اور محدث میگزین میں ہی ایک حدیث پر بحث کرتےہوئے لکھا ہے "پس اگر حسن بصری کاعمران بن الحصین سے سماع ثابت نہ ہو تو یہ سند منقطع قرار پائے گی ،
اگر یہ سماع بقول امام حاکم وبزار ثابت تسلیم کرلیا جائے تو بھی حسن بصری پر عنعنہ وتدلیس کی علت بہر صورت برقرار رہے گی"
http://magazine.mohaddis.com/shumara/253-nov-1994/2799-hadees-tahqeeq
یہی بات میں سمجھا ہوں اور سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
اگر غلط سمجھا ہوں تو برائے مہربانی تصیح فرما دیں۔ جزاک اللہ خیر
دوسری بات جہاں تک میں مجھے علم ہے مذکورہ بالا روای کانام عبدالرحمن بن عبداللہ بن عتبہ بن عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) ہے
کسی راوی کو کا نام جیسا میںنے اوپر لکھا ہے ویسے لکھ لیں تو بھی ٹھیک ہے اور ایسے بھی اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی سنت ہے اور محدثین کا بھی اسی پر عمل ہے کے جب ایک راوی کا تعین ہو جائے
مثال کے طور پر غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا مشہور واقعہ ہے کہ " أنا النبي لا كذب أنا إبن عبدالمطلب " ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والد عبداللہ کا نام بیان نہیں کیا
۔
میرا خیال ہے کہ ایک ہی مثال کافی ہے۔
اور دوسری بات علامہ البانی نے اس حدیث کی شاھد ایک دوسری حدیث ذکر کی ہے جو سیدنا ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
بھائی مجھے تو عربی نہیں آتی لیکن آپ کو تو آتی ہے آپ کے دیے ہوے لنک میں ان جو شاھد بیان کیے گئے ہیں ساتھ ہی ان کا ضعف بھی لکھا ہے۔
وله شاهدان من حديث أبي موسى وحديث ابن عمر.
أما حديث أبي موسىٰ الأشعري .
فرواه ابن السني في عمل اليوم والليلة (ص/300 رقم 339) أخبرنا أبو عروبة ثنا عمرو بن هشام ثنا مخلد بن يزيد عن جعفر بن برقان عن فياض - وهو ابن غزوان - عن عبد الله بن زبيد عن أبي موسىٰ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصابه هم أو حزن فليدع بهذه الكلمات يقول: اللهم أنا عبدك وابن عبدك وابن أمتك في قبضتك ناصيتي بيدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أو أنزلته في كتابك أو علمته أحدا من خلقك أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن العظيم نور صدري وربيع قلبي وجلاء حزني وذهاب همي وغمي» فقال الرجل من القوم: يا رسول الله، إن المغبون من غبن هؤلاء الكلمات. فقال: «أجل قولوهن وعلموهن فإنه من قالهن التماس ما فيهن أذهب الله حزنه وأطال فرحه» وفي إسناده عبد الله بن زبيد اليامي، وهو أخو علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب لأمه، وهو مستور الحال، ولم يدرك أبا موسىٰ الأشعري .
وأما حديث عبد الله بن عمر .
فرواه ابنُ عَسَاكِرٍ فِي تَارِيْخِ دِمَشْقَ (68/120) من طريق عبد الرحمن بن زياد بن أنعم عن رجل من أهل دمشق: أن عبد الله بن عمر كان يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: «من قال هذه الكلمات ودعا بهن فرج الله همه وأذهب حزنه وأطال سروره أن يقول اللهم إني عبدك ابن عبدك ابن أمتك وفي قبضتك ناصيتي في يدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك أسألك بأحب أسمائك إليك وباسمك الذي سميت به نفسك وبكل اسم أنزلته في كتابك أو علمته أحدا من خلقك أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن نور صدري وربيع قلبي وجلاء حزني وذهاب همي» وعبد الرحمن بن زياد فيه ضعف من قبل حفظه، وشيخه مجهول.
یعنی پہلی روایت میں عبد اللہ بن زبید الیامی نامی راوی مستور یعنی مجہول الحال ہے اور اسکے اور ابو موسی کے درمیان سند منقطع ہے ۔ ان دو علتوں کی وجہ سے پہلا شاہد سخت ضعیف ہے ۔ اور دوسرا شاہد بھی دو وجوہات کی بناء پر ضعیف ہے ایک تو عبد الرحمن بن زیاد ضعیف ہے اور دوسرا اس کا شیخ مجہول ہے ۔
بطور فائدہ میں نہ اس کہ بارہ میں شیخ رفیق طاہر سے بھی پوچھا تھا وہ بھی اسے ضعیف کہتے ہیں۔
اگر اس رویت کی کوئی صحیح سند ہے یا صحیح سند کے ساتھ شاھد موجود ہے تو ضرور بتلائیں۔
علماء سے درخواست ہے کہ ادھر توجہ کریں۔ شکریہ۔ جزاک اللہ خیر