• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غنیۃ الطالبین اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
غنیۃ الطالبین اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ

از:حافظ ابو یحییٰ نورپوری حفظہ اللہ(نائب مدیر ماہنامہ السنۃ)

غنیۃ الطالبین،شیخ عبدالقادر جیلانی بن عبداللہ بن جنکی دْوست رحمہ اللہ(٤٨٨-ھ٥٦١)کی تصنیف ہے۔اس کی سند شیخ جیلانی رحمہ اللہ تک "صحیح" ہے،جیسا کہ:
(١) محدث عراق عمر بن علی بن عمر القزوینی رحمہ اللہ(٦٨٣-٧٥٠ھ)فرماتے ہیں:
وجمیع مولفات الامام العارف محیی الدین ابی محمد عبد القادر ابن ابی صالح بن عبداللہ الجیلی،رحمہ اللہ تعالیٰ،ککتاب(الغنیة)،وغیرہ،مع جمیع مرویاته،ارویھا عن ابی عبداللہ محمد بن عبداللہ بن عمر بن ابی القاسم،وابی بکر بن ابی السعادات بن منصور الانباری الخطیب،والقاضی سلیمان بن حمزۃ بن احمد المقدسی وغیرھم اجازۃ،عن ابی العباس احمد بن یعقوب بن عبداللہ المارستانی کذٰلك،عن الشیخ عبدالقادر الجیلی کذٰلك۔ح،وبروایة الاول ایضا،عن نقیب النقباء متین الدین ابی القاسم ھبة اللہ بن احمد بن عبدالقادر ابن المنصور باللہ امیر المؤمنین،وغیرہ،اجازتا ایضا،عن الشیخ عبدالقادر کذٰلك۔ "شیخ،امام،عارف،محیی الدین،ابو محمد،عبدالقادر بن ابو صالح بن عبداللہ جیلی رحمہ اللہ کی تمام تصانیف،مثلا غنیۃ الطالبین وغیرہ اور ان کی تمام روایات میں درج درج ذیل سند سے بیان کرتا ہوں:میں اپنے اساتذہ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن عمر بن ابو القاسم،ابو بکر بن ابو السعادات بن منصور انباری خطیب،قاضی سلیمان بن حمزہ بن احمد مقدسی وغیرہ سے اجازتا بیان کرتا ہوں۔وہ سب ابو العباس احمد بن یعقوب بن عبداللہ مارستانی سے اسی طرح اجازتا بیان کرتے ہیں اور وہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے اسی طرح۔دوسری سند یوں ہے کہ میرے وہی تینوں اساتذہ امیر المومنین نقیب النقباء متین الدین ابی القاسم ہبۃ اللہ بن احمد بن عبدالقادر بن منصور باللہ وغیرہ سے اجازتا روایت کرتے ہیں اور وہ شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔،"(مشیخة القزوینی،ص ٥٣٥)
اب اس سند کے تمام رویوں کی توثیق ملاحظہ فرمائیں:
(ا) محدث عراق علی بن عمر قزوینی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الحافظ الکبیر،المحدث العراق،سراج الدین۔
"آپ بہت بڑے حافظ اور عراق کے محدث تھے۔آپ کا لقب سراج الدین تھا"
(الدرر الکامنة في اعيان المائة الثامنة:٢١١ / ٤)
(ب) ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن عمر بن ابو القاسم بغدادی(٦٢٣-٧٠٧ھ) کے بارے میں خود قزوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الشیخ،العالم،رشید الدین،المقری۔
(مشیخة القزوینی،ص ٢٩٤)
ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الامام،العالم،المحدث،الصادق،الخیر،بقیة السلف،رشيد الدين،ابو عبدالله بن ابي القاسم،البغدادي،المقري،المحدث،شيخ المستنصرية۔
(معجم الشیوخ الکبیر: ٢٠٤/ ٢)​
(ج) خطیب ابوبکر انباری(٦٢٨-٧١٠ھ) کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الامام نجم الدین(العبر فی خبر من غبر:٢٦ / ٤)

حافظ صفدی رحمہ اللہ(٦٩٦-٧٦٤ھ) ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
الامام،الفاضل،نجم الدین (الوافی بالوفیات:٩٩ / ١٧)

(د) اپنے شیخ سلیمان بن حمزہ بن احمد بن عمر قاضی(٦٢٨-٧١٥ھ) کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وکان کیسا،متواضعا،حسن الاخلاق،وافر الجلالة،ذا تعبد،وتهجد،ايثار۔
"وہ دانا،متواضع،خوش اخلاق،جلیل القدر،عابد،تہجد گزار اور ایثار والے تھے۔"
(المعجم المختص بالمحدثین،ص ١٠٥،معجم الشیوخ الکبیر:٢٦٨ / ١)
حافظ صفدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: الشیخ،الامام،المفتی المذھب،مسند الشام۔ "وہ شیخ،امام،اپنے مذہب کے مفتی اور شام کے محدث تھے۔"
(الوافی بالوفیات:٢٢٨ / ١٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ(٧٠١-٧٧٤ھ) فرماتے ہیں:
القاضی،المسند،المعمر،الرحلة۔
"وہ قاضی تھے اور بڑی عمر کے محدث تھے۔انہوں نے طلب علم میں بہت زیادہ سفر کیے"
(البدایة والنهاية:٨٥ / ١٤،طبع دار احياء التراث العربي)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(٧٧٣-٨٥٢ھ)لکھتے ہیں:
مسند المصر،وکان جید الایراد لدروسه
"وہ مصر کے محدث تھے اور اپنے اسباق بخوبی پڑھاتے تھے۔" (الدرر الكامنة:٢٤١ / ٢)

(ھ) ابو العباس احمد بن یعقوب بن عبداللہ مارستانی(٥٤٥-٦٣٩ھ)کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الشیخ،المسند،وکان صالحا،خیرا،معمرا،اسماعه صحيح،وكان رجلا صالحا۔
"وہ شیخ اور محدث تھے۔بڑی عمر کے نیک اور دین دار شخص تھےان کا سماع صحیح تھا اور وہ پرہیزگار آدمی تھے۔"(سیر اعلام النبلاء:٧٧-٧٨ / ٢٣)

حافظ ابن نقطہ(٥٧٩-٦٢٩ھ) فرماتے ہیں:
سمعت منه،وسماعه صحيح،وكان رجلا صالحا۔
"میں نے اس سے احادیث سنی ہیں۔اس کا سماع صحیح ہے اور یہ نیک شخص تھا۔"
(تاریخ السلام للذہبی:٢٨٥ / ٤،بتحقیق بشار)
(و) ابو القاسم ہبۃ اللہ بن احمد بن عبدالقادر بن منصور کے بارے میں قزوینی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں: نقیب النقباء،متین الدین۔(مشيخة القزويني،ص:٥٣٥)
یوں یہ ساری سند بالکل صحیح ہے اور اس سند سے غنیۃ الطالبین،شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے ثابت ہے۔ والحمدلله!
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
(٢) حافظ ذہبی رحمہ اللہ،احمد بن مطیع بن مطیع ابو العباس باجسرائی(م:٦٢١ھ) کے بارے میں لکھتے ہیں:صحب الشيخ عبدالقادر،وقرا عليه كتاب[الغنية] تصنيفه۔ "وہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے پاس رہے اور ان پر ان کی تصنیف غنیۃ الطالبین پڑھہی۔"(تاریخ الاسلام:٦٦٢ / ١٣،بتحقیق بشار،٤٥ / ٤٥،بتحقیق التدمری)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ ہی کی تصنیف سمجھتے تھے۔
(٣) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(٦٦١-٧٢٨ھ)نے غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف قرار دیا ہے۔(الفتاوي الحموية:٤٧٧،بيان تلبيس الجهمية:٢١٤ / ١)

(٤) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ(٧٠١-٧٧٤ھ)لکھتے ہیں : وقد صنف كتاب[الغنية]،و[فتوح الغيب]۔ "شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب نامی کتابیں تصنیف کی ہیں۔"(البداية والنهاية:٣١٣ / ١٢،طبع دار احياء التراث)

(٥) حافظ ابن رجب رحمہ اللہ(٧٣٦-٧٩٥ھ)فرماتے ہیں:
وله كتاب[الغنية لطالبي طريق الحق]،وهو معروف۔ "آپ کی کتاب الغنیۃ لطالبی طریق الحق معروف ہے۔"(ذیل طبقات الحنابلة:١٩٨-١٩٩ / ٢)
نیز فرماتے ہیں : وللشيخ عبدالقادر رحمه الله تعالي كلام حسن في التوحيد،والصفات،والقدر،وفی علوم موافق للسنة۔۔۔۔۔۔وكان متمسكا في مسائل الصفات،والقدر،ونحوهما بالسنة،بالغا في الرد علي من خالفها،قال في كتابه[الغنية] المشهور:وهو بجهة العلو مستو علي العرش،محتو علي الملك محيط علمه بالاشياء:{اليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه}(فاطر ١٠:٣٥){يدبر الامر من السماء الي الارض ثم يعرج اليه في يوم كان مقداره الف سنة مما تعدون}(السجدة ٥:٣٢) ولا يجوز وصفه بانه في كل مكان،بل يقال:انه في السماء علي العرش،كما قال:{الرحمن علي العرش استوي}(طه ٥:٢٠)،وذكر آيات واحاديث،الي ان قال:وينبغي اطلاق صفة الاستواء من غير تاويل،وانه استواء الذات علي العرش،قال:وكونه علي العرش مذكور في كل كتاب انزل علي كل نبي ارسل،بلا كيف،وذكر كلاما طويلا،وذكر نحو هذا في سائر الصفات۔۔۔۔۔۔۔
"شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے توحید،صفات باری تعالیٰ،قضاء و قدر اور علوم معرفت کے بارے میں سنت کے موافق گفتگو فرمائی ہے۔آپ رحمہ اللہ صفات باری تعالیٰ اور تقدیر وغیرہ کے مسائل میں سنت کو لازم پکڑتے تھے اور مخالفین سنت کا سختی سے رد فرماتے تھے۔۔۔۔آپ نے اپنی مشہور کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔وہ تمام کائنات پر حاوی ہے اور اس کا علم تمام اشیاء کو محیط ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے{اليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه}(فاطر ١٠:٣٥) نیز فرمایا:{يدبر الامر من السماء الي الارض ثم يعرج اليه في يوم كان مقداره الف سنة مما تعدون}(السجدة ٥:٣٢) اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ ہونے کا عقیدہ رکھنا حرام ہے،عقیدہ یہ رکھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے،جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:{الرحمن علي العرش استوي}(طه ٥:٢٠)۔شیخ رحمہ اللہ نےاس مسئلہ پر اور بھی کئی آیات و احادیث ذکر کی ہیں۔پھر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی صفت استواء کو بغیر تاویل کے تسلیم کیا جائے گا۔یہ عرش پر ذات باری تعالیٰ کا استواء ہے۔شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا ہر مرسل نبی پر نازل شدہ کتاب میں درج ہے۔اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی گئی۔پھر لمبی بحث کی ہے۔اسی طرح انہوں نے باقی صفات کے بارے میں بھی کتاب و سنت کے مطابق بات کی ہے۔۔۔۔۔۔"(ذیل طبقات الحنابلة:١٩٩-٢٠٠ / ٢)

(٦)،(٧) علامہ ابن القیم(٦٩١-٧٥١ھ)(اجتماع الجيوش الاسلامية:٢٢٧ / ٢)اور علامہ مرادی(م:٨٨٥ھ)(الانصاف في معرفة الراجح من الخلاف:٧٣ / ٣)نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ رحمہ اللہ کی تصنیف تسلیم کیا ہے۔

(٨) ابن مفلح مقدسی(٧٠٨-٧٦٣ھ)لکھتے ہیں: وقال الشيخ عبدالقادر في الغنية۔ "شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ نے غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔"
(الآداب الشرعية:١٠٧ / ١)

(٩) حافظ سیوطی کے استاد سفیری(٨٧٧-٩٥٦ھ)کہتے ہیں:
وقد قال العارف بالله الرباني،سيدي عبدالقادر الكيلاني في كتابه [الغنية]۔
"عارف باللہ ربانی،سیدی عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔"(شرح البخاری:١٠٠ / ٢)

(١٠) محمد یوسف صالحي شامی(م:٩٤٢ھ) لکھتے ہیں:
وقال الشيخ عبدا لقادر الكيلاني رحمه الله تعالي،ونفع به،في كتاب [الغنية]
"شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔"
(سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد:٢٨٢ / ٧)

(١١) علامہ ابن عماد(م:١٠٨٩ھ) لکھتے ہیں : والشيخ عبدالقادر الجيلي الزاهد،صاحب [الغنية]۔
"شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ جنہوں نے غنیۃ الطالبین کتاب کی تصنیف کی ہے۔"
(شذرات الذھب:٤٥ / ٦)​
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
(١٢) ابن حجر مکی(م:٩٧٤ھ) نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف قرار دیا ہے۔(الفتاوي الحديثية:١٤٥)

(١٣) ملا علی قاری حنفی ماتریدی(م:١٠١٤ھ) لکھتے ہیں: ووقع في [الغنية] للقطب الرباني السيد عبد القادر الجيلاني انه لما ذكر الفرق الضالة،قال:واما الحنفية،ففرقة من المرجئة،وهم اصحاب ابي حنيفة نعمان بن ثابت۔ "قطب ربانی سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں گمراہ فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ احناف جو کہ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کے اصحاب ہیں،وہ (گمراہ فرقے) مرجیہ کا ایک گروہ ہیں۔"(شرح مسند ابی حنیفة:٤٥٤،مرقاة المفاتيح في شرح مشكاة المصابيح:١٥٠١ / ٤،ح:٢١٩٩)
اس کتاب کے کچھ اور نام بھی مذکور ہیں جیسا کہ علامہ یوسف بن حسن بن احمد بن عبد الہادی دمشقی صالحي(م:٩٠٩ھ)(معجم الکتب:٩١)،علامہ چلپی(م:١٠٦٧ھ)(کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون:١٢١١ / ٢)،علامہ زرکلی(م:١٣٩٦ھ)(الاعلام:٤٧ / ٤) اور علامہ ابن رجب(ذیل طبقات الحنابلہ:١٩٨-١٩٩ / ٢) نے اسے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی کتابوں میں ذکر کرتے ہوئے اس کا نام"الغنیۃ لطالبی طریق الحق" یا "الغنیۃ الطالب طریق الحق" ذکر کیا ہے۔بعض اہل علم نے حافظ سخاوی رحمہ اللہ(٨٣١-٩٠٢ھ)کی کتب میں "البغیة فی تخریج احادیث الغنیة" کو بھی ذکر کیا ہے۔
ہم انہی حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔سمجھ دار اور منصف مزاج شخص کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ غنیۃ الطالبین،شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔بعض لوگوں کی طرف سے اس کا انکار کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔​
ہمارے علم کے مطابق دنیا میں سب سے پہلے مشہور صوفی عبدالحق بن سیف الدین دہلوی(م:١٠٥٢ھ)نے اس کتاب کے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہونے کا انکار کیا ۔اس کے رد میں علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی(١٢٦٤-١٣٠٤ھ)نے لکھا ہے:
اما اولا،فلان نسبتها اليه مذكورة في كتب ابن حجر وغيره،من الاكابر،فانكار كونها من تصانيفها غير مقبول عند الاواخر۔
"یہ دعویٰ کئی وجہ سے مردود ہے،سب سے پہلے تو اس وجہ سے کہ شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی طرف غنیۃ الطالبین کی نسبت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابر اہل علم کی کتب میں مذکور ہے،لہٰذا متاخرین کی طرف سے اس کا انکار قابل التفات نہیں"​
(الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل،ص:٣٨٠)
جناب احمد رضا خان بریلوی(١٨٥٦-١٩٢١ء)لکھتے ہیں:
"محدث دہلوی کا تو خیال ہے کہ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف ہی نہیں،مگر یہ نفی مجرد ہے۔"(فتاوی رضویہ:٢٢٢ / ٢٩)
جناب احمد یار خان بدیوانی بریلوی(١٩٠٦-١٩٧١ء)لکھتے ہیں:
"حضور غوث پاک غنیۃ الطالبین جلد دوم،ص:٤٨ میں فرماتے ہیں۔۔۔۔"​
(تفسیر نعیمی،پارہ سوم،ص:٦١٧،تحت آیت آل عمران ٥٥:٣)
 

LAEEQ.KHAN

رکن
شمولیت
دسمبر 22، 2012
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
54
(١٢) ابن حجر مکی(م:٩٧٤ھ) نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف قرار دیا ہے۔(الفتاوي الحديثية:١٤٥)

(١٣) ملا علی قاری حنفی ماتریدی(م:١٠١٤ھ) لکھتے ہیں: ووقع في [الغنية] للقطب الرباني السيد عبد القادر الجيلاني انه لما ذكر الفرق الضالة،قال:واما الحنفية،ففرقة من المرجئة،وهم اصحاب ابي حنيفة نعمان بن ثابت۔ "قطب ربانی سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں گمراہ فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ احناف جو کہ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کے اصحاب ہیں،وہ (گمراہ فرقے) مرجیہ کا ایک گروہ ہیں۔"(شرح مسند ابی حنیفة:٤٥٤،مرقاة المفاتيح في شرح مشكاة المصابيح:١٥٠١ / ٤،ح:٢١٩٩)
اس کتاب کے کچھ اور نام بھی مذکور ہیں جیسا کہ علامہ یوسف بن حسن بن احمد بن عبد الہادی دمشقی صالحي(م:٩٠٩ھ)(معجم الکتب:٩١)،علامہ چلپی(م:١٠٦٧ھ)(کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون:١٢١١ / ٢)،علامہ زرکلی(م:١٣٩٦ھ)(الاعلام:٤٧ / ٤) اور علامہ ابن رجب(ذیل طبقات الحنابلہ:١٩٨-١٩٩ / ٢) نے اسے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی کتابوں میں ذکر کرتے ہوئے اس کا نام"الغنیۃ لطالبی طریق الحق" یا "الغنیۃ الطالب طریق الحق" ذکر کیا ہے۔بعض اہل علم نے حافظ سخاوی رحمہ اللہ(٨٣١-٩٠٢ھ)کی کتب میں "البغیة فی تخریج احادیث الغنیة" کو بھی ذکر کیا ہے۔
ہم انہی حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔سمجھ دار اور منصف مزاج شخص کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ غنیۃ الطالبین،شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔بعض لوگوں کی طرف سے اس کا انکار کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔​
ہمارے علم کے مطابق دنیا میں سب سے پہلے مشہور صوفی عبدالحق بن سیف الدین دہلوی(م:١٠٥٢ھ)نے اس کتاب کے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہونے کا انکار کیا ۔اس کے رد میں علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی(١٢٦٤-١٣٠٤ھ)نے لکھا ہے:
اما اولا،فلان نسبتها اليه مذكورة في كتب ابن حجر وغيره،من الاكابر،فانكار كونها من تصانيفها غير مقبول عند الاواخر۔
"یہ دعویٰ کئی وجہ سے مردود ہے،سب سے پہلے تو اس وجہ سے کہ شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی طرف غنیۃ الطالبین کی نسبت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابر اہل علم کی کتب میں مذکور ہے،لہٰذا متاخرین کی طرف سے اس کا انکار قابل التفات نہیں"​
(الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل،ص:٣٨٠)
جناب احمد رضا خان بریلوی(١٨٥٦-١٩٢١ء)لکھتے ہیں:
"محدث دہلوی کا تو خیال ہے کہ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف ہی نہیں،مگر یہ نفی مجرد ہے۔"(فتاوی رضویہ:٢٢٢ / ٢٩)
جناب احمد یار خان بدیوانی بریلوی(١٩٠٦-١٩٧١ء)لکھتے ہیں:
"حضور غوث پاک غنیۃ الطالبین جلد دوم،ص:٤٨ میں فرماتے ہیں۔۔۔۔"​
(تفسیر نعیمی،پارہ سوم،ص:٦١٧،تحت آیت آل عمران ٥٥:٣)
م masha allah
 
Top