امام ابن کثیر (سورہ الحجرات کی اس آیت ۔ولا يغتب بعضكم بعضا أيحب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتا فكرهتموه ۔)
کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
والغيبة محرمة بالإجماع، ولا يستثنى من ذلك إلا ما رجحت مصلحته، كما في الجرح والتعديل والنصيحة، كقوله صلى الله عليه وسلم (2) ، لما استأذن عليه ذلك الرجل الفاجر: "ائذنوا له، بئس أخو العشيرة" ( رواه البخاري في صحيحه برقم (3132)) ، وكقوله لفاطمة بنت قيس -وقد خطبها معاوية وأبو الجهم-: "أما معاوية فصعلوك (4) ، وأما أبو الجهم فلا يضع عصاه عن عاتقه" ( رواه مسلم ) . وكذا ما جرى مجرى ذلك. ثم بقيتها على التحريم الشديد، وقد ورد فيها الزجر الأكيد (6) ؛ ولهذا شبهها تعالى بأكل اللحم من الإنسان الميت، كما قال تعالى: {أيحب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتا فكرهتموه} ؟ أي: كما تكرهون هذا طبعا، فاكرهوا ذاك شرعا؛ فإن عقوبته أشد من هذا وهذا من التنفير عنها والتحذير منها،
الغرض غیبت حرام ہے اور اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ ‘‘
لیکن ہاں شرعی مصلحت کی بنا پر کسی کی ایسی بات کا ذکر کرنا غیبت میں داخل نہیں جیسے جرح و تعدیل اور نصیحت و خیر خواہی جیسے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک فاجر شخص کی نسبت فرمایا تھا یہ بہت برا آدمی ہے اور جیسے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا معاویہ مفلس شخص ہے اور ابو الجہم بڑا مارنے پیٹنے والا آدمی ہے ۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جبکہ ان دونوں بزرگوں نے حضرت فاطمہ بنت قیس سے نکاح کا مانگا ڈالا تھا اور بھی جو باتیں اس طرح کی ہوں ان کی تو اجازت ہے باقی اور غیبت حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔ اسی لئے یہاں فرمایا کہ جس طرح تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے گھن کرتے ہو اس سے بہت زیادہ نفرت تمہیں غیبت سے کرنی چاہیے ۔
كما قال، عليه السلام، في العائد في هبته: "كالكلب يقيء ثم يرجع في قيئه"، وقد قال: "ليس لنا مثل السوء". وثبت في الصحاح (7) والحسان والمسانيد من غير وجه أنه، عليه السلام، قال في خطبة [حجة] (8) الوداع: "إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا" (رواه مسلم في صحيحه برقم (1218) من حديث جابر رضي الله عنه.
وقال (10) أبو داود: حدثنا واصل بن عبد الأعلى، حدثنا أسباط بن محمد، عن هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم، عن أبي صالح، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كل المسلم على المسلم حرام: ماله وعرضه ودمه، حسب امرىء من الشر أن يحقر أخاه المسلم".
ورواه الترمذي (11) عن عبيد بن أسباط بن محمد، عن أبيه، به (12) . وقال: حسن غريب.
جیسے حدیث میں فرمان نبوی ہے اپنے دئیے ہوئے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے اور فرمایا بری مثال ہمارے لئے لائق نہیں ۔ حجۃ الوداع کے خطبے میں ہے تمہارے خون مال آبرو تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسی حرمت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے۔ ابو داؤد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ مسلمان کا مال اس کی عزت اور اس کا خون مسلمان پر حرام ہے انسان کو اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی حقارت کرے ۔
وحدثنا عثمان بن أبي شيبة (13) ، حدثنا الأسود بن عامر، حدثنا أبو بكر بن عياش، عن الأعمش، عن سعيد بن عبد الله (14) بن جريج، عن أبي برزة الأسلمي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا معشر من آمن بلسانه ولم يدخل الإيمان قلبه، لا تغتابوا المسلمين، ولا تتبعوا عوراتهم، فإنه من يتبع عوراتهم يتبع الله عورته ومن يتبع الله عورته يفضحه في بيته".
اور حدیث میں ہے اے وہ لوگو جن کی زبانیں تو ایمان لاچکیں ہیں لیکن دل ایماندار نہیں ہوئے تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنا چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کیا کرو یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھرانے والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے ،
۔۔۔۔۔
ابن کثیر مزید لکھتے ہیں :
قال الجمهور من العلماء: طريق المغتاب للناس في توبته أن يقلع عن ذلك، ويعزم على ألا يعود. وهل يشترط الندم على ما فات؟ فيه نزاع، وأن يتحلل من الذي اغتابه. وقال آخرون: لا يشترط أن يتحلله فإنه إذا أعلمه بذلك ربما تأذى أشد مما إذا لم يعلم بما كان منه، فطريقه إذا أن يثني عليه بما فيه في المجالس التي كان يذمه فيها، وأن يرد عنه الغيبة بحسبه وطاقته، فتكون تلك بتلك،
جمہور علماء کرام فرماتے ہیں :
’’ غیبت گو کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے اور پھر سے اس گناہ کو نہ کرے پہلے جو کر چکا ہے اس پر نادم ہونا بھی (قبولیت توبہ کیلئے ) شرط ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی حاصل کر لے ۔ بعض کہتے ہیں یہ بھی شرط نہیں اس لیے کہ ممکن ہے اسے خبر ہی نہ ہو اور معافی مانگنے کو جب جائے گا تو اسے اور رنج ہو گا ۔ پس اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جن مجلسوں میں اس کی برائی بیان کی تھی ان میں اب اس کی سچی صفائی بیان کرے اور اس برائی کو اپنی طاقت کے مطابق دفع کر دے تو اس طرح اس غیبت کا بدلہ ہو جائے گا ‘‘