عمران اسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 333
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 204
كسى مسلمان شخص كو ناحق قتل كرنا بہت عظيم اور بڑا جرم ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى كسى مومن كو قصدا قتل كر ڈالے اس كى سزا جہنم ہے، جس ميں وہ ہميشہ رہےگا، اس پر اللہ كا غضب ہے، اور اللہ تعالى نے اس پر لعنت كى ہے، اور اس كے ليے بڑا عذاب تيار كر ركھا ہے۔ [النساء : 93]
امام بخارى رحمہ اللہ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مومن اس وقت اپنے دين كى وسعت ميں ہے جب تك وہ كسى كا حرام اور ناحق خون نہيں بہاتا۔" (صحيح بخارى : 6355 )
پھرنبى كريمﷺ نے وہ اسباب بیان فرمائے ہيں جن كى بنا پر كسى كا خون مباح ہوتا ہے، فرمايا:
" جو شخص بھى گواہى دے كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود نہيں، اور ميں اللہ كا رسول ہوں اس مسلمان شخص كا خون بہانا حلال نہيں، ليكن تين اشياء كى بنا پر: يا تو وہ شادى شدہ زانى ہو، اور قتل كے بدلے قتل كرنا، اور دين كو ترك كرنے اور جماعت سے عليحدہ ہونے والے شخص كو۔ " (صحيح بخارى: 6370 ، صحيح مسلم : 3175 )
شادى شدہ شخص كا زنا كرنا ايك ايسا سبب ہے جس كى بنا پر اس كا قتل مباح ہو جاتا ہے، ليكن زانى كو اس وقت تك قتل نہيں كيا جا سكتا جب تك دو شرطيں نہ پائى جائيں:
پہلى شرط:
وہ " محصن " یعنی شخص شادى شدہ ہو۔ زكريا انصارى رحمہ اللہ اس كا معنى بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" المحصن: ہر وہ مرد يا عورت جو مكلف اور آزاد ہو جس نے صحيح نكاح كے بعد وطئى اور ہم بسترى كى ہو۔ " ( اسنى المطالب : 4 / 128 )
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" احصان كى پانچ شروط ہيں:
1۔ جماع
2۔ صحيح نكاح ميں ہو
3۔ بالغ ہو
4۔ عاقل ہو
5۔ آزاد ہو۔ (لشرح الزاد طبعہ مصريہ : 6 / 120 )
دوسرى شرط:
اس پر چار گواہوں كى گواہى سے حد ثابت ہو جائے اور وہ گواہى شرمگاہ كو شرمگاہ ميں ديكھنے كى گواہى ديں، يا پھر وہ خود اپنے اختيار سے بغير كسى جبر كے اعتراف كر لے۔
اور جب اس پر حد ثابت ہو جائے تو پھر لوگوں ميں سے كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ خود بخود ہى اس پر حد لاگو كر دے، بلكہ اس كے ليے حكمران يا اس كے نائب سے رجوع كرنا واجب ہے، چاہے وہ نائب معاملات پورے كرنے يا حد كى تنفيذ ميں نائب ہو، كيونكہ رعايا ميں سے كسى ايك شخص كا خود ہى حد لاگو كرنا بد نظمى اور فساد كا باعث ہو اور ہر كوئى اٹھ كر دوسرے كو قتل كرتا پھرےگا۔
اور ايسےجرم كے مرتكب پر پردہ ڈالنا تا كہ وہ موت سے قبل توبہ كر لے اسے ذليل كرنے اور اس كے عيب كو ظاہر كرنے سے بہتر ہے، كيونكہ رسول كريم ﷺ كے سامنے جب ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ نے زنا كا اعتراف كيا تو آپ نے اس سے اعراض كر ليا، اور اسے چھوڑ ديا، حتى كہ ماعز نے كئى بار سامنے آ كر ايسا كيا تو رسول كريم ﷺ نے اس پر حد لاگو كى۔
اس بنا پر؛ جسے لوگ غيرت كى بنا پر قتل كا نام ديتے ہيں يہ زيادتى اور ظلم ہے، كيونكہ اس ميں اسے بھى قتل كيا جا رہا ہے جو قتل كا مستحق نہ تھا، جب كنوارى لڑكى زنا كرتى ہے تو غيرت سے اسے بھى قتل كر ديا جاتا ہے حالانكہ اس كى شرعى سزا تو ايك سو كوڑے اور ايك سال جلاوطنى ہے، نہ كہ اس كى سزا قتل تھى۔نبى كريم ﷺ كا فرمان ہے:
" جب كنوارہ كنوارى لڑكى سے زنا كرے تو ايك سو كوڑے اور ايك برس جلاوطنى ہے۔ " (مسلم)
چنانچہ جس نے کنوارے یا کنواری کو قتل كيا اس نے ايك مومن نفس اور جان كو قتل كيا جس كا قتل اللہ نے حرام كيا ہے۔اور اس سلسلہ ميں شديد قسم كى وعيد بھى آئى ہے، كيونكہ سورۃ الفرقان ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
’’اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى دوسرے كو معبود نہيں بناتے اور كسى ايسے شخص كو جسے قتل كرنا اللہ تعالى نے حرام كيا ہے وہ بجز حق كے اسے قتل نہيں كرتے، اور نہ وہ زنا كے مرتكب ہوتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائيگا۔اسے قيامت كے روز دوہرا عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اسى ميں رہيگا۔‘‘ (الفرقان : 68 - 69 )
اور اگر يہ فرض كر ليا جائے كہ يہ قتل كى مستحق تھى ( اگر شادى شدہ عورت زنا كرے تو ) تو پھر بھى اس حد كو صرف حكمران ہى جارى كر سكتا ہے۔ علاوہ ازیں بہت سارے حالات ميں يہ قتل صرف شبہ اور گمان كى بنا پر ہى كيا جاتا ہے، اور كسى بھى قسم كى تحقيق نہيں كى جاتى كہ آيا زنا ہوا بھى ہے يا نہيں۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى كسى مومن كو قصدا قتل كر ڈالے اس كى سزا جہنم ہے، جس ميں وہ ہميشہ رہےگا، اس پر اللہ كا غضب ہے، اور اللہ تعالى نے اس پر لعنت كى ہے، اور اس كے ليے بڑا عذاب تيار كر ركھا ہے۔ [النساء : 93]
امام بخارى رحمہ اللہ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مومن اس وقت اپنے دين كى وسعت ميں ہے جب تك وہ كسى كا حرام اور ناحق خون نہيں بہاتا۔" (صحيح بخارى : 6355 )
پھرنبى كريمﷺ نے وہ اسباب بیان فرمائے ہيں جن كى بنا پر كسى كا خون مباح ہوتا ہے، فرمايا:
" جو شخص بھى گواہى دے كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود نہيں، اور ميں اللہ كا رسول ہوں اس مسلمان شخص كا خون بہانا حلال نہيں، ليكن تين اشياء كى بنا پر: يا تو وہ شادى شدہ زانى ہو، اور قتل كے بدلے قتل كرنا، اور دين كو ترك كرنے اور جماعت سے عليحدہ ہونے والے شخص كو۔ " (صحيح بخارى: 6370 ، صحيح مسلم : 3175 )
شادى شدہ شخص كا زنا كرنا ايك ايسا سبب ہے جس كى بنا پر اس كا قتل مباح ہو جاتا ہے، ليكن زانى كو اس وقت تك قتل نہيں كيا جا سكتا جب تك دو شرطيں نہ پائى جائيں:
پہلى شرط:
وہ " محصن " یعنی شخص شادى شدہ ہو۔ زكريا انصارى رحمہ اللہ اس كا معنى بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" المحصن: ہر وہ مرد يا عورت جو مكلف اور آزاد ہو جس نے صحيح نكاح كے بعد وطئى اور ہم بسترى كى ہو۔ " ( اسنى المطالب : 4 / 128 )
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" احصان كى پانچ شروط ہيں:
1۔ جماع
2۔ صحيح نكاح ميں ہو
3۔ بالغ ہو
4۔ عاقل ہو
5۔ آزاد ہو۔ (لشرح الزاد طبعہ مصريہ : 6 / 120 )
دوسرى شرط:
اس پر چار گواہوں كى گواہى سے حد ثابت ہو جائے اور وہ گواہى شرمگاہ كو شرمگاہ ميں ديكھنے كى گواہى ديں، يا پھر وہ خود اپنے اختيار سے بغير كسى جبر كے اعتراف كر لے۔
اور جب اس پر حد ثابت ہو جائے تو پھر لوگوں ميں سے كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ خود بخود ہى اس پر حد لاگو كر دے، بلكہ اس كے ليے حكمران يا اس كے نائب سے رجوع كرنا واجب ہے، چاہے وہ نائب معاملات پورے كرنے يا حد كى تنفيذ ميں نائب ہو، كيونكہ رعايا ميں سے كسى ايك شخص كا خود ہى حد لاگو كرنا بد نظمى اور فساد كا باعث ہو اور ہر كوئى اٹھ كر دوسرے كو قتل كرتا پھرےگا۔
اور ايسےجرم كے مرتكب پر پردہ ڈالنا تا كہ وہ موت سے قبل توبہ كر لے اسے ذليل كرنے اور اس كے عيب كو ظاہر كرنے سے بہتر ہے، كيونكہ رسول كريم ﷺ كے سامنے جب ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ نے زنا كا اعتراف كيا تو آپ نے اس سے اعراض كر ليا، اور اسے چھوڑ ديا، حتى كہ ماعز نے كئى بار سامنے آ كر ايسا كيا تو رسول كريم ﷺ نے اس پر حد لاگو كى۔
اس بنا پر؛ جسے لوگ غيرت كى بنا پر قتل كا نام ديتے ہيں يہ زيادتى اور ظلم ہے، كيونكہ اس ميں اسے بھى قتل كيا جا رہا ہے جو قتل كا مستحق نہ تھا، جب كنوارى لڑكى زنا كرتى ہے تو غيرت سے اسے بھى قتل كر ديا جاتا ہے حالانكہ اس كى شرعى سزا تو ايك سو كوڑے اور ايك سال جلاوطنى ہے، نہ كہ اس كى سزا قتل تھى۔نبى كريم ﷺ كا فرمان ہے:
" جب كنوارہ كنوارى لڑكى سے زنا كرے تو ايك سو كوڑے اور ايك برس جلاوطنى ہے۔ " (مسلم)
چنانچہ جس نے کنوارے یا کنواری کو قتل كيا اس نے ايك مومن نفس اور جان كو قتل كيا جس كا قتل اللہ نے حرام كيا ہے۔اور اس سلسلہ ميں شديد قسم كى وعيد بھى آئى ہے، كيونكہ سورۃ الفرقان ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
’’اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى دوسرے كو معبود نہيں بناتے اور كسى ايسے شخص كو جسے قتل كرنا اللہ تعالى نے حرام كيا ہے وہ بجز حق كے اسے قتل نہيں كرتے، اور نہ وہ زنا كے مرتكب ہوتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائيگا۔اسے قيامت كے روز دوہرا عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اسى ميں رہيگا۔‘‘ (الفرقان : 68 - 69 )
اور اگر يہ فرض كر ليا جائے كہ يہ قتل كى مستحق تھى ( اگر شادى شدہ عورت زنا كرے تو ) تو پھر بھى اس حد كو صرف حكمران ہى جارى كر سكتا ہے۔ علاوہ ازیں بہت سارے حالات ميں يہ قتل صرف شبہ اور گمان كى بنا پر ہى كيا جاتا ہے، اور كسى بھى قسم كى تحقيق نہيں كى جاتى كہ آيا زنا ہوا بھى ہے يا نہيں۔