محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم !
غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں فرمایا کہ "غم نہ کر" آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بھی فرما سکتے تھے کہ "خوف نہ کر"۔"غم نہ کر! اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے انسانی روپ میں آئے، آپ علیہ السلام ان کی ضیافت کے لئے بھنا ہوا گوشت لے آئے مگر انہوں نے کھانے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا، اس واقعہ کو قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے:
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ
"اور دیکھو، ابراہیم کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لئے ہوئے پہنچے، کہا تم پر سلام ہو، ابراہیم نے جواب دیا تم پر سلام ہو، پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیم ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لئے) لے آیا مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہو گیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا، انہوں نے کہا: ڈرو نہیں، ہم تو لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔" (ھود 69، 70)
حضرت موسٰی علیہ السلام کو جب نبوت عطا کی گئی تو حکم ہوا کہ اپنی لاٹھی پھینک، جب انہوں نے لاٹھی پھینکی تو آپ علیہ السلام ڈر گئے، اس واقعہ کو یوں بیان کیا گیا:
وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ
"جونہی موسٰی نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑکر بھی دیکھا، اے موسٰی ڈرو نہیں۔" (النمل 10)
ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی علیہم السلام سے کہا گیا:
"لا تخف"
یعنی ڈرو نہیں مگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ:
لا تخزن "غم نہ کر"
آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈر اور خوف میں بڑا فرق ہے۔ آدمی کو جب اپنی جان، مال اور عزت و آبرو پر حملے کا خطرہ ہو تو اسے ڈر لاحق ہوتا ہے جبکہ حزن اپنے لئے نہیں بلکہ کسی اور کے لئے ہوتا ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کا خوف نہیں تھا بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا حزن تھا۔ جبکہ انہوں نے دیکھا کہ کفار غار کے دہانے پہنچ گئے ہیں تو انہیں اپنی جان کا خوف لاحق نہیں تھا بلکہ اس کا غم کھائے جا رہا تھا کہ یہ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو معاذ اللہ نقصان نہ پہنچائیں۔
ڈاکٹر فرحت ہاشمی