عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
تحریر: بابر نایاب
آج تیزی سے گھر کی طرف جاتے عروج یہی سوچ کر خوشی محسوس کر رہی تھی کہ آج اُ س نے امی کے لیئے وہ دوائیں خرید لی جو بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے کافی عرصے سے خرید نہیں پا رہی تھی مگر آج اپنی تنخواہ لیتے ہی پہلی فرصت میں امی کیلئے دوائیں خرید لیں ۔بس سٹاپ پر لگی بھیڑکو دیکھ کر عروج کو احساس ہوا آج مشکل سے ہی بس میں جگہ ملے گی، مگر خود کو حوصلہ دیتی بس کا انتظار کرنے لگ گئی ہمیشہ کی طرح دھکے کھاتے اُسے جگہ مل ہی گئی اور بس چل پڑی ۔لوگوں کی ہوس بھری نظریں عروج کو اپنے جسم میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی مگر یہ تو روز کا معمول تھا اور اب تو عروج ایسی نگاہوں کی عادی ہو چکی تھی ۔شدید گرمی میں بس کا سفر کرنا گویا کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا، بس میں گرم ہوا کے تھپیڑے مسلل آ رہے تھے مگر لوگ اس گرمی سے بے نیاز ہو کر اپنی سوچوں اور خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔کو ئی کرایہ پر چیخ چیخ کر جھگڑا کررہا تھا ۔ایک عورت کا بچہ اس کی گود میں بےٹھا کب سے چیخے جا رہا تھا اوپر سے ڈرائیور نے اپنے مزاج کے مطابق دیسی قسم کا گانا لگا رکھا تھا جس کی آواز نے ماحول میں ہلچل مچائی ہوئی تھی ۔ ان تمام پل صراطوں سے گزرنا عروج کی لازوال ہمت تھی اور اس ہمت کے پیچھے اس کی چارپائی پر پڑی امی اور بہنوں کی پڑھائی اور گھر کے ہو شربا اخراجات پوشیدہ تھے ۔