.
یامحمد یا یارسول کہنےکی وضاحت
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک اسٹکر لاہور سے چھپا ہے جس میں پکارو یا محمدﷺ یا رسولﷺاس کی وضاحت فرمائیں اور دلائل تحریر کریں؟پکارو یا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم یا رسول اللہ یا محمد ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم کہنے والا خوش نصیب ہے ۔ اور شرک وبدعت کہنے والا منکر قرآن وحدیث ہے ۔ امام بخاری اور دیگر محدثین لکھتے ہیں جب تکلیف اور پریشانی ہو تو پکارو ! یا محمد ، یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم(1)فرقہ پرست اہل حدیث نے حدیث سے لفظ ’’یا‘‘ کاٹ دیا اور حدیث دشمنی کا ثبوت دیا (2)حوالہ غلط ثابت کرنے والے کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا؟
~~~~~~~~؛
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جناب کا مکتوب موصول ہوا گزارش ہے آپ اس سلسلہ میں جماعت کے موقر جریدہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور جلد نمبر۴۳ شمارہ نمبر ۳۷ ص ۱۰تا۲۰ میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالیٰ کا مضمون ’’ندا لغیر اﷲ شرک وبدعت ہے یا نہیں ؟‘‘ ضرور پڑھیں اس سے آپ کو کافی معلومات مہیا ہوں گی ۔ ان شاء اللہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کا مضمون درج ذیل ہے ۔
ندا لغیر اﷲ شرک وبدعت ہے یا نہیں ؟
ایک بریلوی مضمون نگار کے ’’دلائل‘‘ کا تجزیہ
اہلحدیث یوتھ فورس لاہور نے ایک سٹیکر چھاپا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صرف’’یا اللہ مدد‘‘ کہا جائے۔ مطلب ومقصد یہ تھا کہ بہت سی بسوں اور ویگنوں پر جو ’’یا علی مدد‘‘ لکھا ہوتا ہے بلکہ اب ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ بھی لکھا جانے لگا ہے ۔ لوگ ان سے بچیں ، کیونکہ ان میں غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے جو شرک ہے اور اس لحاظ سے ’’یا علی مدد‘‘ اور ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ شرکیہ نعرے ہیں جو کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔اپنے پیغام اور دعوت توحید کو مدلل کرنے کے لیے اسٹکر میں ’’یا اللہ مدد‘‘ کے اوپر قرآن مجید کی آیت ﴿لاَ تَدْعُ مَعَ اﷲِ اِلٰہًا آخَرَ﴾--القصص88 کا ترجمہ بایں الفاظ درج کیا ہے۔ ’’اور نہ پکارو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو‘‘ اس کا زیادہ صحیح ترجمہ تو ہے ۔ ’’اور نہ پکارو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو‘‘ ۔
اول الذکر ترجمہ میں الٰہ (معبود) کا ترجمہ رہ گیا ہے ۔ لیکن ایسا کرنے میں کوئی علمی خیانت یا بدنیتی شامل نہیں ہے کیونکہ اہلحدیث کا مسلک بالکل واضح ، بے غبار اور قرآن وحدیث کی صریح تعلیمات پر مبنی ہے ، اس لیے اسے آیات قرآنیہ میں معنوی تحریف کرنے یا ان کا مفہوم بدلنے یا سادہ لوح عوام کو مغالطہ دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ، جس طرح کہ یہ ضرورت اہلحدیث کے علاوہ دیگر سب فرقوں کو ہے اور وہ حسب ضرورت یہ سب کچھ کرتے کہتے رہتے ہیں (جس کی واضح مثالیں بوقت ضرورت پیش کی جا سکتی ہیں) اس لیے آیت مذکورہ کے ترجمہ میں الٰہ (معبود) کا جو ترجمہ رہ گیا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ درج کردہ ترجمہ کا مفہوم بھی وہی ہے جو معبو دکے اضافے کے ساتھ بنتا ہے اس لیے ترجمہ کرنے والوں کا ذہن اس طرف منتقل ہی نہیں ہو سکا کہ ایک لفظ کا ترجمہ رہ گیا ہے کیونکہ دونوں صورتوںمیں مفہوم ایک ہی رہتا ہے ۔ مفہوم ومعنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ جس کسی کو بھی مافوق الاسباب طریقے سے مدد کے لیے پکارا جائے تو اسے خدائی صفات کا حامل سمجھ کر ہی پکارا جاتا ہے جو درحقیقت اسے معبود ہی سمجھنا ہے ۔ تو جب ہم یہ کہیں گے کہ ’’اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو یا کسی کو مت پکارو‘‘ تو اسکا مطلب یہی ہو گا کہ ’’اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو مت پکارو‘‘ جیسا کہ قرآن مجید کی دوسری آیت سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ سورہ جن ۱۸ میں ہے :﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اﷲِ اَحَدًا﴾ ’’مسجدیں اللہ کے لیے ہیں ، پس تم اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو‘‘ ۔’’کسی کو یا دوسرے کو‘‘ مت پکارو کا مطلب یہی ہے کہ دوسرے معبود کو مت پکارو۔ اس لحاظ سے ﴿لاَ تَدْعُ مَعَ اﷲِ اِلٰہًا آخَرَ﴾ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو مت پکارو اور ﴿فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اﷲِ اَحَدًا﴾ (اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو) دونوں آیتوں کا مفہوم ومطلب ایک ہی ہے بالکل اسی طرح زیر بحث ترجمہ میں ’’معبود‘‘ کے بغیر اور لفظ ’’معبود‘‘ کے ساتھ مفہوم ایک ہی رہتا ہے ۔ معنی ومفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ بنا بریں اہلحدیث یوتھ فورس کے شائع کردہ سٹکر میں قرآن کریم کی کسی آیت میں معنوی تحریف کا ارتکاب نہیں کیا گیا ہے نہ انہیں اس کی ضرورت ہی ہے ۔
لیکن بریلوی فرقے کے ایک ترجمان ’’ماہنامہ‘‘ سیدھا راستہ ، بابت جون ۱۹۹۱ میں شائع شدہ ایک مضمون میں مذکورہ اسٹکر پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس میں قرآن مجید کے ترجمہ میں تحریف کر کے فرقہ پرستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے حالانکہ سٹکر میں درج شدہ ترجمہ سے نہ قرآن کریم کے ترجمہ میں تحریف ہوئی ہے نہ کسی فرقہ پرستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے بلکہ قرآن کریم کی پیش کردہ دعوت توحید تمام اہل اسلام کو پہنچانے کی سعی کی گئی ہے ۔ اس کے برعکس مضمون نگار نے فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن کریم کی دعوت توحید کو مسخ کرنے کی مذموم سعی کی ہے اور یہ باور کرانا چاہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو پکارنا جائز ہے۔ یہ شرک نہیں ہے اپنے اس مشرکانہ عقیدے کے اثبات کے لیے مضمون نگار نے جو مغالطے دئیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں ۔
(۱) پہلا مغالطہ مضمون نگار نے یہ دیا ہے کہ محض کسی کو پکارنا شرک نہیں ہے ۔ صرف وہ پکارنا شرک ہے جو کسی کو معبود سمجھ کر پکارا جائے ۔ یہ بات اس حد تک تو یقینا صحیح ہے کہ جب ہم آپس میں ظاہری اسباب کے مطابق ایک دوسرے کو پکارتے یا بلاتے یا مدد طلب کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کو معبود یا حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھتے ۔ اس لیے یہ یقینا شرک نہیں ہے نہ اسے آج تک کسی نے شرک سے تعبیر ہی کیا ہے اصل مابہ النزاع پکارنا جو ہے ، وہ اور ہے اور وہ ہے کسی کو مافوق الاسباب طریقے سے مدد کے لیے پکارنا ، اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارنا ، دور اور نزدیک سے یہ سمجھ کر پکارنا کہ وہ میری فریاد سننے پر اور اس کے مطابق فریاد رسی پر قادر ہے دراں حالیکہ وہ فوت شدہ ہے یہ پکارنا شرک ہے جس طرح لوگ ’’یا علی مدد‘‘ کہہ کر حضرت علی رضي الله عنه کو ، بعض لو گ ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ کہہ کر رسول اللہﷺ کو اور بعض لوگ ’’یا شیخ عبدالقادر شیئا ﷲ‘‘ یا ’’المدد یا غوث اعظم‘‘ کہہ کر پیر جیلانی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں یہ پکارنا ظاہر بات ہے مافوق الاسباب طریقے سے ہے ، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی پکارنے والے کے سامنے زندہ موجود نہیں ہے ۔ گویا پکارنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اگرچہ ان کو فوت ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں ۔ ان کی قبریں بھی ہزاروں میل کے فاصلے پر ہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کی طرح میری فریاد سن سکتے ہیں اور میری حاجت روائی کر سکتے ہیں ۔ تب ہی تو وہ ہزاروں میل کے فاصلے سے ان کو مدد کے لیے پکارتا ہے ۔ حاجت براری کے لیے ان سے دعائیں کرتا ہے اور ان کی خوشنودی کے لیے ان کے نام کی نذر نیازیں دیتا ہے۔ یہ بھی اگر شرک نہیں ہے تو پھر کہنا چاہیے کہ دنیا میں شرک کا وجود ہی کبھی نہیں رہا ہے اور نہ اب ہے ۔
(۲) مضمون نگار لکھتا ہے کہ یہ کہنا ’’حاضر غائب کو اور زندہ فوت شدہ کو نہیں پکار سکتا‘‘ اگر پکارے گا تو شرک وبدعت ہو گا۔ یہ فتویٰ قرآن پاک اور حدیث پاک پر نظر کی کمی سے پیدا ہوا ہے ۔ غائب کو پکارنا اگر شرک وبدعت ہوتا تو حضرت فاروق اعظم رضي الله عنه حضرت ساریہ کو نہ پکارتے جو ایران میں نہاوند کے علاقے میں مصروف جہاد تھے‘‘۔(3)
لیکن ہم عرض کریں گے کہ فوت شدہ کو پکارنے کو شرک سے تعبیر کرنا ، قرآن پاک اور احادیث صحیحہ کے عین مطابق ہے۔ یہ فتویٰ قرآن پاک اور حدیث پاک پر نظر کی کمی کا نہیں بلکہ قرآن مجید کے صحیح فہم اور احادیث صحیحہ کے گہرے مطالعے کا نتیجہ ہے جس پر بیسیوں آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ پیش کی جا سکتی ہیں۔ جہاں تک حضرت عمر رضي الله عنه کے واقعہ یَا سَارِیَة الْجَبَلَ (4) کا تعلق ہے ، یہ واقعہ سنداً بلاشبہ قابل قبول ہے لیکن یہ بطور کرامت ہے جس سے کسی مسئلے کے اثبات کے لیے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ معجزہ اور کرامت یہ انسان کے اختیاری فعل نہیں ۔ یہ اللہ کی مشیت کے تحت صادر ہوتے ہیں ، اسی لیے کوئی نبی محض اپنے اختیار سے اللہ کی مشیت کے بغیر معجزہ صادر کر کے نہیں دکھا سکتا اور کوئی ولی کسی کرامت کا اظہار نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں یہ اصول مسلمہ ہے کہ معجزہ اور کرامت سے استدلال جائز نہیں ۔ اس لیے مضمون نگار کا یا ساریۃ الجبل کے واقعے سے استدلال بڑا عجیب اور اہل سنت کے مسلمہ اصول کے خلاف ہے ۔ البتہ حضرت ساریہ رضی اللہ عنہا کے واقعے میں اگر مزید غور کیا جائے تو اس سے یہ پہلو مزید واضح ہو جاتا ہے کہ دور خیر القرون میں مصیبت کے وقت فوت شدہ یا نظروں سے غائب بزرگوں کو مدد کے لیے پکارنے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ ورنہ حضرت ساریہ ، جو دشمن کے نرغے میں گھر گئے تھے ، رسول اللہﷺ کو یا حضرت عمر رضي الله عنه کو مدد کے لیے ضرور پکارتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ اس دور میں اس شرک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ، وہ تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس لشکر کی مدد فرمانی تھی جو نہاوند میں حضرت ساریہ کی سرکردگی وقیادت میں کافروں کے خلاف صف آراء تھا ۔ اس لیے حضرت عمر رضي الله عنه کی زبان سے یَا سَارِیَة الْجَبَلَ(اے ساریہ پہاڑ کے دامن میں پناہ لو) کے الفاظ نہ صرف کہلوائے بلکہ معجزانہ طور پر یہ الفاظ سینکڑوں میل کے فاصلے کے باوجود حضرت ساریہ کے کانوں تک بھی پہنچا دئیے ۔
ایک مجہول الحال آدمی کے خواب سے استدلال: اس کے بعد مضمون نگار نے ’’ وصال شدہ کو پکارنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے‘‘ کا عنوان دے کر بعض عجیب وغریب دلائل اور بعض غیر ثابت شدہ روایات پیش فرمائی ہیں ۔ ہم ذیل میں ان کی حقیقت بھی واضح کرتے ہیں ۔
(۱) ایک دلیل یہ دی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کے دور خلافت میں قحط واقع ہو گیا ۔ ایک صاحب حضرت بلال بن حارث مزنی رضي الله عنه صحابی ، حضور نبی اکرمﷺ کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہﷺ اپنی امت کے لیے پانی مانگیے ۔ کیونکہ وہ ہلاک ہوتی جا رہی ہے تو ایک مردان (حضرت بلال بن حارث رضي الله عنه ) کے خواب میں آئے (اور الاستیعاب کے الفاظ یہ ہیں کہ) خواب میں نبی کریمﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت عمر رضي الله عنه کے پاس جائو اور انہیں کہو کہ لوگوں کے لیے بارش کی دعاء کریں انہیں بارش دی جائے گی اور انہیں کہو کہ احتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو ۔ وہ صاحب حضرت عمر رضي الله عنه کے پاس آئے اور ماجرا بیان کیا ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضي الله عنه رو دئیے ۔ کہا یا اللہ (جل جلالک) میں اپنی بساط بھر کوتاہی نہیں کرتا‘‘ ۔(5)
یہ واقعہ بلاشبہ حدیث کی ایک کتاب ’’مصنف ابن ابی شیبہ ج۱۲ص۳۲‘‘ اور فتح الباری ج۲ص۴۹۵ کتاب الاستسقاء باب سوم میں درج ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی بابت کہاہے ۔ وروی عن ابن ابی شیبہ باسناد صحیح من روایۃ ابی صالح السمان عن مالک الدار الخ اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ ابو صالح السمان عن مالک الدار کے حوالے سے بیان کیا ہے لیکن تین وجوہ سے یہ واقعہ ناقابل استدلال ہے۔
(۱)یہ قصہ صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ واقعے کا اصل راوی مالک الدار ہے جو مجہول ہے جب تک اس کی عدالت اور ضبط کا علم نہیں ہو گا یہ واقعہ ساقط الاعتبار ہو گا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو یہ کہا ہے (باسناد صحیح من روایة ابی صالح السمان) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سنداً ابو صالح السمان تک یہ روایت صحیح ہے ۔ مالک الدار کے حالات کا چونکہ حافظ ابن حجر کو علم نہیں ہو سکا تھا اس لیے انہوں نے اس کی بابت خاموشی اختیار کر کے ابو صالح تک سلسلہ سند کو صحیح قرار دے دیا ، مقصد یہ تھا کہ مالک الدار کی عدالت وضبط کی بھی اگر توثیق ہو جائے تو یہ روایت بالکل صحیح ہے بصورت دیگر غیر صحیح ۔ ان کی تصحیح کا مطلب پوری سند کی تصحیح نہیں ہے اگر پوری سند ان کے نزدیک صحیح ہوتی تو وہ اس طرح کہتے ’’عن مالک الدارواسنادہ صحیح‘‘ لیکن حافظ صاحب نے اس طرح نہیں کہا ۔ اس لیے جب تک واقعہ کا اصل راوی - مالک الدار - کی توثیق نہیں ثابت ہو گی ، یہ واقعہ ناقابل حجت ہو گا ۔
(۲) یہ قصہ سنداً صحیح ہو تب بھی حجت نہیں ، اس لیے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کا ایک آدمی پر مدار ہے جو نامعلوم اور مجہول ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سیف بن عمر کے حوالے سے اس نامعلوم آدمی کا نام بلال بن الحارث (صحابی) بتلایا ہے ۔ حالانکہ سیف بن عمر خود محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے۔ بلکہ اس کی بابت یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ثقہ راویوں کے نام سے من گھڑت حدیثیں بیان کرتا تھا ۔
ایسے کذاب ووضاع راوی کے بیان پر یہ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ نبیﷺ کی قبر پر جا کر عرض گزار ہونے والے ایک صحابی حضرت بلال بن الحارث المزنی تھے؟
(۳) بالخصوص جب کہ مستند اور صحیح روایت سے اکابر صحابہ رضي الله عنهما کا یہ طرز عمل ثابت ہے کہ انہوں نے قحط سالی کے موقع پر نبیﷺکی قبر مبارکہ پر جا کر استغاثہ نہیں کیا بلکہ کھلے میدان میں نماز استسقاء کا اہتمام کیا جو ایک مسنون عمل ہے اور اس میں زندہ بزرگ عم رسولﷺ حضرت عباس رضي الله عنه سے دعاء کروائی (6)یہ واقعہ حضرت عمر رضي الله عنه کے زمانے کا ہے اسی طرح حضرت معاویہ رضي الله عنه کے زمانے میں قحط پڑا تو انہوں نے بھی ایک اور صحابی رسول ﷺ سے دعا کروائی ۔
ان مستند واقعات اور اکابر صحابہ رضي الله عنهما کے طرز عمل کے مقابلے میں ایک غیر مستند روایت اور وہ بھی خواب پر مبنی ، نیز مجہول شخص کے بیان کو کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
مذکورہ وجوہ سہ گانہ کی وجہ سے مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت کسی طرح بھی قابل استدلال نہیں رہتی تاہم اگر اسے کسی درجہ میں قابل حجت تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس روایت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے اس آدمی کوہی ہدایت کی کہ حضرت عمر رضي الله عنه کے پاس جا کر کہو کہ وہ لوگوں کو ساتھ لے کر دعاء کریں یعنی نماز استسقاء کا اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرت عمر رضي الله عنه نے ایسا ہی کیا ۔ نبیﷺ نے قبر پر آنے والے شخص کو یہ نہیں کہا کہ اچھا میں تمہارے لیے دعاء کرتا ہوں یا کروں گا یا تم لوگ میری قبر پر جمع ہو کر آؤ بلکہ آپ ﷺنے دعا کا مسنون طریقہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔
’’الادب المفرد‘‘ کی ایک روایت سے استدلال اور اس کی حقیقت : ایک اور دلیل مضمون نگار نے یہ پیش کی ہے ۔
’’اسی طرح مصیبت اور تکلیف کے وقت پکارنے کے بارے میں ’’الادب المفرد ‘‘ ص۱۴۲زیر عنوان ’’باب ما یقول الرجل اذا خدرت رجلہ‘‘ لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا پائوں سن ہو گیا تو ایک آدمی نے انہیں کہا کسی ایسے انسان کو یاد کیجئے جس کے ساتھ آپ کو سب سے (زیادہ) محبت ہے تو انہوں نے پکارا ’’یا محمد‘‘ ﷺ (اور ان کی تکلیف دور ہو گئی) لیکن کتنا عجیب وغریب وہ کلمہ گو شخص ہے جس کو یا محمد صلی اللہ علیک وسلم کہنے میں تکلیف ہوتی ہے ‘‘ (7)
سند کی بحث سے قطع نظر ، مسئلہ زیر بحث سے اس واقعے کا کوئی تعلق نہیں کیوں کہ بحث تو ہے فوت شدگان کو مدد کے لیے پکارنا جائز ہے یا نہیں ؟ جب کہ مذکورہ واقعے میں جسمانی تکلیف کا ایک نفسیاتی علاج بتایا گیا ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اختیار فرما لیا ۔ انہوں نے ’’محمد‘‘ یا ’’یا محمد‘‘ (بہ اختلاف روایات) اس عقیدے کے تحت نہیں پکارا کہ آپ ﷺ ان کی فریاد سن لیں گے اور پھر مدد فرما دیں گے ۔ بلکہ کسی نے پیروں کے سن ہو جانے کا یہ علاج بتلایا کہ اپنے سب سے زیادہ محبوب شخصیت کا نام لو ، تو یہ تکلیف دور ہو جائے گی ۔
اس کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ محبوب کے ذکر سے انسان کے دل میں حرارت اورنشاط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، جس سے منجمد خون رواں ہو کر رگوں میں دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سن والی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اور واقعات بھی ایسے ملتے ہیں جن میں لوگوں نے اپنے کسی محبوب یا محبوبہ کا نام لیا تو ان کے پیروں کا سن پنا ختم ہو گیا (8) اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیر سن ہونے کی صورت میں اپنے کسی محبوب کا نام لینا اور اسے محبت سے یاد کرنا ، یہ اس مرض کا نفسیاتی علاج ہے ، اس کا کوئی تعلق فوت شدگان سے استغاثہ واستمداد سے نہیں ہے جیسا کہ مضمون نگار نے سمجھا اور باور کرایا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے یہاں بھی یہی صورت ہے ۔
مضمون نگار کی دو اور ’’دلیلیں‘‘ ملاحظہ فرمائیں جن سے اس نے مردوں سے مدد مانگنے کے جواز پر استدلال کیا ہے لکھتا ہے : ’’حضرت عزرائیل علیہ السلام مردوں کو پکاریں گے ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مردہ پرندوں کو پکارا‘‘ ۔(9)
غور فرمائیے ! یہ کیا ’’دلیلیں‘‘ ہیں ؟ ان کو ’’دلیل‘‘ کہا جا سکتا ہے ؟ بھلا ان سے کوئی پوچھے ، حضرت عزرائیل مردوں کو پکاریں گے تو کیا ان سے مدد طلب کرنے کے لیے پکاریں گے یا اللہ کے حکم کے مطابق قیامت برپا کرنے کے لیے صور پھونکیں گے ؟ قیامت کے صور پھونکنے کو یہ باور کرانا کہ حضرت عزرائیل بھی مردوں کو پکاریں گے لہٰذا تم بھی مردوں کو مدد کے لیے پکار سکتے ہو ۔ بڑا ہی عجیب استدلال ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم کا پرندوں کو پکارنا ، کیا ان سے مدد طلب کرنے کے لیے تھا ؟ یا اپنے اطمینان قلب کے لیے مردوں کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے تھا؟ اس سے یہ استدلال کرنا کہ مردوں کو پکارنا جائز ہو گیا ، لہٰذا مسلمانو ! تم بھی مدد کے لیے مردوں کو پکارو ! قرآن فہمی کا عجیب وغریب شاہکار ہے؎
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
اسی طرح مضمون نگار نے قرآن کریم کی متعدد آیات جمع کر دی ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح ’’پکار‘‘ کا مضمون ہے مثلاً نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو پکارا ﴿رَبِّ اِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلاً وَّنَہَارًا﴾--نوح5 ’دیگر انبیاء علیہم السلام کا اپنی قوموں کو پکارنا ۔ اللہ کا پکارنا ۔﴿وَاﷲُ یَدْعُوْا اِلٰی دَارِ السَّلاَمِ﴾--يونس25 (اللہ تعالیٰ دار السلام کی طرف پکارتا ہے) وغیرہم من الآیات ۔
بتلائیے ! ان آیات کا کوئی تعلق اس ’’پکار‘‘ سے ہے جو مابہ النزاع ہے ؟ پھر ان آیات کے جمع کرنے کا کیا فائدہ ؟ اصل اختلاف تو اس ’’پکار‘‘ میں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے کسی مردہ کو مشکل کشائی اور مدد حاصل کرنے کے لیے پکارا جاتا ہے ۔ یہ شرک ہے کیوں کہ اس طریقے سے کسی مردہ کو پکارنا ، یہ اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں ۔
خود مضمون نگار مضمون کے آخر میں لکھتا ہے : ’’اللہ تبارک وتعالیٰ جس بات کی ممانعت فرماتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہٗ کے ساتھ کسی کو ’’الٰہ‘‘ ’’معبود‘‘ ’’عبادت کے لائق‘‘ سمجھ کر نہ پکارا جائے۔(10)
بالکل یہی بات اہل حدیث کہتے ہیں ، پھر اختلاف کیوں ؟ اختلاف یہ ہے کہ بریلوی حضرات یہ تو تسلیم کرتے ہیں (جیسا کہ مضمون نگار نے بھی کہا ہے) کہ کسی کو معبود سمجھ کر نہ پکارا جائے لیکن یہ تسلیم نہیں کرتے کہ کسی فوت شدہ بزرگ کو ما فوق الاسباب طریقے سے مدد کے لیے پکارنا ، اس سے دعائیں کرنا ، اس کے نام کی نذر نیاز دینا ، اس سے نفع وضرر کی امید رکھنا یہ اس کو ’’الٰہ‘‘ اور ’’معبود‘‘ بنانا ہی ہے ۔ اور یوں وہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ کیوں کہ دعا بھی عبادت ہے نذر نیاز بھی عبادت ہے جو وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کے لیے بھی کرتے ہیں ۔ بریلوی اللہ سے بھی دعائیں کرتے ہیں مردہ بزرگوں سے بھی دعائیں کرتے ہیں اللہ کے نام کی نذر ونیاز بھی دیتے ہیں اور بزرگوں کے ناموں کی بھی نذر ونیاز دیتے ہیں اللہ سے بھی نفع وضرر کی امید رکھتے ہیں اور فوت شدہ بزرگوں سے بھی ما فوق الاسباب طریقے سے نفع وضرر کی امید رکھتے ہیں۔ اللہ کو بھی عالم الغیب مانتے ہیں اور اللہ کے نبیوں اور ولیوں کو بھی عالم الغیب مانتے ہیں اللہ کو بھی دور اور نزدیک سے فریادیں سننے والا تسلیم کرتے ہیں اور بزرگوں کے اندر بھی یہ قوت یا صفت تسلیم کرتے ہیں۔اہلحدیث کہتے ہیں کہ شرک اسی چیز کا نام ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی عبادت میں شریک کر لیا جائے، یا اللہ کی صفات میں سے کوئی صفت کسی اور میں تسلیم کر لی جائے اور مذکورہ افعال سارے ایسے ہیں کہ ان میں یا تو اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت ہوتی ہے یا اللہ کی صفت میں مردہ بزرگوں کو شریک سمجھا جاتا ہے بریلوی حضرات اس شرک صریح کا ارتکاب کرتے ہیں یعنی اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادت بھی کرتے ہیں یا اللہ کی صفات بزرگوں میں بھی مانتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو شرک نہیں کرتے ، کیونکہ شرک تو اس وقت ہوتا جب ہم انہیں معبود سمجھ کر پکارتے ، حالانکہ جب ان کے اندر خدائی صفات تسلیم کر لی گئیں یاخدا کی طرح ان کو حق عبادت میں شریک کر لیا گیا تو وہ ’’معبود‘‘ تو بن گئے ۔ آپ انہیں معبود کہیں یا نہ کہیں جب معبود والی چیزیں ان کے لیے مان لی گئیں تو وہ ’’معبود‘‘ از خود بن گئے جس طرح پتھر کی مورتی کی پوجا کرنے والا ہے وہ بھی اسے خدایا معبود نہیں سمجھتا بلکہ اسے خدا کا مظہر یا اوتار سمجھ کر اس سے دعائیں کرتا ہے ۔ اس کے نام پر چڑھاوے چڑھاتا ہے یعنی نذر دیتا ہے ۔ اس سے نفع وضرر کی امیدیں رکھتا ہے اور اسے فریاد رس اور حاجت روا سمجھتا ہے مسلمان اس کے بارے میں عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ مشرک ہے کیوں کہ پتھر کی مورتی کی پوجا کرتا ہے حالانکہ اسے وہ معبود نہیں سمجھتا ہے نہ معبود سمجھ کر اسے پکارتا ہی ہے اس کے باوجود وہ مشرک ہے کیوں؟ اس لیے کہ وہ مورتی کو معبود سمجھتا ہے یا نہیں سمجھتا ، لیکن اس کے ساتھ اس پجاری کا معاملہ وہی ہے جو ایک عابد اور معبود کے درمیان ہوتا ہے اس لیے وہ یقینا مشرک ہے ۔
لیکن یہی مسلمان قبروں کے ساتھ یا مردہ بزرگوں کے ساتھ یہی کچھ کرتا ہے تو کہتا ہے یہ شرک نہیں ، کیونکہ میں اسے معبود سمجھ کر نہیں پکارتا اگر یہ دلیل صحیح ہے اور اس طرح شرک ، شرک نہیں رہتا تو پھر ہندو بھی مشرک نہیں ہے کیونکہ وہ بھی مورتی کو معبود نہیں سمجھتا مشرکین مکہ بھی مشرک نہیں کیوں کہ وہ بھی لات وعزیٰ اور منات وہبل کو معبود نہیں سمجھتے تھے وہ بھی ان کو خدا کا وسیلہ اور ذریعہ تقرب سمجھتے تھے جیسا کہ خود قرآن مجید نے اس کی وضاحت کی ہے کہ قوم نوح جن (۵) پانچ بتوں کو پوجتی تھی وہ بھی معبود نہیں تھے اللہ کے نیک بندے ہی تھے۔ (جیسا کہ صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے)(11) اس لحاظ سے تو قوم نوح علیہ السلام نے بھی شرک کا ارتکاب نہیں کیا اور قرآن دیگر مشرکوں کے بارے میں بھی کہتا ہے ـ: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ﴾--الاعراف194
’’جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تم جیسے ہی بندے ہیں‘‘ ۔
گویا کسی دور میں بھی ایسے شرک کا وجود نہیں رہا کہ جس میں غیر اللہ کو معبود سمجھ کر پکارا گیا ہوبلکہ ہر دور میں شرک کی نوعیت یہی رہی ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کی ہی تصویریں ، مورتیں ، یا قبریں یہ سمجھ کر پوجی جاتی رہی ہیں کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے ، وفات کے بعد اللہ سے ان کا ’’وصال‘‘ ہو گیا ہے اور یہ اب اللہ کے مظہر یا اوتار ہو گئے ہیں ، ان کے ذریعے سے ہی ہم اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں ، ان کے وسیلے سے ہی ہماری دعائیں اور التجائیں سنی جا سکتی ہیں اور ان کے نام کی نذر نیازیں دے کر ہی ہم اللہ کو راضی کر سکتے ہیں۔ قرآن نے اسی عقیدہ وعمل کو شرک کہا ہے ۔ اور اس کے مرتکبین کو مشرک ، اگر قرآن کریم کی صراحت صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے تو پھر بریلوی اور شیعوں کا عقیدہ وعمل بھی وہی ہے جو گزشتہ مشرک قوموں کا عقیدہ رہا ہے تو ان کا شرک ، شرک کیوں نہیں ؟ محض عنوان بدل دینے سے تو شرک کی ماہیت وحقیقت تبدیل نہیں ہو جائے گی جب ان دونوں گروہوں (بریلوی اور شیعوں) کا عقیدہ وعمل بھی فوت شدگان کے ساتھ وہی ہے جو مشرک قوموں کا اپنے بتوں کے ساتھ رہا ہے تو پھر دونوں کے درمیان فرق وامتیاز کس طرح کیا جا سکتا ہے ؟ اور یہ کیوں کر قرین عدل ہو سکتا ہے کہ ایک کو تو مشرک قرار دیا جائے ، جب کہ دوسرا شخص بھی وہی کچھ کرے تو اسے مشرک تسلیم کرنے سے گریز کیا جائے ۔ تِلْکَ اِذًا قِسْمَة ضِیْزٰی
’’عبادت‘‘ کسے کہتے ہیں اور ’’معبود ‘‘ کون ہوتا ہے ؟ مضمون نگار لکھتا ہے : ’’ مسجدوں میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم کہنے سے روکنے والے حضرات سورئہ جن کی آیت نمبر ۱۸ بھی پیش کرتے ہیں ﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اﷲِ اَحَدًا﴾ اور یہ کہ مسجدیں اللہ (تبارک وتعالیٰ) کے لیے ہیں لہٰذا ان میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو ۔
تفہیم القرآن میں مودودی صاحب نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’مفسرین نے بالعموم ’’مساجد‘‘ کو عبادت گاہوں کے معنی میں لیا ہے اور اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ عبادت گاہوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے‘‘ ۔
آیت قرآنی کا مقصد ومدعا بھی حقیقتاً یہی ہے ۔ مودودی صاحب کے پیروکاروں کو اور دیگر دیوبندی اور اہلحدیث حضرات کو فہم وفراست سے کام لینا چاہیے اور ارشاد خداوندی کو سمجھنا چاہیے خواہ مخواہ کفر وشرک وبدعت کے فتویٰ لگا کر اپنی عاقبت کو خراب نہیں کرنا چاہیے …… تدعوا کا معنی تعبدوا یعنی بندگی یا عبادت آتا ہے … اللہ (تبارک وتعالیٰ) کے ساتھ کسی کو نہ پکارو’’یعنی کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو‘‘۔ ص۳۰اور ۴۳
اس اقتباس میں ’’سیدھا راستہ‘‘ کے مضمون نگار منیر احمد یوسفی صاحب نے ایک تو یہ مخلصانہ مشورہ دیا ہے کہ خواہ مخواہ شرک وبدعت کے فتوے لگا کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہیے ۔ کیونکہ حدیث کے مطابق بلاوجہ کسی مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر قرار پاتا ہے ۔ یہ مخلصانہ مشورہ بالکل بجا ہے ۔ الحمد للہ ۔ ہم اس پر پہلے ہی عمل پیرا ہیں ۔ ہم خواہ مخواہ شرک وبدعت کے فتوے لگا کر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے ۔ لیکن جہاں فی الواقع شرک ہو رہا ہو ، اس کی نشاندہی کرنا اور مسلمانوں کو اس سے آگاہ کرنا تو وہ ضروری فریضہ ہے کہ اس میں مداہنت کا مظاہرہ کرنے والا گونگا شیطان قرار پاتا ہے ۔ ’’الساکت عن الحق شیطان اخرس‘‘ ہماری خواہش اورکوشش ہے کہ مسلمان مشرکانہ عقائد واعمال سے تائب ہو جائیں جن میں وہ بدقسمتی سے مبتلا ہیں کیونکہ شرک ایسا ظلم عظیم ہے جو ناقابل معافی ہے اِلاَّ
یہ کہ آدمی دنیا میں ہی اس سے سچی توبہ کر لے ۔ مسلمان عوام کے شرک پرستی کے مظاہر ہی ہمیں بے چین اور مضطرب رکھتے ہیں اور ان کی خیر خواہی کا ہی جذبہ ہے جو ہمیں حق گوئی کا فریضہ ادا کرنے پر مجبور کر رہا ہے جراح یا سرجن کے اپریشن سے مریض کو تکلیف ضرور ہوتی ہے لیکن مریض کی خیر خواہی کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اپریشن کے ذریعے سے گندا مواد یا فاضل مواد باہر نکال پھینکے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بغیر مریض کی صحت یابی ممکن نہیں ۔ علمائے اہل حدیث شرک وبدعت کے خلاف یہی عمل جراحی کرتے ہیں جس سے مریض کراہتا اور چیختا ہے تاہم علمائے اہلحدیث مسلمان عوام کے سچے خیر خواہ ہیں اور وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور عوام کی ناراضی کے باوجود انہیں شرک وبدعت جیسے خطرناک امراض سے بچانے میں کوشاں ہیں ۔ جزاهم اﷲ وکثر اﷲ فینا امثالہم ۔
دوسری بات موصوف نے یہ فرمائی ہے کہ ’’اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو‘‘ کا مطلب ہے ’’اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘‘ ۔ یہ بات بھی بالکل صحیح اور بجا ہے اور آیت میں پکار کا فی الواقع یہی مطلب ہے کیونکہ مطلق پکار عبادت نہیں ہے بلکہ وہ پکار عبادت ہے جو کسی کو مافوق الاسباب طریقے سے مدد کے لیے ہو اگر اللہ کو پکارا جائے گا یعنی اس سے مدد کی درخواست کی جائے گی تو یہ اللہ کی عبادت ہو گی ، کسی پتھر کی مورتی کو پکارا جائے گا یعنی اس سے مدد طلب کی جائے گی تو اس مورتی کی پوجا (عبادت) ہو گی ، قبر میں مدفون کسی شخص کو پکارا جائے گا یعنی اس سے استغاثہ واستعانت کی جائے گی تو یہ اس بزرگ کی عبادت ہو گی ۔
اس لیے مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ ‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں ۔ کیوں کہ اگر عقیدہ یہ ہو کہ رسول اللہﷺ عالم الغیب ، حاضر وناظر اور سمیع وبصیر نہیں ہیں تو وہ ’’یا رسول اللہ ﷺ‘‘ کہہ لے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ، جس طرح ’’التحیات‘‘ میں السلام علیک ایہا النبی کہا ہی جاتا ہے ۔ اگر بریلوی حضرات بھی یہ تسلیم کر لیں کہ ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ عالم الغیب ، حاضر وناظر ، سمیع وبصیر اور دور ونزدیک سے فریادیں سننے والا صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے ۔ ہم کسی نبی ، ولی اور بزرگ کے اندر یہ صفات الٰہی تسلیم نہیں کرتے تو یقینا ان کا ’’یا رسول اللہﷺ‘‘ کہنا شرک نہیں ہو گا ۔ اسے بے تکی ترکیب ضرور کہا جائے گا لیکن اسے شرک سے تعبیر نہیں کیا جائے گا ۔
لیکن اصل بات یہی ہے کہ بریلوی حضرات کا عقیدہ ہی صحیح نہیں ہے اس لیے ان کا ’’یا رسول اللہ ‘‘ کہنا محض ’’السلام علیک ایہا النبی‘‘ کے قبیل سے نہیں ہے کہ جسے جائز تسلیم کر لیا جائے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آنحضرتﷺعالم الغیب ، حاضر وناظر اور سمیع وبصیر ہیں ، اس لیے جب ہم ’’یا اللہ‘‘ کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری اس نداکو سنتا ہے اسی طرح جب ہم ’’یا رسول اللہ‘‘ کہتے ہیں تو رسول اللہﷺ بھی ہماری اس ندا کو سنتے اور جانتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ اب صرف ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنے یا نہ کہنے کا نہیں رہا ہے بلکہ اب یہ اپنے منطقی نتیجے تک پہنچ گیا ہے ۔ اور ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ اور ’’المدد یا رسول اللہ‘‘ کے اسٹکرز بھی عام ہو گئے ہیں۔ پہلے صرف ’’یا علی مدد‘‘ کا نعرہ عام تھا ۔ اہل توحید نے اس کے مقابلے میں کوشش کی کہ مسلمانوں میں اس مشرکانہ نعرہ کی بجائے ’’یا اللہ مدد‘‘ کا نعرہ عام ہو ۔ چنانچہ انہوں نے ’’یا اللہ مدد‘‘ کے اسٹکرز عام کئے ۔ مقصد اس کایہ تھا کہ شیعوں کے ایجاد کردہ مشرکانہ نعرے سے اہل سنت کے سادہ لوح عوام کو بچایا جائے مگر بریلوی حضرات نے ’’یا اللہ مدد‘‘ کے مقابلے میں ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ کے اسٹکرز چھپوا لیے اور یوں مزید ایک ایسا نعرہ ایجاد کر لیا جس میں اللہ کی بجائے اللہ کی ایک برگزیدہ مخلوق - پیغمبر ﷺ - سے مافوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کی جا رہی ہے ۔
ہم مضمون نگار سے پوچھتے ہیں کہ ’’یا علی مدد‘‘ یا ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ کے نعروں کا کیا جواز ہے ؟ کیا یہ نعرے لگانے والوں کا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ ﷺ مافوق الاسباب طریقے سے ، اور دور اور نزدیک سے ہماری فریادیں سن سکتے ہیں ، ہماری مدد کر سکتے ہیں اور ہمیں نفع ونقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ اور کیا اس عقیدے کے ساتھ کسی کو پکارنا یہی اس کی عبادت نہیں ہے ؟ کیا یہ ’’عبادت‘‘ مسجدوں میں نہیں ہو رہی ہے؟ اور کیا یہ ﴿اَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اﷲِ اَحَداً﴾ کے صریحاً خلاف نہیں ہے ؟
ایک اسٹکر کا تجزیہ : بزم خیر اندیش ، وسن پورہ لاہور کی طرف سے ایک اسٹکر چھپا ہے ، جس میں لکھا گیا ہے۔
’’پکارو یا محمد (صلی اللہ علیک وسلم) یا رسول اللہ یا محمد یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم کہنے والا خوش نصیب ہے اور شرک وبدعت کہنے والا منکر قرآن وحدیث ہے ۔ امام بخاری اورد یگر محدثین لکھتے ہیں جب تکلیف اور پریشانی ہو تو پکارو ۔ یا محمد ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ۔ فرقہ پرست اہلحدیث نے لفظ ’’یا‘‘ کاٹ دیا اور حدیث دشمنی کا ثبوت دیا ۔ حوالہ غلط ثابت کرنے والے کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا‘‘۔
ہم نے پورے اسٹکرکی عبارت (سوائے حوالوں کے) نقل کر دی ہے ۔ ہم ترتیب وار اس کا جواب اہل انصاف اور اہل دانش کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
(۱) یا محمد ، یا رسول اللہ ۔ اس کا اردو ترجمہ ہے ، اے محمد اے رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ۔ گویا اس میں رسول اللہﷺ سے خطاب کیا گیا ہے ۔ اگر یہ خطاب صرف بطور محبت کے ہے جس طرح بعض دفعہ ایک محب اپنے محبوب کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے اور اس سے خطاب کر کے عالم شوق اور وارفتگی میں باتیں کرتا ہے ، خطاب کرنے والے کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ حضور عالم الغیب ہیں یا حاضر وناظر ہیں اور دور ونزدیک سے باتیں سننے پر قادر ہیں تو اس نعرے کو عشق ومحبت کا ایک مظہر سمجھا جا سکتا ہے اور اس بناء پر اسے جائز تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کہنے والے کا عقیدہ ہی یہ ہے کہ آپ عالم الغیب ، حاضر وناظر اور ہماری فریادیں سننے پر قادر ہیں تو یہ کہنا خوش نصیبی نہیں انتہائی بدنصیبی ہے ۔ اسی طرح یقینا وہ شرک وبدعت کا ارتکاب کرتا ہے ، جسے خوش نصیبی وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو توحید وسنت سے ناآشنائے محض ہو ۔
(۲)اسے اہلحدیث اسی بناء پر شرک وبدعت سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں عقیدے کی وہی خرابی پائی جاتی ہے ، جو انسان کو شرک تک لے جاتی ہے جس طرح کہ فی الواقع اب اس کا ظہور شروع ہو گیا ہے اور اب ’’یا رسول اللہ‘‘ سے معاملہ بڑھ کر ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ تک پہنچ گیا ہے ۔ اس لیے اہلحدیث شرک پر مبنی خود ساختہ نعروں کا انکار کر کے ’’قرآن وحدیث کے منکر‘‘ نہیں بنتے ، بلکہ قرآن وحدیث کے محافظ ہیں ۔ فللّٰه الحمد علی ذالک
(۳) اسٹکر چھاپنے والوں نے دعویٰ تو یہ کر دیا ہے کہ حوالہ غلط ثابت کرنے والے کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ لیکن ہم پورے یقین سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ’’الادب المفرد‘‘ ’’تحفۃ الذاکرین‘‘ شوکانی - کتاب الاذکار ’’نووی - عمل الیوم واللیلۃ‘‘ ابن السنی - ’’فتح الباری‘‘ اور مصنف ابن ابی شیبہ ، ان چھ کتابوں کا حوالہ دیا ہے لیکن کسی بھی کتاب میں کسی بھی محدث کے یہ الفاظ نہیں دکھائے جا سکتے کہ ’’جب تکلیف اور پریشانی ہو تو پکارو یا محمد ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ‘‘ پہلی چار کتابوں میں صرف وہ واقعہ بیان ہوا ہے جو پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پیر سن ہو گئے تو کسی نے کہا کہ آپ ایسے شخص کو یاد کریں جس سے آپ کو سب سے زیادہ محبت ہو تو انہوں نے کہا ’’محمد‘‘ یا ’’یا محمد‘‘۔
اس کے تحت انہوں نے باب بھی جو باندھا ہے وہ بھی یہ ہے کہ ’’جب کسی کے پیر سن ہو جائیں تو وہ کیا کہے؟‘‘ کسی کتاب میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ جب تکلیف اور پریشانی ہو تو پکارو یا محمد ۔یا رسول اللہ ۔ اسی طرح آخری دو کتابوں میں صرف وہ واقعہ بیان ہوا ہے جس میں مالک الدار کے حوالے سے خواب میں ایک شخص کو حضرت عمرر ضی اللہ عنہ کے پاس جانے کے لیے کہا گیا ہے اور جس کی بابت ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ سنداً یہ واقعہ ہی صحیح نہیں ہے علاوہ ازیں یہ صحیح احادیث میں بیان کردہ طریقے کے بھی خلاف ہے ۔ گویا ان دو کتابوں میں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں کہ’’جب تکلیف اور پریشانی ہو تو پکارو یا محمد ، یا رسول اللہ‘‘
یعنی چھ کتابوں کے حوالے دئے گئے ہیں اور کسی ایک کتاب میں بھی مذکورہ الفاظ نہیں ہیں ۔ اس لیے ہم اسٹکر کے مرتب یا اس کے ناشر سے عرض کریں گے کہ وہ ’’محدثین‘‘ کی طرف منسوب مذکورہ الفاظ نکال کر دکھائیں یا پھر ہمیں منہ مانگا انعام دیں ۔ ہمارا منہ مانگا انعام زیادہ نہیں ہے ۔ صرف ایک ہی بات ہے کہ مسلمان عوام کو صرف خدائے واحد کا پرستار رہنے دیں ، انہیں غیر اللہ کا پرستار بنا کر ان کی عاقبت خراب نہ کریں ۔ اور صرف ’’یا اللہ مدد‘‘ کے اسٹکرز چھپوا کر تقسیم کریں تاکہ لوگ ’’یا علی مدد‘‘ یا ’’یا رسول اللہ مدد‘‘ جیسے مشرکانہ نعروں سے بچ جائیں ۔
(۴) یہ دعویٰ یا الزام بھی درست نہیں کہ ’’فرقہ پرست اہلحدیث نے لفظ ’’یا‘‘ کاٹ دیا اور حدیث دشمنی کا ثبوت دیا‘‘ ہماری لائبریری میں ’’الادب المفرد‘‘ کا مصری نسخہ موجود ہے اور اس میں اسی طرح ’’یا‘‘ کے بغیر ہے جس طرح سانگلہ ہل کے اہلحدیث ناشر نے کتاب چھاپی ہے ۔ الحمد ﷲ کتاب میں قطعاً کسی قسم کا تصرف نہیں کیا گیا ہے۔ جسے شبہ ہو وہ آ کر دونوں نسخے ہماری لائبریری میں ملاحظہ کر سکتا ہے۔
اہلحدیث کو ’’فرقہ پرست‘‘ کہنا بنیادی طور پر غلط ہے ۔ کیوں کہ اہلحدیث کی دعوت شخصی یا حربی نہیں ہے ۔ وہ کسی امام ، یا کسی مخصوص فقہ کی طرف دعوت نہیں دیتے ، جس سے فرقہ معرض وجود میں آتا ہے ۔ ان کا مرکز عقیدت اور محور اطاعت صرف اور صرف حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی ذات گرامی ہے اور اسی کی طرف وہ لوگوں کو بلاتے ہیں ۔ حنفی ایک فرقہ ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کی طرف منسوب فقہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے ۔ شافعی ایک فرقہ ہے جو امام شافعی رحمہ اللہ اور فقہ شافعی کی طرف بلاتا ہے ۔ حنبلی ایک فرقہ ہے جو امام احمد بن حنبل اور فقہ حنبلی کی طرف بلاتا ہے۔ مالکی ایک فرقہ ہے جو امام مالک رحمہ اللہ اور فقہ مالکی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے وعلیٰ ہذا القیاس ، دوسرے فرقے جو مخصوص افراد اور مخصوص فقہوں کی طرف بلاتے ہیں ، لیکن اہلحدیث کا ایک ہی امام ہے اور وہ حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں ، صرف انہی کے فرمان کو وہ واجب الاطاعت مانتے ہیں ۔ ان کی کوئی مخصوص کتاب نہیں جس کی طرف وہ لوگوں کو بلاتے ہوں بلکہ ان کی کتاب یا فقہ ، جس کو ماننے کی وہ دعوت دیتے ہیں ، صرف قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ہیں ۔ اس لیے وہ فرقہ نہیں ۔ فرقوں کو ختم کرنے والے اور اصل اسلام کے داعی ہیں جو صرف دامن رسالت سے وابستہ ہونے میں نجات کو منحصر مانتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(1)الادب المفرد ص۱۴۲ (چھاپہ بیروت ومصر ، تحفۃ الذاکرین للشوکانی ص۲۳۹ ، کتاب الاذکار للنووی ص۱۴۲ ، کتاب عمل الیوم واللیلۃ لابن سنی ص۴۸۔۴۷ (۳سندیں) فتح الباری جلد۳ ص۱۴۸ مصر ، فتح الباری بیروت جلد۲ ص۶۳۰ ، مصنف ابن ابی شیبہ جلد۱۲ ص۳۲
(2)الادب المفرد چھاپہ المکتبہ الاثریہ (سانگلہ ہل) ص۲۵۰ وچھاپہ حیدر اباد جلد۲ ص۴۴۱۔۴۴۰
(3)ماہنامہ ’’سیدھا راستہ‘‘ ص۲۴
(4)مشکوٰۃ باب الکرامات
(5)ماہنامہ ’’سیدھا راستہ‘‘ ص۲۵ جون ۱۹۹۱
(6)بخاری کتاب الاستسقاء باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا۔
(7)سیدھا راستہ ص۲۵ ۔۲۶
(8) ملاحظہ ہو الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النواویہ ج۴ص۲۰۰ محمد بن علان الصدیقی ۔فضل اﷲ الصمد فی توضیح الادب المفرد ، فضل اﷲ الجیلانی ج۲ ص۴۴۱ المکتبۃ الاسلامیہ ، حمص
(9)ماہنامہ ’’سیدھا راستہ‘‘ ص۲۵
(10)سیدھا راستہ ، ص۳۰
(11)بخاری کتاب التفسیر سورۃ نوح
https://urdufatwa.com/view/1/1463/مشرک قرار
.