- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
الیومیہ للحسینوی
روزانہ کے علمی فوائد پر مشتمل ڈائڑی
اس میں وہ فوائد جمع کیے جائیں گے جو راقم کو روزانہ دوران مطالعہ ملیں گے ان شا اللہ
٤نومبر ٢٠١١
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے مرسل صحابی کی وجہ سے صحیح بخاری پر طعن کیا (نعمۃ الباری :٣ص٥٩٢)حالانکہ مرسل صحابی صحیح ہوتی ہے ۔
امام نوویؒ مقدمہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
"وامامرسل الصحابی وھوروایۃ مالم یدرکہ اویحضرہ کقول عائشۃ رضی اللہ عنہا اول مابدیٔ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فمذہب الشافعی والجماھیر انہ یحتج بہ وقال الاستاذ الامام ابواسحاق الاسفراینی الشافعی انہ لایحتج بہ الاان یقول انہ لایروی الاعن صحابی والصواب الاول"۔
(مقدمہ صحیح مسلم للنووی:۱۷، طبع ہند)
ترجمہ:اوررہا معاملہ مرسلاتِ صحابہ کا اور وہ ایسی روایات ہیں جن کا زمانہ اس راوی نے نہ پایا ہو یازمانہ پایا ہومگراس مجلس میں اس نے حاضری نہ پائی ہو توامام شافعی اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑی جاسکتی ہے؛ البتہ امام ابواسحاق اسفرائنی کہتے ہیں اس قسم کی روایات سے استناد صحیح نہیں، ہاں اگر وہ کہے کہ وہ صحابی، صحابی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتا توپھر اسے اُن کے ہاں بھی قبول کیا جاسکے گا اور صحیح بات پہلی ہے (کہ مرسلاتِ صحابہ مطلقاً لائقِ قبول ہیں)۔
آپ ایک دوسرے مقام پر ایک حدیث کی بحث میں لکھتے ہیں:
"ھذا الحدیث من مراسیل الصحابۃ وہوحجۃ عندالجماھیر"۔(شرح مسلم للنووی:۲/۲۸۴)
ترجمہ: یہ حدیث صحابہؓ کی مرسل روایات میں سے ہے اور وہ جمہور علماءِ اسلام کے نزدیک حجت ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک بحث میں لکھتے ہیں:
"ویستفاد من الحکم بصحۃ ماکان ذلک سبیلہ صحۃ الاحتجاج بمراسیل الصحابۃ"۔(فتح الباری،باب قول المحدث حدثنا وأخبرنا وأنبأنا:۱/۱۴۴، شاملہ،الناشر: دار المعرفة،بيروت،۱۳۷۹)
ترجمہ: اس طرح کی باتوں پر صحیح کا حکم لگانے سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑنا قانونی طور پر صحیح ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے دور میں قبولیت روایت کا مدار اعتماد اور وثوق پر ہی رہا ہے، روایت کا متصل ہونا ضروری نہ تھا، صحابہ کرام کا عادل اور ثقہ ہونا یقینی اور قطعی دلائل سے معلوم تھا تواب ان کی مرسلات بھی حجت سمجھی گئیں، اللہ تعالیٰ نے جب اُن کی عدالت پر مہر کردی تواب اس کی کیا ضرورت ہے کہ ائمہ حدیث میں سے کوئی ان کی تعدیل کرے، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:
"ان عدالۃ الصحابۃ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لھم.... فلایحتاج احدمنہم مع تعدیل اللہ لہم المطلع علی بواطنہم الی تعدیل احد من الخلق لہ"۔
(الکفایہ فی علوم الروایہ:۴۸،۴۶)
ترجمہ: صحابہ کی عدالت اللہ کی تعدیل سے معلوم اور ثابت ہے؛ سوصحابہ میں سے کوئی بھی کیوں نہ ہو وہ کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تعدیل حاصل ہے جوان کے بواطن امور پر پوری طرح مطلع ہے اور انہیں عادل قرار دے رہا ہے۔
محدثین کے اصول اور ان کی تحقیق کے مطابق اگر کسی روایت کی سند صحابی تک پہنچ جائے اوردیگر رواة میں انقطاع نہ ہو تو یہ مرسل کہلاتی ہے ،اور حدیث کی یہ قسم مقبول ہے۔ صحابی نے براہ راست آنحضرت ا سے سنا ہو (یعنی جس واقعہ کو صحابی نے بیان کیا ہے) یا کسی دوسرے صحابی سے سنا ہو۔مشہور محقق عالم مولانا عبد العزیز الفرہاروی اپنی کتاب ”کوثر النبی،، میں فرماتے ہیں:
”اذا روی الصحابی مالم یشاہدہ فحدیثہ یسمی مرسل الصحابی کروایة احداث الصحابة کالسبطین وابن عباس وابن الزبیر… والصحیح انہ موصول اذا غالب ان الصحابی لایروی الا عن مثلہ اھ،،۔
ترجمہ:۔”جب صحابی ایسا واقعہ روایت کرے جس کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو یہ روایت مرسل صحابی کہلاتی ہے، جیسے چھوٹے صحابہ مثلاً حضرات حسنین، ابن عباس اور ابن زبیر کی روایت… صحیح بات یہ ہے کہ یہ متصل ہے جب کہ یقین غالب ہو کہ صحابی ہی سے روایت کررہا ہے،،۔
خود صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ وہ ابن عباس کی روایات کو قبول کرتے، حالانکہ ان کا شمار چھوٹے صحابہ میں تھا، کسی نے بھی اس کی تحقیق کی ضرورت نہ سمجھی کہ ان کو یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی؟ وجہ صرف یہی تھی کہ صحابہ کرام ایک دوسرے سے اور موقع بموقع خود رسول اللہ سے استفادہ کرتے رہتے تھے، اسی وجہ سے اجماع ہوگیا کہ مرسل مقبول ہے، مولانا ظفر احمد تھانوی فرماتے ہیں:
”…اما الاجماع: فہو ان الصحابة والتابعین اجمعوا علی قبول المراسیل من العدل ،اما الصحابة فانہم قبلوا اخبار عبد الله بن عباس مع کثرة روایتہ وقد قیل انہ لم یسمع من رسول الله سوی اربعة احادیث لصغر سنہ،،۔
ترجمہ:۔”باقی رہا اجماع: تو صحابہ وتابعین کا عادل شخص کی مرسل کو قبول کرنے پر اجماع ہے،صحابہ کرام نے ابن عباس کی روایات کو بکثرت ہونے کے باوجود قبول کیا، حالانکہ کہا جاتاہے کہ انہوں نے چھوٹی عمر کی وجہ سے براہ راست صرف چار حدیثوں کو رسول خدا سے سنا،،۔
مرسل صحابی تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہے اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں مگر افسوس کی شارح بریلوی سعیدی صاحب صحیح بخاری سے دشمنی اپناتے ہوئے مرسل صحابی حدیث کی وجہ سے طعن کر رہے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون
نیز دیکھئے البشارہ ڈاٹ کام
روزانہ کے علمی فوائد پر مشتمل ڈائڑی
اس میں وہ فوائد جمع کیے جائیں گے جو راقم کو روزانہ دوران مطالعہ ملیں گے ان شا اللہ
٤نومبر ٢٠١١
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے مرسل صحابی کی وجہ سے صحیح بخاری پر طعن کیا (نعمۃ الباری :٣ص٥٩٢)حالانکہ مرسل صحابی صحیح ہوتی ہے ۔
امام نوویؒ مقدمہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
"وامامرسل الصحابی وھوروایۃ مالم یدرکہ اویحضرہ کقول عائشۃ رضی اللہ عنہا اول مابدیٔ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فمذہب الشافعی والجماھیر انہ یحتج بہ وقال الاستاذ الامام ابواسحاق الاسفراینی الشافعی انہ لایحتج بہ الاان یقول انہ لایروی الاعن صحابی والصواب الاول"۔
(مقدمہ صحیح مسلم للنووی:۱۷، طبع ہند)
ترجمہ:اوررہا معاملہ مرسلاتِ صحابہ کا اور وہ ایسی روایات ہیں جن کا زمانہ اس راوی نے نہ پایا ہو یازمانہ پایا ہومگراس مجلس میں اس نے حاضری نہ پائی ہو توامام شافعی اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑی جاسکتی ہے؛ البتہ امام ابواسحاق اسفرائنی کہتے ہیں اس قسم کی روایات سے استناد صحیح نہیں، ہاں اگر وہ کہے کہ وہ صحابی، صحابی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتا توپھر اسے اُن کے ہاں بھی قبول کیا جاسکے گا اور صحیح بات پہلی ہے (کہ مرسلاتِ صحابہ مطلقاً لائقِ قبول ہیں)۔
آپ ایک دوسرے مقام پر ایک حدیث کی بحث میں لکھتے ہیں:
"ھذا الحدیث من مراسیل الصحابۃ وہوحجۃ عندالجماھیر"۔(شرح مسلم للنووی:۲/۲۸۴)
ترجمہ: یہ حدیث صحابہؓ کی مرسل روایات میں سے ہے اور وہ جمہور علماءِ اسلام کے نزدیک حجت ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک بحث میں لکھتے ہیں:
"ویستفاد من الحکم بصحۃ ماکان ذلک سبیلہ صحۃ الاحتجاج بمراسیل الصحابۃ"۔(فتح الباری،باب قول المحدث حدثنا وأخبرنا وأنبأنا:۱/۱۴۴، شاملہ،الناشر: دار المعرفة،بيروت،۱۳۷۹)
ترجمہ: اس طرح کی باتوں پر صحیح کا حکم لگانے سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑنا قانونی طور پر صحیح ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے دور میں قبولیت روایت کا مدار اعتماد اور وثوق پر ہی رہا ہے، روایت کا متصل ہونا ضروری نہ تھا، صحابہ کرام کا عادل اور ثقہ ہونا یقینی اور قطعی دلائل سے معلوم تھا تواب ان کی مرسلات بھی حجت سمجھی گئیں، اللہ تعالیٰ نے جب اُن کی عدالت پر مہر کردی تواب اس کی کیا ضرورت ہے کہ ائمہ حدیث میں سے کوئی ان کی تعدیل کرے، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:
"ان عدالۃ الصحابۃ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لھم.... فلایحتاج احدمنہم مع تعدیل اللہ لہم المطلع علی بواطنہم الی تعدیل احد من الخلق لہ"۔
(الکفایہ فی علوم الروایہ:۴۸،۴۶)
ترجمہ: صحابہ کی عدالت اللہ کی تعدیل سے معلوم اور ثابت ہے؛ سوصحابہ میں سے کوئی بھی کیوں نہ ہو وہ کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تعدیل حاصل ہے جوان کے بواطن امور پر پوری طرح مطلع ہے اور انہیں عادل قرار دے رہا ہے۔
محدثین کے اصول اور ان کی تحقیق کے مطابق اگر کسی روایت کی سند صحابی تک پہنچ جائے اوردیگر رواة میں انقطاع نہ ہو تو یہ مرسل کہلاتی ہے ،اور حدیث کی یہ قسم مقبول ہے۔ صحابی نے براہ راست آنحضرت ا سے سنا ہو (یعنی جس واقعہ کو صحابی نے بیان کیا ہے) یا کسی دوسرے صحابی سے سنا ہو۔مشہور محقق عالم مولانا عبد العزیز الفرہاروی اپنی کتاب ”کوثر النبی،، میں فرماتے ہیں:
”اذا روی الصحابی مالم یشاہدہ فحدیثہ یسمی مرسل الصحابی کروایة احداث الصحابة کالسبطین وابن عباس وابن الزبیر… والصحیح انہ موصول اذا غالب ان الصحابی لایروی الا عن مثلہ اھ،،۔
ترجمہ:۔”جب صحابی ایسا واقعہ روایت کرے جس کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو یہ روایت مرسل صحابی کہلاتی ہے، جیسے چھوٹے صحابہ مثلاً حضرات حسنین، ابن عباس اور ابن زبیر کی روایت… صحیح بات یہ ہے کہ یہ متصل ہے جب کہ یقین غالب ہو کہ صحابی ہی سے روایت کررہا ہے،،۔
خود صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ وہ ابن عباس کی روایات کو قبول کرتے، حالانکہ ان کا شمار چھوٹے صحابہ میں تھا، کسی نے بھی اس کی تحقیق کی ضرورت نہ سمجھی کہ ان کو یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی؟ وجہ صرف یہی تھی کہ صحابہ کرام ایک دوسرے سے اور موقع بموقع خود رسول اللہ سے استفادہ کرتے رہتے تھے، اسی وجہ سے اجماع ہوگیا کہ مرسل مقبول ہے، مولانا ظفر احمد تھانوی فرماتے ہیں:
”…اما الاجماع: فہو ان الصحابة والتابعین اجمعوا علی قبول المراسیل من العدل ،اما الصحابة فانہم قبلوا اخبار عبد الله بن عباس مع کثرة روایتہ وقد قیل انہ لم یسمع من رسول الله سوی اربعة احادیث لصغر سنہ،،۔
ترجمہ:۔”باقی رہا اجماع: تو صحابہ وتابعین کا عادل شخص کی مرسل کو قبول کرنے پر اجماع ہے،صحابہ کرام نے ابن عباس کی روایات کو بکثرت ہونے کے باوجود قبول کیا، حالانکہ کہا جاتاہے کہ انہوں نے چھوٹی عمر کی وجہ سے براہ راست صرف چار حدیثوں کو رسول خدا سے سنا،،۔
مرسل صحابی تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہے اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں مگر افسوس کی شارح بریلوی سعیدی صاحب صحیح بخاری سے دشمنی اپناتے ہوئے مرسل صحابی حدیث کی وجہ سے طعن کر رہے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون
نیز دیکھئے البشارہ ڈاٹ کام