کر دے گا اور عیسائیوں سے جنگ کرے گا۔ یہ تمام خیالات ’خاتم النبیین‘ کے الفاظ کے بارے میں سئے فہمی اور غور و فکر کی کمی کا نتیجہ ہیں۔"
نزول ملائکہ کے بارے میں اس کی توضیح اور اس کا ادّعا کہ وہ خدا کے بازو ہیں
’حمامۃ البشریٰ‘ کے صفحہ 98 پر وہ کہتا ہے : اور دیکھو ملائکہ کو، کہ خدا نے ان کی اپنے بازوؤں کے طور پر کیسے تخلیق کی۔"
’تحفہ بغداد‘ کے صفحہ 34 پر وہ لکھتا ہے : "اور ہم فرشتوں، ان کے مرتبوں اور درجوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کے نزول پر ایمان رکھتے ہیں کہ نزول انوار کی طرح ہوتا ہے نہ کہ ایک انسان کی ایک جگہ سے دوسرے جگہ نقل و حرکت کی طرح۔ وہ اپنا مقام نہیں چھوڑتے۔"
غلام احمد 1835 عیسوی یا 1839 عیسوی اور یا شاید 1840 عیسوی میں ہندوستان میں پنجاب کے موضع قادیان میں پیدا ہوا۔ بچپن میں اس نے تھوڑی سے فارسی پڑھی اور کچھ صرف و نحو کا مطالعہ کیا۔ اس نے تھوڑی بہت طب بھی پڑھی تھی۔ لیکن بیماریوں کی وجہ سے، جو بچپن سے اس کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور جن میں قادیانی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق مالیخولیا (جنون کی ایک قسم) بھی شامل تھا، وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکا۔ وہ نوجوان ہی تھا کہ ایک دن اُسے اس کے گھر والوں نے اپنے دادا کی پنشن وصُول کر لانے کے لیے بھیجا، جو انگریزوں نے اس کی انجام کردہ خدمات کے صلے میں اس کے لیے منظور کی تھی۔ اس کام کے لیے جاتے ہوئے اس کا ایک دوست امام الدین بھی غلام احمد کے ساتھ ہو گیا۔ پنشن کا روپیہ وصول کرنے کے بعد غلام کو اس کے دوست امام الدین نے پُھسلایا کہ قادیان سے باہر کچھ دیر موج اُڑائی جائے۔ غلام احمد اس کے جھانسے میں آ گیا اور پنشن کے روپے تھوڑی ہی دیر میں میں اُڑا دیئے گئے۔ روپے ختم ہونے پر اس کے دوست امام الدین نے اپنی راہ لی۔ اور غلام کو گھر والوں کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگنا پڑا۔ چنانچہ وہ سیالکوٹ چلا گیا جو اب مغربی پاکستان کے پنجاب کے علاقہ میں ایک شہر ہے۔ سیالکوٹ میں اُسے کام کرنا پڑا تو وہ ایک کچہری کے باہر بیٹھ کر عوامی محرر (نقل نویس) کا کام کرنے لگا۔ جہاں وہ تقریباً 15 روپے ماہوار کے برائے نام معاوضہ پر عریضوں کی نقلیں تیار کیا کرتا۔
اس کے سیالکوٹ کے قیام کے دوران وہاں ایک شام کا اسکول قائم کیا گیا جہاں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔ غلانے نے بھی اس اسکول میں داخلہ لے لیا اور وہاں اس نے بقول خود ایک یا دو انگریزی کتابیں پڑھیں۔ پھر وہ قانون کے ایک امتحان میں بیٹھا لیکن فیل ہو گیا۔
پھر اس نے 4 سال بعد سیالکوٹ میں اپنا کام چھوڑ دیا اور اپنے باپ کے ساتھ کام کرنے چلا گیا جو وکالت کرتا تھا۔
یہی وہ زمانہ ہے جب اس نے اسلام پر مباحثے منعقد کرنا شروع کئے اور بہانہ کیا کہ وہ ایک ضخیم کتاب، جس کا نام اس نے " براہینِ احمدیہ " رکھا تھا، تالیف کرے گا۔ جس میں وہ اسلام پر اعتراضات اٹھائے گا۔ تب ہی لوگ اُسے جاننے لگے
_________________حکیم نور الدین بُہیروی
سیالکوٹ میں قیام کے دوران غلام احمد کا واسطہ نور الدین بُہیروی نامی ایک منحرف شخصیت سے پڑا۔ نور الدین کی پیدائش ۱۲۵۸ ہجری مطابق ۱۸۴۱ عیسوی بُہیرہ ضلع شاہ پور میں ہوئی جو اب مغربی پاکستان کے علاقہ پنجاب میں سرگودھا کہلاتا ہے۔ اس نے فارسی زبان، خطاطی، ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۵۸ عیسوی میں اس کا تقرر راولپنڈی کے سرکاری اسکول میں فارسی کے معلم کے طور پر ہو گیا۔ اس کے بعد ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر بنا دیا گیا۔ چار سال تک اس جگہ پر کام کرنے کے بعد اس نے ملازمت سے استغفٰی دے دیا اور اپنا پورا وقت مطالعہ میں صرف کرنے لگا۔ پھر اس نے رامپور سے لکھنؤ کا سفر کیا جہاں اس نے حکیم علی حسین سے طبِ قدیم پرھی۔ علی حسین کی معیت میں اس نے دو سال گزارے پھر ۱۲۸۵ ھ میں وہ حجاز چلا گیا جہاں مدینہ منورہ میں اس کا رابطہ سیخ رحمت اللہ ہندی اور شیخ عبد الغنی مجددی سے ہوا۔ اس کے بعد وہ اپنے وطن واپس آ گیا۔ جہاں اس نے مناظرہ بازی میں کافی شہرت حاصل کی۔ پھر اس کا تقرر جنوبی کشمیر کے صوبہ جموں میں بطور طبیب ہو گیا۔ ۱۸۹۰ عیسوی میں اسے اس عہدہ سے برطرف کر دیا گیا۔ جموں میں قیام کے دوران اس نے غلام احمد قادیانی کے بارے میں سنا۔ پھر وہ گہرے دوست بن گئے۔ چناچہ جب غلام نے ’براہینِ احمدیہ‘ لکھنی شروع کی تو حکیم نور الدین نے ’تصدیقِ براہین احمدیہ‘ لکھی۔
پھر حکیم نے غلام کو نبوت کا دعویٰ کرنے کی ترغیب دینی شروع کی۔ اپنی کتاب ’سیرت المہدی‘ میں صفحہ ۹۹ پر حکیم نے کہا، کہ اس وقت اس نے کہا تھا : "اگر اس شخص (یعنی غلام) نے نبی اور صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کیا اور قرآن کی شریعت کو منسوخ کر دیا تو میں اس کے اس فعل کی مخالفت نہیں کروں گا۔"
اور جب غلام قادیان گیا تو حکیم بھی اس کے پاس وہیں پہنچ گیا۔ اور لوگوں کی نگاہ میں غلام کا سب سے اہم پیرو بن گیا۔
ابتدا میں غلام نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بعد میں اس نے کہا کہ وہ مہدی معہود تھا۔ حکیم نورالدین نے اُسے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرنے کے لئے آمادہ کیا اور ۱۸۹۱ عیسوی میں غلام نے دعویٰ کر دیا کہ وہ مسیح موعود تھا اور لکھا :
"درحقیقت مجھے اسی طرح بھیجا گیا جیسے کہ موسیٰ کلیم اللہ کے بعد عیسیٰ کو بھیجا گیا تھا اور جب کلیم ثانی یعنی محمد آئے تو اس نبی کے بعد، جو اپنے اعمال میں موسیٰ سے مشابہت رکھتے تھے، ایک ایسے نبی کو آنا تھا جو اپنی قوت، طبیعت و خصلت میں عیسیٰ سے مماثلت رکھتا ہو۔ آخرالذکر کا نزول اتنی مدت گزرنے کے بعد ہونا چاہیے جو موسیٰ اور عیسیٰ ابنِ مریم کے درمیانی فصل کے برابر ہو۔ یعنی چودھویں صدی ہجری میں۔
پھر وہ آگے کہتا ہے :
"میں حقیقتاً مسیح کی فطرت سے مماثلت رکھتا ہوں اور اسی فطری مماثلت کے بنا پر مجھ عاجز کو مسیح کے نام سے عیسائی فرقہ کو مٹانے کے لئے بھیجا گیا تھا کیونکہ مجھے صلیب کو توڑنے اور خنازیر کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ میں آسمان سے فرشتوں کی معیت میں نازل ہوا جو میرے دائیں بائیں تھے۔"
جیسا کہ خود غلام احمد نے اپنی تصنیف ’ازالہ اوہام‘ میں اعلان کیا، نور الدین نے درپردہ کہا کہ دمشق سے، جہاں مسیح کا نزول ہونا تھا، شام کا مشہور شہر مراد نہیں تھا بلکہ اس سے ایک ایسا گاؤں مراد تھا جہاں یزیدی فطرت کے لوگ سکونت رکھتے تھے۔
پھر وہ کہتا ہے : "قادیان کا گاؤں دمشق جیسا ہی ہے۔ اس لئے اس نے ایک عظیم امر کے لئے مجھے اس دمشق یعنی قادیان میں اُس مسجد کے ایک سفید مینار کے مشرقی کنارے پر نازل کیا، جو داخل ہونے والے ہر شخص کے لئے جائے امان ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے منحرف پیروؤں کے لئے قادیان میں جو مسجد بنائی تھی وہ اس لئے تھی کہ جس طرح مسلمان مسجد الحرام کو حج کے لئے جاتے ہیں، اسی طرح اس مسجد کے حج کے لئے آئیں، اور جس میں اس نے ایک سفید مینارہ تعمیر کیا تھا تا کہ لوگوں کو اس کے ذریعہ یہ باور کرایا جا سکے کہ مسیح کا (یعنی خود اس کا) نزول اسی مینارہ پر ہو گا۔
_________________اس کا نبی ہونے کا دعویٰ
غلام احمد نے اپنے گمراہ پیروؤں میں سے ایک شخص کو قادیان میں اپنی مسجد کا پیش امام مقرر کیا تھا جس کا نام عبد الکریم تھا۔ جیسا کہ خود غلام نے بتایا، عبد الکریم اس کے دو بازوؤں میں سے ایک تھا جبکہ حکیم نورالدین دوسرا۔
۱۹۰۰ عیسوی میں عبد الکریم نے ایک بار جمعہ کے خطبہ کے دوران غلام کی موجودگی میں کہا کہ مرزا غلام احمد کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا اور اس پر ایمان لانا واجب تھا۔ اور وہ شخص جو کہ دوسرے نبیوں پر ایمان رکھتا تھا مگر غلام پر نہیں، وہ درحقیقت نبیوں میں تفریق کرتا تھا اور اللہ تعالٰی کے قول کی تردید کرتا تھا جس نے مومنین کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
"ہم اس کے نبیوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔"
اس خطبہ نے غلام کے پیروؤں میں باہمی نزاع پیدا کر دیا جو اس کے مجدد، مہدی معہود اور مسیح موعود ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ لہٰذا جب انہوں نے عبد الکریم پر تنقید کی تو اس نے اگلے جمعہ کو ایک اور خطبہ دیا اور غلام کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ : "میرا عقیدا ہے کہ آپ اللہ کے رسول اور اس کے نبی ہیں۔ اگر میں غلط ہوں تو مجھے تنبیہہ کیجئے۔" اور نماز ختم ہونے کے بعد جب غلام جانے لگا تو عبد الکریم نے اُسے روکا۔ اس پر غلام نے کہا : " یہی میرا دین اور دعویٰ ہے۔" پھر وہ گھر میں چلا گیا۔ اور وہاں ہنگامہ ہونے لگا جس میں عبد الکریم اور کچھ اور لوگ ملوث تھے جو شور مچا رہے تھے۔ شور سنکر غلام گھر سے باہر نکلا اور کہا، " اے ایمان والو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
اس کا دعویٰ کہ نبوت کا دروازہ ابھی تک کُھلا تھا
غلام نے واقعی کہا تھا کہ نبوت کا دروازہ ہنوز کُھلا ہوا تھا۔ اس کا اظہار اس کے لڑکے محمود احمد نے، جو قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ تھا، اپنی کتاب ’حقیقت النبوت‘ کے صفحہ ۲۲۸ پر اس طرح کیا تھا : "روز روشن میں آفتاب کی طرح یہ واضح ہے کہ بابِ نبوت ابھی تک کُھلا ہوا ہے۔" اور ’انوارِ خلافت‘ میں صفحہ ۶۲ پر وہ کہتا ہے : "حقیقتاً، انہوں نے (یعنی مسلمانوں نے) کہا کہ خدا کے خزانے خالی ہو گئے ہیں۔ اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خدا کی صحیح قدر و قیمت کی سمجھ نہیں ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ بجائے صرف ایک کے ہزاروں نبی آئیں گے۔" اسی کتاب کے صفحہ ۶۵ پر وہ کہتا ہے : "اگر کوئی شخص میری گردن کے دونوں طرف تیز تلواریں رکھ دے اور مجھ سے یہ کہنے کے لئے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں یقیناً کہوں گا کہ وہ کاذب ہے۔ کیونکہ ایسا نہ صرف ممکن بلکہ قطعی ہے کہ ان کے بعد نبی آئیں گے۔" رسالۂ تعلیم (۱) کے صفحہ ۱۴ پر خود غلام کہتا ہے : "یہ ذرا بھی نہ سوچنا کہ وحی زمانۂ پارینہ کا قصہ بن چکی ہے، جس کا آجکل کوئی وجود نہیں ہے۔ یا یہ کہ روح القدس کا نزول صرف پرانے زمانے میں ہی ہوتا تھا، آجکل نہیں۔ یقیناً اور حقیقتاً میں کہتا ہوں کہ ہر ایک دروازہ بند ہو سکتا ہے مگر روح القدس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔"
’رسالۂ تعلیم‘ کے صفحہ ۹ پر وہ کہتا ہے : "یہ وہ ہی خدائے واحد تھا جس نے مجھ پر وحی نازل کی اور میری خاطر عظیم نشانیاں ظاہر کیں۔ وہ جس نے مجھے عہدِ حاضر کا مسیح موعود بنایا، اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں، نہ زمین پر نہ آسمان پر۔ اورجو اس پر ایمان نہیں لائے گا، اس کے حصہ میں بدقسمتی اور محرومیت آئے گی۔ مجھ پر حقیقت میں وحی نازل ہوتی ہے جو آفتاب سے زیادہ واضح اور صریح ہے۔"
_________________اس کا دعویٰ کہ وہ نبی اور رسول ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے
غلام ’مکتوب احمد‘ (مطبوعہ ربوہ 1383 ھ طبع پنجم) کے صفحہ 7 اور 8 پر کہتا ہے : "اس کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے مجھے ان ناموں سے مخاطب کیا " تم میری حضوری کے قابل ہو، میں نے تمہیں اپنے لئے انتخاب کیا۔" اور اس نے کہا، " میں نے تمہیں ایسے مرتبہ پر فائز کیا جو خلق کے لئے نامعلوم ہے۔" اور کہا " اے میرے احمد، تم میری مراد ہو اور میرے ساتھ ہو۔ اللہ اپنے عرش سے تمہاری تعریف بیان کرتا ہے۔" اس نے کہا۔ " تم عیسیٰ ہو، جس کا وقت ضائع نہیں ہو گا۔ تمہارے جیسا جوہر ضائع ہونے کے لئے نہیں ہوتا۔ تم نبیوں کے حلیہ میں اللہ کے جری ہو۔" اس نے کہا، "کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے اول ہوں۔" اس نے کہا، " ہمارے جوہر سے اور ہمارے حکم کے مطابق جائے پناہ تعمیر کرو۔ جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی اطاعت کا عہد کر رہے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔" اس نے کہا، "ہم نے تمہیں دنیا پر صرف رحمت بنا کے بھیجا۔" غلام کہتا ہے، "اس کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب اس نے دیکھ کہ پادری حد سے زیادہ مفسد ہو گئے ہیں اور کہنے لگے ہیں کہ وہ ملک میں بلند مرتبوں پر پہنچ گئے ہیں تو اس نے ان کی سرکشی کے سیلاب اور تیرگی کے عروج پر مجھے بھیجا۔" اس نے کہا، " آج تم ہمارے ساتھ کھڑے ہو، طاقتور اور قابلِ اعتماد۔ تم جلیل القدر حضوری سے آئے ہو۔" غلام کہتا ہے : "اس نے مجھے یہ کہتے ہوئے پکارا اور مجھ سے کلام کیا : میں تمہیں ایک مفسدین کی قوم کی طرف بھیجتا ہوں۔ میں تمہیں لوگوں کا قائد بناتا ہوں اور تمہیں اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں اور عزت کی علامت کے طور پر اور اپنے دستور کے مطابق، جیسا کہ پہلے لوگوں کے تھا۔"
غلام کہتا ہے : "اس نے مجھے ان ناموں سے مخاطب کیا : میری نظر میں تم عیسیٰ ابنِ مریم کی مانند ہو۔ اور تمہیں اس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم اپنے رب الاکرم کے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کرو۔ حقیقتً اس کا وعدہ برقرار ہے اور وہ اصدق الصادقین ہے۔" "اور اس نے مجھ سے کہا کہ اللہ کے نبی عیسٰی کا انتقال ہو چکا تھا۔ انہیں اس دنیا سے اٹھا لیا گیا تھا اور وہ جا کر مُردوں میں شامل ہو گئے تھے اور ان کا شمار ان میں نہیں تھا جو واپس آتے ہیں۔" (مکتوب احمد صفحہ 9)۔
اسی کتاب کے صفحہ ۶۳ اور ۶۴ پر غلام کہتا ہے : "خدا نے مجھے یہ کہتے ہوئے خوشخبری دی : اے احمد، میں تمہاری تمام دعائیں قبول کروں گا، سوائے ان کے جو تمہارے شرکا کے خلاف ہوں گی۔ اور اس نے اتنی بے شمار دعائیں قبول کیں کہ جگہ کی کمی کے باعث ان کی فہرست اور تفصیل کا تو ذکر ہی کیا اس جگہ ان کا خلاصہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔ کیا تم اس معاملے میں میری تردید کر سکتے ہو؟ یا مجھ سے پِھر سکتے ہو؟"
اپنی کتاب ’مواہب الرحمٰن‘ (مطبوعہ ربوہ ۱۳۸۰ ھ) کے صفحہ ۴ پر وہ کہتا ہے : "میرا رب مجھ سے اوپر سے کلام کرتا ہے۔ وہ مجھے ٹھیک طرح سے تعلیم دیتا ہے اور اپنی رحمت کی علامت کے طور پر مجھ پر وحی نازل کرتا ہے میں اس کی پیروی کرتا ہوں۔"
’استفتا‘ (مطبوعہ ربوہ ۱۳۷۸ ھ) کے صفحہ ۱۲ پر غلام کہتا ہے : "میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔"
اسی کتاب کے صفحہ ۱۷ پر وہ کہتا ہے : "خدا نے مجھے نبی کہہ کر پکارا۔"
اسی کتاب کے صفحہ ۲۰ پر وہ کہتا ہے : "خدا نے مجھے اس صدی کے مجدد کے طور پر، مذہب کی اصلاح کرنے، ملت کے چہرے کو روشن کرنے، صلیب کو توڑنے، عیسائیت کی آگ کر فرو کرنے اور ایسی شریعت کو جو تمام خلق کے لئے سودمند ہے قائم کرنے، مفسد کی اصلاح کرنے اور جامد کو رواج دینے کے لئے بھیجا۔ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں۔ خدا نے مجھے وحی اور الہام سے سرفراز کیا اور اپنے مرسلین کرام کی طرح مجھ سے کلام کیا۔ اس نے اپنی ان نشانیوں کے ذریعہ جو تم دیکھتے ہو، میری سچائی کی شہادت دی۔" صفحہ ۲۵ پر غلام کہتا ہے : "خدا نے مجھ پر وحی بھیجی اور کہا : میں نے تمہارا انتخاب کیا اور تمہیں ترجیح دی۔ کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں اپنی توحید اور انفرادیت کے مرتبہ پر فائز کرتا ہوں۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ تم خود کو عوام الناس پر ظاہر کرو اور ان میں خود کو شہرت دو جو ہر طرف سے آئیں گے۔ جن کو ہم بذریعہ الہام کہیں گے کہ وہ تمہاری پشت پناہی کریں۔ وہ ہر طرف سے آئیں گے۔ یہی میرے رب نے کہا ہے۔"
غلام نے صفحہ ۲۷ پر بھی کہا : " اور میرے پاس خدا کی تصدیقات ہیں۔"
’مسیح ناصری ہندوستان‘ (مطبوعہ ربوہ میں) کے صفحہ 12 اور 13 پر غلام کہتا ہے : "انتہائی ملائمت اور صبر کے ساتھ لوگوں کو سچے خدا کی طرف رہبری کرنے کے لیے اور اسلام کے اخلاقی معیار کے دوبارہ تعمیر کے لیے اس نے مجھے بھیجا۔ اس نے مجھے ان نشانیوں سے عزت بخشی جو حق کے متلاشیوں کی تسلی و تشفی اور تیقن کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ اس نے حقیقت میں مجھے معجزے دکھائے اور مجھ پر ایسے پوشیدہ امور اور مستقبل کے راز ظاہر کئے جو سچے علم کی بنیاد کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس نے مجھے ایسے علوم اور معلومات سے سرفراز کیا جن کی تاریکیوں کے بیٹے اور باطل کے حمایتی مخالفت کرتے ہیں۔"
’حمامتہ البشریٰ‘ (مطبوعہ ربوہ 1378 ھ) کے صفحہ 60 پر غلام کہتا ہے : " یہی وجہ ہے جس کے سبب اللہ تعالٰی نے مجھے انہیں حالات میں بھیجا جن حالات میں مسیح کو بھیجا تھا۔ اس نے دیکھا کہ میرا زمانہ اسی کے زمانے جیسا تھا۔ اس نے ایک قوم دیکھی جو اُسی کے قوم جیسی تھی۔ اس نے تلے کے اوپر تلا دیکھا۔ اس لئے اُس نے عذاب بھیجنے سے قبل مجھے بھیجا تاکہ ایک قوم کو تنبیہ کر دوں، چونکہ ان کے آبأ و اجداد متنبہ نہیں کئے گئے تھے، اور تاکہ بدکاروں کا راستہ صاف ہو جائے۔"
’تحفۃ بغداد‘ (مطبوعہ ربوہ 1377 ھ) کے صفحہ 14 پر غلام کہتا ہے : " میں قسم کھاتا ہوں کہ میں جو عالی خاندان سے ہوں، فی الحقیقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔"
’خطبات الہامیۃ‘ (مطبوعہ ربوہ 1388 ھ) کے صفحہ 6 پر وہ کہتا ہے : " مجھے آبِ نور سے غسل دیا گیا اور تمام داغوں اور ناپاکیوں سے چشمہ مقدس پر پاک کیا گیا۔ اور مجھے میرے رب نے احمد کہہ کر پکارا۔ سو میری تعریف کرو اور بے عزتی نہ کرو۔"
صفحہ 8 پر وہ کہتا ہے : " اے لوگو، میں محمدی مسیح ہوں، میں احمد مہدی ہوں اور میرا رب میری پیدائش کے دن سے مجھے قبر میں لٹائے جانے کے دن تک میرے ساتھ ہے۔ مجھے فنا کر دینے والی آگ اور آبِ زلال دیا گیا۔ میں ایک جنوبی ستارہ ہوں اور روحانی بارش ہوں۔"
صفحہ 87 پر وہ یہ بھی کہتا ہے : " اسی وجہ سے مجھے خدا نے آدم اور مسیح کہہ کر پکارا، جس نے، میرا خیال ہے، مریم کی تخلیق کی، اور احمد، جو فضیلت میں سب سے آگے تھا۔ یہ اُس نے اس لیے کیا تاکہ ظاہر کر سکے کہ اس نے میری روح میں نبیوں کی تمام خصوصیات جمع کر دی تھیں۔"
’البدر‘ مورخہ 5 مارچ 1908 عیسوی میں ایک مضمون کے تحت، جس کا عنوان تھا ’ہمارا دعویٰ کہ ہم رسول و نبی ہیں‘ اس نے لکھا: " اللہ کے حکم کے مطابق میں اس کا نبی ہوں۔ اگر میں اس سے انکار کرتا ہوں تو میں گنہگار ہوں۔ اگر خدا مجھے اپنا نبی کہتا ہے تو میں اس کی نفی کیسے کر سکتا ہوں۔ میں اس کے حکم کی تعمیل اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک اس دنیا سے کنارہ نہ کر لوں۔" (دیکھیے مسیح موعود کا خط بنام مدیر اخبار عام، لاہور) یہ خط مسیح موعود نے اپنے انتقال سے صرف تین دن پہلے لکھا تھا۔ 23 مئی 1908 عیسوی کو اس نے یہ خط لکھا اور 26 مئی 1908 عیسوی کو، اس کے انتقال کے دن اس اخبار میں شائع ہوا۔
’کلمہ فصیل‘ (قولِ فیصل) مصنفہ بشیر احمد قادیانی اور REVIEW OF RELIGIONS نمبر 3، جلد 4، صفحہ 110 پر شائع شدہ میں یہ عبارت شامل ہے : " اسلامی شریعت نے ہمیں نبی کا جو مطلب بتایا ہے وہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ مسیح موعود استعارتاً نبی ہو۔ بلکہ اس کا سچا نبی ہونا ضروری ہے۔"
’حقیقت النبوۃ‘ مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد میں مصنف صفحہ 174 پر اپنے منشور میں ’فرقہ احمدیہ میں داخلہ کی شرائط‘ کے عنوان سے اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے : "مسیح موعود (یعنی غلام احمد) اللہ تعالٰی کے نبی تھے اور اللہ کے نبی کا انکار سخت گستاخی ہے جو ایمان سے محرومی کی طرف لے جا سکتی ہے۔"
_________________بعض دوسرے نبیوں پر اپنی فضیلت کا غرور اور بحث
غلام احمد پر غرور اور تکبر بری طرح چھایا ہوا تھا۔ اس لئے اس نے دل کھول کر اپنی تعریف کی۔ اس نے اپنی کتاب ’استفتأ‘ میں مندرجہ ذیل عبارت کا حوالہ دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس سے اس طرح خدا نے خطاب کیا " میرے لئے تم میری وحدانیت اور انفرادیت کے بمنزلہ ہو۔ میرے لئے تم بمنزلہ میرے عرش کے ہو۔ میرے لئے تم بمنزلہ میرے بیٹے کے ہو۔"
’احمد رسول العالم الموعود‘ نامی کتاب میں شامل ایک مضمون میں وہ کہتا ہے : "حقیقت میں مجھے اللہ القدیر نے خبر دی ہے کہ اسلامی سلسلہ کا مسیح موسوی سلسلہ کے مسیح سے بہتر ہے۔" اسلامی سلسلہ کے مسیح سے اُس کی مراد بذات خود ہے۔ اسی لئے غلام احمد عیسٰی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے دعووں میں سے ایک اور یہ ہے کہ خدا نے کہ کہتے ہوئے اس سے کلام کیا : " میں نے عیسٰی کے جوہر سے تمہاری تخلیق کی اور تم اور عیسٰی ایک ہی جوہر سے ہو اور ایک ہی ہو۔" (حمامتہ البشریٰ سے) وہ کہتا ہے کہ وہ عیسٰی سے بہتر ہے۔ ’رسالہ تعلیم‘ میں صفحہ 7 پر وہ کہتا ہے : " اور یقینی طور سے جان لو کہ عیسٰی کا انتقال ہر گیا ہے اور یہ کہ اس کا مقبرہ سرینگر، کشمیر میں محلہ خانیار میں واقعہ ہے۔ اللہ نے اس کی وفات کی خبر کتاب العزیز میں دی۔ اور مجھے مسیح ناصری کی شان سے انکار نہیں حالانکہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ محمدی مسیح، مسیح ناصری سے بلند مرتبہ ہو گا۔ تاہم میں ان کا نہایت احترام کرتا ہوں کیوں کہ وہ امت موسوی میں خاتم الخلفأ تھے جس طرح میں امت محمدی میں خاتم الخلفأ ہوں۔ جس طرح مسیح ناصری ملتِ موسوی کا مسیح موعود تھا اسی طرح میں ملتِ اسلامیہ کا مسیح موعود ہوں۔"
وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فضیلت کا دعوی کرتا ہے۔ حقیقت النبوۃ، مصنفہ مرزا بشیر احمد، خلیفہ ثانی کے صفحہ 257 پر مصنف کہتا ہے : " غلام احمد حقیقت میں بعض اولی العظم رسولوں سے افضل تھے۔"
’الفضل‘ جلد 14، شمارہ 29 اپریل 1927 عیسوی سے مندجہ ذیل اقتباس پیش ہے :
"حقیقت میں انہیں بہت سے انبیا پر فوقیت حاصل ہے اور وہ تمام انبیا کرام سے افضل ہو سکتے ہیں۔"
اسی صحیفہ ’الفضل‘ کی پانچویں جلد میں ہم پڑھتے ہیں : "اصحاب محمد اور مرزا غلام احمد کے تلامذہ میں کوئی فرق نہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ بعثِ اول سے تعلق رکھتے تھے اور یہ بعثِ ثانی۔ (شمارہ نمبر 92 مورخہ 28 مئی 1918 عیسوی)۔
اسی صحیفہ ’الفضل‘ کی تیسری جلد میں ہم پڑھتے ہیں : "مرزا محمد ہیں۔" وہ خدا کے قول کی تائید کرتا ہے، "اس کا نام احمد ہے۔" (انوارِ خلافت، صفحہ 21)۔ یہ کتاب یہاں تک کہتی ہے کہ غلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی افضلیت حاصل ہے۔ ’خطبات الہامیہ‘ صفحہ 177 پر خود غلام احمد کہتا ہے : "محمد کی روحانیت نے عام وصف کے ساتھ پانچویں ہزارے کے دور میں اپنی تجلی دکھائی۔ اور یہ روحانیت اپنی اجمالی صفات کے ساتھ اس ناکافی وقت میں غایت درجہ بلندی اور اپنے منتہا کو نہیں پہنچی تھی۔ پھر چھٹے ہزارے میں (یعنی مسیح موعود غلام احمد کے زمانے میں) اس روحانیت نے اپنے انتہائی عالیشان لباس میں اپنے بلند ترین مظاہر میں اپنی تجلی دکھائی۔" اپنے رسالہ ’اعجازِ احمدی‘ میں وہ یہ اضافہ کرتا ہے :
"اُن کے لئے چاند کی روشنی گہنا گئی۔"
کیا تمہیں اس سے انکار ہے کہ میرے لئے چاند اور سورج، دونوں کہ گہن لگا۔"
اس کا دعویٰ کے اُسے خدا کا بیٹا ہونے کا فخر حاصل ہے اور وہ بمنزلہ عرش کے ہے
’استفتا‘ کے صفحہ 82 پر غلام کہتا ہے : "تم بمنزلہ میری وحدانیت اور انفرادیت کے ہو۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ تم خود کو عوام میں ظاہر کر دو اور واقف کرا دو۔ تم میرے لئے بمنزلہ میرے عرش کے ہو۔ تم میرے لئے بمنزلہ میرے بیٹے کے ہو۔ تم میرے لئے ایک ایسے مرتبہ پر فائز ہو جو مخلوق کے علم میں نہیں۔"
اجماع امت محمد یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خامتم المرسلین تھے، کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور یہ کہ جو اس سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔
قرآن پاک، سنتِ رسول اور اجماعِ امت سے بے پرواہ غلام احمد دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی اور رسول ہے۔ شریعت کے یہ تینوں ماخذ اس کے ثبوت میں شہادت دیتے ہیں کہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین اور مرسلین ہیں۔
قرآن میں خدا کا قول ہے : "محمدﷺ تم لوگوں میں سے کسی کے والد نہیں بلکہ خدا کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔"
خاتم بکسر ’تا‘ پڑھا جائے تو صفت کا اظہار کرتا ہے جو محمدﷺ کو انبیا میں سب سے آخری بیان کرتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ کے بعد کوئی بھی شخص مقام نبوت کو نہیں پہنچ سکتا۔ لہٰذا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ ایک ایسی چیز کا مدعی ہے جو اس کی رسائی سے باہر ہے۔ اسی لفظ کو بفتح ’تا‘ خاتم پڑھا جائے تو بھی عرب علما لغت کے مطابق اس کے یہ ہی معنی و تعبیر ہو گی۔ حقیقت میں مفسرین و محققین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے اور سنت صحیحہ نے بھی اسی کی تصدیق کی ہے۔ امام بخاری کی صحیح بخاری میں ابو ہریرہ سے ایک حدیث روایت کی گئی ہے اور انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ فرمایا : "بنی اسرائیل کی رہبری نبیوں کے ذریعہ کی گئی۔ ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرے نبی نے اس کی جانشینی کی۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔"
صحیح بخاری میں ایک دوسری حدیث نقل کی گئی ہے۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول خدا سے سنا۔ فرماتے تھے : میری اور مجھ سے قبل آنے والے نبیوں کی مثال اس شخص کے معاملہ جیسی ہے کہ اس نے ایک مکان بنایا، خوب اچھا اور خوبصورت لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ یہ مکان دیکھنے آتے اور مکان کی تعریف و توصیف کرتے، مگر کہتے " وہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھ دیتے تم؟" رسولِ خدا نے کہا، "وہ اینٹ میں ہوں – اور میں خاتم النبیین ہوں۔" مسلم کی روایت کے مطابق جابر سے روایت ہے کہ رسولِ خدا نے کہا "اس اینٹ کی جگہ میں ہوں۔ میں آیا اور انبیا پر مہر لگا دی۔"
یہی اجماع المسلمین ہے اور ضرورتاً مذہب کی ایک حقیقت معلومہ بن گیا ہے۔ ’خاتم النبیین‘ کی تفسیر میں امام ابنِ کثیر کا قول ہے : "اللہ تعالٰی نے ہم سے اپنی کتاب میں کہا ہے، جیسا کہ اس کے رسول نے سنتِ متواترہ میں کہا "کہ اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انہیں جان لینے دو کہ اس کے بعد جو کوئی اس مقام کا دعویٰ کرتا ہے وہ کذاب، مکار، فریبی اور دجال ہے۔" الالوسی نے اپنی تفسیر میں کہا : "اور یہ حقیقت کہ وہ (محمد رسول اللہ) خاتم النبیین ہیں، قرآن پاک میں بیان کی گئی ہے، سنت نے اس کی تصدیق کی ہے اور اُمت کا بالاتفاق اس پر اجماع ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اس کے برخلاف دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ہے۔"
خاتم النبیین کی قادیانی تفسیر
’رسالہ تعلیم‘ میں صفحہ 7 پر غلام احمد کہتا ہے : "ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، سوائے اس کے جس کو بطور جانشینی ردا محمدیہ عطا کی گئی ہو۔ اس کی ایک دوسرے تاویل میں "میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا" والی حدیث کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے بعد (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد) ان کی اُمت کے علاوہ کسی دوسری اُمت سے کوئی نبی نہیں ہو گا۔ یہ دوسری تاویل دراصل غلام احمد نے ایک دوسرے جھوٹے نبی اسحاق الاخرس سے نقل کی ہے جو سفاح کے زمانہ میں ظاہر ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ دو فرشتے اس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ وہ نبی تھا۔ اس پر اس نے کہا، "یہ کیسے ہو سکتا ہے جب اللہ تعالٰی کہہ چکا ہے کہ رسولِ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں؟" اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا، " تم سچ کہتے ہو، لیکن خدا کا مطلب یہ تھا کہ وہ ان نبیوں میں سب سے آخری تھے جو اُن کے مذہب کے نہیں تھے۔"
اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے قادیانیوں نے ’خاتم النبیین‘ کی یہ تفسیر کی کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ محمد صلی اللہ علی وسلم انبیا کی مہر ہیں تا کہ ان کے بعد آنے والے ہر نبی کی نبوت پر ان کی مہر تصدیق ثبت ہو۔ اس سلسلہ میں یہ مسیح موعود کہتا ہے : "ان الفاظ (یعنی خاتم النبیین) کا مطلب یہ ہے کہ اب کسی بھی نبوت پر ایمان نہیں لایا جا سکتا۔ تا وقتیکہ اس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت نہ ہو۔ جس طرح کوئی دستاویز اس وقت تک معتبر نہیں ہوتی جب تک اس پر مہر تصدیق ثبت نہ ہو جائے، اسی طرح ہر وہ نبوت جس پر اس کی مہر تصدیق نہیں غیر صحیح ہے۔"
’ملفوظات احمدیہ‘ مرتبہ محمد منظور الٰہی قادیانی میں صفحہ 290 پر درج ہے : "اس سے انکار نہ کرو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انبیا کی مُہر ہیں لیکن لفظ ’مُہر‘ سے وہ مراد نہیں جو عام طور پر عوام الناس کی اکثریت سمجھتی ہے، کیوں کہ یہ مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، ان کی اعلٰی و ارفع شان کے قطعی خلاف ہے۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نبوت کی نعمت عظمٰی سے محروم کر دیا۔ اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ وہ انبیا کی مہر ہیں۔ اب فی الحال کوئی نبی نہیں ہو گا سوائے اس کے جس کی تصدیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں۔ ان معنی میں ہمارا ایمان ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ (الفضل مورخہ 22 ستمبر 1939 عیسوی - الفضل ایک روزانہ اخبار ہے جو تقسیم ملک سے پہلے قادیان سے شائع ہوتا تھا۔ اب یہ ربوہ سے شائع ہوتا ہے اور قادیانیوں کا ترجمان ہے۔)
’الفضل، مورخہ 22 مئی 1922 عیسوی میں ہم پڑھتے ہیں : "مہر ایک چھاپ ہوتی ہے۔ سو اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھاپ ہیں، تو وہ یہ کیسے ہو سکتے ہیں اگر ان کی اُمت میں کوئی اور نبی نہیں؟"
اُس کا دعویٰ کہ انبیا نے اُس کی شہادت دی
وہ دعویٰ کرتا ہے کہ صالح نے اس کی شہادت دی۔ اپنی کتاب ’مکتوب احمد‘ میں صفحہ 62 پر وہ کہتا ہے : "حقیقتاً صالح نے میری صداقت کی شہادت میری دعوت سے بھی پہلے دی۔ اور کہا کہ وہ ہی عیسیٰ مسیح تھا جو آنے والا تھا۔ اس نے میرا اور میری زوجہ کا نام بتایا اور اس نے اپنے پیروؤں سے کہا : مجھے میرے رب نے ایسا ہی بتایا ہے لہٰذا میری یہ وصیت مجھ سے لے لو۔"
نزول مسیح کے بارے میں اس کے متضاد بیانات کبھی اُس کا انکار، کبھی اقرار، کبھی اس کی تاویلات – رفع مسیح کا بھی باری باری انکار، اقرار اور تاویل
’مکتوب احمد‘ صفحہ 47 پر وہ کہتا ہے : "فی الحقیقت تم نے سنا ہو گا کہ ہم قرآن کے بیان صریح کے مطابق مسیح اور اس کے رفیق کے نزول کے قائل ہیں، ہم اس نزول کے برحق ہونے کو واجب تسلیم کرتے ہیں اور ہمیں یا کسی اور کو اس سے مفسدوں کی طرح منحرف نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی کسی کو اس کے اقرار پر متکبرین کی طرح آزردہ ہونا چاہیے۔"
’حمامۃ البشریٰ‘ کے صفحہ 11 پر وہ کہتا ہے : "اس لقب کے بعد میں سوچا کرتا تھا کہ مسیح موعود ایک غیر ملکی تھا۔ اور اس پوشیدہ راز کے ظاہر ہو جانے تک، جو خدا نے اپنے بہت سے بندوں سے ان کا امتحان لینے کے لئے چھپا رکھا تھا، میں نے کبھی نہیں سوچا تھاکہ میں ہی مسیح موعود تھا۔ اور میرے رب نے ایک الہام میں مجھے عیسیٰ ابن مریم کہہ کر پکارا اور کہا : "اے عیسیٰ، میں تمیہں اپنے پاس بلاؤں گا، تمہیں اپنے تک اٹھاؤں گا اور تمہیں ان لوگوں سے پاک کروں گا جنہوں نے کفر کیا۔ میں ان لوگوں کو جنہوں نے تمہارا اتباع کیا، ان لوگوں سے اونچا مرتبہ دوں گا جو یومِ القیامت پر ایمان نہیں لائے۔ ہم نے تمہیں عیسیٰ ابن مریم بنایا اور تمہیں ایسے مرتبہ پر فائز کیا جس سے مخلوق لا علم ہے۔ اور میں نے تمہیں اپنی توحید اور انفرادیت کے مرتبہ پر فائز کیا اور آج تم میرے ساتھ ہو اور مضبوطی و حفاظت کے ساتھ متمکن ہو۔"
صفحہ 38 پر وہ کہتا ہے : "کیا انہوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا ہے کہ خدا نے قرآن میں ہر وہ اہم واقعہ بیان کیا ہے جو اس نے دیکھا۔ پھر اس نے نزول مسیح کے واقعہ کو اس کی عظیم اہمیت اور انتہائی معجزانہ ماہیت کے باوجود کیسے چھوڑ دیا؟ اگر یہ واقعہ سچا تھا تو اس کا ذکر کیوں چھوڑ دیا جبکہ یوسف کی کہانی دوہرائی؟ خدا نے کہا : "ہم تمہیں بہترین قصے سناتے ہیں۔" اور اس نے اصحابِ کہف کا قصہ سنایا۔ اس نے کہا : یہ ہماری عجیب نشانیوں ہیں سے ہیں۔ لیکن اس نے آسمان سے نزول مسیح کے بارے میں اس کی وفات کے ذکر کے بغیر کچھ نہیں کہا۔ اگر نزول کی کوئی حقیقیت ہوتی تو قرآن نے اس کا ذکر ترک نہ کیا ہوتا بلکہ اسے ایک طویل سورۃ میں بیان کیا ہوتا اور اسے کسی دوسرے قصے کی بہ نسبت بہتر بنایا ہوتا کیوں کہ اس کے عجائبات صرف اسی لئے مخصوس ہیں اور کسی دوسرے قصے میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ اُسے اُمت کے لئے ختم دنیا کی نشانی بنا دیتا۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ یہ الفاظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں کئے گئے ہیں بلکہ اس گفتگو میں اس سے ایک مجدد عظیم مراد ہے جو مسیح کے نقش قدم پر اس کے مثیل و نظیر ہو گا۔ اسے مسیح کا نام اسی طور پر دیا گیا تھا جس طرح کچھ لوگوں کو عالمِ رویا میں کسی دوسرے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔"
اسی کتاب کے صفحہ 41 پر وہ کہتا ہے : "وہ کہتے ہیں کہ مسیح آسمان سے نازل ہو گا، دجال کو قتل کر دے گا اور عیسائیوں سے جنگ کرے گا۔ یہ تمام خیالات ’خاتم النبیین‘ کے الفاظ کے بارے میں سئے فہمی اور غور و فکر کی کمی کا نتیجہ ہیں۔"
نزول ملائکہ کے بارے میں اس کی توضیح اور اس کا ادّعا کہ وہ خدا کے بازو ہیں
’حمامۃ البشریٰ‘ کے صفحہ 98 پر وہ کہتا ہے : اور دیکھو ملائکہ کو، کہ خدا نے ان کی اپنے بازوؤں کے طور پر کیسے تخلیق کی۔"
’تحفہ بغداد‘ کے صفحہ 34 پر وہ لکھتا ہے : "اور ہم فرشتوں، ان کے مرتبوں اور درجوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کے نزول پر ایمان رکھتے ہیں کہ نزول انوار کی طرح ہوتا ہے نہ کہ ایک انسان کی ایک جگہ سے دوسرے جگہ نقل و حرکت کی طرح۔ وہ اپنا مقام نہیں چھوڑتے۔"