اظہر نذیر [1]
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے نیک اور صالح اعمال آخرت میں اللہ کے حضور اس کے لئے سفارش کریں گے ہی۔ لیکن کئی احادیث اور آیات کے مطابق وہ اس دنیا میں بھی کبھی کبھار خدائے لم یزل کے سامنے دست شفاعت دراز کرتے ہیں۔اور ان کی وجہ سے انسان کو بعض پریشانیوں ، دکھوں اور مصیبتوں سے نجات بھی ملتی ہے۔اس سلسلے میں واضح رہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اورا طاعت جیسے اعمال کرتا ہے تو اللہ کو ان کی ضرورت و حاجت نہیں بلکہ یہ اللہ اپنے بندوں پر اپنی رحمت اور فضل کی وجہ سے غموں سے نجات دلاتا ہے۔
بہر حال آئیندہ اوراق میں اس بات کی وضاحت کرنے کوشش کی جائے گی کہ ایک انسان کو جو نفسیاتی اور جسمانی دکھ یا غم وغیرہ پہنچتے ہیں انہیں دور کرنے میں نیک اور صالح اعمال کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
واضح رہے کہ مصیبتوں اور دکھوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ۔ایک نفسیاتی اور اندرونی ، دوسری جسمانی اور بیرونی ذیل میں دونوں کابالتفصیل ذکر کرنا چاہوں گا۔
نفسیاتی پریشانیاں:
نفسیاتی پریشانیوں سے مراد وہ تمام نفسیاتی امراض اور جلد اثر کر جانے والے جذبات ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنا توازن اور خود پہ کنٹرول کھو بیٹھتا ہے۔اگر چہ اس طرح کی پریشانیاں بہت زیادہ ہیں اور ان پر علیحدہ علیحدہ بالتفصیل بحث ہو سکتی ہے لیکن ہم ان میں سے صرف انہی کا ذکر کریں گے جن کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں۔
1:الهم:(پریشانی)
انسان کا معمولی و غیر معمولی چیزوں کے بارے مسلسل پریشان رہنا الہم کہلاتا ہے ۔ بعض اوقات یہ پریشانی مستقبل میں درپیش چیلنجز اور مسئولیت کے بارہ میں ہوتی ہے ۔یہ ایسا نفسیاتی مرض ہے جو شیطان انسان کے دل میں وسوسوں کی صورت میں ڈالتا ہے اور اسکے روز مرہ کے معمولات کو 'اگرچہ وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں' ایک پہاڑ کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔یہ پریشانیاں انسان کو کمزور کردیتی ہیں اور انسان حوادثات زمانہ میں پھنس کر رہ جاتاہے ،خصوصا جب انسان اپنے خالق حقیقی سے کٹ جائے ، سنت نبوی سے اپنے مسائل کا حل تلاش نہ کرے اور اپنے ازلی دشمن کی پیروی کرے تو اللہ تعالی انسان کو ان پریشانیوں کے ذریعے آزماتے ہیں تا کہ انسان معصیت کو چھوڑتے ہوئے رجوع الی اللہ کرے اور اپنے پیدا کرنے والے کی رضا و منشاء کے مطابق چلے ۔
ان آلام ومصائب سے تب ہی چھٹکارا ممکن ہے جب انسان اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اعمال صالحہ بجا لائے ، اپنی معصیت و سرکشی ترک کرکے انتہائی عاجزی اختیار کرے، ایسے ہی تلاوت قرآن اور کثرت استغفار کو اللہ کی بار گاہ میں وسیلہ بنائےتاکہ وہ غفور و رحیم ذات غموں کو دور کردے اور اسے عافیت و سکون عطا فرمائے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان پریشانیوں سے نکلنے اور علاج کیلئے کئی دعاؤں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے:
«مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ»[1]
''جس نے استغفار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ، اللہ تعالی اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ اور غموں سے راحت کا سامان پیدا فرمادے گا ۔ اور اسے ایسے مقامات سے رزق مہیا فرمائے گا جن کا اسے وہم گمان بھی نہ ہوگا''
نبی ﷺ نے غم و پریشانی کے وقت کی ایک دعا سکھلائی جب بھی کوئی آلام و مصائب کے وقت یہ دعا پڑےگا اللہ ضرور اسے غموں سے نجات دے گا اور اسکی پریشانیوں کو خوشیوں میں تبدیل کردے گا:
اسے ماہرین نفسیات کی اصطلاح میں ''کآبہ'' کےنام سے پہچاناجاتا ہے۔ یہ لفظ اکثر ان غموں پر بولا جاتا ہے جو کسی معین حادثہ کی پیش آنے کی وجہ سے لگ جاتے ہیں یا کئی حادثات کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسے اپنے کسی عزیز کی گمشدگی ،مالی خسارہ ،طویل مرض کا لگ جانا یا نامناسب سوسائٹی کے ساتھ رہنا پڑھ جائے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہوتے ہیں جو انسان کے ہاں اس طرح کے غم کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ، یہ ایک طبعی وفطری معاملہ ہے چنانچہ جب اس کے اسباب پائے جائیں گے تو یہ صورت حال ضرور پیدا ہو گی ۔ تقریبا ہر انسان اس میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ایسے میں ان غموں سے چھٹکا را صرف قرآنی احکامات اورسنت نبوی سے ہی ممکن ہے ۔ اسوۂ رسول ﷺ سے ایسی ہی رہنمائی ہمیں ا س وقت ملتی جب آپﷺ کے لخت جگر کی وفات ہوئی۔ اس حادثے کا آپﷺ نے گہرا اثر لیتے ہوئے فرمایا تھا، اے ابراہیم !تیری جدائی نے اتنا غمگین کردیا ہے کہ آنکھیں بہہ رہی اور دل افسردہ ہے لیکن ہم زبان سے صرف وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو ۔
یعقوب نے بھی آپﷺسےپہلے یوسف کی گمشدگی کےوقت اللہسے شکایت کی تھی:
ان مصائب کے بھنور سے انسان کو نکالنے کے لیے ، جو انسان کو امراض کی طرف دھکیل دیتے ہیں ، بہت ساری احادیث ہیں ، یہ احادیث جہاں انسان کو سکون دیتی ہیں وہاں ساتھ ساتھ مصائب میں زیادتی کو روکتی ہیں یہاں تک کہ انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے اور رحمت الہی سے اس کے معاملات ٹھیک ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔ نبیﷺ نے اپنے صحابہ اور اپنے بعد اپنی امت کو یہ بات سکھلائی کہ اعمال صالحہ کرنے سے نہ رکیں۔ یہ انسان کے ایمان و یقین کو مضبوط کرتے ہیں اور اللہ کی رضا و منشاء پر راضی رہنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔
یہ وہی غم ہے جو اللہ کے نبی یعقوب کو لاحق ہوا تھا۔ جب انکی آنکھوں کی ٹھنڈک ،انتہائی محبوب لخت جگر یوسف کے ایک طویل عرصہ تک گم ہونے کی وجہ سے جو پریشانی ملی کہ ان کے بارہ کچھ بھی معلوم نہ تھا ، لیکن اس کے بعد جب دوسرا بیٹابھی اپنے بھائیوں کے ساتھ مصر کے تجارتی سفر میں کھو گیا تو انہیں یہ حزن ،یہ غم چمٹ گیا لیکن انہوں نے مایوسی کو اختیار نہ کیا بلکہ وہ اللہ وعدے کے مطابق پختہ رہے اور بلکہ اس سے ان کا تعلق باللہ اور بھی مضبوط ہوگیا ،اللہ کے ساتھ اوراللہ کی حکمت بالغہ پر یقین میں اضافہ ہوگیا۔ وہ صبر اور بدلہ کی امید کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سے فریاد کناں ہوئے۔
﴿قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ﴾
اللہ کے علاوہ کسی معبود،بادشاہ ،صنم کے سامنے نہ جھکے اور نہ ہی کسی کاہن و فریب خور اور دھوکے باز سے فریاد کی۔ ان کے اتنے بڑے غم کی کشادگی اور خوشی کا یہی سبب تھا جو ناقابل بیان ہے کہ جب خوش خبری دینے والا یوسف کی قمیص لایا تو وہ اپنے ان آلام اور نفسیاتی پریشانیوں سے نکل آئے جو یوسف اور اسکے بھائی کے فراق میں ان کے ساتھ چمٹ گئیں تھیں اور انکی بینائی لوٹ آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]متعلم جامعہ لاہور الاسلامیہ
[2] ألباني : ضعيف،السلسة الضعيفة: 705
[3] السلسلة الصحيحة:972 -
[4] صحيح بخاری:5425
[5] يوسف : 86
(جاری ہے ۔۔۔۔۔)
اصلاح معاشرہ
غموں کو دور کرنے میں نیک اعمال کا کردار
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على هادي الأنام وخاتم الأنبياء والمرسلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد:یہ مضمون ایک عربی کتاب کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ جس میں موجودہ دور کی پریشانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عمومی نفسیاتی تجزیہ کیا گیا تھا۔جسے قاری اظہر نذیر صاحب نے اردو دان حضرات کے لیے ترتیبی اور اسلوبی تبدیلیوں کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ادارہ
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے نیک اور صالح اعمال آخرت میں اللہ کے حضور اس کے لئے سفارش کریں گے ہی۔ لیکن کئی احادیث اور آیات کے مطابق وہ اس دنیا میں بھی کبھی کبھار خدائے لم یزل کے سامنے دست شفاعت دراز کرتے ہیں۔اور ان کی وجہ سے انسان کو بعض پریشانیوں ، دکھوں اور مصیبتوں سے نجات بھی ملتی ہے۔اس سلسلے میں واضح رہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اورا طاعت جیسے اعمال کرتا ہے تو اللہ کو ان کی ضرورت و حاجت نہیں بلکہ یہ اللہ اپنے بندوں پر اپنی رحمت اور فضل کی وجہ سے غموں سے نجات دلاتا ہے۔
بہر حال آئیندہ اوراق میں اس بات کی وضاحت کرنے کوشش کی جائے گی کہ ایک انسان کو جو نفسیاتی اور جسمانی دکھ یا غم وغیرہ پہنچتے ہیں انہیں دور کرنے میں نیک اور صالح اعمال کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
واضح رہے کہ مصیبتوں اور دکھوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ۔ایک نفسیاتی اور اندرونی ، دوسری جسمانی اور بیرونی ذیل میں دونوں کابالتفصیل ذکر کرنا چاہوں گا۔
نفسیاتی پریشانیاں:
نفسیاتی پریشانیوں سے مراد وہ تمام نفسیاتی امراض اور جلد اثر کر جانے والے جذبات ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنا توازن اور خود پہ کنٹرول کھو بیٹھتا ہے۔اگر چہ اس طرح کی پریشانیاں بہت زیادہ ہیں اور ان پر علیحدہ علیحدہ بالتفصیل بحث ہو سکتی ہے لیکن ہم ان میں سے صرف انہی کا ذکر کریں گے جن کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں۔
1:الهم:(پریشانی)
انسان کا معمولی و غیر معمولی چیزوں کے بارے مسلسل پریشان رہنا الہم کہلاتا ہے ۔ بعض اوقات یہ پریشانی مستقبل میں درپیش چیلنجز اور مسئولیت کے بارہ میں ہوتی ہے ۔یہ ایسا نفسیاتی مرض ہے جو شیطان انسان کے دل میں وسوسوں کی صورت میں ڈالتا ہے اور اسکے روز مرہ کے معمولات کو 'اگرچہ وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں' ایک پہاڑ کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔یہ پریشانیاں انسان کو کمزور کردیتی ہیں اور انسان حوادثات زمانہ میں پھنس کر رہ جاتاہے ،خصوصا جب انسان اپنے خالق حقیقی سے کٹ جائے ، سنت نبوی سے اپنے مسائل کا حل تلاش نہ کرے اور اپنے ازلی دشمن کی پیروی کرے تو اللہ تعالی انسان کو ان پریشانیوں کے ذریعے آزماتے ہیں تا کہ انسان معصیت کو چھوڑتے ہوئے رجوع الی اللہ کرے اور اپنے پیدا کرنے والے کی رضا و منشاء کے مطابق چلے ۔
ان آلام ومصائب سے تب ہی چھٹکارا ممکن ہے جب انسان اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اعمال صالحہ بجا لائے ، اپنی معصیت و سرکشی ترک کرکے انتہائی عاجزی اختیار کرے، ایسے ہی تلاوت قرآن اور کثرت استغفار کو اللہ کی بار گاہ میں وسیلہ بنائےتاکہ وہ غفور و رحیم ذات غموں کو دور کردے اور اسے عافیت و سکون عطا فرمائے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان پریشانیوں سے نکلنے اور علاج کیلئے کئی دعاؤں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے:
«مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ»[1]
''جس نے استغفار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ، اللہ تعالی اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ اور غموں سے راحت کا سامان پیدا فرمادے گا ۔ اور اسے ایسے مقامات سے رزق مہیا فرمائے گا جن کا اسے وہم گمان بھی نہ ہوگا''
نبی ﷺ نے غم و پریشانی کے وقت کی ایک دعا سکھلائی جب بھی کوئی آلام و مصائب کے وقت یہ دعا پڑےگا اللہ ضرور اسے غموں سے نجات دے گا اور اسکی پریشانیوں کو خوشیوں میں تبدیل کردے گا:
یہی وجہ ہے کہ رحمت کائنات ہموم و غموم سے بہت زیادہ پناہ مانگتے تھے اور یہ دعا پڑھتے تھے:«مَا قَالَ عَبْدٌ قَطُّ إِذَا أَصَابَهُ هَمٌّ وَحَزَنٌ: اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي، إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ هَمَّهُ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَ حُزْنِهِ فَرَحًا»[2]
''اے اللہ ! میں تیرا بندہ ہوں ، تیرے بندے کا بیٹا ہوں ، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، تیرا حکم مجھ پر جاری ہے میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر اس خالص نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جو تو نے خود اپنا نام رکھا ہے یا اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلایا ہے یا علم الغیب میں اسے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کانور اورمیرے غم کا مداوا اور میرے فکر کو لے جانے والا بنادے ''
2۔حزن: (غم)«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالجُبْنِ وَالبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ»[3]
''اے اللہ ! میں غم اور پریشانی سے،عاجز ہو جانے سے ، سستی سے ، بخل ،بزدلی و قرض کے بوجھ سےاور لوگوں کے غالب آجانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔''
اسے ماہرین نفسیات کی اصطلاح میں ''کآبہ'' کےنام سے پہچاناجاتا ہے۔ یہ لفظ اکثر ان غموں پر بولا جاتا ہے جو کسی معین حادثہ کی پیش آنے کی وجہ سے لگ جاتے ہیں یا کئی حادثات کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسے اپنے کسی عزیز کی گمشدگی ،مالی خسارہ ،طویل مرض کا لگ جانا یا نامناسب سوسائٹی کے ساتھ رہنا پڑھ جائے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہوتے ہیں جو انسان کے ہاں اس طرح کے غم کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ، یہ ایک طبعی وفطری معاملہ ہے چنانچہ جب اس کے اسباب پائے جائیں گے تو یہ صورت حال ضرور پیدا ہو گی ۔ تقریبا ہر انسان اس میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ایسے میں ان غموں سے چھٹکا را صرف قرآنی احکامات اورسنت نبوی سے ہی ممکن ہے ۔ اسوۂ رسول ﷺ سے ایسی ہی رہنمائی ہمیں ا س وقت ملتی جب آپﷺ کے لخت جگر کی وفات ہوئی۔ اس حادثے کا آپﷺ نے گہرا اثر لیتے ہوئے فرمایا تھا، اے ابراہیم !تیری جدائی نے اتنا غمگین کردیا ہے کہ آنکھیں بہہ رہی اور دل افسردہ ہے لیکن ہم زبان سے صرف وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو ۔
یعقوب نے بھی آپﷺسےپہلے یوسف کی گمشدگی کےوقت اللہسے شکایت کی تھی:
جب اس طرح کے حالات ایک طویل مدت رہتے ہیں اور انسان مسائل حل کرنے یا ان کا سامنا کرنے سے خود کو عاجز پاتا ہے تو مزید آنے والے مصائب پر اسکی فکر مندی بڑھ جاتی ہے ، تب یہ ایک نفسیاتی پریشانی بن جاتی ہے اور باقی امراض کی طرح اسکا علاج بھی ضروری ہو جاتا ہے ۔ اگر ان حالات پر توجہ نہ دی جائے تو انسانی طبعیت میں ایسے بڑے رخنے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جہاں سے شیطان کوداخل ہونے کا مسلسل موقع ملتا رہتا ہے ، پھر وہ جس طرح چاہتا ہےبہکاتا ہے ،معاصی ومنکرات کو انسان کے لیے مزین کردیتاہے ۔﴿قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ﴾[4]
''یعقوب نے کہا : میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اللہ سے کرتا ہوں ''
ان مصائب کے بھنور سے انسان کو نکالنے کے لیے ، جو انسان کو امراض کی طرف دھکیل دیتے ہیں ، بہت ساری احادیث ہیں ، یہ احادیث جہاں انسان کو سکون دیتی ہیں وہاں ساتھ ساتھ مصائب میں زیادتی کو روکتی ہیں یہاں تک کہ انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے اور رحمت الہی سے اس کے معاملات ٹھیک ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔ نبیﷺ نے اپنے صحابہ اور اپنے بعد اپنی امت کو یہ بات سکھلائی کہ اعمال صالحہ کرنے سے نہ رکیں۔ یہ انسان کے ایمان و یقین کو مضبوط کرتے ہیں اور اللہ کی رضا و منشاء پر راضی رہنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔
یہ وہی غم ہے جو اللہ کے نبی یعقوب کو لاحق ہوا تھا۔ جب انکی آنکھوں کی ٹھنڈک ،انتہائی محبوب لخت جگر یوسف کے ایک طویل عرصہ تک گم ہونے کی وجہ سے جو پریشانی ملی کہ ان کے بارہ کچھ بھی معلوم نہ تھا ، لیکن اس کے بعد جب دوسرا بیٹابھی اپنے بھائیوں کے ساتھ مصر کے تجارتی سفر میں کھو گیا تو انہیں یہ حزن ،یہ غم چمٹ گیا لیکن انہوں نے مایوسی کو اختیار نہ کیا بلکہ وہ اللہ وعدے کے مطابق پختہ رہے اور بلکہ اس سے ان کا تعلق باللہ اور بھی مضبوط ہوگیا ،اللہ کے ساتھ اوراللہ کی حکمت بالغہ پر یقین میں اضافہ ہوگیا۔ وہ صبر اور بدلہ کی امید کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سے فریاد کناں ہوئے۔
﴿قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ﴾
اللہ کے علاوہ کسی معبود،بادشاہ ،صنم کے سامنے نہ جھکے اور نہ ہی کسی کاہن و فریب خور اور دھوکے باز سے فریاد کی۔ ان کے اتنے بڑے غم کی کشادگی اور خوشی کا یہی سبب تھا جو ناقابل بیان ہے کہ جب خوش خبری دینے والا یوسف کی قمیص لایا تو وہ اپنے ان آلام اور نفسیاتی پریشانیوں سے نکل آئے جو یوسف اور اسکے بھائی کے فراق میں ان کے ساتھ چمٹ گئیں تھیں اور انکی بینائی لوٹ آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]متعلم جامعہ لاہور الاسلامیہ
[2] ألباني : ضعيف،السلسة الضعيفة: 705
[3] السلسلة الصحيحة:972 -
[4] صحيح بخاری:5425
[5] يوسف : 86
(جاری ہے ۔۔۔۔۔)